نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کی جس طرح ظاہری حیات میں تعظیم ضروری تھی ویسے ہی وصال ظاہری کے بعد بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم لازمی ہے، اور یہ بات ہمارے اسلاف اپنے انداز سے سمجھاتے ہیں۔

حضرت سیدنا امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا اندازہ :

حضرت سیدنا امام مالک رضی اللہ عنہ کے سامنے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کیا جاتا تو آپ کا چہرہ متغیر ہوجاتا اور آپ جھکنا شروع ہوجاتے ، یہاں تک کہ آپ کا سینہ گھٹنوں سے مل جاتا تھا اور یہ بات آپ کے ساتھی لوگوں کو گراں گزرتی تھی ایک دن آپ سے عرض کی گئی کہ آپ کی کیفیت ایسی کیوں ہوجاتی ہے، یہ کیا معاملہ ہے تو آپ نے فرمایا، جو میں نے دیکھا ہے اگر تم دیکھتے تو میری ان باتو ں کو نئی چیز نہ سمجھتے۔پھر امام مالک نے چند اسلاف کا ذکر کیا

امام جعفر صادق، رضی اللہ عنہ کا انداز:

امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ کی طبیعت میں خوش مزاجی تھی اور آپ مسکراتے رہتے تھے، لیکن جب نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا ذکر خیر آتا تو آپ کے چہرے کا رنگ زرد پڑ جاتا، حالانکہ آپ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے قریبی بیٹے تھے۔

حضرت سیدنا عبدالرحمن بن القاسم رحمۃ اللہ علیہ کا انداز:

آپ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی آل میں سے ہیں جو کہ حضرت ابوبکر صدیق کے پر پوتے ہیں ، جب آپ کے پاس حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کیا جاتا تو آپ کے چہرے کے رنگ کو دیکھا جاتا تھا ایسا لگتا تھا کہ اس چہرے سے خون سارے کا سارا نچوڑ لیا گیا ہو بالکل زرد چہرہ پڑ جاتا تھا اور جب آپ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کرتے تو ہیبت سے آپ کی زبان خشک ہوجایا کرتی تھی بول نہیں پا تے تھے چپ ہو جایا کرتے تھے۔

حضرت سیدناعامر بن عبداللہ بن زبیر رحمۃ اللہ علیہ کا انداز:

جب آپ کے سامنے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکرکیا جاتا تھا تو اس قدر روتے تھے کہ ان کی آنکھ میں آنسو باقی نہیں رہتے تھے۔ اتنا روتے تھے کہ آنسو ختم ہوجایا کرتے تھے۔

امام زہری رحمۃ اللہ علیہ کا انداز :

آپ بہت زیادہ خوش اخلاق اور لوگوں میں گھل مل جانے والے ملنسار تھے لیکن جب آپ کے پاس ذکر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیا جاتا تھا تو ایسا لگتا تھا کہ نہ یہ کسی کو جانتے ہے اور نہ کوئی ان کو جانتا ہے۔

حضرت سیدنا سفوان بن صالح رحمۃ اللہ علیہ کا انداز:

جو لوگ عبادت کے اندر جدوجہد کرنے والے ہیں ان میں آپ بہت بڑا مقام رکھتے ہیں، لیکن جب آپ کے پاس ذکر رسول کیا جاتا تو آپ اس قدر روتے کہ لوگ آپ کو چھوڑ کر چلے جاتے تھے۔

ہمارے اسلاف پر یہ کیفیات خود بخود طاری ہوجایا کرتی تھیں، کیونکہ ہمارے اسلاف کی نظروں کے اندر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام و مرتبہ موجود تھا اور دوسرا خوف ،یہ وہ خوف تھا کہ کہیں محبوب ناراض نہ ہوجائے۔ (شفاشریف)

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں