قرآن و حدیث اور آئمہ اسلاف کی تعلیمات کی روشنی میں حقیقتِ ایمان کو دیکھا جائے تو ایمان کی روح از ابتدا تا انتہا خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے محبت و تعظیم کا نام ہے محبت کی کئی علامات میں سے ایک علامت تعظیم بھی ہے ۔

اللہ عزوجل سورۃ الحجرات آیت نمبر ٦ میں ارشاد فرماتا ہے:

ترجمہ کنزالایمان :اے ایمان والو! اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے نبی کی آواز سے اور ان کے حضور بات چلاکر نہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلاتے ہو کہ کہیں تمہارے عمل اکارت نہ ہو جائیں اور تمہیں خبر نہ ہو ۔ (صراط الجنان جلد: 9 صفحہ: 399 )

غور کرنا چاہیے کہ یہاں بے ادبی اعمال کے ضائع ہو جانے کا سبب ہے اور جو ضائعۂ اعمال کا سبب ہو کفر ہے نتیجہ یہ ہوا خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بے ادبی کفر ہے ۔

صحابہ کرام علیہم الرضوان کامعمول یہ تھا کہ وہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تعظیم میں غایت درجہ کا اہتمام فرماتے ۔

حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ فرماتے : ہیں میں بارگاہ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں اس حال میں حاضر ہوا کہ صحابہ کرام علیہم الرضوان آپ کے گرد اس طرح بیٹھے ہوئے تھے گویا ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوئے ہیں۔

صحابہ کرام کاشانہ نبوت پر حاضر ہوتے تو فرط ادب سے کاشانہ نبوت کا دروازہ ناخنوں سے کھٹکھٹاتے تھے۔ تمام صحابہ کرام اس ذات کریمی کو بہترین القابات سے خطاب کرتے اور ابتدائے کلام میں درود کے بعد 'فدیتک بابی وامی' میرےوالدین بھی آپ پر فدا ہوں یا ”بنفسی انت یا رسول اللہ ، ”میری جان آپ پر نثار ہے“ جیسے کلمات استعمال فرماتے ۔

امام مالک علیہ الرحمۃ کے متعلق منقول ہے کہ جب ذکر رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے تو ان کی رنگت بدل جاتی اور فرط ادب سے کھڑے ہو جاتے نیز حدیث نبوی بیان کرنے سے قبل وضو فرماتے ،عمدہ لباس پہن کر مودب بیٹھ کر حدیث بیان کرتے۔( شفاء شریف جلد دوم صفحہ: 87 '88'90'91'92'93)

حضرت قتادہ وامام جعفر کے متعلق منقول ہے کہ آپ نے کبھی کوئی حدیث بے وضو بیان نہ فرمائی۔حضرت اعمش حدیث سناتے وقت بے وضو ہوتے تو فورا تیمم فرمالیا کرتے ۔

ایک شخص سعید بن مسیب کی خدمت میں حاضر ہوکر ایک حدیث کے متعلق دریافت کرنے لگا اس وقت آپ لیٹے ہوئے تھے فورا ً اٹھ بیٹھے اور فرمایا میں گوارا ہی نہیں کر سکتا کہ حدیث رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم لیٹے لیٹے بیان کروں ۔ (صحابہ کرام کا عشق رسول ﷺ صفحہ : ‏17'18'45'49'50)

یہ حضرات بھی خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے امّتی گزرے ہیں اور ہم بھی امتی ہیں یہ حساسیت بارگاہ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے متعلق ہم پر بھی لازم ہے حضرت ابو ابراہیم فرماتے ہیں کہ ہر مسلمان پر لازم ہے کہ جب آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ذکر کرے یا سنے تو انتہائی خشوع و خضوع کا اظہار کرے اور اپنے حرکات ظاہری میں انہی باتوں کا مظاہرہ کرے جس طرح حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی حیات ظاہری میں کرتا تھا۔

امت میں جب تک یہ عشق و ادب سلامت تھا امت کا عروج سلامت تھا اگر آج بھی امت عروج کی خواہشمند ہے ،تو لازم ہے اپنی تمام تر عقیدتیں اور محبتيں ذات رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے مضبوط کرے۔

قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے

دہر میں اسم محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے اجالا کر دے

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں