آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے اسما آپ کی سیرتِ مقدسہ کا ایک اہم باب ہیں۔1۔ محمد صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:اَلَّذِىْ يُحْمَدُ حَمّداً مَرَّةً بَعْدَ مَرَّةٍ ترجمہ: وہ ذات( کاملہ) جس کی بار بار تعریف کی جائے۔حضور پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے ذاتی اسمائے گرامی میں سے صرف دو اسمائے پاک محمد اور احمد ذاتی ہیں، قرآنِ پاک میں چار مقامات پر آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا اسمِ گرامی محمد ذکر کیا گیا ہے، مگر آپ کو اللہ پاک نے ذاتی اسمِ پاک سے مخاطب نہیں کیا، بلکہ کسی خاص حوالے سے آپ علیہ الصلوۃ والسلام کا تعارف کروایا ہے، قرآنِ پاک کلامِ الہٰی ہونے کے ساتھ مکمل طور پر صفاتِ رسول کا مظہر ہے۔اسم ہوتا ہے ذات کی پہچان کے لئے۔ لفظ محمد اسمِ ذاتِ مصطفی ہے، ذات آگے ہے، پہلے اسمِ ذات ہے، توربّ فرماتا ہے:اے میرے محبوب کا ذکر کرنے والو! پہلے میرے محبوب کے اسمِ پاک سے اپنے قلب و نظر کو روشن کر لو، پھر درِ محمد پر پہنچنا، تاکہ فیضِ محمدی سے کماحقہٗ فائدہ حاصل کرو۔فضیلتِ اسمِ مصطفی:حضور پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکے شمائل و خصائص کا جیسے شمار ممکن نہیں، اسی طرح آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے اسم مبارک کے فضائل کا احاطہ کرنا انسان کی عقل سے بالاتر ہے۔حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے:دو آدمی اللہ پاک کے حضور حاضر ہوں گے تو اللہ پاک فرمائے گا:تم جنت میں داخل ہو جاؤ، کیونکہ میں نے اپنے اوپر لازم کیا ہے کہ وہ دوزخ میں داخل نہیں ہوگا،جس کا نام محمد یا احمد رکھا گیا۔(حوالہ ابنِ سعد نے طبقات الکبریٰ اور امام مناوی نے فیض القدیر 5:453)مولائے کائنات،علی شیرِ خدا رضی اللہ عنہ سے مرفوعا روایت ہے:جنت میں سب کو ان کے ناموں سے پکارا جائے گا، ان کی کنیت نہیں ہوگی، سوائے حضرت آدم علیہ السلام کے، انہیں تعظیماً ابومحمد کہہ کر پکارا جائے گا اور یہ حضور نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکی توقیر کا سبب ہے۔(حلبی، انسان العیون 1:136)2۔ احمد صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:اَحْمَدُ الْحَامِدِيْنَ لِرَبِّہ۔ ترجمہ: سب سے بڑھ کر اپنے رب کی تعریف کرنے والا۔(الصف:6)ترجمۂ کنزالایمان:اور اس عظیم رسول کی بشارت دینے والا ہوں، جو میرے بعد تشریف لائے گا، ان کا نام احمد ہے۔یہ بھی آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا ذاتی اسمِ پاک ہے، گزشتہ تمام آسمانی کتابوں میں اس اسمِ پاک ساتھ آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو یاد کیا گیا ہے،حضرت عیسٰی علیہ السلام نے اپنی قوم کو آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی دنیا میں تشریف آوری کی خوش خبری اسی اسمِ پاک سے دی۔قیامت کے دن لواءالحمد(حمد کا جھنڈا)آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکے ہاتھ میں ہو گا، اسی بناء پر اللہ پاک آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکو مقامِ محمود پر فائز فرمائے گا اور اسی مناسبت سے اللہ پاک نے اُمّتِ محمدی کا نام حمادون(یعنی بہت زیادہ حمد کرنے والی) بھی رکھا ہے۔3۔ اُمِیٌّ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم(عالم ام الکتاب):القرآن:اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ:ترجمۂ کنزالعرفان:وہ جواس رسول کی اتباع کریں، جو غیب کی خبریں دینے والے ہیں، جو کسی سے پڑھے ہوئے نہیں ہیں۔(الاعراف:157)یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ اُمی آیت مبارکہ میں رسول اور نبی کے بعد بیان کیا گیا ہے، جب کہ رسالت اور نبوت عالمِ غیب اور عالمِ شہادت دونوں کے حقائق سے باخبر ہوئے بغیر ممکن نہیں، لہذا اُمّی سے ہرگز ان پڑھ مراد نہیں۔ عام لوگوں کا پڑھنا اور حضور پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا پڑھنا مختلف ہے، حضور پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکو تمام انسانیت کا معلم بنا کر بھیجا گیا،اللہ پاک کی ذات معلمِ حقیقی نے تمام علوم غیبی طور پر آپ کے سینہ انور میں منتقل کر دیئے۔القرآن:ترجمۂ کنزالایمان:رحمٰن نے قرآن سکھایا، انسان کو پیدا کیا، اسے بیان سکھایا۔ان آیاتِ مبارکہ سے معلوم ہوا ! اللہ پاک معلمِ قرآن ہے، انسان سے مراد دو عالم کے سردار صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم اور بیان سے مراد جو کچھ ہو چکا اور جو کچھ آئندہ ہو گا، کا بیان مراد ہے۔ واضح ہوا ! عالمِ ام الکتاب کو اَن پڑھ کہنا، لکھنا، پڑھنا سَراسَر جہالت ہے، اسی غلط روشنی سے اجتناب کرنا چاہئے، کہیں ایسا نہ ہو کہ معمولی سی گستاخی سے ساری عبادت رائیگاں چلی جائے۔4۔ بُرھَان صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم (اللہ پاک کی سب سے بڑی دلیل): القرآن:ترجمۂ کنزالعرفان:اے لوگو! بے شک تمہارے ربّ کی طرف سے واضح دلیل آگئی اور ہم نے تمہاری طرف روشن نور نازل کیا۔(النساء:174) امام رازی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا اسمِ گرامی برہان اس لئے رکھا گیا، کیونکہ آپ کا اصل مقصد حق اور باطل کے درمیان فرق قائم کرنا ہے، برہان کے معنی دلیل ہے، اس طرح کہ لا الہ الا اللہ دعویٰ ہے اور دعویٰ اُلُوہیت کی دلیل محمد رسول اللہ ہیں،آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمفضل و کمال کے آفتاب اور انبیاء علیہم السلام ستارے ہیں۔حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلماللہ پاک کی کامل دلیل اس لئے ہیں کہ آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم اللہ پاک کی تجلیاتِ ذاتیہ کا عکسِ جمیل ہیں، جب کہ انبیاء علیہم السلام کو ربّ نے اپنی صفات کا مظہر بنایا۔ 5۔ المرتضی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم( جن پر ان کا ربّ راضی ہوا): القرآن:ترجمۂ کنزالعرفان:اور بےشک قریب ہے کہ تمہارا ربّ تمہیں اتنا دے گا کہ تم راضی ہو جاؤ گے۔(الضحیٰ:5) جب مشرکینِ مکہ نے حضور پُرنور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو طعنہ دیا کہ محمد کے ربّ نے محمد کو چھوڑ دیا تو بشری تقاضے کے مطابق آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکی طبیعت مبارک ذرا سی بوجھل ہوگئی تو اللہ پاک نے فرمایا: تیرے ربّ نے تجھے نہ چھوڑا، نہ تجھ سے ناراض ہوا، تیری آنے والی ہر گھڑی پہلی گھڑی سے بدرجہا بہتر ہے۔ 6۔ مصطفی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم(پسند فرمائے گئے): القرآن:ترجمۂ کنزالایمان:اللہ فرشتوں میں سے اور آدمیوں میں سے رسول چن لیتا ہے، بے شک اللہ سننے والا، دیکھنے والا ہے۔(الحج:75)اللہ پاک نے جس عظیم ہستی پاک کو انسانیت کا تاجدار بنایا، اس کا انتخاب اُسی وقت کر لیا تھا، جب کائناتِ ارض و سماویٰ نہ تھی، فقط ذاتِ خدا تھی،جو اپنے حبیِب مکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم پر درود بھیج رہی ہے اور کسی کو علم نہیں کہ کب سے بھیج رہی ہے۔ 7۔ خاتم النبیین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم(آخری نبی): القرآن:ترجمۂ کنزالعرفان:محمد تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں ہیں اور سب نبیوں کے آخر میں تشریف لانے والے ہیں اور اللہ سب کچھ جاننے والا ہے۔(الاحزاب:40) ہم مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ پیارے نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم پر نبوت و رسالت کا سلسلہ ختم ہو چکا ہے، جو اس بات پر یقین نہ رکھے،وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے ساری اُمّت کا اس پر اجماع ہے۔ 8۔رءوف ورحیم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم (بہت مہربان، رحمت فرمانے والے): القرآن:ترجمۂ کنزالعرفان: بے شک تمہارے پاس تم میں سے وہ عظیم رسول تشریف لے آئے، جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا بہت بھاری گزرتا ہے، وہ تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے ہیں مسلمانوں پر بہت مہربان، رحم فرمانے والے ہیں۔(التوبہ:128) یہ وہ صفات ہیں، جو صفاتِ الٰہیہ اور صفاتِ محبوبِ کائنات صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمدونوں میں مشترک ہیں، اللہ پاک نے اپنے محبوب ترین عبد کے لئے یہ کمالِ رحمت کا ذکر کیا ہے کہ آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکی رحمت کا سایہ صرف مکی و مدنی دور تک محدود نہیں، بلکہ قیامت تک جو دور آئے گا، ہر زمانے پر میرے پیارے عبد الرحیم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکی رحمت کی چادر کا سایہ ہوگا۔9۔ اوّل صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم(سب سے پہلا): القرآن:ترجمۂ کنزالعرفان:اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں سب سے پہلا مسلمان ہوں۔(انعام:163) معلوم ہوا!ساری مخلوق میں سب سے پہلے مؤمن حضورپرنور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمہیں، حضرت جبرئیل اور میکائیلعلیہا السلام سے پہلے بھی آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمعابد بلکہ نبی تھے۔اللہ پاک کے ارشاد”اَلَسْتُ بِرَبِّکُم(کیا میں تمہارا ربّ نہیں؟)کے جواب میں سب سے پہلے حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے بَلٰی(یعنی کیوں نہیں)فرمایا تھا۔( فیض القدیر، حرف الکاف، 69/5، تحت الحدیث 6424)پھراور انبیائے کرام علیہم الصلوۃ والسلام نے، پھر دوسرے لوگوں نے کہا۔10۔القاسمصلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم (تقسیم فرمانے والے): القرآن:اِنَّا اَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَرْ ترجمۂ کنزالعرفان:اے محبوب!بے شک ہم نے تمہیں بے شمار خوبیاں عطا فرمائیں۔ (الکوثر:1) اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ نے اسی نقطے کو یوں بیان فرمایا:

اُس کی بخشش اِن کا صدقہ دیتا وہ ہے دلاتے یہ ہیں

ربّ ہے معطی یہ ہیں قاسم رزق اُس کا ہے کھلاتے یہ ہیں

انا اعطينٰك الكوثر ساری کثرت پاتے یہ ہیں