لالچ، حرص،طمع
اور ہوس ہم معنیٰ الفاظ ہیں یعنی کسی چیز کی حد سے زیادہ خواہش کرنا لہذا کسی چیز
میں حد درجہ دلچسپی کی وجہ سے دل کا اس کی طرف راغب ہونا لالچ کہلاتا ہے یہ ایک
باطنی مرض ہے۔
لالچ کی نوعیت
اور اس کے اثرات کے لحاظ سے اسے تین اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: وہ لالچ جس
پر گناہ ہے، وہ لالچ جس پراجر ہے اور وہ لالچ جس پر نہ اجر ہے نہ گناہ۔
1۔ وہ لالچ جس
پر گناہ ہے: لالچ اگر ناجائز مال، طاقت، شہرت، یا خواہشات نفس کے پیچھے ہو، تو وہ
گناہ کا باعث بن جاتا ہے۔قرآن مجیدمیں اکثر مقامات پر انسان کولالچ کے فتنوں سے
بچنے کی تلقین کی گئی ہے: اَلْهٰىكُمُ التَّكَاثُرُۙ(۱) حَتّٰى زُرْتُمُ الْمَقَابِرَؕ(۲) (پ 30،
التکاثر: 1، 2) ترجمہ: تمہیں
زیادہ سے زیادہ (مال و دولت کی) طلب نے غفلت میں ڈالے رکھا، یہاں تک کہ تم قبروں
میں جا پہنچے۔ مکمل
اسی نسبت رسول
اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: بخل و حرص سے بچو، اس لیے کہ اسی بخل و حرص نے تم سے پہلے
لوگوں کو ہلاک کردیا۔ اسی بخل و حرص نے انہیں اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ آپس میں
خون خرابہ کریں اور حرام کردہ چیزوں کو حلال کرلیں۔ (مسلم، ص 1069، حدیث: 6576) لہذا بہتات کی طلب ختم نہیں ہوتی، خواہ
انسان موت کے دہانے پر کھڑا ہوا ہو۔
اسی طرح رسول
اللہﷺ نے فرمایا: اگر ابن آدم کے پاس دو وادیاں بھر کر سونا ہو تو وہ تیسری کی
خواہش کرے گا اور ابن آدم کا پیٹ صرف مٹی بھر سکتی ہے۔ (مسلم، ص 404، حدیث: 2419)
2۔ وہ لالچ جس
پراجر ہے: اگر کسی چیز کی شدید خواہش اللہ کی رضا کے مطابق ہو، تو وہ لالچ نہیں
بلکہ نیک جذبہ بن جاتا ہے اور اس پر ثواب بھی ملتا ہے لہٰذا رضائے الٰہی کے ليے
کيے جانے والے نیک اعمال کا لالچ مستحسن ہے۔ جیسا کہ زیادہ نیکیاں کمانے کی خواہش،علم
حاصل کرنے کی رغبت،خدمت خلق کی تمنا اورآخرت کی کامیابی کی خواہش یہ خواہشات اگر
خلوص کے ساتھ ہوں تو ان پر اللہ کی طرف سے اجر و ثواب ملتا ہے۔
قرآن میں ایسی
کئی آیات ہیں جو انسان کو اس قسم کی مثبت خواہشات اور نیکیوں میں سبقت لینے کی
ترغیب دیتی ہیں، سورۃ آل عمران میں اللہ پاک فرماتا ہے: وَ سَارِعُوْۤا
اِلٰى مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ
جَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمٰوٰتُ وَ
الْاَرْضُۙ-اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِیْنَۙ(۱۳۳) (پ 4،
آل عمران:133) ترجمہ: اور دوڑو اپنے رب کی مغفرت اور اس جنت
کی طرف، جس کی وسعت آسمانوں اور زمین کے برابر ہے، جو متقین کے لیے تیار کی گئی
ہے۔ مکمل
رسول اللہ ﷺ
نے فرمایا: حسد (رشک) صرف دو آدمیوں سے جائز ہے: ایک وہ جسے اللہ نے مال دیا ہو
اور وہ اسے حق کے راستے میں خرچ کرتا ہو، اور دوسرا وہ جسے اللہ نے علم دیا ہو اور
وہ اس کے مطابق فیصلے کرتا ہو اور دوسروں کو سکھاتا ہو۔ (مسلم، ص 316، حدیث: 1894) اس حدیث میں رشک سے مراد نیک لالچ ہے،
یعنی کسی کی نیکیوں کو دیکھ کر ایسی ہی نیک خواہش رکھنا کہ اللہ ہمیں بھی یہ عمل
نصیب کرے۔
3۔
وہ لالچ جس پر نہ اجر ہے، نہ گناہ یہ وہ خواہشات ہیں جو فطری یا دنیاوی معاملات سے
جڑی ہوتی ہیں، لیکن نہ ہی وہ حرام ہیں اور نہ ہی ان پر کوئی خاص نیکی کا ثواب ہے،
جیسے:اچھی نوکری، اچھی تعلیم، اچھی زندگی گزارنے کی خواہش،اچھا گھر، اچھا کھانا،
اچھی گاڑی اگر جائز طریقے سے حاصل کیے جائیں تو نہ اس میں ثواب ہے اور نہ گناہ۔یہ
چیزیں اپنی ذات میں نہ بری ہیں نہ اچھی، بلکہ ان کا دار و مدار نیت اور طریقہ کار
پر ہوتا ہے۔
قرآن مجید میں
ایسی خواہشات کا ذکر درج ذیل انداز میں ملتا ہے: قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِیْنَةَ
اللّٰهِ الَّتِیْۤ اَخْرَ جَ لِعِبَادِهٖ وَ الطَّیِّبٰتِ مِنَ الرِّزْقِؕ- (پ
8، الاعراف: 32) ترجمہ: کہو! کس نے اللہ کی اس زینت کو حرام
کیا ہے جو اس نے اپنے بندوں کے لیے نکالی ہے اور (کس نے) پاکیزہ رزق کو (حرام کیا)؟۔
مکمل یہ آیت اس بات کو واضح کرتی ہے کہ دنیاوی زینت (اچھی چیزیں) اللہ کی نعمتیں
ہیں اور اگر جائز طریقے سے حاصل کی جائیں تو نہ ان پر گناہ ہے اور نہ کوئی خاص
ثواب، بلکہ یہ ایک فطری ضرورت ہے۔
رسول اللہ ﷺ
نے فرمایا: بے شک یہ مال سرسبز اور میٹھا ہے، اور جو شخص اسے حق کے ساتھ حاصل کرے،
اس کے لیے اس میں برکت ہوگی، اور جو شخص اسے حرام طریقے سے حاصل کرے، وہ ایسے ہوگا
جیسے کھاتا رہے مگر کبھی سیر نہ ہو۔ (بخاری، 4/230،
حدیث: 6441) اس
حدیث میں واضح کیا گیا ہے کہ مال کی خواہش فطری ہے، اور اگر اسے حلال طریقے سے
حاصل کیا جائے تو نہ یہ گناہ ہے اور نہ ہی اس پر کوئی خاص ثواب۔
لالچ
کے اسباب: انسان
کی اس صفت کا زیادہ تر استعمال منفی معنوں میں ہوتاہے۔لہذا اس کے کئی اسباب، ہو
سکتے ہیں، جو انسان کے اندر دنیاوی خواہشات کو بڑھاتے ہیں اور بعض اوقات گناہ کی
طرف بھی لے جا سکتے ہیں ہیں، جیسے دنیا کی حد سے زیادہ محبت، قناعت
