٭نبی اکرم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی محبت کے بغیر آپ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم پر ایمان لانا متصورنہیں  ہے، مومن کیلئے ضروری ہے کہ وہ نبی صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کو اپنی جان، باپ، بیٹے اور مخلوق سے زیادہ محبوب رکھے آقا صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم فرماتے ہیں : کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک میں اس کے نزدیک اس کے ماں ، باپ، اولاد اور تمام لوگوں سے زیا دہ محبوب نہ ہوجاؤں ۔(صحیح البخاری )

محبت کی بہت ساری علامات ہیں۔ اس میں ایک علامت یہ ہے کہ کوئی اپنے محبوب کا کثرت سے ذکر کرے۔ کثرت ذکر کے ساتھ ساتھ ایک علامت یہ بھی ہے کہ تعظیم و تکریم کا کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا جائے اور حضور صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کا نام پاک کمال تعظیم وتکریم اور صلوٰۃ و سلام کے ساتھ لے اور نام پاک لیتے وقت خوف و خشیت عجزوانکساری اور خشوع و خضوع کا اظہار کرے۔

حکم خداوندی ہے: لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَیْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًا (پ۱۸ ، النور : ۶۳)

ترجمہ کنزالایمان:رسول کے پکار نے کو آپس میں ایسا نہ ٹھہرا لو جیسا تم میں ایک دوسرے کو پکارتا ہے۔

تفسیر کبیر میں ہے :’’ نبی اکرم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کو اس طرح نہ پکارو جیسے تم ایک دوسرے کو پکارتے ہو۔ یوں نہ کہو: یا محمد! یا ابا القاسم! بلکہ عرض کرو: یا رسول اللہ! ، یا نبی اللہ!‘‘ (یعنی نبی اکرم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کو نام یا کنیت سے نہ پکارو بلکہ اوصاف اور القاب سے یاد کرو)(التفسیرالکبیر ، ج۸ ، ص۴۲۵ ، پ ۱۸ ، النور : ۶۳)

تمام صحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان آقا صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کو بہترین القاب، کمالِ تواضع اور مرتبہ و مقام کی انتہائی رعایت سے خطاب کرتے تھے اور ابتدا ء ِکلام میں صلوٰۃ کے بعد ’’ فَدَیْتُکَ بِاَبِیْ وَ اُمِّیْ‘‘ میرے والدین بھی آپ پر فدا ہوں ، یا ’’ بِنَفْسِیْ اَنْتَ یَارَسُوْل! ‘‘ میری جان آپ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم پر نثار ہے ، جیسے کلمات استعمال کرتے تھے اور فیض صحبت کی فراوانی کے باوجود، محبت کی شدت کے تقاضے کی بنا پر، تعظیم و توقیر میں کوتا ہی اور تقصیر کے مرتکب نہیں ہوتے تھے بلکہ ہمیشہ آقا صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی تعظیم میں اضافہ کرتے تھے ۔

حضرتِ عبدُاللہ بِن مُبارَک رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ فرماتے ہىں:حضرتِ امام مالک رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ دَرسِ حدیث دے رہے تھے کہ بچھو نے آپ کو 16 ڈنک مارے ۔ دَرد کى شِدَّت سے مُبارک چہرہ پیلا پڑ گیا مگر دَرسِ حدیث جارى رکھا اور پہلو تک نہ بدلا۔جب دَرسِ حدیث ختم ہوا اور لوگ چلے گئے تو مىں نے عرض کى: اے ابو عبدُاللہ!(یہ امامِ مالک رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ کی کنیت ہے۔)آج میں نے آپ میں ایک عجیب بات دیکھی ( کہ بچھو نے آپ کو 16 ڈنک مارے مگر آپ نے پہلو تک نہ بدلا)اِس میں کیا حکمت تھى؟ فرمایا :میں نے حدیث رَسُول کى تعظیم کى بِنا پر صبر کیا۔(الشفا ، الباب الثالث ،  فصل فی سیرة السلف فى تعظيم روايۃ  حديث ...الخ ، ۲ / ۴۶ )

حضرتِ سیِّدُنا مُصْعَب بن عبداللہ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ حضرتِ سیِّدُنا امام مالِک عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الخَالِق کے عشقِ رسول کا عالَم یہ تھا کہ جب اُن کے سامنے نبیِّ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ذِکْر کیاجاتا تو اُن کے چِہرے کا رنگ بدل جاتا اور وہ ذِکر مصطَفٰے کی تعظیم کے لئے خوب جُھک جاتے۔ ایک دن آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ سے اس بارے میں پوچھا گیاتو فرمایا:’’اگر تم وہ دیکھتے جو میں دیکھتا ہوں تو اِس بارے میں سُوال نہ کرتے۔ ‘‘ (الشفاء ج۲، ص ۴۱ ۔ ۴ ۲)

ذِکر ِرَسُول کے وقت تعظیم کا جَذبہ پیدا کرنے کا طریقہ:

پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی تعظیم سے متعلق حکایات اور  وَاقعات  سُننے اور پڑھنے سے تعظیم کا ذہن بنتا ہے اور جَذبہ ملتا ہے، اِس طرح کے واقعات پڑھیے اور تکلفاً تعظیم کی عادت بنائیے اِنْ شَآءَ اللّٰہ آہستہ آہستہ  عادت بن جائے گی۔

نام و کام و تن و جان و حال و مَقال

سب میں اچھے کی صورت پہ لاکھوں سلام

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں