ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں
صحابہ کرام علیہم الرضوان کی ذوات قدسیہ ہمارے لیے مشعل راہ ہیں ان حضرات کی زندگیوں کے ہرہرپہلو کو زیر
قلم لانا محال ہے، ہاں کچھ پہلوؤں کو بیان
کرنے کی کوشش کی جاسکتی ہے مگر وہ بھی کما
حقہ بیان ہو ممکن نہیں۔
ان ذوات ِ اقدسہ کی زندگی کا جو پہلو آج میرے زیر قلم ہے
، وہ حضور علیہ السلام
سے ان حضرات کا ادب و عشق تابعین ، آئمہ اکابر ینِ اسلام
الغرض تمام علمائے امت کا ادب و عشق صحابہ کرام کے ہی طرز پر مبنی ہے۔
صحابی تو رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے جلوؤں سے منور ہو کر حضور کے عشق میں چو رچور ڈوبے تھے
مگر تابعی حضرات بن دیکھے ہی عشق و ادب میں چور چور ہو رہے۔
قاضی عیاض الشفا میں اس کو اپنی سند کے ساتھ تحقیق سے روایت
کرتے ہیں کہ ایک دفعہ خلیفہ اور بادشاہِ وقت ابو جعفر منصور مسجد نبوی میں آئے وہ
تھوڑی اونچی آواز سے بات کرنے لگے امام
مالک رضی اللہ عنہ پاس کھڑے تھے
فرمایا۔ اے خلیفہ وقت ولا
ترفع صوتک فی ھذا المسجد یعنی یہ مسجد نبوی ہے اس میں آواز اونچی نہ کرو
محبوب کی جگہ چیزوں سے محبت کا یہ عالم ہے حضور سے محبت کا
عالم و اندازہ دشوار ہے۔
مصعب بن عبداللہ رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ
بےشک میں نے امام جعفر بن محمد الصادق کو دیکھا حالانکہ وہ انتہائی خوش مزاج اور
ظرف الطبع تھے لیکن جب بھی ان کے سامنے حضور صلی اللہ علیہ
وسلم کا ذکر جمیل کیا جاتا تو ان کا چہرہ زرد ہوجاتا۔(قاضی عیاض
الشا 521)
خاتم النبین صلی
اللہ علیہ وسلم کے عشق و ادب کو ربِ کریم نے صحابہ و تابعین ہی نہیں بلکہ رہتی دنیا تک کے لوگوں
کے دلوں میں آباد کردیا ہے۔آج بھی عشق و ادب کے وہ مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں کہ دل
یہ کہنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔
ہر کوئی فدا ہے بن دیکھے دیدار کا عالم کیا ہوگا۔
ترکوں کو انتہائی خوبصورت عادت اور حضور صلی
اللہ علیہ وسلم سے ادب کا یہ عالم ہے کہ جب بھی آقائے دو جہاں صلی
اللہ علیہ وسلم کا نام مبارک ان کے
سامنے لیا جاتا ہے یا وہ خود لیتے ہیں تو احترام سے اپنا ہاتھ دل پہ رکھ لیتے ہیں۔
دین سارا ہی عشق و ادب رسول صلی
اللہ علیہ وسلم کا نام ہے ربِ کریم سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ہماری نسلوں کو
عشق ادب رسول عطا فرمائے ۔اٰمِیْن بِجَاہِ
النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
عدم سے لائی ہے بستی میں آرزوئے رسول صلی اللہ علیہ
وسلم
کہاں کہاں ہے پھرتی ہے جستجوئے رسول صلی اللہ علیہ
وسلم
تلاش نقش کف پائے مصطفی کی قسم
چنے ہیں آنکھوں سے ذرات ِ خاک کوئے رسول
نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں