٭نبی اکرم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی محبت کے بغیر آپ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم پر ایمان لانا متصورنہیں  ہے، مومن کیلئے ضروری ہے کہ وہ نبی صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کو اپنی جان، باپ، بیٹے اور مخلوق سے زیادہ محبوب رکھے آقا صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم فرماتے ہیں : کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک میں اس کے نزدیک اس کے ماں ، باپ، اولاد اور تمام لوگوں سے زیا دہ محبوب نہ ہوجاؤں ۔(صحیح البخاری )

محبت کی بہت ساری علامات ہیں۔ اس میں ایک علامت یہ ہے کہ کوئی اپنے محبوب کا کثرت سے ذکر کرے۔ کثرت ذکر کے ساتھ ساتھ ایک علامت یہ بھی ہے کہ تعظیم و تکریم کا کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا جائے اور حضور صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کا نام پاک کمال تعظیم وتکریم اور صلوٰۃ و سلام کے ساتھ لے اور نام پاک لیتے وقت خوف و خشیت عجزوانکساری اور خشوع و خضوع کا اظہار کرے۔

حکم خداوندی ہے: لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَیْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًا (پ۱۸ ، النور : ۶۳)

ترجمہ کنزالایمان:رسول کے پکار نے کو آپس میں ایسا نہ ٹھہرا لو جیسا تم میں ایک دوسرے کو پکارتا ہے۔

تفسیر کبیر میں ہے :’’ نبی اکرم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کو اس طرح نہ پکارو جیسے تم ایک دوسرے کو پکارتے ہو۔ یوں نہ کہو: یا محمد! یا ابا القاسم! بلکہ عرض کرو: یا رسول اللہ! ، یا نبی اللہ!‘‘ (یعنی نبی اکرم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کو نام یا کنیت سے نہ پکارو بلکہ اوصاف اور القاب سے یاد کرو)(التفسیرالکبیر ، ج۸ ، ص۴۲۵ ، پ ۱۸ ، النور : ۶۳)

تمام صحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان آقا صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کو بہترین القاب، کمالِ تواضع اور مرتبہ و مقام کی انتہائی رعایت سے خطاب کرتے تھے اور ابتدا ء ِکلام میں صلوٰۃ کے بعد ’’ فَدَیْتُکَ بِاَبِیْ وَ اُمِّیْ‘‘ میرے والدین بھی آپ پر فدا ہوں ، یا ’’ بِنَفْسِیْ اَنْتَ یَارَسُوْل! ‘‘ میری جان آپ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم پر نثار ہے ، جیسے کلمات استعمال کرتے تھے اور فیض صحبت کی فراوانی کے باوجود، محبت کی شدت کے تقاضے کی بنا پر، تعظیم و توقیر میں کوتا ہی اور تقصیر کے مرتکب نہیں ہوتے تھے بلکہ ہمیشہ آقا صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی تعظیم میں اضافہ کرتے تھے ۔

حضرتِ عبدُاللہ بِن مُبارَک رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ فرماتے ہىں:حضرتِ امام مالک رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ دَرسِ حدیث دے رہے تھے کہ بچھو نے آپ کو 16 ڈنک مارے ۔ دَرد کى شِدَّت سے مُبارک چہرہ پیلا پڑ گیا مگر دَرسِ حدیث جارى رکھا اور پہلو تک نہ بدلا۔جب دَرسِ حدیث ختم ہوا اور لوگ چلے گئے تو مىں نے عرض کى: اے ابو عبدُاللہ!(یہ امامِ مالک رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ کی کنیت ہے۔)آج میں نے آپ میں ایک عجیب بات دیکھی ( کہ بچھو نے آپ کو 16 ڈنک مارے مگر آپ نے پہلو تک نہ بدلا)اِس میں کیا حکمت تھى؟ فرمایا :میں نے حدیث رَسُول کى تعظیم کى بِنا پر صبر کیا۔(الشفا ، الباب الثالث ،  فصل فی سیرة السلف فى تعظيم روايۃ  حديث ...الخ ، ۲ / ۴۶ )

حضرتِ سیِّدُنا مُصْعَب بن عبداللہ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ حضرتِ سیِّدُنا امام مالِک عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الخَالِق کے عشقِ رسول کا عالَم یہ تھا کہ جب اُن کے سامنے نبیِّ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ذِکْر کیاجاتا تو اُن کے چِہرے کا رنگ بدل جاتا اور وہ ذِکر مصطَفٰے کی تعظیم کے لئے خوب جُھک جاتے۔ ایک دن آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ سے اس بارے میں پوچھا گیاتو فرمایا:’’اگر تم وہ دیکھتے جو میں دیکھتا ہوں تو اِس بارے میں سُوال نہ کرتے۔ ‘‘ (الشفاء ج۲، ص ۴۱ ۔ ۴ ۲)

ذِکر ِرَسُول کے وقت تعظیم کا جَذبہ پیدا کرنے کا طریقہ:

پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی تعظیم سے متعلق حکایات اور  وَاقعات  سُننے اور پڑھنے سے تعظیم کا ذہن بنتا ہے اور جَذبہ ملتا ہے، اِس طرح کے واقعات پڑھیے اور تکلفاً تعظیم کی عادت بنائیے اِنْ شَآءَ اللّٰہ آہستہ آہستہ  عادت بن جائے گی۔

نام و کام و تن و جان و حال و مَقال

سب میں اچھے کی صورت پہ لاکھوں سلام

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں


اللہ عَزَّوَجَلَّ نے کائنات کو بنایا ،دیکھا جائے تو کائنات میں سب سے زیادہ محتاج مخلوق انسان کی ہے کیونکہ سب سے زیادہ خواہشات انسان کی ہیں۔ انسان کی خواہشات، ضرورتوں اور حاجتوں کی کوئی حد نہیں اور بے شک اللہ پاک ہی کی ہستی ہے جو اس کی ہر حاجت پوری کرنے کے لیے بے شمار خزانے رکھے ہیں اور بے شک وہ ہر حاجت پوری کرنے پر قادر ہے۔ اللہ رب العالمین کے انسان پر اتنے احسانات ہیں کہ اگر انہیں انسان گنے اور اس کا شکر ادا کرنا شروع کر دے تو اس کیلئے اس کی تمام زندگی اور سانسیں کافی نہیں ہوں گی ، پھر بھی اس پر شکر ادا کرنے کا حق باقی رہے گا۔ بے شک ہر نعمت دینے والا اللہ عَزَّوَجَلَّ ہی ہے چاہے وہ دین و دنیا کی نعمت ہو یا ظاہری اور باطنی نعمتیں ہوں۔

ان تمام نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت دین اسلام ہے اور یہ دین ہم تک پہنچانے کیلئے اللہ تعالی نے ہمارے درمیان اپنے محبوب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھیجا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالی نے رحمت اللعالمین کہا ۔ارشاد باری تعالی ہے :

ہم نے آپ( صلی اللہ علیہ وسلم) کو تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا۔"(الانبیاء107)۔

اللہ نے اس دنیا میں ہمیں سیدھا اور صحیح راستہ دکھانے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات پاک کو معیار بنایا۔ قرآن پاک میں اللہ عَزَّوَجَلَّ فرماتا ہے :

" تمہارے لئے رسول اللہ( صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی زندگی میں خوبصورت نمونہ ہے۔"(الاحزاب21)۔

یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھ کر ہم اس دنیا میں اپنی زندگی بسر کریں اس لئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا طریقہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کا پسندیدہ ترین طریقہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے خاتم النبیین بنایا یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی کوئی پیغمبر نہ آیا اور نہ ہی آئے گا۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے انسان کی ہدایت کا جو سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام سے شروع کیا تھا وہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات پر آکر مکمل ہوا ۔

سورہ احزاب ،آیت نمبر 40 میں اللہ عَزَّوَجَلَّ فرماتا ہے : " محمد( صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں لیکن وہ تو اللہ کے رسول( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں اور نبیوں کی نبوت ختم کرنے والے ہیں۔"

یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی کوئی پیغمبر نہ آیا اور نہ آئے گا۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم سب کے رہنما ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کے کامیاب ترین انسان ہیں اور جو بھی دنیا اور آخرت میں کامیاب ہونا چاہتا ہے تو اس کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت اور اتباع کیے بغیر کامیابی کا کوئی راستہ نہیں کیونکہ اللہ وحدہٗ لاشریک کا فرمان ہے: "کہہ دو کہ اگر تم اللہ کے ساتھ محبت کرتے ہو تو میری اطاعت کرو اللہ تمہیں محبوب بنا لے گا اور تمہارے گناہ معاف کر دے گا۔" (آل عمران31)۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اللہ تعالی اپنی رحمتیں نازل فرماتا ہے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر دن رات فرشتے درود و سلام بھیجتے ہیں اور دعائے رحمت کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی عمر کی قسم اللہ تعالی نے اپنی کتاب قرآن مجید میں یاد فرمائی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت اللہ تعالیکی اطاعت ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی اللہ کی نافرمانی ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آگے بڑھنے کی اہل ایمان کو اجازت نہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آواز سے بلند آواز کرنے کی کسی کو اجازت نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت میں جنت ہے۔ جہاں اللہ تعالی نے ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا حکم دیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کی غرض بھی اطاعت ہی ہے۔ اللہ تعالی نے ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع کا حکم دیا کہ اگر تم آپ کی پیروی کرو گے تو ہدایت پاؤ گے۔ارشادِ ربانی ہے:

" کہہ دو کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے بھائی بیویاں قبیلے اور تمہارے کمائے ہوئے مال اور وہ تجارت جس کی کمی سے تم ڈرتے ہو اور وہ حویلیاں جنہیں تم پسند کرتے ہو اگر یہ تمہیں اللہ سے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اور اس کی راہ میں جہاد سے بھی زیادہ عزیز ہیں تو تم انتظار کرو کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ اپنا عذاب لے آئے، اللہ عَزَّوَجَلَّ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا۔"(التوبہ24)۔

یعنی وہ قریب ترین رشتہ دار اولاد، بیوی، ماں ،باپ جن کے ساتھ انسان شب و روز گزارتا ہے اور مال و اسباب، کاروبار یہ سب چیزیں اپنی جگہ اہمیت اور افادیت کی حامل ہیں لیکن اگر ان کی محبت اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے زیادہ ہو جائے تو یہ بات اللہ تعالیکو سخت ناپسندیدہ ہے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی ناراضگی کا باعث ہے جس سے انسان اللہ تعالی کی ہدایت سے محروم ہوسکتا ہے جس طرح کہ آخری الفاظ سے واضح ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث نے بھی اس مضمون کو وضاحت سے بیان کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا :

"قسم ہے اُس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں جب تک میں اس کو اس کے والد سے اس کی اولاد سے اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔" (صحیح بخاری:کتاب الایمان)۔

ایک موقع پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا :یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے نفس کے سوا ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا جب تک میں آپ کو اپنے نفس سے بھی زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں اس وقت تک آپ کامل مومن نہیں تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا پس واللہ اب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے اپنے نفس سے بھی زیادہ محبوب ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: اے عمر ! اب تم کامل مومن ہو۔(بخاری و مسلم) ۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا معیار بتا دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا تقاضا یہ ہے کہ ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت اپنی جان و مال اولاد والدین عزیزواقارب حتیٰ کہ ہر عزیز چیز سے زیادہ ہونی چاہیے اور یہی دین و ایمان کی اساس اور بنیاد ہے اور اگر اس میں کمی ہوگی تو دین و ایمان میں کمی اور خامی باقی رہ جائیگی۔

ڈاکٹر اقبال نے کیا خوب کہا ہے:

کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں

یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

گویا اگر کوئی شخص اللہ تعالی سے محبت کا دعویٰ کرتا ہے تو وہ محبت اس وقت تک سچی قرار نہیں پاتی جب تک وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی ہر معاملے میں نہ کرے ۔کسی شخص کو اللہ عَزَّوَجَلَّ کی محبت اس وقت تک نصیب نہیں ہو سکتی جب تک وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اتباع نہ کرے اور یہی اصل محبت کا تقاضا ہے۔

بات سمجھنے کی ہے کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو راضی کرنے کیلئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت لازمی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کا تقاضا یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور پیروی کی جائے اور اپنی تمام زندگی کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کے سانچے میں ڈھال لیا جائے۔

اصل محبت تو یہی ہے اور انسان جس سے محبت کرتا ہے اس کی اطاعت کرتا ہے، اس کی فرمانبرداری کرتا ہے، اس کی پسند ناپسند کو اپنی پسند ناپسند بنا لیتا ہے، اپنے محبوب کو جیسا کرتے پایا خاموشی سے ویسا ہی کرتے چلے جانا ،اُسے اپنے محبوب کی رضا مطلوب ہوتی ہے اور وہ اس کی ناراضگی سے بچتا ہے، اور ہر وقت ہر محفل میں اپنے محبوب کا تذکرہ کرنا اسے اچھا لگتا ہے۔ اسے اپنے محبوب کے ذکر میں راحت محسوس ہوتی ہے۔

محبت کا ایک اور تقاضا یہ بھی ہے کہ جس سے محبت ہوتی ہے تو اس کی سوچ اور فکر کو بھی آگے پہنچایا جاتا ہے اور اپنے محبوب کے مشن کو آگے پھیلانے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔ اسے اپنے محبوب کی ہر ادا سے محبت ہوتی ہے اور یہی تمام چیزیں ہمیں صحابہ کرام کی زندگیوں سے ملتی ہیں اور جس کی بے شمار مثالیں ہمیں مختلف کتابوں میں ملتی ہیں ۔

اسلاف کا انداز :

صحابہ کرام کی محبت کا تو یہ عالم تھا کہ جب انہیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پسند اور ناپسند کا پتہ چلتا تو اس پر بغیر کسی حیل و حجت کے عمل فرماتے یہاں تک کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہننے ، اٹھنے بیٹھنے، کھانے پینے ،چلنے پھرنے اور آپ کی ہر ہر ادا کو اپنا لیا تھا اور اپنی زندگی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے سانچے میں ڈھال لیا تھا ۔سبحان اللہ… اور یہی وجہ ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی محبت ایسے لوگوں کیلئے واجب ہو گی جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس درجے تک محبت کرتے تھے۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع کرنا ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کا اصل تقاضا ہے اور اصل محبت تو یہی ہے کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کریں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پسند ناپسند کو اپنی پسند ناپسندبنا لیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ کو اپنی زندگی کا شعار بنا لیں اور یہ تب ہی ہوسکتا ہے جب دل میں سچی محبت ہو اور ہم سچی محبت کے دعوے دار ہوں ۔

میں اور آپ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرتے ہیں اور یقیناکرتے ہیں تو پھر ہمیں اپنا جائزہ لینا ہو گا کہ کیا ہمارا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ محبت کا تعلق یہ تقاضے پورے کرتا ہے؟ کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع ہماری طرز زندگی ہے؟ کیا ہمارے عشق کی گواہی ہمارا عمل فراہم کر رہا ہے؟ ہم اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کے دعوے دار تو ہیں، تو کیا ہم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا کے طلب گار رہتے ہیں؟ کیا ہماری طرز زندگی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ کے مطابق ہے؟ کیا ہمارے لبوں پر ہر وقت اللہ اور اس کے محبوب کا ذکر رہتا ہے؟

لیکن جب ہم اپنی طرف دیکھتے ہیں تو ہمیں کیا نظر آتا ہے ؟یہاں تو یہ عالم ہے کہ جب ربیع الاول آتا ہے تو 12 دن ہم اسے خوب جوش و خروش اور عقیدت سے مناتے ہیں لیکن اس کے بعد کسی کو اللہ اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان یا اس پر عمل کرنا یاد نہیں رہتا،ہمارے اعمال نہیں بدلتے، ہماری زندگیاں نہیں بدلتیں، ہمارے روزوشب نہیں بدلتے۔ ہمیں سوچنا ہوگا کہ اگر ہم نے دنیا اور آخرت میں کامیابی حاصل کرنی ہے تو اپنے رب کو راضی کرنا ہوگا اور اپنے رب کو ہم تب ہی راضی کر سکتے ہیں جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کریں۔ اِسی صورت میں ہمیں اللہ کی رضا حاصل ہو گی۔

اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنا حبیب بنایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالی نے سب سے اعلیٰ مقام دیا جو کسی نبی کو نہیں ملا۔ اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نام کو اپنے کلمے کا حصہ بنایا" لاالہ الااللہ محمدرسول اللہ

اور اس طرح قیامت تک اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر اکھٹا رہے گا ۔اللہ تعالی کی توحید آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے ساتھ پہچانی جاتی ہے اور قیامت تک پہچانی جائے گی ورنہ پہچان ادھوری ہے اور ہمارا ایمان ہی اسی کلمہ شہادت سے پورا ہوتا ہے۔ اسی طرح اللہ کی محبت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے۔ ہم اپنے رب کا قرب تب ہی حاصل کر سکتے ہیں اگر ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام بن جائیں۔

اللہ کا حکم ہے کہ اگر میرا بننا ہے تو میرے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے طریقوں پر آنا پڑے گا۔ اپنے اللہ کو راضی کرنا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرنی ہوگی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنا ہو گا۔ اصل محبت کا تقاضا یہی ہے۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پاکیزہ زندگی کو سیکھ کر اور اس پر عمل کرکے ہی دنیا اور آخرت میں کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔ اپنی ساری زندگی کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کے سانچے میں ڈھال دینا ہی اصل محبت ہے۔ اگر ہم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سچی محبت کے دعوے دار ہیں تو ہمیں اپنے قول و فعل سے اور اپنے عمل سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین کو لوگوں تک پہنچانا ہوگا ۔یہی اصل حب ِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے کہ ہم محمدی نظر آئیں۔ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق نظر آئیں اور زندگی کے ہر قدم پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیروی کریں ۔یہی اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اصل محبت کا تقاضا ہے۔ ہم اپنی تمام تر زندگی میں بغیر کسی حیل و حجت کے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیروی کریں ۔یہی محبوبِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پہچان ہے۔

محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالی جا ن گزیں فرما دے اور ہمیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اطاعت اور پیروی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین۔

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا، تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک میں اس کے نزدیک اس کے والد اور تمام لوگوں سے محبوب نہ ہوجاؤں۔

اس سے معلوم ہوا کہ ایک مومن کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت نہ صر ف یہ کہ فرض ہے بلکہ سب قریبی رشتے دار وں میں سب سے قیمتی متاع پر مقدم ہے۔

محمد کی محبت دین حق کی شرط ِ اول ہے

اسی میں ہو اگر خامی تو سب کچھ نا مکمل ہے

صحابہ کرام کی محبت کے کیا کہنے آئیں ان میں سے چند کا ذکر خیر کرتے ہیں۔

جنگ احد میں ایک صحابیہ کے باپ اور بھائی شوہر شہید ہوگئے انہوں نے جب معلوم ہوا تو کچھ غم نہ کیا، پس یہ پوچھا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کیسے ہیں؟ جب ان کو بتایا گیا کہ حضور بخیر سلامت ہیں تو بولی مجھے حضور اکرم کو دیکھا دو جب آپ کو دیکھا گیا تو بے تابانہ کہنے لگی، ” آپ کے ہوتے ہوئے ہر مصیبت ہیچ ہے۔(السیرة النبوہ ج ۳ ص ۸۶)

صحابہ کر ام ادب کے ساتھ حضور پاک کی بارگاہ میں حاضر ہوتے کہ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ فرمات ے ہیں بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم یں اس حال میں حاضر ہو اکہ صحابہ کرام علیہ الرضوان آپ کے گرد اس طرح بیٹھے ہوئے تھے گویا ان کے سروں پرپرندے بیٹھے ہوئے ہوں،

(یعنی اپنے سر کو حرکت نہیں دے رہے ہوتے کیونکہ پرندہ اس جگہ بیٹھتا ہے جو ساکن ہوں۔

(الشفا الباب الثالث ج۳، ص 69 ، اگر اجلہ صحابہ کرام کی تعظیم اور اب کی روایات کا احاطہ کیا جائے تو کلام طویل ہوجائیں گا تم صحابہ کرام اس ذات کر یم کو بہترین القاب کمال تواضح مرتبہ مقام کی انتہائی رعایت سے خطاب کرتے تھے ابتدا اسلام میں صلوة کے بعد فدیتک یا ابی و امی ، میرے والدین بھی آپ پرفدا ہوں یا بنفسی یارسول اللہ ، میری جان آپ پر نثار ہے، جیسے کلمات استعمال کرتے ہیں،

امام مالک کے سامنے آپ علیہ السلام کا ذکر کیا جاتا تو آپ کے چہرے کا رنگ متغیر ہوجاتا ان کی سنیت جھلک جاتی ہے جب ان سے اس حالت کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا میں نے قاریوں کے سردار محمد بن منکدر کو دیکھا جب میں نے جب بھی حدیث پوچھی وہ رو دیتے یہاں تک کہ مجھے ان کے حال پر رحم آنے لگتا۔(الشفا الباب الثالث ج ۲، ص ۸۳)

حضرت ابن عمر کا پاؤں مبارک سُن ہوگیا یہ سن کر ایک شخص نے کہا کہ آپ کے نزدیک جو سب سے زیادہ محبوب ہے اسے یاد کیجئے، یہ سن کر آپ نے کہا” یا محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اسی وقت آپ کا پاؤں اچھا ہوگیا۔

حضرت حسان کی محبت کا نرالہ انداز یہ تھا کہ اس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی مدح میں شعر لکھتے کہ۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ حسین نہ کبھی میری آنکھوں نے دیکھا نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ حسین کسی ماں نے جنا۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر عیب سے پاک پیدا کیے گئے ہیں گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تخلیق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش کے مطابق کی گئی۔

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں


ہر نبی اور سول کے جان نثاروں اور جوانوں نے اپنی محبت و فاداری کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے نبی کی اطاعت و فرمانبرداری میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ  چھوڑا، لیکن تاریخ گواہ ہے کہ رسول اکرم ، نبی محترم صلی ا للہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم نے اپنے والہانہ عشق و محبت سے سر شار ہو کر جس شاندار انداز میں اپنے آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی عقیدت کا اظہار کیا اس کی نظیر نہیں مل سکتی۔

جنگ بدر کے موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام علیہم الرضوان کے ساتھ مشورہ فرمایا اور لشکر کفار کے مقابلے میں جنگ و قتال کے متعلق ان کی رائے طلب فرمائی تو حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدا کی قسم آپ علیہ السلام ہمیں عدن تک لے جائیں گے تو انصار میں سے کوئی ایک شخص بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی خلاف ورزی نہیں کر ے گا۔

(حوالہ مدارج النبوت قسم سو م باب دوم ص 83)

حضور علیہ السلام سے محبت کی بہت سی علامتیں اور آثار ہیں ، ان میں سے ایک علامت حضور علیہ السلام کا بکثرت ذکر کرنا ہے، حدیث شریف میں ہے۔ من اَحَبَّ شیئاً اکثر ذکرہ، جو شخص کسی سے محبت رکھتا ہے اس کا ذکر بکثرت کرتا ہے۔

حضرت سیدنا اسلم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ (یعنی عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ) جب دوعالم کے مالک صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کرتے تو (عشقِ رسول میں بے تاب ہو کر) رونے لگتے اور فرماتے خاتم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم تو لوگوں میں سب سے زیادہ رحم دل اور یتیم لوگوں کے لیے والد کی طرح، بیوہ عورت کے لیے شفیق گھر والے کی طرح اور لوگوں میں دلی طور پر سب سے زیادہ بہادر تھے وہ تو نکھرے نکھرے چہرے والے مہکتی خوشبو والے اورحسب کے اعتبار سے سب سے زیادہ مکرم تھے، اولین اور آخرین میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مثل کوئی نہیں۔(حوالہ، جمع الجوامع ۱۰/۱۴ حدیث ۳۰)

غزوہ خیبر میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ بنی غفار کی ایک عورت (حمابیہ ) کو اپنے دستِ مبارک سے ہار پہنایا تھا وہ اس کی اتنی قدر کرتی تھیں کہ عمر بھر گلے سے جدا نہ کیا، اور جب انتقال فرمانے لگیں تو وصیت کی کہ ہار بھی ان کے ساتھ دفن کیا جائے۔(حوالہ۔ مسند احمد )

