پیارے پیارے  نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اسم ذاتی محمد اور احمد ہیں اور باقی تمام نام صفاتی ہیں مثلا شاہد، نذیر وغیرہ۔ قرآن پاک میں اللہ پاک نے صرف پانچ مقامات پر حضور کے اسم ذاتی کو ذکر کیا اور باقی تمام مقامات پر صفاتی نام مذکور ہیں۔ اب تمام کی تفصیلات آپ کو مفتی احمد یار خان کی پیاری تصنیف "شان حبیب الرحمن من آیات القرآن" میں مل سکتی ہے۔

(1 تا 3) مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ ترجمہ کنزالعرفان: محمد تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے آخر میں تشریف لانے والے ہیں ۔(پ 22،الاحزاب:40)

اس آیت مبارکہ میں اللہ پاک نے ہمارے پیارے نبی کا اسم ذاتی اور دو صفاتی نام ذکر کئے ہیں: (1) محمد (2) رسول اللہ (3) خاتم النبیین

(4) یٰس: کلمہ یٰس آیت متشابہات میں سے ہے مگر مفسرین نے کچھ روایتیں کچھ تاویلیں فرمائی ہیں ان میں سے ایک یہ کہ یٰس حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اسم شریف ہے ۔

(5) وَ النَّجْمِ اِذَا هَوٰىۙ(۱) ترجَمۂ کنزُالایمان: اس پیارے چمکتے تارے محمد کی قسم جب یہ معراج سے اُترے۔(پ 27،نجم:1)

بعض مفسرین نے نجم سے مراد سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات لی ہے کیونکہ ستارے کا کام ہدایت دینا ہے اور یہ ذات بھی ہادی خلق ہے۔

(6) نٓ وَ الْقَلَمِ وَ مَا یَسْطُرُوْنَۙ(۱)ترجَمۂ کنزُالایمان: قلم اور ان کے لکھے کی قسم (پ 29،قلم:1)

مفتی احمد یار خان شان حبیب الرحمن میں لکھتے ہیں کہ لفظ نون میں چند احتمال ہے ان میں سے ایک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اسم شریف ہے۔

(7) یٰۤاَیُّهَا الْمُزَّمِّلُۙ(۱) ترجَمۂ کنزُالایمان: اے جھرمٹ مارنے والے ۔(پ 29،مزمل:1)

مفسرین کا ایک قول اس کے شانِ نزول کے متعلق یہ ہیں کہ زمانہ وحی کی ابتدا میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام الہی کے ہیبت سے اپنے کپڑوں میں لپٹ جاتے تھے۔ اس حالت میں آپ کو یہ ندا دی گئی۔

(8) یٰۤاَیُّهَا الْمُدَّثِّرُۙ(۱)ترجَمۂ کنزُالایمان: اے بالا پوش اوڑھنے والے ۔(پ 29،مدثر:1)

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے شان نزول کے بارے میں فرمایا کہ جب میں نے جبرئیل علیہ السلام کو دیکھا تو خدیجہ کے پاس آیا اور حکم دیا کہ چادر اوڑھا دو۔ جب چادر اوڑھی تب یہ وحی آئی۔

(9) وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۰۷) ترجمہ کنزالعرفان: اور ہم نے تمہیں تمام جہانوں کیلئے رحمت بنا کر ہی بھیجا۔(پ 17،الانبیاء:107)

مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہِ علیہ نے فرمایا: اس میں حضور کی ایک خاص صفت رحمۃ اللعالمین کو بیان کیا ہے۔

(10) طٰهٰۚ(۱) کلمہ طٰہٰ بھی متشابھات میں سے ہے۔ بعض علماء کرام فرماتے ہیں کہ یہ حضور کا اسم مبارک ہے۔


جب کوئی شخص جمال وکمال کی اداؤں کا منبع بن کر ظاہر ہوتا ہے تو وہ لوگوں کی آنکھوں کا نور دلوں کا سرور بن جاتا ہے۔ اس کی تعریفی صفات کی وجہ اس شخص کو مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے ۔ کسی  شخص سے جتنی محبت زیادہ ہو گی اس شخص کے نام اتنی ہی زیادہ تعداد میں ہوں گے۔

اللہ کریم نے محبوبِ عظیم سے زیادہ خوبصورت کسی کو نہ بنایا ،کسی کو اتنا بلند مقام و مرتبہ عطا نہ فرمایا، جتنا اپنے حبیب کریم کو بلند مقام و مرتبہ عطا فرمایا۔ اسی لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بے شمار ناموں سے پکارے گئے بلکہ خود کریم نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی لاریب کتاب قرآن مجید میں مختلف مقامات پر مختلف اسماء سے پکارا۔ چنانچہ اللہ کریم نے سورہ صف کی آیت نمبر 6 میں احمد کے نام سے فرمایا : یَّاْتِیْ مِنْۢ بَعْدِی اسْمُهٗۤ اَحْمَدُؕ

اور ایک مقام پر محمد کے نام سے بھی فرمایا: مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِؕ ترجَمۂ کنزُالایمان:محمد اللہ کے رسول ہیں ۔ (پ 26،الفتح:29)

لطیف بات: احمد کا معنی ہے سب سے زیادہ حمد (تعریف ) کرنے والا، محمد کا معنی ہے سب سے زیادہ تعریف کیا گیا یعنی حضور تعریف کرنے والوں میں بھی اور تعریف کئے ہوؤں میں بھی سب سے بڑھ کر افضل ہیں۔

اسی طرح سورہ یٰس میں اللہ پاک نے حضور کو یٰس کے نام سے پکارا فرمایا:یٰس

علامہ آلوسی رحمۃُ اللہِ علیہ نے یٰس کا معنی بیان فرمایا:اے سید عرب و عجم اور ابو بکر وراق کہتے ہیں کہ یہ سیدالبشر کا مخفف ہے۔(ضیاء النبی،5/239)

اسی طرح اللہ کریم نے اپنے محبوب کو سورہ مزمل میں مزمل کے نام سے پکارا فرمایا: یٰۤاَیُّهَا الْمُزَّمِّلُۙ(۱) ترجَمۂ کنزُالایمان: اے جھرمٹ مارنے والے ۔(پ 29،مزمل:1)

اور ایک جگہ سورہ طٰہٰ میں طٰہٰ کے نام سے پکارا فرمایا : طٰہٰ ۔علامہ الوسی طٰہٰ کا مفہوم بیان کیا کہ اے عالم امکان کے آسمان کے ماہِ تمام اور اے فلکِ وجود کے چودہویں کے چاند۔

اسی طرح اللہ کریم نے سورہ مدثر میں اپنے پیارے حبیب کو مدثر کے نام سے پکارا فرمایا: یٰۤاَیُّهَا الْمُدَّثِّرُۙ(۱)ترجَمۂ کنزُالایمان: اے بالا پوش اوڑھنے والے ۔(پ 29،مدثر:1)

اورسورہ فتح کی آیت نمبر 8 میں شاہد، مبشر ،نذیر فرمایا اور ارشاد ہوا: اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۸) ترجمہ کنزالعرفان:بیشک ہم نے تمہیں گواہ اور خوشخبری دینے والااور ڈر سنانے والا بنا کربھیجا۔(پ 26،الفتح:8)

اور سورہ احزاب کی آیت نمبر 40 میں خاتم النبین بھی فرمایا: مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ ترجمہ کنزالعرفان: محمد تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے آخر میں تشریف لانے والے ہیں ۔(پ 22،الاحزاب:40)

اس کے علاوہ اللہ کریم نے اپنے محبوب کو مختلف مقامات پر مختلف القابات سے پکار کر اظہار محبت فرمایا۔

اللہ کریم سے دعا ہے کہ اللہ کریم ہمیں بھی اپنے حبیب کی دلی محبت عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم


علمائے کرام نے فرمایا:اسماءکی کثرت مسمی (جس کانام رکھا گیا ہے)کی عظمتوں اور رفعتوں پر دلالت کرتی ہیں۔ کیوں کہ مسمی کی ذات اور اس کے حالات کی جانب توجہ کی جاتی ہے۔بعض علماء کرام رحمہم اللہ اجمعین نے فرمایا کہ اپ صلی اللہ علیہ وسلم کے 99 نام ہے جیسے اللہ پاک کے 99اسماءہے۔

قاضی ابوبکربن عربی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایابعض صوفیاء کاارشاد ہے کہ اللہ پاک کے ہزار نام ہےتو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کےبھی ایک ہزار نام ہیں۔(سبل الھدیٰ و الرشاد،باب ششم کااردو ترجمہ مفتی علیم الدین نقشبندی منزل مظہرعلم شاہدرہ لاہور ،ص: 17)

(1) : مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِؕ ترجَمۂ کنزُالایمان: محمد اللہ کے رسول ہیں۔(پ 26،الفتح:29)

حدیث ۔ حضرت محمد بن میسرہ رحمۃ اللہ علیہ کی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے پانچ نام ہیں ان میں سے ایک یہ ہے ۔فرمایا :میں محمد ہو۔

وظیفہ:رزق میں برکت۔حضرت سیدنا امام مالک علیہ رحمۃ اللہ الخالق فرماتے ہیں: اہل مکہ آپس میں یہ گفتگو کیا کرتے تھے کہ جس گھر میں بھی محمد نام کا کوئی فرد ہوتا ہے تو اس گھر میں خیر و برکت ہوتی ہے اوران کے رزق میں کثرت ہوتی ہے۔( نام رکھنے کے احکام ،ص: 24)

ان شاء الله الکریم لڑکا پیدا ہوگا:حضرت سید نا ابوشعيب رحمۃ الله علیہ ،امام عطاء رحمۃ اللہ علیہ سےروایت فرماتے ہیں کہ جو یہ چاہے کہ اس کی عورت کے حمل میں لڑ کا ہو تو اسے چاہیے کہ اپنا ہاتھ عورت کے پیٹ پر رکھ کر کہے: ان كان ذكرا فقد سميته محمدا یعنی اگر یہ لڑ کا ہوا تو میں نے اس کا نام محمد رکھا۔‘‘ان شاء اللہ الکریم لڑ کا ہوگا۔(نام رکھنے کے احکام ،ص: 28)

(2) ذوالسکینة:فَاَنْزَلَ اللّٰهُ سَكِیْنَتَهٗ عَلٰى رَسُوْلِهٖ وَ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ ترجَمۂ کنزُالایمان:تو اللہ نے اپنا اطمینان اپنے رسول اور ایمان والوں پر اتارا۔(پ 26،فتح :26)

(3) ذوالقوة:ذِیْ قُوَّةٍ عِنْدَ ذِی الْعَرْشِ مَكِیْنٍۙ(۲۰) ترجَمۂ کنزُالایمان: جو قوت والا ہے مالکِ عرش کے حضور عزّت والا۔(پ 30،تکویر:20)

(4) المسبح، (5) المستغفر:فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَ اسْتَغْفِرْهُﳳ ترجَمۂ کنزُالایمان:تو اپنے رب کی تعریف کرتے ہوئے پاکی بیان کرواور اس سے بخشش چاہو۔ (پ 30، نصر:3)

(6)المعزز ،(7)الموقر:وَ تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُؕ ترجَمۂ کنزُالایمان:اور رسول کی تعظیم و توقیر کرو۔(پ 26،الفتح:9)

(8)الھدی:وَ لَقَدْ جَآءَهُمْ مِّنْ رَّبِّهِمُ الْهُدٰىؕ(۲۳) ترجَمۂ کنزُالایمان:بیشک ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے ہدایت آچکی ہے۔(پ 27،نجم:23)

(9) مصدق:وَ لَمَّا جَآءَهُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَهُمْ ترجَمۂ کنزُالایمان اور جب ان کے پاس تشریف لایا اللہ کے یہاں سے ایک رسول ان کی کتابوں کی تصدیق فرماتا ۔(پ 1،بقرہ:101)

(10)النور:قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّ كِتٰبٌ مُّبِیْنٌۙ(۱۵)ترجمہ کنزالعرفان: بیشک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور آگیا اور ایک روشن کتاب۔(پ 6،المائدہ:15)


حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اسماء دو طرح کے  ہیں: ذاتی ،صفاتی۔ آپ کے ذاتی اسماء صرف دو ہیں :محمد، احمد۔ان کے علاوہ بقیہ تمام اسماء صفاتی ہیں۔ جن کی تعداد معین نہیں ۔حتی کہ اعلحضرت رحمۃُ اللہِ علیہ نے فرمایا: میں نے 1400 اسماء جمع کئے۔

ویسے تو قرآن پاک کے مختلف مقامات میں حضور علیہ الصلاۃ والسلام کی تعریف بیان کی گئی بلکہ پورا قرآن ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف حمیدہ سے بھرا ہوا ہے ۔ لیکن جن مقامات میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اسماءجمیلہ کے ساتھ آپ کی تعریف بیان کی گئی ان میں سے 10 مقامات درج ذیل ہیں:

(1) احمد (سب سے زیادہ حمد کرنے والا):حضور صلی اللہ علیہ وسلم تمام مخلوق سے بڑھ کر اللہ پاک کی حمد کرنے والے ہیں اسی لئے آپ کو احمد فرمایا گیا۔

(2) نور:حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس نام کے متعلق خورحدیث مبارکہ میں ارشاد فرمایا : اللہ پاک نے سب سے پہلے جس چیز کو پیدا فرمایا وہ میرا نور ہے۔

(3) منیر(روش کرنے وا لے):اس لئے کہ زمیں و آسمان چاند سورج بلکہ تمام کائنات کی ہر ہر روشنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نور ہی کے صدقے ہے۔

(4) مبین( بیان فرمانے والے):یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ پاک نے جتنے احکام امت کو پہنچانے کے لئے دئیے وہ تمام آپ صلی اللہ علیہ وسلّم نے اپنی امت کو بیان فرما د یے ۔

(5)رؤوف(نہایت مہربان)

(6) رحیم(رحم فرمانے والے):پارہ 11 سورۃ توبہ میں الله پاک نے فرمایا:یہ رسول مسلمانوں پر نہایت مہربان رحم فرمانے والے ہیں۔

آپ تو مؤمنین پر اس قدر رحیم ہیں کہ خود فرماتے ہیں:اللہ پاک نے مجھے تین سوال عطا فرمائے (یعنی جو مانگو پاؤ گے) تو میں نے دو مرتبہ دنیا میں اپنی امت کے لئے مغفرت طلب کرلی جبکہ ایک سوال میں نے اپنی امت کی مغفرت کا آ خرت کے لئے رکھ لیا۔(مسلم، ص:409، حدیث: 273 )

(7) شاهد (حاضر):کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہروقت ہر جگہ اپنی امت کو بلکہ تمام کائنات کو ایسے ملاحظہ فرما رہے ہیں جیسے آپ خود وہاں حاضر ہیں۔

اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :

اور کوئی غیب کیا تم سے نِہاں ہو بھلا

جب نہ خُدا ہی چھپا تم پہ کروڑوں دُرُود

(8) کريم (سخی):حضورصلی الله علیہ وسلم کی سخاوت کا تو یہ عالم ہے کہ کوئی بھی آپ کے در سے خالی نہیں جاتا۔

کریم ایسا ملا کہ جس کے

کھلے ہیں ہاتھ اور بھرے خزانے

(9) طہ

(10) یس:علما نے فرمایا:کہ یہ الفاظ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صفاتی نام ہیں ۔

طه کا معنی، طاہر(پاک) اورهادی (ھدایت دینے والا ) ہے۔اور یس کا معنی یا سید الانس والجن( اے جن و انس کے سردار )

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں ان پیارے پیارے ناموں کی برکت سے پیارے آقا صلى الله علیہ وسلم کی پیاری سیرت اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاه خاتم النبيين صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


اللہ پاک نے اپنے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم  کو بے شمار خصوصیات عطا فرمائی ،انہی خصوصیات میں ایک خصوصیت یہ ہے کہ اللہ پاک نے آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو قرآن مجید میں آپ کے صفاتی ناموں سے پکارا ہے ۔ چند اسماء النبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم آپ بھی ملاحظہ کیجئے:

(1): مُحُمَّدْ: یہ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا ذاتی نام ہے اور اسی نام پر قرآن پاک کی سورت کا نام ” محمد “ہے۔ یہ نام قرآن پاک میں چار مقام پر آیا ہے (1) اٰل عمران:144۔ (2)الاحزاب:40۔ (3) محمد :2۔(4)الفتح:29۔ امام راغب اَصْفَہانی رحمۃُ اللہِ علیہ اسمِ محمد کے بارے میں فرماتے ہیں :وَمُحَمّدٌ اِذَا کَثُرَتْ خِصَالُہٗ الْمَحْمُوْدَۃُ، محمد اس ذات کو کہا جاتا ہے جس میں قابلِ تعریف خَصْلَتیں بہت کثرت سے پائی جائیں ۔ (المفردات فى غريب القرآن ، ص256،دار القلم)

(2) اَحْمَدْ : یہ بھی آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا ذاتی نام ہے ۔احمدکے معنی بیان کرتے ہوئے علامہ حلبی رحمۃ ُالله علیہ فرماتےہیں:اس سے وہ ذات مراد ہے جو محامدین میں سب سے زیادہ اللہ پاک کی تعریف کرنے والی ہو۔(السيرة الحلبيۃ ،1/118 ، دار الكتب العلميۃ ، بيروت )

(3):شَاهِدْ،(4): مُبَشِّرْ،(5):نَذِیْرْ : یہ تینوں نام اکٹھے نبی مکرم کے لئے قرآن پاک میں دو مقام پر آئے ہیں،(1) : یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۴۵) ترجَمۂ کنزُالایمان: اے غیب کی خبریں بتانے والے (نبی) بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر ناظر اور خوشخبری دیتا اور ڈر سناتا۔(پ 22،احزاب:45)

شیخ عبدُالحق مُحدّث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: شاہد کا معنی ہے اُمّت کے حال، ان کی نجات و ہلاکت اور تصدیق و تکذیب پر حاضر اور عالِم۔(مدارج النبوۃ،1/260)

(6) اُمِّی: نبی مکرم کا یہ نام قرآن پاک میں تین مقام پر آیا ہے،ان میں ایک یہ ہے: هُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیّٖنَ رَسُوْلًا ترجَمۂ کنزُالایمان:وہی ہے جس نے اَن پڑھوں میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا۔(پ28،جمعہ:2)

علامہ عبد المصطفیٰ رحمۃُ اللہِ علیہ اُمی کےمعنی بیان کرتے ہوئے فرماتےہیں: یہ ”اُم القریٰ“ کی طرف نسبت ہے،جو مکہ مکرمہ کا لقب ہے۔ لہٰذا اس کے معنی مکہ مکرمہ کے رہنے والے یا”اُمّی“کے معنی ہیں کہ آپ نے دنیا میں کسی انسان سے لکھنا پڑھنا نہیں سیکھا،یہ حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا بہت ہی عظیم الشان معجزہ ہے کہ دنیا میں کسی نے بھی آپ کو پڑھایا لکھایا نہیں ۔ مگر اللہ پاک نے آپ کو اس قدر علم عطا فرمایا کہ آپ کا سینہ اولین و آخرین کے علوم و معارف کا خزینہ بن گیا۔(سیرت مصطفیٰ،ص:83)

(7)رَءُوْفٌ، (8) رَحِیْم : لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ(۱۲۸) ترجمہ کنز العرفان :بیشک تمہارے پاس تم میں سے وہ عظیم رسول تشریف لے آئے جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا بہت بھاری گزرتا ہے، وہ تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے، مسلمانوں پر بہت مہربان، رحمت فرمانے والے ہیں ۔(پ 11،التوبہ:128)

(9) اَوَّل،(10) اٰخِر، (11) ظَاهِر،(12) بَاطِن،(13) عَلِیْم : یہ چاروں نام اس آیت مبارکہ میں ہے: هُوَ الْاَوَّلُ وَ الْاٰخِرُ وَ الظَّاهِرُ وَ الْبَاطِنُۚ-وَ هُوَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ(۳) ترجَمۂ کنزُالایمان:وہی اوّل وہی آخر وہی ظاہر وہی باطن اور وہی سب کچھ جانتا ہے۔(پ 27،حدید:3)

مولانا شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃُ اللہِ علیہ نے ’’مدارجُ النُّبوۃ“کے خطبے میں ذکر کیا ہے:سیّد المرسَلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اوّل بھی ہیں ، آخر بھی ہیں ، ظاہر بھی ہیں ، باطن بھی ہیں اور سب کچھ جانتے بھی ہیں ۔( مدارج النبوۃ،1/2 ، ملتقطاً)

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں :

نمازِ اقصیٰ میں تھا یہی سِّرعیاں ہوں معنِیٔ اوّل آخر

کہ دست بستہ ہیں پیچھے حاضر جو سلطنت آگے کر گئے تھے


                 حضور اکرم صلی الله علیہ واٰلہ وسلم کے بہت سے پیارے پیارے نام ہے جن میں کچھ نام تو اللہ پاک نے قرآن مجید میں ارشاد فرمائیں ہیں اور کچھ احادیث مبارک میں آئے ہیں اور میرے پیارے آقا صلی الله علیہ واٰلہ وسلم نام کی بھی بہت برکات ہیں پیارے آقا کی ہر نام کی ایک الگ الگ برکت ہے میں بس ان میں سے دس(10) نام ہی ذکر کروں گا اور وہ دس نام یہ ہیں:

اللہ پاک نے آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کو یہ خصوصیت دی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے ناموں کو آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی ثناء کے ضمن میں بیان کیا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے ذکر کے درمیان آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے شکرعظیم مضمر ( پوشیدہ) کیا ہے ۔ آپ کا نام احمد بروزن اَفْعَلْ ہے جو آپ کی صفت حمد میں مبالغہ ہے اورمحمد بر وزن مُفَعَّلْ ہے جو آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی کثرت حمد میں مبالغہ ہے ۔ پس حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم حمد کر نے والوں میں سب سے بڑھ کر ہیں اور ان سب سے افضل ہیں جن کی تعریف کی جاتی ہے اور تمام لوگوں سے بڑھ کرحمد کرنے والے ہیں ۔ پس آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم تعریف کئے ہوؤں میں سب سے بڑھ کر تعریف کئے ہوئے ( محمد ) ہیں اور تعریف کر نے والوں میں سب سے بڑھ کر تعریف کرنے والے ہیں۔(الشفاء )

اور آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے ساتھ بروز قیامت لِواء الحمد ہو گا تا کہ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے لئے حمد کی تکمیل ہو جائے اور میدان حشر میں آپ صفت حمد سے شہرت پائیں اور وہاں اللہ پاک آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کو مقام محمود میں بھیجے گا ۔ جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے وعدہ کیا ہے ۔ اس جگہ اولین و آخرین ان کی شفاعت کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی تعریف کر یں گے اور اس جگہ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم پر حمد کے الفاظ کھولے جائیں گے ۔ جیسا کہ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم فرماتے ہیں کہ کسی کو وہ ( الفاظ) نہیں دیئے گئے۔

حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کے والد سے الاسناد مروی ہے کہ نبی صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :میرے پانچ(5) نام ہیں: میں محمد ہوں اور میں احمد ہوں ،میں ماحی ہوں کہ میرے ذریعے سے اللہ پاک نے کفر کو مٹایا اور میں حاشر ہوں کہ میرے نقشِ قدم پر لوگ اٹھیں گے اور میں عاقب (پیچھے آنے والا )ہوں اور اللہ پاک نے میرا نام اپنی کتاب میں محمد اور احمد رکھا ہے۔(صحیح بخاری کتاب المناقب صحیح مسلم کتاب الفضائل جلد 4)

آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے نام مبارک محمد اور احمد کے بارے میں آیا کہ ہے جس کے نام محمد اور احمد ہوگا وہ بلاحساب جنت میں داخل ہوگا۔

پھر آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے ان دونوں ناموں میں عجیب وغریب خصوصیتوں اور نشانیوں کے علاوہ ایک دوسری خوبی بھی ہے ۔ وہ یہ کہ اللہ پاک نے آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے نام مبارک کی ایسی حفاظت فرمائی ہے کہ کسی نے آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے زمانہ اقدس سے پہلے یہ دونوں نام نہیں رکھے ۔

ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم ہمیں اپنے نام بتلا یا کر تے تھے ۔ پس فرماتے ہیں : محمد،احمد،مقفی، حاشر، نبی التوبہ نبی الملحمہ اور نبی الرحمہ ہوں ۔ ( صحیح مسلم ،4/1829 )

حذیفہ رضی اللہ عنہ نے بھی ابو موسیٰ رحمۃ الله علیہ کی حدیث کی مثل روایت کی ہے کہ آپ نبی الرحمۃ نبی التوبہ اور نبی الملاحمہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم ہیں۔ (شمائل ترمذی، ص:297)

اور قرآن پاک میں بھی اللہ پاک نے اپنے ناموں کے ساتھ پیارے حبیب صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے ناموں کو ذکر کیا ہے :وَ قُلْ اِنِّیْۤ اَنَا النَّذِیْرُ الْمُبِیْنُۚ(۸۹) كَمَاۤ اَنْزَلْنَا عَلَى الْمُقْتَسِمِیْنَۙ(۹۰) الَّذِیْنَ جَعَلُوا الْقُرْاٰنَ عِضِیْنَ(۹۱)ترجَمۂ کنزُالایمان:اور فرماؤ کہ میں ہی ہوں صاف ڈر سنانے والا(اس عذاب سے)جیسا ہم نے بانٹنے والوں پر اتارا جنہوں نے کلامِ الٰہی کو تِکّے بوٹی کرلیا ۔(پ 14،حجر:89تا 91)

(2) ایک نام حق بھی ہے: قُلْ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ قَدْ جَآءَكُمُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكُمْۚ-فَمَنِ اهْتَدٰى فَاِنَّمَا یَهْتَدِیْ لِنَفْسِهٖۚ-وَ مَنْ ضَلَّ فَاِنَّمَا یَضِلُّ عَلَیْهَاۚ-وَ مَاۤ اَنَا عَلَیْكُمْ بِوَكِیْلٍؕ(۱۰۸) ترجَمۂ کنزُالایمان:تم فرماؤ اے لوگو تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے حق آیا تو جو راہ پر آیا وہ اپنے بھلے کو راہ پر آیا اور جو بہکا وہ اپنے برے کو بہکا اور کچھ میں تم پر کڑوڑا(نگہبان)نہیں۔ (پ 11،یونس:108)

فَقَدْ كَذَّبُوْا بِالْحَقِّ لَمَّا جَآءَهُمْؕ-فَسَوْفَ یَاْتِیْهِمْ اَنْۢبٰٓؤُا مَا كَانُوْا بِهٖ یَسْتَهْزِءُوْنَ(۵)ترجَمۂ کنزُالایمان:تو بے شک انہوں نے حق کو جھٹلایا جب ان کے پاس آیا تو اب انہیں خبر ہوا چاہتی ہے اس چیز کی جس پر ہنس رہے تھے(پ 7،انعام:5)

ایک روایت میں ہے ۔ الحق سے مراد’محمد صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم ‘ ہیں اور یہ بھی کہا گیا کہ ’ ’ قرآن‘‘مراد ہے لیکن اس جگہ حق کے وہ معنی ہیں جو باطل کی ضد ہے اور صدق ہے ۔ یہ پہلے معنی کے ساتھ ہے اور المبين ‘ ‘ کا مطلب یہ ہے کہ جس کاحکم واضح اور روشن ہواوراس کی رسالت ظاہر ہو۔

(3 تا 6) سراج ، منیر ، شاہد ، مبشر : یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۴۵) : وَّ دَاعِیًا اِلَى اللّٰهِ بِاِذْنِهٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیْرًا(۴۶) ترجمہ کنزالعرفان: اے نبی!بیشک ہم نے تمہیں گواہ اور خوشخبری دینے والا اور ڈر سنانے والا۔اور اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلانے والااو ر چمکادینے والا ا ٓ فتاب بنا کر بھیجا۔پ 22،احزاب:45،46)

یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا: اے نبی!بیشک ہم نے تمہیں گواہ بنا کر بھیجا ۔ آیت کے اس حصے میں نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ایک وصف بیان فرمایا گیا کہ الله پاک نے آپ کو شاہد بنا کر بھیجا ہے ۔ شاہد کا ایک معنی ہے حاضر و ناظر یعنی مشاہدہ فرمانے والا اور ایک معنی ہے گواہ۔اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ نے شاہد کا ترجمہ ” حاضر ناظر “ فرمایا ہے ، اس کے بارے میں صدر الافاضل مفتی نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : شاہد کا ترجمہ حاضر و ناظر بہت بہترین ترجمہ ہے ، مفردات راغب میں ہے " الشھود و الشحادة الحضور مع المشاهدة اما بالبصر أو بالبصیرۃ “ یعنی شہود اور شہادت کے معنی ہیں حاضر ہونا مع ناظر ہونے کے ، بصر کے ساتھ ہو یا بصیرت کے ساتھ ۔ ( خزائن العرفان ، الاحزاب ، تحت الآیۃ : 45 ، ص :784 )

اگر اس کا معنی ’ ’ گواہ ‘ ‘ کیا جائے تو بھی مطلب وہی بنے گا جو اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے ترجمے میں لکھا ، کیونکہ گواہ کو بھی اسی لئے شاہد کہتے ہیں کہ وہ مشاہدہ کے ساتھ جو علم رکھتا ہے اس کو بیان کر تا ہے اور سر کار دو عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم چونکہ تمام عالم کی طرف مبعوث فرمائے گئے ہیں اور آپ کی رسالت عامہ ہے ، جیسا کہ سورہ فرقان کی پہلی آیت میں بیان ہوا کہ: تَبٰرَكَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰى عَبْدِهٖ لِیَكُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْرَ ﰳاۙ (۱) ترجمہ کنز العرفان : وہ ( اللہ ) بڑی برکت والا ہے جس نے اپنے بندے پر قرآن نازل فرمایا تا کہ وہ تمام جہان والوں کو ڈر سنانے والا ہو ۔ ( پ 18،فرقان : 1 )

اس لئے حضور پرنور صلی اللہ علیہ والہ وسلم قیامت تک ہونے والی ساری مخلوق کے شاہد ہیں اور ان کے اعمال ، افعال ، احوال ، تصدیق ، تکذیب ، ہدایت اور گمر اہی سب کا مشاہدہ فرماتے ہیں ۔ ( ابو سعود ، الاحزاب ، تحت الآیۃ : 45 ، 4 / 325 ، جمل ، الاحزاب ، تحت الآیۃ : 2،45 / 180 ، ملتقطاً )

حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم حاضر وناظر ہیں یا نہیں: اہلسنت کا یہ عقیدہ ہے کہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ والہ وسلم اللہ پاک کی عطا سے حاضر و ناظر ہیں اور یہ عقیدہ آیات ، احادیث اور بزرگان دین کے اقوال سے ثابت ہے ، یہاں پہلے ہم حاضر وناظر کے لغوی اور شرعی معنی بیان کرتے ہیں ، اس کے بعد ایک آیت ، ایک حدیث اور بزرگان دین کے اقوال میں سے ایک شخصیت کا قول ذکر کر یں گے ، چنانچہ حاضر کے لغوی معنی ہیں سامنے موجو د ہونا یعنی غائب نہ ہو نا اور ناظر کے کئی معنی ہیں جیسے دیکھنے والاء آنکھ کا تل ، نظر ، ناک کی رگ اور آنکھ کا پانی وغیرہ اور عالم میں حاضر و ناظر کے شرعی معنی یہ ہیں کہ قدسی قوت والا ایک ہی جگہ رہ کر تمام عالم کو اپنے ہاتھ کی ہتھیلی کی طرح دیکھے اور دور و قریب کی آواز کو سنے یا ایک آن میں تمام عالم کی سیر کرے اور سینکڑوں میل دور حاجت مندوں کی حاجت روائی کرے ۔ یہ رفتار خواہ روحانی ہو یا جسم مثالی کے ساتھ ہو یا اس جسم سے ہو جو قبر میں مدفون ہے یا کسی جگہ موجو د ہے ۔ ( جاءالحق ، حاضر و ناظر کی بحث ، ص 116 ، ملخصا )

قرآن مجید سے دلیل: سورہ احزاب کی آیت نمبر 6 میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے : " اَلنَّبِیُّ اَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ “ یعنی نبی کریم ( صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) مسلمانوں کے ان کی جانوں سے زیادہ قریب ہیں ۔ اور یہ بات ظاہر ہے کہ جو قریب ہو تا ہے وہ حاضر بھی ہو تا ہے اور ناظر بھی ۔

حدیث مبارک سے دلیل:حضرت عبد الله بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے ، تاجدار رسالت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ” اللہ پاک نے ساری دنیامیرے سامنے کر دی ہے ، لہذامیں ساری دنیا کو اور جو کچھ دنیا میں قیامت تک ہونے والا ہے سب کا سب یوں دیکھ رہا ہوں جیسے اس ہاتھ کی ہتھیلی کو دیکھ رہا ہوں ۔ ( کنز العمال ، کتاب الفضائل ، الباب الاول فی فضائل سید نا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ۔الخ ، الفصل الثالث ، 2 / 189 ، الحدیث : 31928 ، الجزء الحادی عشر )

بزرگوں کے قول سے دلیل: شاہ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اہل حق میں سے اس مسئلہ میں کسی ایک کا بھی اختلاف نہیں ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم اپنی حقیقی زندگی مہار کہ کے ساتھ دائم اور باقی ہیں اور امت کے احوال پر حاضر وناظر ہیں اور حقیقت کے طلبگاروں کو اور ان حضرات کو جو آپ کی طرف متوجہ ہیں ، ان کو فیض بھی پہنچاتے ہیں اور ان کی تربیت بھی فرماتے ہیں اور اس میں نہ تو مجاز کا شائبہ ہے نہ تاویل کا بلکہ تاویل کا وہم بھی نہیں ۔ ( مکتوبات شیخ مع اخبار الاخیار ، الرسالہ الثامنہ عشر سلوک اقرب السبل بالتوجه الى سيد الرسل صلی اللہ علیہ والہ وسلم ، ص 155 )

کیا اللہ پاک کو حاضر و ناظر کہہ سکتے ہیں ؟

یادر ہے کہ اللہ پاک کی عطا سے اس کے حبیب صلی اللہ علیہ والہ وسلم تو حاضر و ناظر ہیں جبکہ اللہ پاک کو حاضر و ناظر نہیں کہہ سکتے کیونکہ حاضر و ناظر کے جو لغوی اور حقیقی معنی ہیں وہ اللہ پاک کی شان کے لائق نہیں ۔ اعلی حضرت امام احمد رضاخان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : حاضر و ناظر کا اطلاق بھی باری عزوجل پر نہ کیا جائے گا ۔ علماء کرام کو اس کے اطلاق میں یہاں تک حاجت ہوئی کہ اس ( کا اطلاق کرنے والے ) پر سے نفی تکفیر فرمائی ۔ ( فتاوی رضویہ ، کتاب الشتی ، عروض و قوافی ، 29 /54)

دوسرے مقام پر فرماتے ہیں ’ ’ اسے ( یعنی اللہ پاک کو حاضر و ناظر بھی نہیں کہہ سکتے ، وہ شہید و بصیر ہے ، حاضر و ناظر اس کی عطا سے اس کے محبوب علیہ افضل الصلوۃ والسلام ہیں ۔ ( فتاوی رضویہ ، عقائد و کلام و دینیات ، 29 / 333 )

ومبشرا ونذيرا : اور خوشخبری دینے والا اور ڈر سنانے والا ۔ یہاں سید العالمین صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دو اوصاف بیان کئے گئے کہ اللہ پاک نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو ایمانداروں کو جنت کی خوشخبری دینے والا اور کافروں کو جہنم کے عذاب کا ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ۔ ( مدارک ، الاحزاب ، تحت الآیۃ : 45 ، ص :944 )

سراج اور منیر :اور چمکا دینے والا آفتاب ۔ یہاں سر کار و عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا یہ بھی وصف بیان فرمایا گیا کہ اللہ پاک نے آپ کو چمکا دینے والا آفتاب بنا کر بھیجا ۔ اس کے بارے میں صدر الافاضل مفتی نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : سراج کا تر جمہ آفتاب قرآن کریم کے بالکل مطابق ہے کہ اس میں آفتاب کو سراج فرمایا گیا ہے ، جیسا کہ سورۂ نوح میں ” وَّ جَعَلَ الشَّمْسَ سِرَاجًا(۱۶) “اور اور آخری پارہ کی پہلی سورت میں ہے ” وَّ جَعَلْنَا سِرَاجًا وَّهَّاجًاﭪ(۱۳) ‘ ‘ اور در حقیقت ہزاروں آفتابوں سے زیادہ روشنی آپ کے نور نبوت نے پہنچائی اور کفر و شرک کے ظلمات شدیدہ کو اپنے نور حقیقت افروز سے دور کر دیا اور خلق کے لئے معرفت و توحید الہی تک پہنچنے کی راہیں روشن اور واضح کر دیں اور ضلالت کی وادیِ تاریک میں راہ گم کرنے والوں کو اپنے انوارِ ہدایت سے راہ یاب فرمایا اور اپنے نورِنبوت سے ضمائر وبصائر اور قلوب و ارواح کو منور کیا ، حقیقت میں آپ کا وجود مبارک ایسا آفتاب عالم تاب ہے جس نے ہرارہا آفتاب بنا دیئے ، اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی صفت میں منیر ارشاد فرمایا گیا ۔ ( خزائن العرفان ، الاحزاب ، تحت الآیۃ : 42 ، ص :784 )

(7) نور: آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے ناموں میں سے ایک نام’’نور ‘ ہے۔اس کے معنی صاحب نور ما لک نور ہیں ۔ یعنی اس کا پیدا کر نے والا ہے یا آ سانوں اور زمین کو انوار کے ساتھ منور کر نے والا اور مؤمنین کے دلوں کو ہدایت کے ساتھ منور کرنے والا مراد ہے ۔

یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ قَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلُنَا یُبَیِّنُ لَكُمْ كَثِیْرًا مِّمَّا كُنْتُمْ تُخْفُوْنَ مِنَ الْكِتٰبِ وَ یَعْفُوْا عَنْ كَثِیْرٍ ﱟ قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّ كِتٰبٌ مُّبِیْنٌۙ(۱۵) ترجمۂ کنز العرفان :اے اہلِ کتاب! بیشک تمہارے پاس ہمارے رسول تشریف لائے، وہ تم پر بہت سی وہ چیزیں ظاہر فرماتے ہیں جو تم نے (اللہ کی) کتاب سے چھپا ڈالی تھیں اور بہت سی معاف فرما دیتے ہیں ،بیشک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور آگیا اور ایک روشن کتاب۔ (پ 6،مائدہ:15)

نور سے مراد:قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّ كِتٰبٌ مُّبِیْنٌۙ(۱۵)ترجمہ کنزالعرفان: بیشک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور آگیا اور ایک روشن کتاب۔(پ 6،المائدہ:15)

اس آیت مبار کہ میں نور سے کیا مراد ہے اس بارے میں مختلف اقوال ہیں ، ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد سر کار دوعالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ذات ہے ۔ اور فقیہ ابو اللیث سمر قندی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” وھو محمد صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم والقر آن “ یعنی نور سے مراد محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور قرآن ہیں ۔ ( سمر قندی ، المائدۃ ، تحت الآیۃ : 1،15 / 424 )

علامہ خازن رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ” یعنی محمد اصلی اللہ علیہ والہ وسلم “ یعنی نور سے مراد محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہیں اللہ پاک نے آپ کو نور اس لئے فرمایا کہ جس طرح اندھیرے میں نور کے ذریعے ہدایت حاصل ہوتی ہے اس طرح آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ذریعے بھی ہدایت حاصل ہوتی ہے ۔ ( خازن ، المائدۃ ، تحت الآیۃ : 1،15 / 477 )

(8) کریم: اللہ پاک کے ناموں میں’’الکریم “ بھی ہے ۔ اس کے معنی بہت سی بھلائی کر نے والا ۔ بعض نے کہا کہ احسان کر نے والا ۔ بعض نے کہا کہ معاف کرنے والا ۔ بعض نے کہا کہ اس کے معنی بلند کے ہیں اور اللہ پاک کے اسماء کے بیان میں جوحدیث ہے اس میں الاکرم ہے ۔ اللہ پاک نے آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کا نام بھی کریم رکھا ۔ جیسا کہ فرمایا : اِنَّهٗ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ كَرِیْمٍۙ(۱۹) ترجَمۂ کنزُالایمان:بیشک یہ عزت والے رسول کا پڑھنا ہے ۔ ( پ 30،تکویر:19)

ایک روایت میں ہے کہ اس سے مرادحضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم ہیں ۔ یہ بھی کہا گیا کہ اس سے جیریل علیہ السلام مراد ہے حضور اکرم نے فرمایا: انا اکرم ولد آدم یعنی میں اولاد آدم میں سب سے زیادہ مکرم ہوں ۔ اور کریم واکرام کے معنی حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے حق میں صحیح ہیں ۔

(9) العظیم: اللہ پاک کے ناموں میں ایک نام’العظیم “ ہے۔اس کے معنی ایسا بڑی شان والا کہ اس کے سواہر چیز کم ہو اور اللہ پاک نے حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے لئے ارشادفرمایا :

وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ(۴) ترجَمۂ کنزُالایمان: بیشک تمہاری خو بو ( خلق ) بڑی شان کی ہے ۔ (پ 29،قلم:4)

اور توریت کے حصہ اول میں حضرت اسماعیل علیہ السلام سے مروی ہے کہ عنقریب ایک عظیم فرزندامت عظیمہ کے لئے پیدا ہوگا ۔ وہ عظیم ہوگا اور بڑے خلق پر ہوگا ۔

(10) الجبار: اللہ پاک کے ناموں میں ایک نام الجبار “ ہے۔اس کے معنی اصلاح کر نے والا ہے ۔ ایک روایت میں ہے کہ قاہر اور ایک روایت میں بلند بڑی شان والے کے معنی بیان کئے ہیں ۔ کہا گیا کہ متکبراس کے معنی ہیں ۔ حضرت داؤد علیہ السلام کی کتاب زبور میں نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کا نام’جبار ‘ رکھا۔انہوں نے کہا : اے جبار ! آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم اپنی تلوارلٹکائے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی ناموس ( عزت ) اور آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی شریعت آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے تصرف کے دبدبہ کے ساتھ ملی ہوئی ہے ۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے حق میں اس کے معنی یا تو ہدایت تعلیم کے ساتھ اپنی امت کی اصلاح فرمانا یا اپنے دشمنوں پر قہرفر مانا ۔

اہم بات:یہ ہمارے آخری نبی کریم احمدِ مجتبیٰ محمدِ مصطفٰی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دس ناموں کے بارے میں کچھ معلومات ہے اور اگر آپ اس بارے میں اور مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو آپ کتاب :الشفاء،صراط الجنان اور اس کے علاوہ اور دیگر علماء اہلسنت کی کتب کا مطالعہ فرمائیں ۔اور میرے لئے دعا کرنا حضور اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کی اور باعمل عالم بننے کی اور اگر اس میں کوئی مجھ سے غلطی ہوگی تو میرے اصلاح فرمائیں۔ ان شاءاللہ مجھے دعاؤں سے شکر کرتا پائیں گے۔


ایک روز سرورِ عالَم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے بارگاہِ الہٰی میں عرض کی:اے اللہ ! پاک،تو نے حضرت ابراہیم علیہ السّلام کو اپنا خلیل ہونے کا شرف عطا فرمایا،حضرت موسیٰ علیہ السّلام کو اپنے ساتھ کلام کرنے سے سرفراز کیا،حضرت ادریس علیہ السّلام کو بلند مکان جنت تک رسائی دی،پہاڑوں اور لوہے کو حضرت داؤد علیہ السّلام کا فرمانبردار کر دیا،جِنّات،انسان اور تمام حیوانات حضرت سلیمان علیہ السّلام کے تابع کر دئیے، تومجھے کس شرف اور کرامت سے خاص فرمایا ہے؟اس پر یہ سورت نازل ہوئی جس میں گویا کہ ارشاد فرمایا گیا ’’اے حبیب! صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم ، اگر ہم نے حضرت ابراہیم علیہ السّلام کواپنا خلیل بنایا ہے تو آپ کی خاطر ہم نے آپ کا سینہ علم و حکمت اور معرفت کے نور سے کھول دیا تاکہ مُناجات کی لذّت،امت کا غم،اپنی بارگاہ میں حاضری کا ذوق اور آخرت کے گھر کا شوق آپ کے دل میں سما جائے،آسمانی وحی کو اٹھانا آپ کے دل پر آسان ہو جائے، اللہ پاک کی طرف رغبت دینے کی تبلیغ کرنے پر آنے والے مَصائب کو برداشت کر سکے اور ان خوبیوں اور کرامتوں کی بدولت آپ کو وہ مقام حاصل ہو کہ حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے خلیل ہونے کو اس سے کچھ نسبت نہ رہے اور اگر ہم نے حضرت موسیٰ علیہ السّلام کو اپنے ساتھ ہم کلام ہونے کا شرف عطا کیا اور حضرت ادریس علیہ السّلام کو بلند مکان تک رسائی عطا کی ہے تو آپ کو اس غم سے نجات دی جو آپ کی پُشت پر بہت بھاری تھا اور آپ کو لامکاں میں بلا کر اپنے دیدار سے مشرف کیا یہاں تک کہ ہم میں اور آپ میں (ہماری شایانِ شان)دو کمانوں کے برابر بلکہ ا س سے بھی کم فاصلہ رہ گیا اور آسمانوں کی پوری سلطنت میں آپ کی قربت اور منزلت کا شہرہ ہو گیا۔اگر ہم نے حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہما السّلام کو دنیا کی چند چیزوں پر حکومت بخشی ہے تو آپ کو عالَمِ عُلْوی یعنی آسمانوں پر قدرت دی ہے کہ وہاں کے فرشتے خادموں کی طرح آپ کی بارگاہ میں حاضر رہتے ہیں اور آپ کے سپاہیوں کی طرح آپ کے دشمنوں سے لڑتے ہیں اور آسمانوں میں کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو آپ کی نبوت و رسالت سے واقف نہ ہو اور آپ کے حکم سے اِنحراف کرے۔( روح البیان، الم نشرح، تحت الآیۃ: 11، 10 / 465، الکلام الاوضح فی تفسیر الم نشرح، ص14، ملتقطاً)

اللہ پاک کے حبیب صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی شان بیان کرتے ہوئے اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں :

اصالتِ کُل، امامتِ کل، سیادتِ کل، امارتِ کل

حکومتِ کل ،ولایتِ کل ،خدا کے یہاں تمہارے لئے

فرشتے خِدَم رسول حِشم تمامِ امم غُلامِ کرم

وجود و عدم حدوث و قِدم جہاں میں عیاں تمہارے لئے

یہ طور کجا سپہر تو کیا کہ عرشِ عُلا بھی دور رہا

جہت سے ورا وصال ملا یہ رفعتِ شاں تمہارے لئے

مفتی نعیم الدین مراد آبادی رحمۃُ اللہِ علیہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں ’’یعنی اے حبیب! صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم ، ہم نے آپ کی خاطر آپ کے سینۂ اقدس کو ہدایت ، معرفت،نصیحت، نبوت اور علم وحکمت کے لئے کشادہ اور وسیع کر دیا یہاں تک کہ عالَمِ غیب اور عالَمِ شہادت اس کی وسعت میں سما گئے اور جسمانی تعلقات روحانی اَنوار کے لئے مانع نہ ہوسکے اور علومِ لدُنّیہ ، حکمِ الہٰیہ ، معارفِ ربّانیہ اور حقائقِ رحمانیہ آپ کے سینۂ پاک میں جلوہ نُما ہوئے۔ بعض مفسرین کے نزدیک اس آیت میں ظاہری طور پر سینۂ مبارک کا کھلنا مراد ہے ۔اَحادیث میں مذکور ہے کہ ظاہری طور پر نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے سینۂ مبارک کا کھلنا بھی بار ہا ہوا ،جیسے عمر مبارک کی ابتداء میں سینۂ اَقدس کھلا ، نزولِ وحی کی ابتداء کے وقت اور شبِ معراج سینہ مبارک کھلا اور اس کی شکل یہ تھی کہ حضرت جبریل امین عَلَیْہِ السَّلَام نے سینۂ پاک کو چاک کرکے قلب مبارک نکالا اور زریں طَشت میں آبِ زمزم سے غسل دیا اور نور و حکمت سے بھر کر اس کو اس کی جگہ پر رکھ دیا۔(خزائن العرفان، الم نشرح ، تحت الآیۃ:1، ص 1110، خازن ، الم نشرح ، تحت الآیۃ: 1، 4 / 388، روح البیان، الم نشرح ، تحت الآیۃ:1، 10 / 461-462، ملتقطاً)

آیت ’’ اَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَۙ(۱)‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:

اس سے دو باتیں معلوم ہوئیں :

(1)دنیا کی حقارت اور آخرت کے کمال کے علم سے سینے کا کھل جانااللہ پاک کی بہت بڑی نعمت ہے۔ایک اور مقام پر اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: فَمَنْ یُّرِدِ اللّٰهُ اَنْ یَّهْدِیَهٗ یَشْرَحْ صَدْرَهٗ لِلْاِسْلَامِۚ-وَ مَنْ یُّرِدْ اَنْ یُّضِلَّهٗ یَجْعَلْ صَدْرَهٗ ضَیِّقًا حَرَجًا كَاَنَّمَا یَصَّعَّدُ فِی السَّمَآءِؕ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جسے اللہ ہدایت دینا چاہتا ہے تو اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے اور جسے گمراہ کرنا چاہتا ہے اس کا سینہ تنگ ،بہت ہی تنگ کردیتا ہے گویا کہ وہ زبردستی آسمان پر چڑھ رہا ہے۔(پ 8،انعام:125)

اورحضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ’’ تاجدارِ رسالت صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی تو صحابہ ٔکرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی: اس کھولنے سے کیا مراد ہے؟ارشاد فرمایا:’’ اس سے مراد وہ نور ہے جو مؤمن کے دل میں ڈالا جاتا ہے جس سے اس کا دل کھل جاتا ہے۔عرض کی گئی: کیا اس کی کوئی نشانی ہے جس سے اس کی پہچان ہو سکے؟ارشاد فرمایا:’’ہاں ،(ا س کی تین علامتیں ہیں )(1)آخرت کی طرف رغبت(2) دنیا سے نفرت ، اور(3) موت سے پہلے آخرت کی تیاری۔( مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الزہد، ما ذکر عن نبیّنا صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی الزہد ، 8 / 126، الحدیث: 14)

(2) حضورِ اَقدس صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم اللہ پاک کے ایسے حبیب ہیں کہ اللہ پاک نے بن مانگے ان کا مقدس سینہ ہدایت اور معرفت کے لئے کھول کر انہیں یہ نعمت عطا کر دی۔

پیارےپیارے اسلامی بھائیوں! اس سے معلوم ہوا کہ حضورپاک صاحب لولاک صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا اللہ پاک کے ہاں کتنا بلندمرتبہ ہے اوراس سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ اگر ہم حضورصلی اللہ علیہ وسلم کا نام مبارک لیکراللہ پاک سے مانگیں گے توان شاءاللہ الکریم عطافرمائے گا۔

10 مشہوراسمائے مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ذیل میں ہیں :

( 1)یامؤمن:جو115بارپڑھ کراپنے اوپردم کردے گاان شاءاللہ الکریم تندرستی پائے گا۔

(2 )یاعزیز:41بارحاکم یاافسروغیرہ کےپاس جانے سے قبل پڑھ لیجیئے ان شاءاللہ الکریم وہ حاکم یاافسرمہربان ہوجائے گا۔

(3 )یارحیم :جوکوئی ہرروز 500بارپڑھے گاان شاءاللہ الکریم دولت پائے گااورمخلوق اس پرمہربان اورشفیق ہوگی ۔

(4 )یاکریم :اگراپنے بسترمیں اس کوپڑھتے سوجائےتوفرشتےاس کےلئےدعاکریں گے۔ان شاءاللہ الکریم ۔

(5 )یاحکیم :80بارجوروزانہ پانچوں نمازوں کےبعدپڑھ لیاکرے۔ان شاءاللہ الکریم کسی کامختاج نہ ہوگا۔

(6 )یاشھید:21بارصبح (طلوع آفتاب سے پہلےپہلے )نافرمان بچی یابچےکی پیشانی پرہاتھ رکھ کرآسمان کی طرف منہ کرکےجوپڑھے ان شاءاللہ الکریم اس کابچہ یابچی نیک بنے ۔

(7 )یاقوی :اگرجمعہ کی دوسری ساعت میں بہت پڑھے گا ان شاءاللہ الکریم نسیان (یعنی بھولنے کامرض )جاتارہے گا۔

(8 )یاظاہر:گھرکی دیوار پرلکھ لیجیئے ان شاءاللہ الکریم دیوار سلامت رہے گی ۔

(9 )یاباطن : جوکسی کوامانت سونپے یازمین میں دفن کرے توالباطن لکھ کراس شے کےساتھ رکھ دے ان شاءاللہ الکریم کوئی اس میں خیانت نہ کرے گا۔

(10 )یارءوف:10بارکسی مظلوم کاکسی ظالم سے پیچھا چھڑاناچاہے پڑھےپھر اس ظالم سے بات کرےان شاء اللہ الکریم وہ ظالم اس کی سفارش قبول کرے گا۔

(11)یارشید:جوشخص کسی کام کی تدبیر نہ جانتاہووہ مغرب اورعشاء کے درمیان 1000بارپڑھے ان شاءاللہ الکریم تدبیر اس کے دل میں آجائے گی ۔

اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ حدائق بخشش میں لکھتے ہیں:

غمزدوں کو رضاؔ مژدہ دیجے کہ ہے بیکسوں کا سہارا ہمارا نبی ۔صلی اللہ علیہ وسلم


   نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت سے نام ہیں لیکن دو نام محمد اور احمد آپ کے ذاتی اور باقی صفاتی کہلاتے ہیں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ تمام اسمائے گرامی عظیم برکتوں اور خصوصیتوں والے ہیں اور اللہ پاک نے ہر نام کی جدا تاثیر اور انقلاب انگیزی رکھی ہیں۔علامہ قسطلانی نے لکھا ہے کہ آپ کے بہت نام اور القاب قرن و حدیث میں آئے ہیں ۔مختلف علماء نے الگ الگ تعداد بتائی ہے بعض نے اللہ پاک کے ناموں کے برابر 99 بتائیں ہیں۔

اب تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مکرم نام محمد سے پانچ اسمائے نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم ذکر کرتا ہوں ۔

(1) اسم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ پاک نے فرمایا: مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِؕ ترجَمۂ کنزُالایمان:محمد اللہ کے رسول ہیں ۔ (پ 26،الفتح:29) اور فرمایا : وَ  مَا  مُحَمَّدٌ  اِلَّا  رَسُوْلٌۚ ترجمہ کنزالایمان: اور محمد تو ایک رسول ہیں۔(پ 4،آل عمران:144)

یہ اسم گرامی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےتمام اسماء سے مشہور تر اور عظیم تر ہے حضرت قاضی عیاض نبی پاک صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے محمد اور احمد کے متعلق فرماتے ہیں یہ دونوں نام آپ کے انوکھے اور معجزات اور تعجب انگیز خصائص میں سے ہیں اللہ پاک نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے سے قبل کسی کو اس نام کے ساتھ موسوم نہیں کیا یہ نام کتب سابقہ میں تھا اور اس کے ساتھ انبیاء کرام کو بشارت دی گئی۔(شرح اسمائے نبی ص48 )

(2) احمد : اللہ پاک قرآن پاک میں فرماتا ہے : یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْكُمْ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرٰىةِ وَ مُبَشِّرًۢا بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْۢ بَعْدِی اسْمُهٗۤ اَحْمَدُؕ ترجمۂ کنزالعرفان : اے بنی اسرائیل! میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں ، اپنے سے پہلی کتاب تورات کی تصدیق کرنے والا ہوں اور اس عظیم رسول کی بشارت دینے والا ہوں جو میرے بعد تشریف لائیں گے ان کا نام احمد ہے ۔(پ 28،الصف:6)

حضرت محمد بن علی حضرت علی سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا: مجھے وہ کچھ عطا کیا گیا جو مجھ سے پہلے کسی کو عطا نہیں کیا گیا۔ ہم نے عرض کی یارسول اللہ وہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: رعب سے میری مدد کی گئی ،مجھے زمین کی کنجیاں عطا فرمائی گئی اور میرا نام احمد رکھا گیا اور میرے لئے مٹی کو پاک کرنے والی بنائی گئی اور میری امت کو تمام امتوں سے افضل بنایا گیا ۔(مسند احمد )

(3) الاصدق :اصل لغت میں صدق کا اطلاق قوت پر ہوتا ہے ۔صدق اس نیزے کو کہا جاتا ہے جو زخم پہچانے کی خوب قوت اور نشانے میں اچھی طرح پیوست ہو نے کی صلاحیت رکھتا ہو۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ نہ کوئی قوی ہے اور نہ ہی آپ سے زیادہ کوئی حق پر ثابت قدم آ پ سب سے زیادہ قوی اور حق پر ثابت قدم ہیں اس لئے آپ کا نام اصدق ہیں ۔

(4)الاحسن :اس نام مبارک کا تذکرہ حضرت ابو حفص نے اپنی تفسیر میں کیا ہے اس پر دلیل اللہ پاک کا یہ فرمان لائے ہیں کہ :وَ مَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَاۤ اِلَى اللّٰهِ وَ عَمِلَ صَالِحًا وَّ قَالَ اِنَّنِیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ(۳۳) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اس سے زیادہ کس کی بات اچھی جو اللہ کی طرف بلائے اور نیکی کرے اور کہے میں مسلمان ہوں ۔(پ 24،حم سجدہ:33)

حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں سب سے زیادہ حسن والے تھے اور سب سے زیادہ جود و عطا والے تھے اور سب سے زیادہ شجاع و بہادری والے تھے۔(شرح السنہ،13/258)

(5) الاجود:حضرت انس فرماتے ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ کیا میں تمہیں یہ نہ بتاؤں کہ سب سے زیادہ سخی کون ہے ؟ پھر خود ہی فرمایا: اللہ پاک سب سے زیادہ اجود ہے پھر اولاد آدم میں سب سے زیادہ سخی میں ہوں ۔(مجمع الزوائد )

امام ترمذی نے حضرت علی سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سب لوگوں سے بڑھ کر سخی تھے ۔(مسند احمد، 341)

(6) الابر:ہر خیر و بھلائی کے لئے جامع کلمہ ہے اور بر کا اطلاق صدق پر بھی کیا جاتا ہے حدیث پاک میں ہے کہ :انسان ہمیشہ سچ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ کے ہاں اس کو صادق لکھا جاتا ہے اور انسان ہمیشہ جھوٹ بولتا رہتا ہے حتی کہ اس کو کاذب لکھا جاتا ہے ۔(فتح الباری شرح البخاری)

(7)اشجع الناس :حضرت انس سے روایت ہے فرماتے ہے کہ نبی پاک تمام لوگوں سے زیادہ حسین، سچی اور بہارد تھے ۔(البخاری 7/16 )

(8) آخذ الصدقات :اس اسم پاک کو ابن دحیہ نے اللہ کے ارشاد سے فرمایا کہ: خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَ تُزَكِّیْهِمْ بِهَا ترجَمۂ کنزُالایمان: اے محبوب ان کے مال میں سے زکوٰۃ تحصیل(وصول) کرو جس سے تم انھیں ستھرا اور پاکیزہ کردو ۔(پ 11،التوبہ : 103)

اور حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم مالک نصاب لوگوں سے زکوٰۃ وصول فرما کر اس کے مصارف میں تقسیم فرماتے تھے جیسا کہ معلوم و معروف ہیں۔

(9) الاعلیٰ :رسول پاک کے اس اسم گرامی کا تذکرہ علامہ نسفی نے اس مقام پر کیا ہے کہ جہاں انہوں نے بیان کیا کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ واٰ لہ وسلم کو اللہ پاک نے اپنے بہت سارے ناموں کے ساتھ موسوم کیا ہے ۔

اس پر دلیل قرآن پاک کی یہ آیت پیش کی : وَ هُوَ بِالْاُفُقِ الْاَعْلٰىؕ(۷)ترجَمۂ کنزُالایمان:اور وہ آسمان بریں کے سب سے بلند کنارہ پر تھا ۔(پ 27،نجم : 7)

(10) الاکرم:رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے اس اسم پاک کا تذکرہ ابن دحیہ نے فرمایا اور انہوں نے امام دارمی کی اس حدیث سے اخذ کیا جو انہوں نے حضرت انس سے روایت کی ہے وہ فرماتے ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : میں قیامت کے روز انبیاء میں سب سے پہلے مرقد انور سے باہر نکلوں گا اور جب وہ اللہ کے حضور حاضر ہونگے تو میں ان کا قائد ہوں گا میں ان کا خطیب ہو گا اور جب وہ روک دیئے جائینگے تو میں ان کی سفارش کروں گااور جب وہ مایوس ہونگے تو میں ان کی مغفرت کی خوشخبری سناؤں گا۔(الدارمی 1/62)


اللہ پاک نے قرآن پاک میں بے شمار مقامات پر حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی شان اور صفات بیان فرمائیں ۔جس طرح حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی صفات بے شمار ہیں اسی طرح شاہِ بنی آدم حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے اسماء مبارکہ بھی قرآن پاک میں بظاہر بے شمار ہیں چناچہ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:میرے بہت نام ہیں ۔

حضرت جبیر بن مطعم سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ میرے بہت نام ہیں میں محمد ہوں ،میں احمد ہوں،محو کرنے والا ہوں کہ اللہ میرے ذریعے کفر محو فرمائے گا اور میں جامع ہوں کہ لوگ میرے قدموں پر جمع کیے جائیں گے اور میں عاقب ہوں عاقب وہ جس کے بعد کوئی نبی نہیں۔ (مشکوٰة المصابیح ، 8 / 52 حدیث : 5522)

اللہ پاک نے جو قرآن پاک میں حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے نام بیان فرمائے ان میں سے بعض یہ ہیں :

(1) خاتمُ النبیّن ( سب نبیوں سے پچھلے ) ۔(پ 22، احزاب :40)

(2) رحمةُللعٰلمین (سارے جہان کے لیے رحمت ) ۔(پ 17،الانبیاء:107)

(3) شاھدُ (حاضر و ناظر) ۔(پ 26،الفتح:8)

(4) مبشّر (خو شخبری دینے والا) ۔(پ 26،الفتح:8)

(5)نذیرُ (ڈرسنا نے والا) ۔(پ 26،الفتح:8)

(6) مزّمل (جھرمٹ مارنے والا)۔(پ 29، مزمل :1)

(7)مدّثر (بالا پوش اوڑھنے والا)۔(پ 29، المدثر :1)

(8) احمدُ (وہ حمد والا ہوا)۔(پ 28، الصف :6)

(9) رسول ُاللہ (اللہ کے رسول )۔(پ 22، احزاب :40)

(10) نورُ (نورانیت والے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم) ۔(پ 6،المائدہ:15)


اسمائے مصطفٰی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے مراد وہ اسماء جن کے ذریعے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کو پکارا گیا ہو۔ اسمائے مصطفی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی تعداد معیّن نہیں۔ جیسا کہ علامہ قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ: آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے بہت سے نام اور القاب قرآن و حدیث میں آئے ہیں ، مختلف علماء نے الگ الگ تعداد بتائی ہے بعض نے اللہ پاک کے ناموں کے برابر تعداد بتائی ہے اوربعض نے لکھا ہے کہ اگر قرآن و حدیث اور کتابوں کو تلاش کیا جائے تو آپ کے ناموں کی کل تعداد تین سو تک پہنچتی ہے۔( المواہب اللدنیہ،1/14 ،بیروت)

اور مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حق یہ ہے کہ اللہ پاک کے نام بھی ایک ہزار ہیں اور حضورِ انور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے نام بھی ایک ہزار ہیں۔(مرأةالمناجیح، ج1، باب اسماء النبی و صفاتہ)

حضور نبی کریم سید دو عالم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے اسمائے مبارکہ بے شمار اور ہر نامِ نامی اسمِ گرامی عظیم برکتوں اور عظمتوں کا حامل ہے۔ بہت سے اسماء قرآنِ مجید فرقانِ حمید میں مذکور ہیں، جن میں سے دس اسمائے مبارکہ مندرجہ ذیل ہیں:

(1) مُحَمَّد : تعریف کیا ہوا(پ 26، محمد:2)

(2) أَحمَد : بہت ثنا کرنے والا (پ 28، سورةالصف:6)

(3) شَاھِد : گواہ (پ 22، سورةالاحزاب:45)

(4) بَشِیر : خوشخبری دینے والا(پ 1، سورةالبقرة:119)

(5) نَذِیر : ڈر کی خبریں دینے والا(پ 1، سورةالبقرة:119)

(6) دَاعٍ : دعوت دینے والا/بلانے والا(پ 22، سورةالحزاب:46)

(7) مُدَّثِّر : چادر اوڑھنے والا (پ 29، سورةالمدثر:1)

(8) مُزَّمِّل :جھرمٹ مارنے والا/چادر اوڑھنے والا(پ 29، سورةالمزمل:1)

(9) سِرَاج : آفتاب (پ 22، سورةالاحزاب:46)

(10) خَاتَمَ النَّبِیِّنَ : سب نبیوں کے آخر میں تشریف لانے والا۔(پ 22، سورةالاحزاب:40)

ان اسماء میں سے پہلے دو ” مُحَمَّد “ اور ” أَحمَد “ حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے ذاتی نام ہیں اور ان دونوں کے علاوہ دیگر جتنے بھی اسماء ہیں وہ سب صفاتی نام ہیں۔

اللہ پاک ہمیں اسمائے مصطفی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کو یاد کرنے اور پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان اسمائے مبارکہ کی برکتیں اور رحمتیں حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

اٰمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم


علماء کرام نے بیان کیا ہے کہ اسماء النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کثرت مسمی کی عظمت و رفعت کی دلیل ہے کیونکہ ایسا مسمی کی ذات اور اس کی شان کی اہمیت کے پیش نظر ہوتا ہے۔ ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ نے عارضۃ الاحوزی میں فرمایا کہ اللہ پاک نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم   کو اپنی صفات کا مظہر بنایا ہے اور ان اکی اسماء تعداد اپنے اسماء کی تعداد برابر رکھی جب شئی عظیم ہوتی ہے تو اس کے اسماء بھی عظیم بن جاتے ہیں۔

امام ابو بکر بن عربی نے ترمذی کی شرح میں بتایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ہزار اسماء گرامی ہیں جن بعض قرآن وحدیث میں وارد ہیں ان میں سے 10 اسماء مصطفیٰ صلی اللہ علیہِ وسلم پیش کرتا ہوں ۔

(1) اسم( محمد)صلی اللہ علیہ و سلم:اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ ترجمہ کنزالعرفان: محمد تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے آخر میں تشریف لانے والے ہیں ۔(پ 22،الاحزاب:40)

یہ اسم گرامی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تمام اسماء سے مشہور تر اور عظیم تر ہے حضرت محمد بن جبیر بن مطعم آپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا کہ میرے کئی نام ہیں میں محمد ہوں، احمد ہوں اور ماحی ہوں اللہ پاک میری وجہ سے کفر کو مٹائے گا اور میں حاشر ہوں کہ لوگ میرے قدموں پر گریں گے اور میں عاقب ہوں کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔(صحیح مسلم ،2/ 261 )

(2) البر:تمام جہانوں سے نیک: بر کے لفظ کا سچی بات پر اطلاق ہوتا ہے حدیث میں آتا ہے انسان ہمیشہ سچ بولتا رہتا ہے حتی کہ اللہ کے نزدیک بارا( یعنی سچ بولنے والا) لکھ دیا جاتا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم زیادہ لائق ہیں کہ آپ سب سے زیادہ نیک ہیں سب سے سچے ہیں اور سب سے زیادہ احسان کرنے والے ہیں ۔(شرح المواھب الدنیہ للرزقانی ، 3 / 119 )

(3) ابلج :سفید رنگ والے :حضرت ام معبد رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ میں نے ایک ایسے انسان کو دیکھا جس کے چہرہ انور پر رونق تھی حسن کے پیکر تھے ۔( المستدرک للحاکم ،3 / 9 )

حضرت ام معبد رضی اللہ عنہا کی حدیث میں جو حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی صفت میں ابلج الوجہ کا لفظ آیا ہے اس کا معنی ہے چمکدار چہرہ ۔

(4) اجود الناس :تمام جہان سے سخی :حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا: میں تمہیں بتا دوں بڑا سخی کون ہے سب سے بڑا اجود اللہ ہے اور آدم کی اولاد میں سب سے زیادہ سخی میں ہوں۔(شرح المواھب اللدنیۃ للرزقانی ،3 / 120 )

(5) احب الناس :تمام لوگوں سے پیارے :حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی ایمان دار اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے ماں باپ اور اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ پیارا نہ ہوجاؤں۔(صحیح بخاری ، 1 / 7 ،صحیح مسلم ، 1 / 49 )

(6) الاحد :تمام جہان میں منفرد :حضرت حلیمی رضی اللہ عنہ نے کہا ہے کہ الاحد وہ ہے جس کے مشابہ کوئی دوسرا نہ ہو اور نہ اس کی مثل کوئی دوسرا ۔(کتاب الاسماء واصفات : 23 )

(7) الازكي :بہت پاکیزہ : كَمَاۤ اَرْسَلْنَا فِیْكُمْ رَسُوْلًا مِّنْكُمْ یَتْلُوْا عَلَیْكُمْ اٰیٰتِنَا وَ یُزَكِّیْكُمْ وَ یُعَلِّمُكُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ یُعَلِّمُكُمْ مَّا لَمْ تَكُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَؕۛ(۱۵۱) ترجمہ کنزالعرفان : جیساکہ ہم نے تمہارے درمیان تم میں سے ایک رسول بھیجاجو تم پر ہماری آیتیں تلاوت فرماتا ہے اور تمہیں پاک کرتا اور تمہیں کتاب اور پختہ علم سکھاتا ہے اور تمہیں وہ تعلیم فرماتا ہے جو تمہیں معلوم نہیں تھا ۔(پ 2، البقرہ : 151)

(8) الاسد :کمال استقامت والے :فَاسْتَقِمْ كَمَاۤ اُمِرْتَ وَ مَنْ تَابَ مَعَكَ وَ لَا تَطْغَوْاؕ ترجمہ کنزالعرفان : تو تم ثابت قدم رہو جیسا کہ تمہیں حکم دیا گیا۔(پ 12، ھود : 112 )

(9) اشد الناس حیاء :تمام مخلوق میں سے سخت حیاء کرنے والے :اِنَّ ذٰلِكُمْ كَانَ یُؤْذِی النَّبِیَّ فَیَسْتَحْیٖ مِنْكُمْ٘ ترجمہ کنزالعرفان: بیشک یہ بات نبی کو ایذادیتی تھی تو وہ تمہارا لحاظ فرماتے تھے۔(پ 22، احزاب : 53 )

اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام لوگوں سے زیادہ حیا والے تھے کبھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی کی طرف نگاہ اٹھا کر نہیں دیکھا۔(احیاالعلوم ،2 / 355 )

(10) اخرایا :آخری نبی : یہ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کا اسم گرامی انجیلِ میں ہے جس کا معنی آخری نبی ہیں مصنف ابن ابی شیبہ رحمۃاللہ علیہ میں حضرت مصعب بن سعد رضی اللہ عنہما سے روایت ہے وہ کعب الاحبار سے بیان کرتے ہے کہ پہلا شخص جو جنت کے کنڈے کو تھامے گا تو جنت کا دروازہ اس کے لئے کھول دیا جائےگا وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم ہیں پھر انہوں نے تورات کی آیت پڑھی کہ وہ آخری نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو پہلے اور پچھلوں کے سردار ہیں۔(شرح المواھب الدنیہ للرزقانی ، 3 / 120)


اللہ پاک نے اپنے حبیب احمد مجتبیٰ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان خصائص و امتیازات و کمالات و معجزات سے نوازا جو کائنات میں کسی دوسرے نبی یا رسول کو عطا نہیں کئے گئے۔ قرآن پاک کا لفظ لفظ ذکر مصطفی کے بلند کئے جانے پر دلالت کرتا ہے۔ قرآن پاک میں حضور علیہ الصلوٰۃ السلام کے دو ذاتی نام بیان ہوئے اور متعدد صفاتی نام مذکور ہیں جن میں سے 10 اسمائے مصطفیٰ اس مختصر تحریر میں لکھے گئے ہیں۔

(1)محمد صلی اللہ علیہ وسلم:لفظ محمد کا معنی بیان کرتے امام راغب الاصفہانی لکھتے ہیں محمد اسے کہتے ہیں جس کی قابل تعریف عادات حد اور شمار سے زیادہ ہوں۔(المفردات في غريب القرآن ،ص:256)

آیت مبارکہ: وَ  مَا  مُحَمَّدٌ  اِلَّا  رَسُوْلٌۚ ترجمہ کنزالایمان: اور محمد تو ایک رسول ہیں۔(پ 4،آل عمران:144)

امام حلبی روایت کرتے ہیں حضور علیہ الصلوۃ و السلام نے فرمایا اللہ پاک نے فرمایا:مجھے اپنی عزت اور بزرگی کی قسم میں کسی ایسے شخص کو آگ کا عذاب نہیں دوں گا جس کا نام آپ کے نام پر ہوگا۔

امام حلبی فرماتے ہیں اس سے مراد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مشہور نام یعنی محمد یا احمد مراد ہے۔(السيرة الحلبيہ إنسان العيون في سيرة الأمين المأمون،1/121)

(2)حضور کا نام احمد صلی اللہ علیہ وسلم:لفظ احمد کا معنی بیان کرتے ہوئے امام قاضی عیاض لکھتے ہیں اللہ پاک کی بہت زیادہ یا سب سے زیادہ حمد کرنے والا۔( الشفا بتعريف حقوق المصطفى وحاشيہ الشمني، 1/229)

آیت مبارکہ:یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْكُمْ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرٰىةِ وَ مُبَشِّرًۢا بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْۢ بَعْدِی اسْمُهٗۤ اَحْمَدُؕ ترجمۂ کنزالعرفان : اے بنی اسرائیل! میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں ، اپنے سے پہلی کتاب تورات کی تصدیق کرنے والا ہوں اور اس عظیم رسول کی بشارت دینے والا ہوں جو میرے بعد تشریف لائیں گے ان کا نام احمد ہے ۔(پ 28،الصف:6)

نامِ احمد پر حدیث مبارکہ:حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مجھے کچھ چیزیں ایسی دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! وہ کیا چیزیں ہیں؟ فرمایا: میری مدد رعب کے ذریعے کی گئی ہے، مجھے زمین کے خزانے دئیے گئے ہیں، میرا نام احمد رکھا گیا، مٹی کو میرے لئے پانی کی طرح پاک کرنے والا قرار دیا گیا ہے اور میری امت کو بہترین امت کا خطاب دیا گیا ہے۔( مسند احمد ، 2/156)

(3)خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم:خاتم النبیین کا معنی آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس پر آیت و حدیث مبارکہ آگے آرہی ہے۔

آیت مبارکہ:مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ ترجمہ کنزالعرفان: محمد تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے آخر میں تشریف لانے والے ہیں ۔(پ 22،الاحزاب:40)

حدیث مبارکہ:حضور علیہ السلام نے فرمایا :میں آخری نبی ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں۔(سنن الترمذي ،4/499)

(4)اَوْلٰی صلی اللہ علیہ وسلم:حضور علیہ السلام کے اسمائے مبارکہ میں سے اولیٰ بھی ہے جس کے بارے اللہ تعالی نے فرمایا: اَلنَّبِیُّ اَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ ترجمہ کنزالعرفان:یہ نبی مسلمانوں کے ان کی جانوں سے زیادہ مالک ہیں۔(پ 22،الاحزاب:6)

حدیث مبارکہ:نبی کریم علیہ السلام نے فرمایا، ہر مومن کا میں دنیا و آخرت میں سب سے زیادہ قریب ہوں۔( صحيح البخاري، 3/118)

(5)رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم:تمام جہانوں کے لئے رحمت۔آیت مبارکہ:وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۰۷) ترجمہ کنزالعرفان: اور ہم نے تمہیں تمام جہانوں کیلئے رحمت بنا کر ہی بھیجا۔(پ 17،الانبیاء:107)

حدیث مبارکہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب کفار و مشرکین کے ظلم حد سے بڑھ گئے تو حضور علیہ السلام سے عرض کیا گیا کہ ان کے لئے بد دعا فرمائیں اس پر آپ علیہ السلام نے فرمایا: مجھے لعنت کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا گیا (بلکہ) مجھے تو سراسر رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے۔( مسند أبي يعلى الموصلي، 11/35)

(6)سراج منیر صلی اللہ علیہ وسلم:قاضی ابوبکر بن عربی کہتے ہیں کہ ہمارے علماء نے آپ علیہ السلام کو سراج اس لئے کہا کیونکہ جس طرح ایک چراغ سے بے شمار چراغ جلائے جانے کے باوجود پہلے چراغ کی روشنی میں کوئی فرق نہیں پڑتا اسی طرح اطاعت کے تمام چراغ حضور علیہ السلام کے چراغ سے روشن ہوئے اور آپ علیہ السلام کی روشنی میں کوئی کمی واقع نہ ہوئی۔( سبل الہدى والرشاد في سيرة خير العباد، 1/469)

وَّ دَاعِیًا اِلَى اللّٰهِ بِاِذْنِهٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیْرًا(۴۶) ترجمہ کنزالعرفان: اور اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلانے والا اور چمکا دینے والا آفتاب بنا کر بھیجا۔(پ 22،الاحزاب:46)

حضور علیہ السلام کو سراج و منیر کہنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے امام بیضاوی لکھتے ہیں:آپ علیہ السلام سے جہالت کی تاریکیوں میں روشنی حاصل کی جاتی ہے اور آپ علیہ السلام کے نور سے بصیرت کا نور حاصل کیا جاتا ہے۔(تفسير البيضاوي أنوار التنزيل وأسرار التأويل ،4/234)

علامہ اسماعیل حقی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں :پس آپ علیہ السلام ہی ہیں جنہیں اللہ پاک نے نور بنایا اور مخلوق کی طرف بھیجا۔( روح البيان، 7/198)

(7)نور صلی اللہ علیہ وسلم: قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّ كِتٰبٌ مُّبِیْنٌۙ(۱۵)ترجمہ کنزالعرفان: بیشک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور آگیا اور ایک روشن کتاب۔(پ 6،المائدہ:15)

امام نسفی لکھتے ہیں:نور سے مراد حضور علیہ السلام ہیں کیونکہ نور سے ہدایت ملتی ہے جیسا کہ (اللہ پاک نے) آپ کو سراج فرمایا۔( مدارك التنزيل وحقائق التأويل، 1/436)

ایک طویل حدیث مبارکہ کا جز ہے:حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے عرض کیا یارسول اللہ میرے ماں باپ آپ پر قربان مجھے بتائیے کہ اللہ تعالی نے سب سے پہلے کیا چیز پیدا فرمائی؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا: اے جابر بیشک اللہ نے تمام مخلوق سے پہلے تیرے نبی کا نور اپنے نور سے پیدا فرمایا۔ الخ ( المواہب اللدنيہ بالمنح المحمديہ، 1/48)

(8)رءٔوف رحیم صلی اللہ علیہ وسلم: اللہ پاک نے آپ علیہ السلام کو یہ صفت عطا کی تاکہ آپ علیہ السلام عاشقوں کے لئے باعث رحمت ہوں۔( سبل الهدى والرشاد في سيرة خير العباد، 1/465)

لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ(۱۲۸) ترجمہ کنز العرفان :بیشک تمہارے پاس تم میں سے وہ عظیم رسول تشریف لے آئے جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا بہت بھاری گزرتا ہے، وہ تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے، مسلمانوں پر بہت مہربان، رحمت فرمانے والے ہیں ۔(پ 11،التوبہ:128)

حضرت جبیر بن معطم رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں اللہ پاک نے آپ علیہ السلام کا نام رؤف رحیم رکھا ہے۔( تفسير ابن أبي حاتم ، محققا، 6/1918)

(9)شاھد صلی اللہ علیہ وسلم: اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۸) ترجمہ کنزالعرفان:بیشک ہم نے تمہیں گواہ اور خوشخبری دینے والااور ڈر سنانے والا بنا کربھیجا۔(پ 26،الفتح:8)

حدیث مبارکہ:حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں حضور علیہ السلام نے فرمایا: میں (آج کے دن کی طرح) روز قیامت (بھی) تمہارے اوپر گواہ ہوں گا۔(المستدرك على الصحيحين للحاكم ،1/510)

(10)مُحَلِّل ٌ صلی اللہ علیہ وسلم: محلل کا معنی امام صالحی الشامی لکھتے ہیں : حلال قرار دینے والا کہ جس کے حکم سے چیزوں کا استعمال شرعًا جائز ہو جائے۔( سبل الهدى والرشاد في سيرة خير العباد، 1/507)

یہ نام اس آیت سے ثابت ہے: وَ یُحِلُّ لَهُمُ الطَّیِّبٰتِ ترجمہ کنزالعرفان: اور ان کیلئے پاکیزہ چیزیں حلال فرماتے ہیں۔(پ 9،الاعراف:157)

حضور علیہ السلام نے مرد کے لئے ریشمی کپڑا پہننا حرام قرار دیا تھا لیکن حضرت عبدالرحمن بن عوف اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہما کو عذر کے باعث ریشمی کپڑا پہننے کی اجازت عطا فرمائی۔

حضرت انس بیان کرتے ہیں حضرت عبدالرحمن بن عوف اور حضرت زبیر نے حضور علیہ السلام کی بارگاہ میں جوئیں پڑنے کی شکایت کی تو آپ علیہ السلام نے انہیں ریشم پہننے کی اجازت عطا فرمائیں پس میں نے غزوات میں اُن دونوں کو ریشم پہنے دیکھا۔(صحيح البخاري ،4/42)

دعا ہے کہ خدائے رحیم و کریم ہمیں حضور علیہ السلام کے ناموں کے فیضان کا حصہ عطا کرے اور روزِ محشر آپ علیہ السلام کی شفاعت نصیب فرمائے۔

اٰمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ والہ واصحابہ و ازواجہ اجمعین