آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے اسما آپ کی سیرتِ مقدسہ کا ایک اہم باب ہیں۔1۔ محمد صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:اَلَّذِىْ يُحْمَدُ حَمّداً مَرَّةً بَعْدَ مَرَّةٍ ترجمہ: وہ ذات( کاملہ) جس کی بار بار تعریف کی جائے۔حضور پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے ذاتی اسمائے گرامی میں سے صرف دو اسمائے پاک محمد اور احمد ذاتی ہیں، قرآنِ پاک میں چار مقامات پر آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا اسمِ گرامی محمد ذکر کیا گیا ہے، مگر آپ کو اللہ پاک نے ذاتی اسمِ پاک سے مخاطب نہیں کیا، بلکہ کسی خاص حوالے سے آپ علیہ الصلوۃ والسلام کا تعارف کروایا ہے، قرآنِ پاک کلامِ الہٰی ہونے کے ساتھ مکمل طور پر صفاتِ رسول کا مظہر ہے۔اسم ہوتا ہے ذات کی پہچان کے لئے۔ لفظ محمد اسمِ ذاتِ مصطفی ہے، ذات آگے ہے، پہلے اسمِ ذات ہے، توربّ فرماتا ہے:اے میرے محبوب کا ذکر کرنے والو! پہلے میرے محبوب کے اسمِ پاک سے اپنے قلب و نظر کو روشن کر لو، پھر درِ محمد پر پہنچنا، تاکہ فیضِ محمدی سے کماحقہٗ فائدہ حاصل کرو۔فضیلتِ اسمِ مصطفی:حضور پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکے شمائل و خصائص کا جیسے شمار ممکن نہیں، اسی طرح آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے اسم مبارک کے فضائل کا احاطہ کرنا انسان کی عقل سے بالاتر ہے۔حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے:دو آدمی اللہ پاک کے حضور حاضر ہوں گے تو اللہ پاک فرمائے گا:تم جنت میں داخل ہو جاؤ، کیونکہ میں نے اپنے اوپر لازم کیا ہے کہ وہ دوزخ میں داخل نہیں ہوگا،جس کا نام محمد یا احمد رکھا گیا۔(حوالہ ابنِ سعد نے طبقات الکبریٰ اور امام مناوی نے فیض القدیر 5:453)مولائے کائنات،علی شیرِ خدا رضی اللہ عنہ سے مرفوعا روایت ہے:جنت میں سب کو ان کے ناموں سے پکارا جائے گا، ان کی کنیت نہیں ہوگی، سوائے حضرت آدم علیہ السلام کے، انہیں تعظیماً ابومحمد کہہ کر پکارا جائے گا اور یہ حضور نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکی توقیر کا سبب ہے۔(حلبی، انسان العیون 1:136)2۔ احمد صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:اَحْمَدُ الْحَامِدِيْنَ لِرَبِّہ۔ ترجمہ: سب سے بڑھ کر اپنے رب کی تعریف کرنے والا۔(الصف:6)ترجمۂ کنزالایمان:اور اس عظیم رسول کی بشارت دینے والا ہوں، جو میرے بعد تشریف لائے گا، ان کا نام احمد ہے۔یہ بھی آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا ذاتی اسمِ پاک ہے، گزشتہ تمام آسمانی کتابوں میں اس اسمِ پاک ساتھ آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو یاد کیا گیا ہے،حضرت عیسٰی علیہ السلام نے اپنی قوم کو آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی دنیا میں تشریف آوری کی خوش خبری اسی اسمِ پاک سے دی۔قیامت کے دن لواءالحمد(حمد کا جھنڈا)آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکے ہاتھ میں ہو گا، اسی بناء پر اللہ پاک آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکو مقامِ محمود پر فائز فرمائے گا اور اسی مناسبت سے اللہ پاک نے اُمّتِ محمدی کا نام حمادون(یعنی بہت زیادہ حمد کرنے والی) بھی رکھا ہے۔3۔ اُمِیٌّ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم(عالم ام الکتاب):القرآن:اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ:ترجمۂ کنزالعرفان:وہ جواس رسول کی اتباع کریں، جو غیب کی خبریں دینے والے ہیں، جو کسی سے پڑھے ہوئے نہیں ہیں۔(الاعراف:157)یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ اُمی آیت مبارکہ میں رسول اور نبی کے بعد بیان کیا گیا ہے، جب کہ رسالت اور نبوت عالمِ غیب اور عالمِ شہادت دونوں کے حقائق سے باخبر ہوئے بغیر ممکن نہیں، لہذا اُمّی سے ہرگز ان پڑھ مراد نہیں۔ عام لوگوں کا پڑھنا اور حضور پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا پڑھنا مختلف ہے، حضور پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکو تمام انسانیت کا معلم بنا کر بھیجا گیا،اللہ پاک کی ذات معلمِ حقیقی نے تمام علوم غیبی طور پر آپ کے سینہ انور میں منتقل کر دیئے۔القرآن:ترجمۂ کنزالایمان:رحمٰن نے قرآن سکھایا، انسان کو پیدا کیا، اسے بیان سکھایا۔ان آیاتِ مبارکہ سے معلوم ہوا ! اللہ پاک معلمِ قرآن ہے، انسان سے مراد دو عالم کے سردار صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم اور بیان سے مراد جو کچھ ہو چکا اور جو کچھ آئندہ ہو گا، کا بیان مراد ہے۔ واضح ہوا ! عالمِ ام الکتاب کو اَن پڑھ کہنا، لکھنا، پڑھنا سَراسَر جہالت ہے، اسی غلط روشنی سے اجتناب کرنا چاہئے، کہیں ایسا نہ ہو کہ معمولی سی گستاخی سے ساری عبادت رائیگاں چلی جائے۔4۔ بُرھَان صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم (اللہ پاک کی سب سے بڑی دلیل): القرآن:ترجمۂ کنزالعرفان:اے لوگو! بے شک تمہارے ربّ کی طرف سے واضح دلیل آگئی اور ہم نے تمہاری طرف روشن نور نازل کیا۔(النساء:174) امام رازی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا اسمِ گرامی برہان اس لئے رکھا گیا، کیونکہ آپ کا اصل مقصد حق اور باطل کے درمیان فرق قائم کرنا ہے، برہان کے معنی دلیل ہے، اس طرح کہ لا الہ الا اللہ دعویٰ ہے اور دعویٰ اُلُوہیت کی دلیل محمد رسول اللہ ہیں،آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمفضل و کمال کے آفتاب اور انبیاء علیہم السلام ستارے ہیں۔حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلماللہ پاک کی کامل دلیل اس لئے ہیں کہ آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم اللہ پاک کی تجلیاتِ ذاتیہ کا عکسِ جمیل ہیں، جب کہ انبیاء علیہم السلام کو ربّ نے اپنی صفات کا مظہر بنایا۔ 5۔ المرتضی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم( جن پر ان کا ربّ راضی ہوا): القرآن:ترجمۂ کنزالعرفان:اور بےشک قریب ہے کہ تمہارا ربّ تمہیں اتنا دے گا کہ تم راضی ہو جاؤ گے۔(الضحیٰ:5) جب مشرکینِ مکہ نے حضور پُرنور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو طعنہ دیا کہ محمد کے ربّ نے محمد کو چھوڑ دیا تو بشری تقاضے کے مطابق آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکی طبیعت مبارک ذرا سی بوجھل ہوگئی تو اللہ پاک نے فرمایا: تیرے ربّ نے تجھے نہ چھوڑا، نہ تجھ سے ناراض ہوا، تیری آنے والی ہر گھڑی پہلی گھڑی سے بدرجہا بہتر ہے۔ 6۔ مصطفی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم(پسند فرمائے گئے): القرآن:ترجمۂ کنزالایمان:اللہ فرشتوں میں سے اور آدمیوں میں سے رسول چن لیتا ہے، بے شک اللہ سننے والا، دیکھنے والا ہے۔(الحج:75)اللہ پاک نے جس عظیم ہستی پاک کو انسانیت کا تاجدار بنایا، اس کا انتخاب اُسی وقت کر لیا تھا، جب کائناتِ ارض و سماویٰ نہ تھی، فقط ذاتِ خدا تھی،جو اپنے حبیِب مکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم پر درود بھیج رہی ہے اور کسی کو علم نہیں کہ کب سے بھیج رہی ہے۔ 7۔ خاتم النبیین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم(آخری نبی): القرآن:ترجمۂ کنزالعرفان:محمد تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں ہیں اور سب نبیوں کے آخر میں تشریف لانے والے ہیں اور اللہ سب کچھ جاننے والا ہے۔(الاحزاب:40) ہم مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ پیارے نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم پر نبوت و رسالت کا سلسلہ ختم ہو چکا ہے، جو اس بات پر یقین نہ رکھے،وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے ساری اُمّت کا اس پر اجماع ہے۔ 8۔رءوف ورحیم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم (بہت مہربان، رحمت فرمانے والے): القرآن:ترجمۂ کنزالعرفان: بے شک تمہارے پاس تم میں سے وہ عظیم رسول تشریف لے آئے، جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا بہت بھاری گزرتا ہے، وہ تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے ہیں مسلمانوں پر بہت مہربان، رحم فرمانے والے ہیں۔(التوبہ:128) یہ وہ صفات ہیں، جو صفاتِ الٰہیہ اور صفاتِ محبوبِ کائنات صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمدونوں میں مشترک ہیں، اللہ پاک نے اپنے محبوب ترین عبد کے لئے یہ کمالِ رحمت کا ذکر کیا ہے کہ آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکی رحمت کا سایہ صرف مکی و مدنی دور تک محدود نہیں، بلکہ قیامت تک جو دور آئے گا، ہر زمانے پر میرے پیارے عبد الرحیم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکی رحمت کی چادر کا سایہ ہوگا۔9۔ اوّل صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم(سب سے پہلا): القرآن:ترجمۂ کنزالعرفان:اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں سب سے پہلا مسلمان ہوں۔(انعام:163) معلوم ہوا!ساری مخلوق میں سب سے پہلے مؤمن حضورپرنور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمہیں، حضرت جبرئیل اور میکائیلعلیہا السلام سے پہلے بھی آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمعابد بلکہ نبی تھے۔اللہ پاک کے ارشاد”اَلَسْتُ بِرَبِّکُم(کیا میں تمہارا ربّ نہیں؟)کے جواب میں سب سے پہلے حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے بَلٰی(یعنی کیوں نہیں)فرمایا تھا۔( فیض القدیر، حرف الکاف، 69/5، تحت الحدیث 6424)پھراور انبیائے کرام علیہم الصلوۃ والسلام نے، پھر دوسرے لوگوں نے کہا۔10۔القاسمصلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم (تقسیم فرمانے والے): القرآن:اِنَّا اَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَرْ ترجمۂ کنزالعرفان:اے محبوب!بے شک ہم نے تمہیں بے شمار خوبیاں عطا فرمائیں۔ (الکوثر:1) اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ نے اسی نقطے کو یوں بیان فرمایا:

اُس کی بخشش اِن کا صدقہ دیتا وہ ہے دلاتے یہ ہیں

ربّ ہے معطی یہ ہیں قاسم رزق اُس کا ہے کھلاتے یہ ہیں

انا اعطينٰك الكوثر ساری کثرت پاتے یہ ہیں


اللہ کریم کے آخری نبی، محمدِ عربی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے اسمائے پاک بکثرت ہیں۔ آٹھ سو سے زائد مواہب و شرح مواہب میں ہیں۔اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ نے تقریباً چودہ سو پائے اور حصر (شمار) تو ناممکن ہے۔(فضائل و مناقب جلد 28، فتاویٰ رضویہ ماخوذا)(نشان مژدہ، ص 41-42)

تیرے تو وصف عیبِ تناہی سے ہیں بری حیراں ہوں میرے شاہ میں کیا کیا کہوں تجھے

قرآنِ کریم میں موجود آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے اسمائے پاک میں سے 10 مبارک نام درج ذیل ہیں:1)مُحمّد(پ،4،ال عمران:144) محمد کا معنی ہے: جس کی بار بار حمد کی گئی ہو، خود اللہ کریم نے آپ کی ایسی حمد کی ہے جو کسی اور نے نہیں کی، اور آپ کو ایسے محامد عطا کیے جو کسی اور کو عطا نہیں کیے اور قیامت کے دن آپ کو ایسی حمد کا الہام فرمائے گا جو کسی اور کو الہام نہیں کی ہوگی۔(نعمۃ الباری، جلد ششم، ص 600، فرید بک اسٹال)

محمد مظہرِ کامل ہے حق کی شانِ عزت کا نظر آتا ہے اس کثرت میں کچھ انداز وحدت کا

محمد نام رکھنے کی فضیلت:فرمانِ مصطفیٰ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:’’جس کے لڑکا پیدا ہو اور وہ میری محبت اور میرے نام سے برکت حاصل کرنے کے لیے اس کا نام محمد رکھے، وہ اور اس کا لڑکا دونوں بہشت میں جائیں۔‘‘(کنزالعمال،حدیث: 45215 ،الجزء السادس عشر،8/175۔ فتاوی رضویۃ،24/686)اعلیٰ حضرت امامِ احمد رضاخان رحمۃُ اللہِ علیہ ’’فتاویٰ رضویہ‘‘جلد 24صفحہ691 پر فرماتے ہیں :’’بہتر یہ ہے کہ صرف محمد یااحمد نام رکھے، اس کے ساتھ جان وغیرہ اور کوئی لفظ نہ ملائے کہ فضائل تنہا انھیں اسمائے مبارکہ کے وارد ہوئے ہیں۔‘‘

نامِ محمد کتنا میٹھا میٹھا لگتا ہے پیارے نبی کا ذکر بھی ہم کو پیارا لگتا ہے

2)احْمد (تمام حمد کرنے والوں سے زیادہ حمد کرنے والے)(پ28۔ الصف:6)قاضی عیاض رحمۃُ اللہِ علیہ نے فرمایا:نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم محمد ہونے سے پہلے احمد تھے، یعنی آپ نے اپنے رب کی حمد کی، اس سے پہلے کہ لوگ آپ کی حمد کرتے، اس وجہ سے سابقہ آسمانی کتابوں میں آپ کا نام احمد ہے اور قرآنِ کریم میں آپ کا نام محمد ہے۔(الشفاء، جلد 1، ص 260، دار الفکر بیروت)(نعمۃ الباری، جلد ششم، ص 600، فرید بک اسٹال)

سرکار سا جہاں میں نہ ہوگا نہ ہے کوئی احمد ہے اسم آپ کا اور مصطفیٰ لقب

3) نُوْرٌ(پارہ 6 المائدہ 15)اللہ کریم نے آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو نور اس لیے فرمایا کہ جس طرح اندھیرے میں نور کے ذریعے ہدایت حاصل ہوتی ہے اسی طرح آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے ذریعے بھی ہدایت حاصل ہوتی ہے۔(خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ: 15، 1/ 477) (تفسیر صراط الجنان، المائدہ، تحت الآیۃ 15)نبیِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے حضرت جابر رَضِیَ اللہُ عَنْہُ سے ارشاد فرمایا:’’اے جابر!بےشک بالیقین،اللہ کریم نے تمام مخلوقات سے پہلے تیرے نبی کا نور اپنے نور سے پیدا فرمایا۔(الجزء المفقود من الجزء الاول من المصنف، ص 63، حدیث: 18)(فرض علوم سیکھئے، ص 47)مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم بشر بھی ہیں اور نور بھی یعنی نورانی بشر ہیں۔ظاہری جسم شریف بشر ہے اور حقیقت نور ہے۔(رسالۂ نور مع رسائل نعیمیہ، ص39-40)(فرض علوم سیکھئے، ص47)

نور سے اپنے سرورِ عالم دنیا جگمگانے آئے غم کے ماروں دکھیاروں کو سینے سے لگانے آئے

4،5) رؤُوْف (بہت مہربان)، رحِیْم (رحمت فرمانے والے)(پ 11 ،التوبۃ: 128)سورۂ توبہ کی آیت نمبر 128 میں اللہ کریم نے اپنے حبیب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو اپنے دو ناموں سے مشرف فرمایا۔ یہ آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی کمالِ تکریم ہے۔ حضور جانِ عالم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم دنیا میں بھی رؤوف و رحیم ہیں اور آخرت میں بھی۔(تفسیر صراط الجنان، التوبۃ، تحت الآیۃ: 128)

رؤوف ایسے ہیں اور یہ رحیم ہیں اتنے کہ گرتے پڑتوں کو سینے لگانے آئے ہیں

6) رَحْمَة لِّلْعٰلَمِیْنَ (تمام جہانوں کیلئے رحمت)(پ 17 ،الانبیاء: 107)تاجدارِ رسالت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نبیوں،رسولوں اور فرشتوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام،جنات اور انسانوں،مومن و کافر،حیوانات،نباتات،جمادات الغرض عالَم میں جتنی چیزیں داخل ہیں،سب کے لئے رحمت ہیں۔(تفسیر صراط الجنان، الانبیاء تحت الآیۃ: 107 ملتقطا)

رحمۃ للعالمیں تیری دہائی دب گیا اب تو مولی بے طرح سر پر گنہ کا بار ہے

7)خَاتَم النَّبِیّٖن(سب نبیوں کے آخر میں تشریف لانے والے)(پ 22، الاحزاب:40)یعنی محمد مصطفٰی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم آخری نبی ہیں کہ آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بعدکوئی نیا نبی نہیں آئے گا۔ جو حضور پُر نور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی نبوت کے بعد کسی اور کو نبوت ملنا ممکن جانے وہ ختمِ نبوت کا منکر، کافر اور اسلام سے خارج ہے۔(تفسیر صراط الجنان، الاحزاب ،تحت الآیۃ:40 ملتقطا)

آتے رہے انبیا کما قیل لہم و الخاتم حقکم کہ خاتم ہوئے تم

یعنی جو ہوا دفترِ تنزیل تمام آخر میں ہوئی مہر کہ اکملت لکم

8)شاھِد(پ، 22 ،الاحزاب:45)شاھد کا ایک معنی ہے:حاضر و ناظر یعنی مشاہدہ فرمانے والا اور ایک معنی ہے گواہ۔ آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم قیامت تک ہونے والی ساری مخلوق کے شاھد ہیں اور ان کے اعمال، افعال،احوال،تصدیق،تکذیب،ہدایت اور گمراہی سب کا مشاہدہ فرماتے ہیں۔(ابو سعود، الاحزاب، تحت الآیۃ:45، 4/325، جمل، الاحزاب، تحت الآیۃ:45، 6/180، ملتقطاً)(تفسیر صراط الجنان،الاحزاب،تحت الآیۃ:45 ملتقطا)

سر ِعرش پر ہے تیری گزر دل فرش پر ہے تیری نظر ملکوت و ملک میں کوئی شے نہیں وہ جو تجھ پہ عیاں نہیں

9،10)مُبَشِّر (خوشخبری دینے والا)، نَذِیْر (ڈر سنانے والا)(پ 22، الاحزاب:45)اللہ کریم نے اپنے حبیب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو ایمانداروں کو جنت کی خوشخبری دینے والا اور کافروں کو جہنم کے عذاب کا ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا۔(مدارک،الاحزاب،تحت الآیۃ: 45،ص 944)(تفسیر صراط الجنان، الاحزاب، تحت الآیۃ:45)

بشیر کہئے نذیر کہئے انہیں سراج ِمنیر کہئے جو سربسر ہے کلامِ ربی وہ میرے آقا کی زندگی ہے

ان کے ہر نام و نسبت پہ نامی درود ان کے ہر وقت و حالت پہ لاکھوں سلام


اللہ پاک نے ہمارے پیارے نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو نہایت ہی خوبصورت اسمائے اکرام سے نوازا ہے اور قرآنِ کریم میں جگہ جگہ آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو احسن اندازسے مخاطب فرمایا۔آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے اسمائے مبارکہ سے آپ میں پائی جانے والی صفات کا علم ہوتا ہے۔ایک اہم نقطہ:جب بھی آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا ذکرِ مبارک ہو تو درودِ پاک پڑھا جائے اور اسی طرح آپ علیہ السلام کے اسمائے مبارک کو کہیں لکھا جائے تو مکمل درود پاک لکھا جائے۔آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے نامِ مبارک کے ساتھؐ یا صلعم لکھنا حرام ہے۔(بہارِ شریعت، 1/534، حصہ : 3ماخوذاً)مکمل درود پاک لکھنے کی کیا ہی خوب فضیلت ہے۔فرمانِ مصطفے صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ہے:جس نے کتاب میں مجھ پر درود پاک لکھا تو جب تک میرا نام اس میں رہے گا فرشتے اس کے لئے استغفار کرتے رہیں گے۔(ضیائے درود و سلام،ص6)حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے تین نام حمد سے مشتق ہیں:محمد،احمد،محمود۔محمد کا معنی ہیں:ہر طرح،ہر جگہ،ہر ایک کا حمد کیا ہوا، یا ان کی ہر ادا ہر وصف کی ذات کی حمد کی ہوئی مخلوق بھی ان کی حمد کرے گی اور خالق بھی ان کی حمد فرمائے گا۔(مراٰۃ المناجیح،8/42) 1۔محمد صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم: حضرت حذیفہ رَضِیَ اللہُ عنہ فرماتے ہیں:میں نے مدینہ طیبہ سے ایک راستے میں نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا تو آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:اے حذیفہ!میں محمد اور احمد ہوں،نبی رحمت اور نبی توبہ ہوں۔میں سب سے پیچھے آنےوالا اور خدا کی راہ میں جنگ کرنے والا ہوں۔(شرح شمائل ترمذی،باب51،ص593)آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا اسمِ گرامی محمد قرآنی آیات اور احادیث میں وارد ہوا ہے، نیز اس نام پر امتِ محمدیہ کا اجماع ہے، قرآنِ کریم میں اللہ پاک کا ارشاد ہے:مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ ؕ۔محمد اللہ کے رسول ہیں۔(سورۂ فتح، آیت 29)وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ اٰمَنُوْا بِمَا نُزِّلَ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ هُوَ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّهِمْ ۙ(سورۂ محمد:2) اور جو ایمان لائے اور اچھے کام کئے، اس پر ایمان لائے جو محمد پر اتارا گیا۔محمد نام کا مطلب لائقِ حمد ہے،حضور انور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا نام محمد بہت جامع ہے،جس میں حضور انور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بے شمار فضائل بیان ہوئے ہیں۔ محمد کے معنی ہیں: ہر طرح، ہر وصف میں بے حد تعریف کئے ہوئے۔ایک سروے کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ رکھا جانے والا نام محمد ہے اور کیوں نہ ہو کہ اس نام کے رکھنے کی بڑی برکتیں ہیں۔ نبی ِکریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جس نے میرے نام سے برکت کی امید کرتے ہوئے میرے نام پر نام رکھا، قیامت تک صبح و شام اس پر برکت نازل ہوتی رہے گی۔(نام رکھنے کے احکام، صفحہ22)سبحان اللہ! آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے نامِ مبارک پر نام رکھنے کی فضیلت کتنی ہے! جب نام کی برکت کا یہ عالم ہے تو صاحبِ نام کا کیا عالم ہوگا کہ یہ نام رکھنا دوزخ کے عذاب سے بچا لے گاجبکہ آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے قول کو ماننا، آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے فعل کی پیروی کرنا ہمارے لئے باعثِ رحمت اور آخرت میں باعثِ نجات ہوگا۔لیکن خبردار!ایک احتیاط بہت ضروری ہے جو ہمارے بزرگانِ دین رحمۃُ اللہِ علیہم نے ہمیں محمد نام رکھنے کے حوالے سے بیان کی ہے کہ یہ نام اتنا مقدس ہے جس کی ادنیٰ سی بے ادبی کہیں ہمارے لئے پکڑ کر سبب نہ بن جائے۔حضرت مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:اگر نام بگڑنے کا اندیشہ نہ ہو تو یہ نام رکھا جائے اور ایک صورت یہ ہے کہ عقیقہ کا نام یہ ہو اور پکارنے کے لئے کوئی دوسرا نام تجویز کر لیا جائے۔اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ نے اپنے بیٹوں،بھتیجوں کاعقیقے میں صرف محمد نام رکھا، پھر نامِ اقدس کے حفظِ آداب اور باہم تمیز کے لئے عُرف جدا مقرر کئے۔(نام رکھنے کے احکام)

نامِ محمد کتنا میٹھا میٹھا لگتا ہے

2۔احمد صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:وَ مُبَشِّرًۢا بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْۢ بَعْدِی اسْمُهٗۤ اَحْمَدُ ؕ(سورۂ الصف:آیت 6)۔اور ان رسول کی بشارت سناتا ہوں،جو میرے بعد تشریف لائیں گے ان کا نام احمد ہے۔احمد:اسم تفصیل ہے حمد کا یا تو حمد معروف کا تو معنیٰ ہوں گے:ہت ہی حمد فرمانے والے اپنے رب کی یا حمد مجہول کے معنیٰ ہوں گے بہت ہی حمد کئے ہوئے۔پہلے معنی قوی ہیں۔(شرح شمائل ترمذی،باب51،ص592)فرمانِ مصطفی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:روزِ قیامت دو شخص اللہ پاک کے حضور کھڑے کئے جائیں گے،حکم ہوگا:انہیں جنت میں لے جاؤ، عرض کریں گے:الٰہی! ہم کس عمل پر جنت کے قابل ہوئے؟ ہم نے تو کوئی کام جنت کا نہ کیا! اللہ پاک فرمائے گا:جنت میں جاؤ، میں نے حلف فرمایا ہے کہ جس کا نام احمد یا محمد ہووہ دوزخ میں نہ جائے گا۔(الفردوس بماثور الخطاب،جلد2، حدیث 883، پوسٹ دعوت اسلامی احمد یا محمد نام رکھنے کی برکت)

کیوں بارہویں پہ ہے سبھی کو پیار آگیا آیا اسی دن احمدِ مختار آگیا

3۔یسین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:یٰسٓۚ0 وَ الْقُرْاٰنِ الْحَكِیْمِ0ۙ۔ترجمہ:یسین حکمت بھرے قرآن کی قسم۔(سورۂ یاسین، آیت1)یسین حروفِ مقطعات میں سے ہے، نبیِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو یسین کے ساتھ مخاطب فرمایا، آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا اسمِ گرامی یسین اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ آپ علیہ السلام کو بلند مقام حاصل ہے اور اس نام کے ذریعے اللہ پاک کا قسم کھانا آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی عظمت کی دلیل ہے۔4۔طہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:طٰهٰ ۚ مَاۤ اَنْزَلْنَا عَلَیْكَ الْقُرْاٰنَ لِتَشْقٰۤى ۙ۔ترجمہ:طہ، ہم نے تم پر قرآن اس لئے نازل نہیں کیا کہ تم مشقت میں پڑو۔(سورۂ طہ)طہ :حروفِ مقطعات میں سے ہے،ایک قول کے مطابق طہ اللہ پاک کا نام ہے اور اللہ پاک نے اس نام کے ذریعے نبیِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو پکارا ہے، نیز اس خطاب کے ذریعے آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بلند مرتبے کا اظہار کیا ہے۔یسین اور طہ نام رکھنا منع ہے:بہارِشریعت میں ہے :طہ اور یسین نام نہ رکھے جائیں کہ یہ مقطعاتِ قرآنیہ سے ہیں، جن کے معنی معلوم نہیں، یہ نام اسمائے نبی یا اسمائے الہیہ میں سے ہے، جب معنی معلوم نہیں تو ہو سکتا ہے کہ اس کے ایسے معنی ہوں، جواللہ پاک اور نبیِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے ساتھ خاص ہوں۔(نام رکھنے کے احکام، صفحہ 37)محمد یسین یامحمد طہ:ان ناموں کے ساتھ محمد ملا کر کہنا بھی ممانعت کو دور نہیں کرے گا تو یوں بھی نام نہ رکھا جائے۔ غلام یسین یا غلام طہ:ا ن ناموں کے ساتھ غلام ملا کر کہنا درست ہے۔

سرور کہوں کہ مالک و مولا کہوں تجھے باغِ خلیل کا گلِ زیبا کہوں تجھے

5۔المزمل صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:اللہ پاک فرماتا ہے:یٰۤاَیُّهَا الْمُزَّمِّلُ ۙ۔اے جھرمٹ مارنے والے۔(سورہ ٔمزمل:1)اس تفسیر میں ہے کہ اپنے کپڑوں سے لپٹنے والے، اس کے شانِ نزول میں کئی اقوال ہیں:ایک قول یہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم چادر شریف میں لپٹے ہوئے آرام فرما تھے، اس حالت میں آپ کو ندا کی گئی: یٰۤاَیُّهَا الْمُزَّمِّلُۙ۔ بہرحال یہ ندابتاتی ہے کہ محبوب کی ہر ادا پیاری ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ آپ ردائے نبوت و چادرِرسالت کے حامل و لائق تھے۔(کنزالایمان تفسیر و ترجمہ)6۔ المدثر صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:اللہ پاک فرماتا ہے:یٰۤاَیُّهَا الْمُدَّثِّرُ ۙ۔اے بالاپوش اوڑھنے والے۔(سورۂ مدثر، آیت 1)حضرت جابر بن عبداللہ انصاری رَضِیَ اللہُ عنہ نے فترتِ وحی کی حدیث بیان کرتے ہوئے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اپنی گفتگو میں فرمایا: میں چلا جارہا تھا،اچانک میں نے آسمان کی طرف سے ایک آواز سنی،میں نے نگاہ اٹھا کر دیکھا تو وہی فرشتہ جو غارِ حرا میں میرے پاس آیا کرتا تھا ،آسمان و زمین کے درمیان کرسی پر بیٹھا ہوا ہے جس سے مجھ پر رعب طاری ہوگیا اور میں لوٹ کر گھر آگیا۔میں نے کہا:مجھے کپڑا اڑھاؤ،مجھے کپڑا اڑھاؤ(لوگوں نے اڑھادیا) پھر اللہ پاک نے یہ آیتیں نازل فرمائیں:اےبالا پوش اوڑھنے والے اٹھئے ۔(نزہۃ القاری شرح صحیح بخاری،1/263،حدیث:فترت وحی)

کہیں مزمل کہیں مدثر یا روح القرآن

میں تیرے قربان محمد میں تیرے قربان

7۔بشیر صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:8۔نذیر صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًا ۙ۔اے غیب کی خبریں بتانے والے نبی!بے شک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشخبری دیتا اور ڈر سناتا۔(الاحزاب:45)مبشر اور بشیر آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے اسمائے گرامی ہیں، اللہ پاک نے ان دو ناموں کے ذریعے آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی تعریف فرمائی، ایمانداروں کو جنت کی خوشخبری سناتے ہیں، آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم لوگوں کو وہ باتیں یاد دلاتے ہیں، جن سے ان کے دل خوش ہوتے ہیں، لوگوں کو جنت کے محلات، خوبصورتی، ان میں موجود نعمتوں کے بارے میں بتاتے ہیں، جنت میں موجود نہروں کے حال بتاتے ہیں، اور بھی ایسی خوشخبریاں سناتے ہیں کہ جس سے بندہ مؤمن خوش ہو جاتا ہے اور آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے کتنے ہی صحابہ کرام کو دنیا میں بھی جنتی فرما دیا تھا، جن میں دس صحابہ کرام عشرۂ مبشرہ کے نام سے مشہور ہیں۔اس کے علاوہ بھی آپ علمِ غیب رکھتے تھے اور آنے والے شخص کے جنتی ہونے کی خبر بھی دے دیا کرتے تھے، اسی طرح کافروں کو عذابِ جہنم کا ڈر سناتے ہیں، آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم لوگوں کو اللہ پاک کے عذاب اور اس کی ناراضی سے ڈراتے تھے۔ نذیر ڈرانے میں مبالغہ کرنے والے کو کہتے ہیں اور احادیثِ مبارکہ میں موجود ہے کہ نبیِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے کافروں کے جہنمی ہونے اور جہنم میں ان کے ساتھ پیش آنے والے عذابات کو بیان کرکے لوگوں کو اس سے ڈرایا کرتے تھے۔9۔النور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّ كِتٰبٌ مُّبِیْنٌ ۙ۔بے شک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور آیا اور روشن کتاب۔(سورۂ مائدہ:15)اس کی تفسیر میں ہے: اللہ پاک کی طرف سے آنے والے نور سے مراد یا نبیِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ذاتِ گرامی ہے اور آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو نور اس لئے فرمایا گیا کیونکہ آپ سے تاریکی وکفر دور ہوئی اور راہِ حق واضح ہوئی ہے۔النور: آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا اسمِ گرامی ہے، یہ اللہ پاک کا نام بھی ہے۔ بے شک نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم اللہ پاک کے نور ہیں۔

تم ہو خدا سے کب جدا نورِ خدا ہو باخدا

آئینہ خدا نما صلی علی محمد

اللہ پاک کا اپنا نام اپنے محبوب کو دینا نبیِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے مرتبہ و مقام کے بلند واعلیٰ ہونے کی واضح دلیل ہے۔یا نور:اس اسم کی بہت برکت ہے،چنانچہ اگر کوئی سات مرتبہ سورۂ نور اور 1001بار یا نور پڑھے تو ان شاءاللہ اس کا دل روشن ہو جائے گا۔(مدنی پنج سورہ)10۔خاتم النبیین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ ؕ۔ترجمہ:محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں، ہاں اللہ کے رسول، سب نبیوں میں پچھلے۔(سورۂ احزاب، آیت 40)خاتم النبیین کا معنی ہے: آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم سب سے آخر میں آکر نبوت کو ختم اور مکمل کرنے والے ہیں، یعنی ہمارے نبی آخری نبی ہیں، اللہ پاک نے آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو مبعوث فرماکر نبوت و رسالت کو مکمل فرمایا۔آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے اس اسمِ گرامی سے ہمارا عقیدۂ ختم نبوت واضح ہوتا ہے اور جب ربّ کریم نے آپ کو خاتم النبیین فرمادیا توکسی بھی قسم کی گنجائش نہیں کہ ہم اس کا انکار کریں۔ اس عقیدے کے بارے میں قرآن میں صریح نَص موجود ہے اور آپ کے خاتم النبیین ہونے میں شک کرنے والا بھی دائرہ اسلام سے خارج ہے۔آپ کا یہ خوبصورت نام آج کے دور میں اُٹھنے والے خطرناک فتنے کی صراحتاً نفی کرتا ہے، ہمارا ایمان ہے آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم خاتم النبیین ہیں۔اللہ پاک ہمارے ایمان کی حفاظت فرمائے۔آمین

فتحِ بابِ نبوت پہ بے حد درود ختمِ دورِ رسالت پہ لاکھوں سلام


اللہ پاک نے اپنے حبیب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو قرآنِ کریم میں کئی مقامات پر مختلف اسمائے مبارکہ کے ساتھ ذکر فرمایا، ان میں سے دس اسمائے مبارکہ مندرجہ ذیل ہیں۔1۔محمد صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:قرآنِ کریم میں اللہ پاک نے اپنے حبیب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو اسم مبارکہ محمد کے ساتھ ذکر فرمایا، جیسا کہ سورۂ الفتح میں ہے:محمد رسول اللہ محمد اللہ کے رسول ہیں۔(پ26،سورۂ الفتح،آیت 29) صراط الجنان فی تفسیر القرآن از مفتی محمد قاسم عطاری جلد 9، ص 385 پر ہے:مذکورہ آیتِ مبارکہ میں اللہ پاک نے اپنے پیارے حبیب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی پہچان کروارہا ہے کہ محمد صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم اللہ پاک کے رسول ہیں۔2۔احمد صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:قرآنِ کریم میں اللہ پاک نے اپنے پیارے حبیب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے مبارک نام احمد کے ساتھ یاد فرمایا، جیسا کہ سورۂ الصف میں ہے: اسمہ احمد ان کا نام احمد ہے۔(پ28،سورۂ الصف، آیت:6)حضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللہُ عنہ سے مروی ہے، فرماتے ہیں:حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ہمیں نجاشی بادشاہ کے ملک میں جانے کا حکم فرمایا،جب ہم وہاں چلے گئے تو نجاشی بادشاہ نے کہا:میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم اللہ پاک کے رسول ہیں اور وہی رسول ہیں، جن کی حضرت عیسیٰ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے بشارت دی، اگر مجھ پر امورِ سلطنت کی پابندیاں عائد نہ ہوتیں تو میں ضرور آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر ان کے مبارک نعلین پاک اٹھانے کی خدمت بجا لاتا۔(ابو داؤد، کتاب الجنائز ،باب فی الصلوۃ علی المسلم یموت فی بلاد الشرک ، حدیث 3205)یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے آقاکریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی آمد کی بشارت آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا اسم مبارک احمد ذکرفرما کر دی۔3۔شاہد صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم: قرآنِ کریم میں اللہ پاک نے حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا ایک عظیم اسمِ مبارک شاہد بھی ذکر فرمایا، جیسا کہ سورۃ الاحزاب میں ہے: یایھا النبی انا ارسلنٰک شاھدا0ترجمہ:اے نبی بے شک ہم نے تمھیں گواہ بنا کر بھیجا۔(الاحزاب، آیت نمبر 45)اللہ پاک نے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو شاہد ذکر فرما کر آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا ایک وصف ذکر فرمایا ہے، کیونکہ شاہد کا ایک معنیٰ ہے:حاضر و ناضریعنی مشاہدہ فرمانے والا اور ایک معنی ہے گواہ۔ ان معانی کے تحت حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم یا تو مشاہدہ فرمانے والے ہیں یا گواہ ہیں۔البتہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ نے شاہد کا معنی حاضروناظر فرمایا ہے۔4۔مبشرا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:قرآنِ کریم میں اللہ پاک نے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا ایک میٹھا میٹھا مبارک اسم مبشرا بھی ذکر فرمایا ہے،جیسا کہ سورۃ الاحزاب میں ہے:یایھا النبی انا ارسلنٰک شاھدا و مبشرا و نذیرا۔ترجمہ:اے نبی!بے شک ہم نے تمھیں گواہ اور خوشخبری دینے والا اور ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا۔(سورۃ الاحزاب، آیت 45)اللہ پاک نے آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو مبشر ذکر فرما کر ان کا وصف بیان فرمایا کہ ربّ کریم نے آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو مؤمنین کو جنت کی خوشخبری دینے والا بنا کر بھیجاہے۔5۔نذیر صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:قرآنِ کریم میں اللہ پاک نے آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا ایک اسم مبارک نذیر بھی ذکر فرمایا ہے،جیسا کہ سورۃالاحزاب میں ہی ہے:یایھا النبی انا ارسلنٰک شاھدا و مبشرا و نذیرا ترجمہ:اے نبی!بے شک ہم نے تمھیں گواہ اور خوشخبری دینے والا اور ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا۔(سورۃ الاحزاب، آیت 45)اللہ پاک نے حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو نذیر ذکر فرما کر بھی آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا ایک وصف بیان فرمایا ہے کہ حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو کافروں کو جہنم کے عذاب کا ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا گیا ہے۔6۔سراج صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمقرآنِ کریم میں اللہ پاک نے آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا ایک مقدس اسم سراج بھی ذکر فرمایا،جیسا کہ سورۃ الاحزاب میں ہی ہے: سراجامنیرا اور چمکا دینے والا آفتاب (بنا کر بھیجا)۔ ( سورۃ الاحزاب آیت 46)اللہ پاک نے آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو چمکا دینے والا آفتاب بنا کر بھیجا۔صدر الافاضل سید مفتی محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃُ اللہِ علیہ اسم مبارک سراج کے متعلق کچھ اس طرح ارشاد فرماتے ہیں:سراج کا ترجمہ آفتاب قرآنِ کریم کے بالکل مطابق ہے کہ اس میں آفتاب کو سراج فرمایا گیا ہے (جیسا کہ سورۂ نوح اور سورۂ نباء میں ہے)حقیقت میں حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا وجودِ مبارک ایسا آفتاب عالم تاب ہے، جس نے ہزار ہا آفتاب بنا دئیے، اسی لئے اس کی صفت میں منیرا ارشاد فرمایا گیا۔(خزائن العرفان ،الاحزاب،تحت الآیۃ :46،ص784)7۔مزمل صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم: قرآنِ کریم میں اللہ پاک نے حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا ایک خوبصورت نام مزمل بھی ذکر فرمایا ہے،جیسا کہ سورۂ مزمل میں ہے :یایھا المزمل۔ترجمہ:اے چادر اوڑھنے والے۔(سورۂ مزمل، آیت نمبر 1)اس آیتِ مبارکہ کے شانِ نزول کے متعلق صراط الجنان فی تفسیر القرآن جلد 10، ص 410 پر دو اقوال ہیں:ایک قول یہ ہے کہ وحی نازل ہونے کے ابتدائی زمانے میں سید المرسلین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم خوف سے اپنے کپڑوں میں لپٹ جاتے تھے، ایسی حالت میں حضرت جبریل علیہ السلام نے آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو یایھاالمزمل کہہ کر ندا کی۔دوسرا قول یہ ہے کہ ایک مرتبہ تاجدارِ رسالت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم چادر شریف میں لیٹے ہوئے آرام فرما رہے تھے، اس حالت میں آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو ندا کی گئی: یایھا المزمل۔8۔مدثر صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:قرآنِ کریم میں اللہ پاک نے حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا ایک پیارا اسم مبارک مدثر بھی ذکر فرمایا ہے،جیسا کہ سورۃ المدثر میں ہے:یایھاالمدثر۔ ترجمہ:اے چادر اوڑھنے والے۔( سورۂ مدثر، آیت نمبر 1)آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:میں جبلِ حرا پر تھا، مجھے ندا کی گئی:یا محمد انک رسول اللہ! میں نے اپنے دائیں بائیں نظر کی تو کچھ نہ پایا، جب اوپر کی جانب نظر کی تو دیکھا کہ وہی فرشتہ جس نے ندا کی تھی، آسمان اور زمین کے درمیان بیٹھا ہے، یہ منظر دیکھ کر مجھ پر رعب طاری ہو گیا اور میں حضرت خدیجہ رَضِیَ اللہُ عنہا کے پاس آیا اور میں نے ان سے کہا:مجھے چادر اڑھاؤ، انہوں نے چادر اڑھادی،اس کے بعد حضرت جبریل علیہ السلام آئے اور انہوں نے کہا:یایھا المدثر (مدارک،المدثر،تحت الآیۃ1، ص:1296)9۔نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم: قرآنِ کریم میں اللہ پاک نے سرکار دو جہاں صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو اسم مبارک نبی کے ساتھ خطاب فرمایا ہے، جیسا کہ سورۃ الاحزاب میں ہے:یایھا النبی ترجمہ:اے نبی۔(سورۃ الاحزاب، آیت :1)اللہ پاک نے اپنے پیارے حبیب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو یایھا النبی کے ساتھ خطاب فرمایا۔نبی کے معنیٰ ہیں ہماری طرف سے خبریں دینے والے، ہمارے رازوں کے امین، ہمارا خطاب ہمارے پیارے بندوں کو پہنچانے والے۔ اللہ پاک نے دوسرے انبیائے کرام علیہم السلام کو ان کے مبارک اسماء کے ساتھ خطاب فرمایا، لیکن حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو یا محمد کہہ کر خطاب نہ فرمایا، مقصد آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی تعظیم و تکریم اور افضیلت و فوقیت کو ظاہر کرنا ہے۔10۔رسول صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:قرآنِ کریم میں اللہ پاک نے شاہِ بنی آدم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو اسم مبارک رسول کے ساتھ خطاب فرمایا اور عزت عطا فرمائی،جیسا کہ سورۃالمائدہ میں ہے:یایھا الرسول۔ترجمہ:اے رسول۔(سورۃ المائدہ، آیت 67)دیگر انبیائے کرام علیہم الصلوۃ والسلام کو اللہ پاک نے ان کے مبارک اسماء سے خطاب فرمایا، لیکن نبیِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی یہ خصوصیت ہے کہ آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو ان کے ربّ کریم نے رسول کے لقب سے خطاب فرمایا۔ان اسمائے مصطفے کے علاوہ اور بھی کئی اسمائے مصطفے قرآنِ کریم میں اللہ پاک نے ارشاد فرمائے ہیں۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ ان مقدس اسما کے صدقے ہمیں بروزِ آخرت آقائے کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی شفاعت نصیب فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم


قرآن مجید فرقان حمید میں ربِّ کریم نے اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو بہت سارے ناموں کے ساتھ یاد فرمایا ہے جن میں سے چند نام یہ ہیں :

(1) یٰسٓ : یہ حروفِ مُقَطَّعات میں سے ایک حرف ہے،اس کی مراد اللہ پاک ہی بہتر جانتا ہے ،نیزاس کے بارے مفسرین کا ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ سیّد المرسَلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اَسماءِ مبارکہ میں سے ایک اسم ہے۔(جلالین مع صاوی، یس، تحت الآیۃ: 1، 5 / 1705)

(2) رحمة للعالمين : تمام جہانوں کے لیے رحمت ، ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ، ہم نے آپ کو تمام جہانوں کیلئے رحمت بنا کر ہی بھیجا ہے۔

(3) طٰهٰ : یہ حروفِ مُقَطَّعات میں سے ہے۔ مفسرین نے اس حرف کے مختلف معنی بھی بیان کئے ہیں ،ان میں سے ایک یہ ہے کہ’’ طٰہٰ ‘‘تاجدارِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اَسماءِ مبارکہ میں سے ایک اسم ہے اور جس طرح اللہ پاک نے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا نام ’’محمد‘‘ رکھا ہے اسی طرح آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا نام’’طٰہٰ‘‘ بھی رکھا ہے۔( تفسیرقرطبی، طہ، تحت الآیۃ: 1، 6 / 72، الجزء الحادی عشر)

(4) مزمل : چادر اوڑھنے والا ، ایک قول یہ ہے کہ وحی نازل ہونے کے ابتدائی زمانے میں سیّد المرسَلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم خوف سے اپنے کپڑوں میں لپٹ جاتے تھے ،ایسی حالت میں حضرت جبریل علیہ السّلام نے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ’’ یٰۤاَیُّهَا الْمُزَّمِّلُۙ ‘‘ کہہ کر ندا کی ۔ دوسرا قول یہ ہے کہ ایک مرتبہ تاجدارِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم چادر شریف میں لپٹے ہوئے آرام فرما رہے تھے، اس حالت میں آپ کو ندا کی گئی ’’ یٰۤاَیُّهَا الْمُزَّمِّلُۙ ‘‘ ۔( خازن، المزمل، تحت الآیۃ: 1، 4 / 320، ابو سعود، المزمل، تحت الآیۃ: 1، 5 / 782)

(5) مدثر : چادر اوڑھنے والا ، حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، سرکارِ دو عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’میں حرا پہاڑ پر تھا کہ مجھے ندا کی گئی ’’یَا مُحَمَّدْ اِنَّکَ رسولُ اللّٰہ‘‘ میں نے اپنے دائیں بائیں دیکھا توکچھ نہ پایا اور جب اوپر دیکھا تو ایک شخص (یعنی وہی فرشتہ جس نے ندا کی تھی) آسمان اور زمین کے درمیان بیٹھا ہے ،یہ دیکھ کر مجھ پر رُعب طاری ہوا اور میں حضرت خدیجہ رضی اللہُ عنہا کے پاس آیا اور میں نے انہیں کہا کہ مجھے چادر اُڑھاؤ، انہوں نے چادر اُڑھا دی،اس کے بعد حضرت جبریل علیہ السلام آئے اور انہوں نے کہا ’’ یٰۤاَیُّهَا الْمُدَّثِّرُۙ‘‘ اے چادر اوڑھنے والے۔( مدارک، المدثر، تحت الآیۃ: 1، ص:1296)

(6) شاهد : گواہ ،آیت کے اس حصے میں نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ایک وصف بیان فرمایا گیا کہ اللہ پاک نے آپ کو شاہد بنا کر بھیجا ہے۔ شاہد کا ایک معنی ہے حاضر و ناظر یعنی مشاہدہ فرمانے والا اور ایک معنی ہے گواہ۔ (صراط الجنان ، الاحزاب، الآیۃ 45)

(7،8) مبشر / نذیر : خوشخبری سنانے والا / ڈرانے والا، یہاں سیّد العالَمین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دو اَوصاف بیان کئے گئے کہ اللہ پاک نے اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ایمانداروں کو جنت کی خوشخبری دینے والااور کافروں کو جہنم کے عذاب کا ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ۔(مدارک، الاحزاب، تحت الآیۃ: 45، ص:944) صراط الجنان ، الاحزاب ، الآیۃ 46)

(9) داعي الی الله : اللہ کی طرف بلانے والا ، آیت کے اس حصے میں حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے چوتھے وصف کا بیان ہے کہ اے حبیب! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ، آپ کوخدا کے حکم سے لوگوں کو خدا کی طرف بلانے والا بنا کر بھیجا گیا ہے۔(روح البیان، الاحزاب، تحت الآیۃ: 46، 7 / 196، جلالین، الاحزاب، تحت الآیۃ: 46، ص:355، ملتقطاً)

(10) سِراج منیر : روشن آفتاب ، یہاں سرکارِ دو عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا پانچواں وصف بیان فرمایا گیا کہ اللہ پاک نے آپ کو چمکا دینے والا آفتاب بنا کر بھیجا۔ (صراط الجنان، الاحزاب، الآیۃ 46)


بلال رضا عطاری کانپوری(درجہ  دورہ حدیث شریف جامعۃ المدینہ نیپال گنج، نیپال)

Tue, 15 Mar , 2022
2 years ago

اللہ پاک نے اپنے محبوب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو بے مثال و باکمال بنایا ایسا باکمال کہ جس کا ثانی ہے نہ سایہ، کسی نے کیا خوب کہا :

تاریخ اگر ڈھونڈے گی ثانی محمد

ثانی تو بڑی چیز ہے سایہ نہ ملے گا

رب العالمین نے اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو رحمۃ للعالمین کیا اور بے شمار خصائص آپ کو عطا فرمائے، آپ کے شرف میں سے یہ بھی ہے کہ آپ کو کثیر نام عطا ہوئے، امام قسطلانی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: وكثرة الأسماء تدل على شرف المسمى.

ترجمہ: ناموں کی کثرت جس کے نام ہیں اس کے شرف پر دلالت کرتی ہے۔(المواهب اللدنيہ بالمنح المحمديہ، 1/364، دار الکتب العلمیہ)

جب علماء کرام نے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اسمائے مبارکہ کی تعداد شمار کی تو مختلف تعداد تک پہنچے، امام قسطلانی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: فمنهم من بلغ تسعة وتسعين، موافقة لعدد أسماء الله الحسنى الواردة فى الحديث.

ترجمہ: ان میں سے بعض ننانوے اسماء تک پہنچے جو اللہ پاک کے اسماء حسنیٰ کے موافق ہے۔

قال القاضى عياض: وقد خصه الله تعالى بأن سماه من أسمائه الحسنى بنحو من ثلاثين اسما.

امام قاضی عیاض رحمۃُ اللہِ علیہ نے فرمایا: اللہ پاک نے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو یہ خصوصیت عطا فرمائی ہے کہ آپ کے ناموں میں سے تیس نام اپنے نام پر رکھے۔

وقال ابن دحية فى كتابه «المستوفى» : إذا فحص عن جملتها من الكتب المتقدمة والقرآن والحديث وفّى الثلاثمائة، انتهى.

ابن دحیہ نے اپنی کتاب "المستوفی" میں کہا جب گذشتہ کتب اور قرآن سے آپ کے ناموں کی تحقیق کی جائے تو وہ تین سو تک پہنچتے ہیں۔

ورأيت فى كتاب «أحكام القرآن» للقاضى أبى بكر بن العربى: قال بعض الصوفية: لله تعالى ألف اسم وللنبى صلى الله عليه وسلم ألف اسم انتهى.

امام قسطلانی فرماتے ہیں میں نے قاضی ابو بکر بن العربی کی کتاب "احکام القرآن" میں دیکھا کہ بعض صوفیا نے فرمایا کہ اللہ پاک کے ایک ہزار نام ہیں اور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بھی ایک ہزار نام ہیں۔ (المواهب اللدنيہ، 1/366، دار الکتب العلمیہ)

اسماء النبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں کثیر نام وہ ہیں جن کا ذکر قرآن میں ہوا، ان میں سے چند ملاحظہ ہوں:

(1) محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم: یہ مبارک نام سید المرسلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا سب سے مشہور نام ہے، جو قرآن کریم میں کئی مقامات پر مذکور ہوا، اللہ پاک نے فرمایا: وَ  مَا  مُحَمَّدٌ  اِلَّا  رَسُوْلٌۚ ترجمہ کنزالایمان: اور محمد تو ایک رسول ہیں۔(پ 4،آل عمران:144)

امام قسطلانی فرماتے ہیں: فيه معنى المبالغة والتكرار، فالمحمد هو الذى حمد مرة بعد مرة. ترجمہ: اس میں مبالغہ اور تکرار کا معنی ہے، تو محمد کا معنی ہوا وہ ذات جس کی باب باب تعریف کی جائے۔(المواهب اللدنيہ، 1/347، دار الکتب العلمیہ)

(2) احمد: یہ وہ مبارک نام ہے جسے اللہ پاک نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زبان سے جاری فرمایا جس کا ذکر قرآن میں ہوا: وَ مُبَشِّرًۢا بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْۢ بَعْدِی اسْمُهٗۤ اَحْمَدُؕ ترجمۂ کنزالعرفان : اور اس عظیم رسول کی بشارت دینے والا ہوں جو میرے بعد تشریف لائیں گے ان کا نام احمد ہے ۔(پ 28،الصف:6)

علامہ صالح الشامی فرماتے ہیں: قال العلماء: لم يسمّ به أحد قبل نبينا صلى الله عليه وسلم منذ خلق الله تعالى الدنيا. ترجمہ: علماء نے فرمایا: اللہ پاک نے جب سے دنیا بنایا ہمارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے پہلے کسی کا نام احمد نہ ہوا۔ (سبل الهدى والرشاد، 1/416، دار الکتب العلمیہ)

(3) خاتم النبیین: آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم خاتم النبیین بھی ہیں جس کا معنی ہے سب نبیوں میں آخر، کیونکہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں۔ اللہ پاک نے قرآن میں فرمایا:مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ ترجمہ کنزالعرفان: محمد تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے آخر میں تشریف لانے والے ہیں ۔(پ 22،الاحزاب:40)

آپ کے خاتم النبیین ہونے کی کئی حکمتیں ہیں جس کا ذکر کرتے ہوئے علامہ صالح الشامی فرماتے ہیں:إنه لو كان بعده نبي لكان ناسخاً لشريعته. ومن شرفه أن تكون شريعته ناسخة لكل الشرائع غير منسوخة. ولهذا إذا نزل عيسى صلى الله عليه وسلم فإنما يحكم بشريعة نبينا صلى الله عليه وسلم لا بشريعته، لأنها قد نسخت. ترجمہ: اگر آپ کے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ آپ کی شریعت کا ناسخ ہوتا، اور آپ کا شرف یہ ہے کہ آپ کی شریعت تمام شریعتوں کے لئے ناسخ ہو نہ کی منسوخ ہو، یہی وجہ ہے کہ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ہوگا تو وہ ہمارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی شریعت کے مطابق فیصلے کریں گے نہ کہ اپنی شریعت کے مطابق، کیونکہ ان کی شریعت منسوخ ہو چکی۔(سبل الهدى والرشاد، 1/453، دار الکتب العلمیہ)

اگر "تاء" پر فتح کے ساتھ خاتَم پڑھا جائے تو اس کا معنی ہوگا:أنه أحسن الأنبياء خَلقاً وخُلُقاً، ولأنه صلى الله عليه وسلم جمال الأنبياء صلى الله عليه وسلم كالخاتم الذي يُتجمّل به. ترجمہ: آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تمام انبیاء علیہم السلام سے خَلق اور خُلق کے اعتبار سے عمدہ ہیں، کیونکہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم انبیاء کا جمال ہیں جیسے وہ انگوٹھی جس سے جمال حاصل کیا جاتا ہے۔(سبل الهدى والرشاد، 1/452، دار الکتب العلمیہ)

(4) نور: قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّ كِتٰبٌ مُّبِیْنٌۙ(۱۵)ترجمہ کنزالعرفان:: بیشک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور آگیا اور ایک روشن کتاب۔(پ 6،المائدہ:15)

علامہ احمد صاوی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:وسمي نورا لأنه ينور البصائر ويهديها للرشاد، ولأنه أصل كل نور حسي ومعنوي. ترجمہ: حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا نام اس آیت میں نور رکھا گیا اس لئے کہ حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بصیرتوں کو روشن کرتے اور انہیں رُشد و ہدایت فرماتے ہیں اور اس لئے کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہر نور حِسّی (وہ نور جسے دیکھا جا سکے) اور مَعْنَوِی (جیسے علم وہدایت) کی اصل ہیں۔(حاشیہ صاوی، 2 / 103)

علامہ خازن رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:إنما سماه الله نورا لأنه يهتدى به كما يهتدى بالنور في الظلام. ترجمہ: اللہ پاک نے آپ کو نور اس لئے فرمایا کہ جس طرح اندھیرے میں نور کے ذریعے ہدایت حاصل ہوتی ہے اسی طرح آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ذریعے بھی ہدایت حاصل ہوتی ہے۔( تفسير الخازن لباب التأويل في معاني التنزيل، 2/24)

(5) رحمۃ للعالمین:اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۰۷) ترجمہ کنزالعرفان: اور ہم نے تمہیں تمام جہانوں کیلئے رحمت بنا کر ہی بھیجا۔(پ 17،الانبیاء:107)

علامہ صالح الشامی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:فهو صلى الله عليه وسلم رحمة لجميع الخلق، المؤمن بالهداية والمنافق بالأمان من القتل، والكافر بتأخير العذاب عنه. ترجمہ: نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تمام مخلوق کے لئے رحمت ہیں، مؤمن کے لئے ہدایت کے ذریعے، منافق کے لئے قتل سے امان کے ذریعے، اور کافر کے لئے عذاب کو مؤخر کر کے۔(سبل الهدى والرشاد، 1/464، دار الکتب العلمیہ)

اللہ پاک نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا: یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۴۵) وَّ دَاعِیًا اِلَى اللّٰهِ بِاِذْنِهٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیْرًا(۴۶) ترجَمۂ کنزُالایمان: اے غیب کی خبریں بتانے والے (نبی) بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر ناظر اور خوشخبری دیتا اور ڈر سناتا۔اور اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلاتا او ر چمکادینے والا آفتاب۔ (پ 22،احزاب:45)

مذکورہ آیت میں اللہ پاک نے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے کئی اسمائے مبارکہ ذکر فرمائے، جن کی مختصر وضاحت ملاحظہ ہو:

(6) شاہد:اس کا معنی ہوتا ہے گواہ، علامہ صالح الشامی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: أي على من بعثت إليهم مقبول القول عليهم عند الله تعالى كما يقبل الشاهد العدل. ترجمہ: یعنی جن کی طرف آپ کو مبعوث کیا ان لوگوں پر گواہ بنا کر بھیجا، ان کے بارے میں آپ کا قول عند اللہ اسی طرح مقبول ہے جیسا عادل گواہ کا ہوتا ہے۔(سبل الهدى والرشاد، 1/474، دار الکتب العلمیہ)

(7) سراج: سراج کا کا معنی ہوتا ہے سورج، سراج کی وضاحت کرتے ہوئے سبل الهدى والرشاد میں ہے :وسمي سراجاً لإضاءة الدنيا بنوره، ومحو الكفر وظلامه بظهوره، وشبع بالشمس لأنه الغاية في النيرات. ترجمہ: سراج آپ کو اس وجہ سے کہا گیا کیونکہ آپ نے دنیا کو اپنے نور سے منور کر دیا، اور اپنے ظہور سے کفر اور اس کی ظلمت کو مٹا دیا، سورج سے آپ کو اس وجہ سے تشبیہ دی گئی کیونکہ وہ بہت زیادہ روشن ہے۔

آگے مزید فرماتے ہیں: أنها سيّدة الأنوار الفلكية، وهو صلى الله عليه وسلّم سيد الأنبياء. ترجمہ: آپ کو سورج سے اس وجہ سے تشبیہ دی گئی کیونکہ سورج انوار فلکیہ کا سردار ہے، اور سردار دو جہاں صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم انبیاء علیہم السلام کے سردار ہیں۔(سبل الہدی والرشاد، 1/469، دار الکتب العلمیہ)

(8) منیر: اس کا معنی ہوتا ہے روشن کرنے والا، اس کی وضاحت کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں: وقد وصف الله رسوله صلى الله عليه وسلم بالمنير ولم يصف الشمس إذ سمّاها بذلك لأنها خلقت من نوره ولأن دولتها في الدنيا فقط ودولته ونوره صلى الله عليه وسلم في الدنيا وفي الآخرة أعظم. ترجمہ: اللہ پاک اپنے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا وصف منیر ذکر فرمایا لیکن سورج کا یہ وصف بیان نہیں کیا کیونکہ سورج کو آپ کے نور سے پیدا کیا گیا ہے، اور اس لئے کیونکہ سورج کا اقتدار صرف دنیا پر ہے اور آپ کی حکومت کا جھنڈا دنیا وآخرت دونوں جہاں میں لہرا رہا ہے۔ (سبل الهدى والرشاد، 1/469، دار الکتب العلمیہ)

اللہ پاک نے آپ کے اسمائے مبارکہ کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۘ(۱۰۵) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر خوشی اور ڈر سناتا۔(پ 15،بنی اسرائیل:105)

مذکورہ آیت میں نبی رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دو اسماء مبارکہ ذکر ہوئے:

(9) مبشر (10) نذیر : "مبشر" کا معنی ہوتا ہے خوشخبری دینے والا، اور "نذیر" کا معنی ہے ڈر سنانے والا، ان دونوں ناموں کی وضاحت کرتے ہوئے امام قسطلانی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:

مبشرا لأهل طاعته بالثواب، ونذيرا لأهل معصيته بالعذاب.

ترجمہ: جو آپ کی اطاعت کرتے ہیں انہیں ثواب کی خوشخبری دیتے ہیں، اور گنہگاروں کو عذاب سے ڈرانے والے ہیں۔(المواهب اللدنيہ، 1/385، دار الکتب العلمیہ)

نذیر کے تعلق سے علامہ صالح الشامی فرماتے ہیں:وسمّي صلى الله عليه وسلم بذلك لأنه يخوّف الناس العذاب ويحذّرهم من سوء الحساب. ترجمہ: آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو نذیر اس وجہ سے کہا گیا کیونکہ آپ لوگوں کو عذاب سے ڈراتے اور برے حساب سے خوف زدہ کرتے تھے۔(سبل الهدى والرشاد، 1/529، دار الکتب العلمیہ)

یہ چند وہ اسمائے مبارکہ ہیں جن کا ذکر قرآن مقدس میں ہوا، تفصیل کے لئے "سبل الهدى والرشاد" اور "المواهب اللدنيہ" وغیرہ کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔

اللہ پاک اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے مبارک اسماء کا فیض خاص عطا فرمائے۔ اٰمین یا رب العالمین بجاہ سید المرسلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


قرآن مجید فرقان حمید میں ربِّ پاک نے اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو بہت سارے ناموں کا ذکر فرمایا جن میں سے چند نام یہ ہیں :

(1) أحمد : یہ ہمارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا بہت ہی زیادہ مشہور و معروف نام مبارک ہے اس کا ذکر قرآن پاک میں ارشاد ہوا: یَّاْتِیْ مِنْۢ بَعْدِی اسْمُهٗۤ اَحْمَدُؕ ترجمۂ کنزالعرفان : جو میرے بعد تشریف لائیں گے ان کا نام احمد ہے ۔(پ 28،الصف:6)

(2) محمد :حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا سب سے مشہور نام محمد ہے قرآن میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:وَ  مَا  مُحَمَّدٌ  اِلَّا  رَسُوْلٌۚ ترجمہ کنزالایمان: اور محمد تو ایک رسول ہیں۔(پ 4،آل عمران:144)

محمد کا معنی ہے بہت تعریف کیا ہوا ۔

(3) ‏یٰسٓ : یہ حروفِ مُقَطَّعات میں سے ایک حرف ہے،اس کی مراد اللہ پاک ہی بہتر جانتا ہے ،نیزاس کے بارے مفسرین کا ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ سیّد المرسَلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اَسماءِ مبارکہ میں سے ایک اسم ہے۔(جلالین مع صاوی، یس، تحت الآیۃ: 1، 5 / 1705)

(4) مزمل : چادر اوڑھنے والا ، ایک قول یہ ہے کہ وحی نازل ہونے کے ابتدائی زمانے میں سیّد المرسَلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم خوف سے اپنے کپڑوں میں لپٹ جاتے تھے ،ایسی حالت میں حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام نے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ’’ یٰۤاَیُّهَا الْمُزَّمِّلُۙ(۱) ‘‘ کہہ کر ندا کی ۔ دوسرا قول یہ ہے کہ ایک مرتبہ تاجدارِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم چادر شریف میں لپٹے ہوئے آرام فرما رہے تھے، اس حالت میں آپ کو ندا کی گئی ’’ یٰۤاَیُّهَا الْمُزَّمِّلُۙ(۱) ‘‘ ۔

( خازن، المزمل، تحت الآیۃ: 1، 4 / 320، ابو سعود، المزمل، تحت الآیۃ: 1، 5 / 782)

(5) طٰهٰ : یہ حروفِ مُقَطَّعات میں سے ہے۔ مفسرین نے اس حرف کے مختلف معنی بھی بیان کئے ہیں ،ان میں سے ایک یہ ہے کہ’’ طٰہٰ ‘‘تاجدارِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اَسماءِ مبارکہ میں سے ایک اسم ہے اور جس طرح اللہ پاک نے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا نام ’’محمد‘‘ رکھا ہے اسی طرح آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا نام’’طٰہٰ‘‘ بھی رکھا ہے۔( تفسیرقرطبی، طہ، تحت الآیۃ: 1، 6 / 72، الجزء الحادی عشر)

اس کے علاوہ بھی قرآن میں حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے نام مذکور ہے اس لئے آپ تفسیر کی کتب کا مطالعہ کریں۔


اللہ پاک نے قرآن پاک میں بے شمار مقامات پر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اور صفات بیان فرمائیں۔ جس طرح حضور کی صفات بے شمار ہیں اسی طرح شاہ بنی آدم حضور رحمت اللعالمین کے اسماء مبارکہ بھی قرآن پاک میں بے شمار ہیں۔ چنانچہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(1) میرے بہت نام ہیں: عن جبیر بن مطعم قال سمعت النبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم یقول ان لی اسماء انا محمد و انا احمد وانا الماحی الذی یمحوا اﷲ بی الکفر وانا الحاشر الذی یحشر الناس علٰی قدمی وانا العاقب الذی لیس بعدہ نبی ترجمہ: حضرت جبیر بن مطعم سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ میرے بہت نام ہیں میں محمد ہوں ،میں احمد ہوں،محو کرنے والا ہوں کہ اللہ میرے ذریعے کفر محو فرمائے گا اور میں جامع ہوں کہ لوگ میرے قدموں پر جمع کیے جائیں گے اور میں عاقب ہوں عاقب وہ جس کے بعد کوئی نبی نہیں۔ (مشکوٰة المصابیح ، 8 / 52 ،حدیث : 5522)

حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنے نام بیان فرمائے: عن ابی موسی الاشعری قال کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یُسمی لنا نفسہ اسماءً فقال انا محمد و احمد المقفّی والحاشر ونبیّ التوبۃ ونبیّ الرحمۃ رواہ مسلم ترجمہ حضرت ابو موسیٰ اشعری سے روایت ہے اور فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہم کو اپنے نام بیان فرمایا کرتے تھے کہ میں محمد ہوں، میں احمد ہوں، میں حاشر ہوں، میں توبہ کا نبی ہوں ، میں رحمت کا نبی ہوں۔( مشکوٰة المصابیح ، 8 / 52 ،حدیث : 5523)

اللہ پاک نے جو قرآن پاک میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نام بیان فرمائے ان میں سے بعض یہ ہیں:

(1) خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ سب نبیوں سے پچھلے ۔(پ 22،الاحزاب:40)

(2) رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۰۷) : سارے جہان کیلئے رحمت ۔(پ 17،الانبیاء:107)

(3) شَاهِدًا:حاضر و ناظر۔(پ 26،الفتح:8)

(4) مُبَشِّرًا : خوشخبری دینے والا۔(پ 26،الفتح:8)

(5) نَذِیْرًاۙ(۸) :ڈر سنانے والا۔(پ 26،الفتح:8)

(6) الْمُزَّمِّلُۙ(۱) ترجَمۂ کنزُالایمان: جھرمٹ مارنے والے ۔(پ 29،مزمل:1)

(7) الْمُدَّثِّرُۙ(۱)ترجَمۂ کنزُالایمان: بالا پوش اوڑھنے والے ۔(پ 29،مدثر:1)

(8) اَحْمَدُؕ :وہ حمد والا ہوا۔(پ 28،الصف:6)

(9) رَّسُوْلَ اللّٰهِ :اللہ کے رسول ۔(پ 22،الاحزاب:40)

(10) نُوْرٌ:نورانیت والے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔(پ 6،المائدہ:15)

اعلی حضرت شاہ امام احمد رضا رحمۃُ اللہِ علیہ کیا خوب فرمائے ہیں :

شکل بشر میں نورِ الٰہی اگر نہ ہو!

کیا قدر اُس خمیرئہ مَا و مَدَر کی ہے

(حدائق بخشش ،ص206)

پَرتَوِ اسمِ ذاتِ اَحد پر درود

نسخۂ جامِعِیَّت پہ لاکھوں سلام

(حدائق بخشش ،ص297)


اللہ  پاک نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت سارے فضائل و کمالات سے نوازا ہے۔ ان کمالات میں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسمائے مبارک بھی ہیں۔ جن کو اللہ پاک نے بہت خوبصورت انداز میں قرآن پاک میں ذکر فرمائیں ہیں۔

(1) مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِؕ ترجَمۂ کنزُالایمان: محمد اللہ کے رسول ہیں۔(پ 26،الفتح:29)

تفسیر صراط الجنان: اس آیت میں اللہ پاک اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی پہچان کروا رہا ہے کہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ پاک کے رسول ہیں۔

(2) وَ النَّجْمِ اِذَا هَوٰىۙ(۱) ترجَمۂ کنزُالایمان: اس پیارے چمکتے تارے محمد کی قسم جب یہ معراج سے اُترے۔(پ 27،نجم:1)

نجم سے مراد تاجدار رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارک ہے ۔( تفسیر صراط الجنان)

(3) قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّ كِتٰبٌ مُّبِیْنٌۙ(۱۵)ترجمہ کنزالعرفان:: بیشک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور آگیا اور ایک روشن کتاب۔(پ 6،المائدہ:15)

تفسیر صراط الجنان: نور سے مراد سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات و صفات ہے۔

(4) یٰسٓۚ(۱) وَ الْقُرْاٰنِ الْحَكِیْمِۙ(۲) اِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَۙ(۳)ترجَمۂ کنزُالایمان: حکمت والے قرآن کی قسم بےشک تم۔(پ 22،یٰس:1 تا 3)

تفسیر صراط الجنان: یٰس اس بارے میں مفسرین کا ایک یہ بھی ہے کہ یہ سید المرسلین صلی اللہ. علیہ وسلم کے اسماء مبارک میں سے ایک اسم ہے ۔

(5) طٰهٰۚ(۱)

تفسیر صراط الجنان: طٰہٰ یہ تاجدار رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسماء مبارکہ میں سے ایک اسم ہیں۔ جس طرح اللہ پاک نے اپنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام محمد رکھا اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام طٰہٰ بھی رکھا ہے ۔

(6) یٰۤاَیُّهَا الْمُزَّمِّلُۙ(۱) ترجَمۂ کنزُالایمان: اے جھرمٹ مارنے والے ۔(پ 29،مزمل:1)

تفسیر صراط الجنان: قرآن پاک میں دیگر انبیاء کرام کو ان کے نام شریف سے پکارا گیا جبکہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی صفات شریف سے ندا کی گئی۔ ندا کے اس انداز سے معلوم ہوا کہ اللہ پاک کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر ادا پیاری ہے۔

(7) یٰۤاَیُّهَا الْمُدَّثِّرُۙ(۱)ترجَمۂ کنزُالایمان: اے بالا پوش اوڑھنے والے ۔(پ 29،مدثر:1)

(8) یٰۤاَیُّهَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَؕ ترجَمۂ کنزُالایمان: اے رسول پہنچادو جو کچھ اُترا تمہیں تمہارے رب کی طرف سے۔(پ 6،مائدہ:67)

تفسیر صراط الجنان: اللہ پاک نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول کے لقب سے خطاب فرمایا یہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت ہے۔

(9) یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۴۵) ترجَمۂ کنزُالایمان: اے غیب کی خبریں بتانے والے (نبی) بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر ناظر اور خوشخبری دیتا اور ڈر سناتا۔ (پ 22،احزاب:45)

تفسیر صراط الجنان: اللہ پاک نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شاہد بنا کر بھیجا۔ اللہ پاک نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو ایمانداروں کو جنت کی خوشخبری دینے والا اور کافروں کو جہنم کے عذاب کا ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا۔

(10) وَّ دَاعِیًا اِلَى اللّٰهِ بِاِذْنِهٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیْرًا(۴۶) ترجمہ کنزالعرفان: اور اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلانے والا اور چمکا دینے والا آفتاب بنا کر بھیجا۔(پ 22،الاحزاب:46)

تفسیر صراط الجنان: سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ پاک نے چمکا دینے والا آفتاب بنا کر بھیجا۔


فرمان مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم: جس نے مجھ پرایک مرتبہ درو د پاک پڑھا اللہ پاک اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا اس کے دس گناہ مٹا دے گا اور اس کے دس درجا ت بلند فرمائے گا ۔

قرآن کریم سے 10 اسمائے مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم درج ذیل ہیں۔

(1) اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ بِالْحَقِّ بَشِیْرًا وَّ نَذِیْرًاۙ ترجمہ کنزالایمان : بے شک ہم نے تمہیں حق کے ساتھ بھیجا خوشخبری دیتا اور ڈر سناتا ( پ 1، بقرہ : 119)

بشیر کا مطلب اچھی خوشخبری دینے والا (مراد جنت کی) ،نذیر کا مطلب وعیدوں سے ڈرانے والے (مراد جہنم سے)

(2) قلم اور نور :دونوں سے حقیقت محمدیہ مراد ہے۔ اسی لئے بعض مفسرین نے فرمایا کہ قلم میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نام ہے۔

أولُ ما خلق اللهُ القلَمَ دوسری میں ہے أول ما خلق الله نوری۔ان دونوں حدیثوں میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نامی اسم گرامی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس لئے قلم کہتے ہیں کہ جیسے تحریر سے پہلے قلم ہوتا ہے ایسے ہی عالم سے پہلے حضور علیہ السلام ہوئے۔

(3) مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِؕ ترجَمۂ کنزُالایمان: محمد اللہ کے رسول ہیں۔(پ 26،الفتح:29)

(4) هُوَ الْاَوَّلُ وَ الْاٰخِرُ وَ الظَّاهِرُ وَ الْبَاطِنُۚ-وَ هُوَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ(۳) ترجَمۂ کنزُالایمان:وہی اوّل وہی آخر وہی ظاہر وہی باطن اور وہی سب کچھ جانتا ہے۔(پ 27،حدید:3)

مولانا شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃُ اللہِ علیہ نے ’’مدارجُ النُّبوۃ“کے خطبے میں ذکر کیا ہے: یہ آیت کریمہ حمد الہی بھی ہے اور نعمتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہے۔ حضور سب سے اوّل بھی ہیں اور آخر بھی اور سب پر ظاہر اور سب سے چھپے ہوئے ۔اول اور آخر کریم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صفاتی نام ہیں۔

(5) طٰهٰۚ(۱) مَاۤ اَنْزَلْنَا عَلَیْكَ الْقُرْاٰنَ لِتَشْقٰۤىۙ(۲)ترجَمۂ کنزُالایمان: اے محبوب ہم نے تم پر یہ قرآن اس لیے نہ اُتارا کہ تم مشقت میں پڑو۔(پ 16،طٰہٰ:2،1)

یہ آیت کریمہ بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نعت شریف ہے اور اس میں پروردگار عالم کا اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم پر انتہائی کرم ہے۔ اس آیت میں دو طرح سے نعت شریف ظاہر ہو رہی ہے: ایک تو کلمہ طہ سے اور ایک باقی آیت سے ہے بعض کے نزدیک متشابہات میں سے ہے۔( روح البیان) اور بعض علماء کرام فرماتے ہیں کہ یہ حضور علیہ السلام کا اسم مبارک ہے اور بعض فرماتے کہ یہ لقب پاک مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے بعض نے کہا کہ اس سورہ کا نام ہے۔

(6) یٰۤاَیُّهَا الْمُزَّمِّلُۙ(۱) ترجَمۂ کنزُالایمان: اے جھرمٹ مارنے والے ۔(پ 29،مزمل:1)

"المزمل " جو حضورعلیہ السلام کا صفاتی نام ہے اور حضور علیہ السلام کی بڑی خوبصورت ادا پر لکھا گیا ہے کہ جب حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نماز تہجد ادا فرماتے تھے۔ روح البیان میں اس آیت کی تفسیر میں فرمایا کہ رات کو محبوب علیہ السلام چادر اوڑھے آرام فرما رہے تھے رب العالمین نے اشتیاق فرمایا کہ اس وقت ہمارے محبوب ہم سے مناجات اور راز و نیاز کی باتیں کرے، تو ندا دے کر جگایا کہ اے آرام فرمانے والے محبوب، اس وقت ہم سے بات کرو۔

(7) یٰسٓۚ(۱) وَ الْقُرْاٰنِ الْحَكِیْمِۙ(۲) اِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَۙ(۳)ترجَمۂ کنزُالایمان: حکمت والے قرآن کی قسم بےشک تم۔(پ 22،یٰس:1 تا 3)

یہ آیت کریمہ میں حضور علیہ السلام کی نعت ہے اس آیت میں تین کلمے ہیں ایک یٰسٓۚ دوسرے وَ الْقُرْاٰنِ الْحَكِیْمِۙ تیسرے اِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَۙ اور تینوں میں علیحدہ علیحدہ لطف ہے۔ کلمہ یٰسٓۚ متشابہات میں سے ہے۔ اس کے صحیح معنی تو رب کریم ہی جانے یا محبوب علیہ السلام۔ مگر مفسرین نے کچھ تشریح کی ہے۔ اولا تو یہ کہ یٰسٓۚ حضور علیہ السلام کا اسم شریف ہے اور ندا پوشیدہ ہیں۔( یعنی اللہ پاک حضور سے حقیقی طور پر مخاطب ہیں) الْمُرْسَلِیْنَۙ اس سے مراد جہاں والوں کے سردار۔

(8) وَّ جَعَلَ فِیْهَا سِرٰجًا وَّ قَمَرًا مُّنِیْرًا(۶۱)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ان میں چراغ رکھا اور چمکتا چاند۔(پ 19،فرقان:61)

یہ بھی حضور علیہ السلام کے صفاتی نام ہیں منیر۱ کامطلب ہے کہ اگر اس سے مراد سورج ہے تو آپ بھی آسمانِ ہدایت کے سورج ہیں۔

(9) لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ(۱۲۸) ترجَمۂ کنزُالایمان: بےشک تمہارے پاس تشریف لائے تم میں سے وہ رسول جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا گراں ہے تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے مسلمانوں پر کمال مہربان مہربان ۔(پ 11،التوبہ : 128)

اس آیت میں حضور علیہ السلام کے میلاد اور ان کے نسب کی شان بیان کی گئی ہے کہ جہاں حضور کے صفاتی نام کی شان ہے وہاں حضور کے میلاد اور نسب کا بہت بڑا مقام ہے ۔۔حضور علیہ السلام کی عزت کا اظہار اور پیغمبروں نے بھی اپنی اپنی امتوں کے سامنے حضور کے آنے کی بشارت دی تھی۔ معلوم ہوا کہ میلاد پاک سنت الٰہیہ اور سنت انبیاء ہے۔

(10) یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ قَدْ جَآءَكُمْ بُرْهَانٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكُمْ نُوْرًا مُّبِیْنًا(۱۷۴)ترجَمۂ کنزُالایمان: اے لوگو بے شک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے واضح دلیل آئی اور ہم نے تمہاری طرف روشن نور اُتارا۔(پ 6،نساء:174)

برہان کے معنی دلیل ہیں۔ جس سے کہ دعوے کو مضبوط کیا جاتا ہے۔ یہاں دلیل سے مراد معجزات ہیں۔ جس قدر معجزے پہلے پیغمبروں کو ملے وہ سب حضور علیہ السلام کو عطا ہوئے۔ حضور علیہ السلام از سر تا قدم پاک خود اللہ پاک کی وحدانیت اور ذات و صفات کی دلیل ہیں۔ لہذا برہان سے مراد حضور علیہ سلام کی ذات پاک ہے۔ اور پیغمبروں کی ذات معجزہ نہیں ۔


پیارے بھائیو!  اللہ پاک نے ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کو بڑی شان اور عظمت سے نوازا ہے۔ اور اس نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کو مختلف اسماء سے پکارا ہے اور قرآن پاک میں مختلف نام ذکر کئے ہیں۔ آئیے حصول برکت کے لئے چند اسماء کا ذکر خیر کرتے ہیں:

(1 تا 3) شاہد ،مبشر ،نذیر: اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۸) ترجمہ کنزالعرفان:بیشک ہم نے تمہیں گواہ اور خوشخبری دینے والااور ڈر سنانے والا بنا کربھیجا۔(پ 26،الفتح:8)

(4) مزمل: یٰۤاَیُّهَا الْمُزَّمِّلُۙ(۱) ترجَمۂ کنزُالایمان: اے جھرمٹ مارنے والے ۔(پ 29،مزمل:1)

(5) رحمت اللعالمین: وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۰۷) ترجمہ کنزالعرفان: اور ہم نے تمہیں تمام جہانوں کیلئے رحمت بنا کر ہی بھیجا۔(پ 17،الانبیاء:107)

(6) نور: قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّ كِتٰبٌ مُّبِیْنٌۙ(۱۵)ترجمہ کنزالعرفان: بیشک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور آگیا اور ایک روشن کتاب۔(پ 6،المائدہ:15)

(7 تا 8) داعی، سراج: وَّ دَاعِیًا اِلَى اللّٰهِ بِاِذْنِهٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیْرًا(۴۶) ترجمہ کنزالعرفان: اور اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلانے والا اور چمکا دینے والا آفتاب بنا کر بھیجا۔(پ 22،الاحزاب:46)

(9) شہید: وَّ جِئْنَا بِكَ عَلٰى هٰۤؤُلَآءِ شَهِیْدًاﳳ(۴۱)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اے محبوب تمہیں ان سب پر گواہ اور نگہبان بنا کر لائیں(پ 5،نساء:41)

(10) مصدق : ثُمَّ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ ترجَمۂ کنزُالایمان: پھر تشریف لائے تمہارے پاس وہ رسول (ف۱۵۶) کہ تمہاری کتابوں کی تصدیق فرمائے۔(پ 3،آل عمران:81)


اللہ پاک نے اپنے پیارے کلام قرآن کریم میں اپنے پیارے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کو کئی مبارک اور پیارے ناموں سے پکارا اور یہ صرف ہمارے پیارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی خاصہ ہے اور کسی نبی علیہ السلام کو اتنے ناموں سے نہیں پکارا۔

حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے کیا خوب ارشاد فرمایا:

خلقت مبرأ من کل عیب

کانک قد خلقت کما تشاء

یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہر عیب سے پاک پید ا فرمائے گئے گویا آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی تخلیق آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خواہش کے مطابق ہوئی۔

قرآن کریم سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے 10 اسمائے مبارک پیش کرتا ہو:۔

(1) محمد صلی اللہ علیہ وسلم

پارہ 22 سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر 40 میں ارشاد ہوتا ہے : مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ ترجمہ کنزالعرفان: محمد تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے آخر میں تشریف لانے والے ہیں ۔(پ 22،الاحزاب:40)

(2) احمد صلی اللہ علیہ وسلم

اللہ پاک نے قرآن پاک میں پارہ 28 سورۃ الصف آیت نمبر 6 میں ارشاد فرمایا: یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْكُمْ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرٰىةِ وَ مُبَشِّرًۢا بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْۢ بَعْدِی اسْمُهٗۤ اَحْمَدُؕ ترجمۂ کنزالعرفان : اے بنی اسرائیل! میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں ، اپنے سے پہلی کتاب تورات کی تصدیق کرنے والا ہوں اور اس عظیم رسول کی بشارت دینے والا ہوں جو میرے بعد تشریف لائیں گے ان کا نام احمد ہے ۔(پ 28،الصف:6)

(3) محمود صلی اللہ علیہ وسلم

قرآن پاک میں اللہ پاک نے ارشاد فرمایا : عَسٰۤى اَنْ یَّبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا(۷۹) ترجَمۂ کنزُالایمان: قریب ہے کہ تمہیں تمہارا رب ایسی جگہ کھڑا کرے جہاں سب تمہاری حمد کریں۔(پ15،بنی اسراءیل:79)

(4) نبی صلی اللہ علیہ وسلم

اللہ پاک نے قرآن پاک میں پارہ 10 سورہ انفعال آیت نمبر 64 میں ارشاد ہوتا ہے : یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ حَسْبُكَ اللّٰهُ وَ مَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ۠(۶۴) ترجَمۂ کنزُالایمان:اے غیب کی خبریں بتانے والے (نبی) اللہ تمہیں کافی ہے اور یہ جتنے مسلمان تمہارے پیرو ہوئے۔(پ10،انفال:64)

(5) رسول صلی اللہ علیہ وسلم

اللہ پاک نے قرآن پاک میں پارہ 26 سورۃ الفتح آیت نمبر 29 میں ارشاد فرمایا : مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِؕ ترجَمۂ کنزُالایمان: محمد اللہ کے رسول ہیں۔(پ 26،الفتح:29)

(6تا8) شَاهِدًا ، مُبَشِّرًا ، نَذِیْرًا ، صلی اللہ علیہ وسلم

اللہ پاک نے قرآن پاک پارہ 22 سورۃ الاحزاب آیت نمبر 45 میں ارشاد فرمایا: یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۴۵) ترجَمۂ کنزُالایمان: اے غیب کی خبریں بتانے والے (نبی) بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر ناظر اور خوشخبری دیتا اور ڈر سناتا۔(پ 22،احزاب:45)

(9 تا 10) سِرَاجًا ، مُّنِیْرًا صلی اللہ علیہ وسلم

پارہ 22 سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر 46 میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَّ دَاعِیًا اِلَى اللّٰهِ بِاِذْنِهٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیْرًا(۴۶) ترجمہ کنزالعرفان: اور اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلانے والا اور چمکا دینے والا آفتاب بنا کر بھیجا۔(پ 22،الاحزاب:46)