اور شکر کی کمی، دوسروں سے مقابلے کی نفسیات، مال و دولت کی محبت اور بخل، فقر و فاقہ کا خوف، دین سے دوری اور آخرت سے غافل ہوجانا، اچھی تربیت کی کمی اور ایسے ماحول میں
پرورش پانا جو برائی کا حامل ہو۔
لالچ
کے نقصانات: لالچ
کے نقصانات درج ذیل ہیں: حرام اور ناجائز
ذرائع اختیار کرنا، حسد اور نفرت پیدا ہونا، دیانت داری اور سچائی ختم ہونا، ذہنی سکون اور برکت کا ختم ہونا، انسانی رشتوں اور اخلاقی اقدار میں خلا، عقل کی خرابی، خود
غرضی اورتکبر کا باعث، اللہ پر
بھروسہ کمزور ہو جانا /اللہ کی تقسیم پر راضی نہ ہونا، دعا
اور عبادت سے دوری، آخرت میں نقصان اٹھانا۔
لمحہ
فکر: انسان
دنیا کی چکاچوند میں اتنا محو ہے کہ اللہ کی رضا اور آخرت کے اجر کو نظر انداز
کررہا ہے۔دنیا کی خاطر جھوٹ بولتا ہے، دھوکہ دیتا ہے، رشوت لیتا ہے،دوسروں کا حق
مار تاہے۔جو کہ عارضی زندگی ہے۔ اے انسان! رزق اور عزت اللہ پاک کےہاتھ میں ہے، جب
تو ماں کے پیٹ میں 120دن کا ہوتا ہے
تو تیرا رزق اس دن ہی لکھ دیا جاتا ہے وہ تجھے مل کے رہے گا اور عزت اور ذلت اللہ
کے ہاتھ میں ہے وہ جسے چاہے عزت دے جسے چاہے ذلیل کرے اگر ساری دنیا مل کر بھی کسی
کو عزت دینا چاہے تو نہیں دے سکتی اگر اللہ نہ چاہے اور اسی طرح اگر ساری دنیا مل
کر بھی کسی کو ذلیل ہونے سے بچائے تو نہیں بچا سکتی اگر اللہ اس کو ذلیل کرنا
چاہے۔ تو سوچ تیری زندگی کا مقصد کیا ہے؟ تمہارا رب تم سے کیا کہہ رہا ہے؟ اس کی
طرف آؤ۔ تمہارا لالچ تو ساری زندگی پورا نہیں ہوگا۔لاکھ پتی بنو گے تو سوچو گے کہ
کروڑ پتی بن جائیں۔ کروڑ پتی بنو گے تو سوچو گے کہ عرب پتی بن جائیں بتاؤ!کہیں کوئی
جگہ ہے جہاں نشان لگاؤ؟کہ یہاں سے بندہ آگے نہیں جاتا۔
نبی کریم ﷺ نے
فرمایا: حقیقی دولت مال کی کثرت میں نہیں، بلکہ نفس کی بے نیازی میں ہے۔ (بخاری، 4/233، حدیث: 6446)
بے شک اللہ جس
کے دل کو غنی کر دے چاہے اس کے پاس کچھ بھی نہ ہو لیکن وہ پھر بھی غنی ہے اور جس
کا دل غنی نہیں ہے وہ کروڑپتی، کھرب پتی بھی ہو جائےاس کے نفس کی کمینگی نہیں جاتی۔اس
لیے انسان کہتا ہے:ھل من مزید؟ مجھے اور ملے۔
اسی بات
کومیاں محمد بخش اپنے کلام میں یوں بیان کرتےہیں:
مالاں
والے سخی نئیں ہوندے سخیاں مال
نئیں ہوندا
ایتھے
اوتھے دونویں جہانی سخی
کنگال نئیں ہوندا
لالچ یا طمع
سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
ہوس
نے کر دیا ہے ٹکڑے ٹکڑے نوع انساں کو
اخوّت
کا بیاں ہو جا، محبّت کی زباں ہو جا