اسی طرح تابعین اور تبع تابعین رضی اللہ عنہ جن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تعظیم آثار کے معاملے میں انہیں کے نقش پر تھے۔

حضرت مصعب بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب امام مالک رضی اللہ عنہ کے سامنے نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسل کا ذکر کیا جاتاتھاتو آپ کے چہرے کا رنگ متغیر ہوجاتا ان کی پشت جھک جاتی یہاں تک کہ یہ ان کے ہمنشینوں پر گراں گزرتا ہے۔

ایک دن حاضرین نے امام مالک رضی اللہ عنہ سے ان کی کیفیت کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا جو کچھ میں نے دیکھا ہے تم دیکھتے تو مجھ پر اعتراض نہ کر تے میں نے قاریوں کے سردار محمد بن منکدر کو دیکھا کہ میں نے جب بھی ان سے کوئی حدیث پوچھی تو وہ رو دیتے یہاں تک کہ مجھے ان کے حال پر رحم آتا تھا۔( الشفا الباب الثالث ، ج ۲، ص ۷۳)

امام ابو یوسف (شاگرد امام اعظم رضی اللہ عنہما) کے سامنے اس روایت کا ذکر آیا کہ حضور علیہ السلام کدو پسند فرماتے تھے، مجلس کے ایک شخض نے کہا، لیکن مجھے پسند نہیں۔یہ سن کر امام یوسف رضی اللہ عنہ نے تلوار کھینچ لی اور فرمایا: جدد الایمان والا لا قتلنک

تجدید ایمان کر، ورنہ تم کو قتل کیے بغیر نہ چھوڑوں گا۔ الشفا بتعریف المصطفی باب الثانی ج ۲)

جس بڑے سے محبت ہوتی ہے اس کی عظمت دل و دماغ پر چھا جاتی ہے پھر یہ چاہنے والا اپنے محبوب کی تعظیم اور اس کی عظمت کا کلمہ پڑھنے لگتا ہے۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین کرام حضور کی بولی بولنے اور ان کی ا داؤں کو اپناتے ہیں۔ یہ تو صحابہ اور تابعین کی باتیں ہیں لیکن آؤ تمام جہانوں کے رب عزوجل اپنے محبوب کی شان میں کیا فرماتا۔چنانچہ قرآن مجید میں رب فرماتا ہے: وَ رَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَؕ(۴) تَرجَمۂ کنز الایمان:اور ہم نے تمہارے لیے تمہارا ذکر بلند کردیا۔( الم نشرح 4)

شاعر نے کیا خوب فرمایا ہے:

میں تومالک ہی کہوں گا کہ ہو مالک کے حبیب

یعنی محبوب محب میں نہیں میرا تیرا

ورفعنا لک ذکر کا ہے سایہ تجھ پر

ذکر اونچا ہے تیر ابول ہے بالا تیرا

ورفعنالک ذکر کا ہے سایہ تجھ پر

آخر میں رب سے دعا ہے کہ رب عزوجل اپنا اور اپنے محبوب کے ذکر سے ہماری زبانوں کو تر فرمائے

امین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں


نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کی جس طرح ظاہری حیات میں تعظیم ضروری تھی ویسے ہی وصال ظاہری کے بعد بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم لازمی ہے، اور یہ بات ہمارے اسلاف اپنے انداز سے سمجھاتے ہیں۔

حضرت سیدنا امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا اندازہ :

حضرت سیدنا امام مالک رضی اللہ عنہ کے سامنے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کیا جاتا تو آپ کا چہرہ متغیر ہوجاتا اور آپ جھکنا شروع ہوجاتے ، یہاں تک کہ آپ کا سینہ گھٹنوں سے مل جاتا تھا اور یہ بات آپ کے ساتھی لوگوں کو گراں گزرتی تھی ایک دن آپ سے عرض کی گئی کہ آپ کی کیفیت ایسی کیوں ہوجاتی ہے، یہ کیا معاملہ ہے تو آپ نے فرمایا، جو میں نے دیکھا ہے اگر تم دیکھتے تو میری ان باتو ں کو نئی چیز نہ سمجھتے۔پھر امام مالک نے چند اسلاف کا ذکر کیا

امام جعفر صادق، رضی اللہ عنہ کا انداز:

امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ کی طبیعت میں خوش مزاجی تھی اور آپ مسکراتے رہتے تھے، لیکن جب نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا ذکر خیر آتا تو آپ کے چہرے کا رنگ زرد پڑ جاتا، حالانکہ آپ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے قریبی بیٹے تھے۔

حضرت سیدنا عبدالرحمن بن القاسم رحمۃ اللہ علیہ کا انداز:

آپ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی آل میں سے ہیں جو کہ حضرت ابوبکر صدیق کے پر پوتے ہیں ، جب آپ کے پاس حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کیا جاتا تو آپ کے چہرے کے رنگ کو دیکھا جاتا تھا ایسا لگتا تھا کہ اس چہرے سے خون سارے کا سارا نچوڑ لیا گیا ہو بالکل زرد چہرہ پڑ جاتا تھا اور جب آپ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کرتے تو ہیبت سے آپ کی زبان خشک ہوجایا کرتی تھی بول نہیں پا تے تھے چپ ہو جایا کرتے تھے۔

حضرت سیدناعامر بن عبداللہ بن زبیر رحمۃ اللہ علیہ کا انداز:

جب آپ کے سامنے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکرکیا جاتا تھا تو اس قدر روتے تھے کہ ان کی آنکھ میں آنسو باقی نہیں رہتے تھے۔ اتنا روتے تھے کہ آنسو ختم ہوجایا کرتے تھے۔

امام زہری رحمۃ اللہ علیہ کا انداز :

آپ بہت زیادہ خوش اخلاق اور لوگوں میں گھل مل جانے والے ملنسار تھے لیکن جب آپ کے پاس ذکر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیا جاتا تھا تو ایسا لگتا تھا کہ نہ یہ کسی کو جانتے ہے اور نہ کوئی ان کو جانتا ہے۔

حضرت سیدنا سفوان بن صالح رحمۃ اللہ علیہ کا انداز:

جو لوگ عبادت کے اندر جدوجہد کرنے والے ہیں ان میں آپ بہت بڑا مقام رکھتے ہیں، لیکن جب آپ کے پاس ذکر رسول کیا جاتا تو آپ اس قدر روتے کہ لوگ آپ کو چھوڑ کر چلے جاتے تھے۔

ہمارے اسلاف پر یہ کیفیات خود بخود طاری ہوجایا کرتی تھیں، کیونکہ ہمارے اسلاف کی نظروں کے اندر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام و مرتبہ موجود تھا اور دوسرا خوف ،یہ وہ خوف تھا کہ کہیں محبوب ناراض نہ ہوجائے۔ (شفاشریف)

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں


رسول کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ذکر کو ہمارے اسلاف نہایت ہی ادب و احترام اور اہتمام سے کیا کر تے تھے ہمارے اسلاف میں موجو دایک نامور شخصیت امام المحدیثن ، امام بخار ی علیہ الرحمۃ ہیںـ آپ رحمۃ اللہ علیہ ذکر رسول صلی اللہ علیہ وسلم بہت ادب واحترام سے کرتے، آپ علیہ الرحمۃ نے اپنی صحیح میں سات ہزار سے زائد احادیث کا انتخاب کیا، حدیث شریف کو کتاب میں ذکر کرنے سے قبل وہ غسل کرتے اس کے بعد دو رکعت نفل ادا فرماتے پھر اس حدیث کی صحت کے بار ے میں استخارہ کرتے اس کے بعد اس حدیث کو اپنی صحیح میں درج فرماتے۔(تذکرہ المحدثین ص197)

اسی طرح امام مالک علیہ الرحمۃ بھی آپ علیہ السلام کے ذکر سے قبل غسل کرتے عمدہ بیش قیمت لباس زیب تن کرتے خوشبو لگاتے پھر ایک تخت پر نہایت عجز و انکساری سے بیٹھتے اور جب تک درس جاری رہتا انگیٹھی میں عود اورلوبان جلتے رہتے تھے، اور درسِ حدیث کے درمیان پہلو نہ بدلتے تھے۔(تذکرة المحدثین ص 102/101)

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں