نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت سے نام ہیں لیکن دو نام محمد اور احمد آپ کے ذاتی اور باقی صفاتی کہلاتے ہیں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ تمام اسمائے گرامی عظیم برکتوں اور خصوصیتوں والے ہیں اور اللہ پاک نے ہر نام کی جدا تاثیر اور انقلاب انگیزی رکھی ہیں۔علامہ قسطلانی نے لکھا ہے کہ آپ کے بہت نام اور القاب قرن و حدیث میں آئے ہیں ۔مختلف علماء نے الگ الگ تعداد بتائی ہے بعض نے اللہ پاک کے ناموں کے برابر 99 بتائیں ہیں۔

اب تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مکرم نام محمد سے پانچ اسمائے نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم ذکر کرتا ہوں ۔

(1) اسم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ پاک نے فرمایا: مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِؕ ترجَمۂ کنزُالایمان:محمد اللہ کے رسول ہیں ۔ (پ 26،الفتح:29) اور فرمایا : وَ  مَا  مُحَمَّدٌ  اِلَّا  رَسُوْلٌۚ ترجمہ کنزالایمان: اور محمد تو ایک رسول ہیں۔(پ 4،آل عمران:144)

یہ اسم گرامی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےتمام اسماء سے مشہور تر اور عظیم تر ہے حضرت قاضی عیاض نبی پاک صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے محمد اور احمد کے متعلق فرماتے ہیں یہ دونوں نام آپ کے انوکھے اور معجزات اور تعجب انگیز خصائص میں سے ہیں اللہ پاک نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے سے قبل کسی کو اس نام کے ساتھ موسوم نہیں کیا یہ نام کتب سابقہ میں تھا اور اس کے ساتھ انبیاء کرام کو بشارت دی گئی۔(شرح اسمائے نبی ص48 )

(2) احمد : اللہ پاک قرآن پاک میں فرماتا ہے : یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْكُمْ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرٰىةِ وَ مُبَشِّرًۢا بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْۢ بَعْدِی اسْمُهٗۤ اَحْمَدُؕ ترجمۂ کنزالعرفان : اے بنی اسرائیل! میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں ، اپنے سے پہلی کتاب تورات کی تصدیق کرنے والا ہوں اور اس عظیم رسول کی بشارت دینے والا ہوں جو میرے بعد تشریف لائیں گے ان کا نام احمد ہے ۔(پ 28،الصف:6)

حضرت محمد بن علی حضرت علی سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا: مجھے وہ کچھ عطا کیا گیا جو مجھ سے پہلے کسی کو عطا نہیں کیا گیا۔ ہم نے عرض کی یارسول اللہ وہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: رعب سے میری مدد کی گئی ،مجھے زمین کی کنجیاں عطا فرمائی گئی اور میرا نام احمد رکھا گیا اور میرے لئے مٹی کو پاک کرنے والی بنائی گئی اور میری امت کو تمام امتوں سے افضل بنایا گیا ۔(مسند احمد )

(3) الاصدق :اصل لغت میں صدق کا اطلاق قوت پر ہوتا ہے ۔صدق اس نیزے کو کہا جاتا ہے جو زخم پہچانے کی خوب قوت اور نشانے میں اچھی طرح پیوست ہو نے کی صلاحیت رکھتا ہو۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ نہ کوئی قوی ہے اور نہ ہی آپ سے زیادہ کوئی حق پر ثابت قدم آ پ سب سے زیادہ قوی اور حق پر ثابت قدم ہیں اس لئے آپ کا نام اصدق ہیں ۔

(4)الاحسن :اس نام مبارک کا تذکرہ حضرت ابو حفص نے اپنی تفسیر میں کیا ہے اس پر دلیل اللہ پاک کا یہ فرمان لائے ہیں کہ :وَ مَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَاۤ اِلَى اللّٰهِ وَ عَمِلَ صَالِحًا وَّ قَالَ اِنَّنِیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ(۳۳) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اس سے زیادہ کس کی بات اچھی جو اللہ کی طرف بلائے اور نیکی کرے اور کہے میں مسلمان ہوں ۔(پ 24،حم سجدہ:33)

حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں سب سے زیادہ حسن والے تھے اور سب سے زیادہ جود و عطا والے تھے اور سب سے زیادہ شجاع و بہادری والے تھے۔(شرح السنہ،13/258)

(5) الاجود:حضرت انس فرماتے ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ کیا میں تمہیں یہ نہ بتاؤں کہ سب سے زیادہ سخی کون ہے ؟ پھر خود ہی فرمایا: اللہ پاک سب سے زیادہ اجود ہے پھر اولاد آدم میں سب سے زیادہ سخی میں ہوں ۔(مجمع الزوائد )

امام ترمذی نے حضرت علی سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سب لوگوں سے بڑھ کر سخی تھے ۔(مسند احمد، 341)

(6) الابر:ہر خیر و بھلائی کے لئے جامع کلمہ ہے اور بر کا اطلاق صدق پر بھی کیا جاتا ہے حدیث پاک میں ہے کہ :انسان ہمیشہ سچ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ کے ہاں اس کو صادق لکھا جاتا ہے اور انسان ہمیشہ جھوٹ بولتا رہتا ہے حتی کہ اس کو کاذب لکھا جاتا ہے ۔(فتح الباری شرح البخاری)

(7)اشجع الناس :حضرت انس سے روایت ہے فرماتے ہے کہ نبی پاک تمام لوگوں سے زیادہ حسین، سچی اور بہارد تھے ۔(البخاری 7/16 )

(8) آخذ الصدقات :اس اسم پاک کو ابن دحیہ نے اللہ کے ارشاد سے فرمایا کہ: خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَ تُزَكِّیْهِمْ بِهَا ترجَمۂ کنزُالایمان: اے محبوب ان کے مال میں سے زکوٰۃ تحصیل(وصول) کرو جس سے تم انھیں ستھرا اور پاکیزہ کردو ۔(پ 11،التوبہ : 103)

اور حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم مالک نصاب لوگوں سے زکوٰۃ وصول فرما کر اس کے مصارف میں تقسیم فرماتے تھے جیسا کہ معلوم و معروف ہیں۔

(9) الاعلیٰ :رسول پاک کے اس اسم گرامی کا تذکرہ علامہ نسفی نے اس مقام پر کیا ہے کہ جہاں انہوں نے بیان کیا کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ واٰ لہ وسلم کو اللہ پاک نے اپنے بہت سارے ناموں کے ساتھ موسوم کیا ہے ۔

اس پر دلیل قرآن پاک کی یہ آیت پیش کی : وَ هُوَ بِالْاُفُقِ الْاَعْلٰىؕ(۷)ترجَمۂ کنزُالایمان:اور وہ آسمان بریں کے سب سے بلند کنارہ پر تھا ۔(پ 27،نجم : 7)

(10) الاکرم:رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے اس اسم پاک کا تذکرہ ابن دحیہ نے فرمایا اور انہوں نے امام دارمی کی اس حدیث سے اخذ کیا جو انہوں نے حضرت انس سے روایت کی ہے وہ فرماتے ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : میں قیامت کے روز انبیاء میں سب سے پہلے مرقد انور سے باہر نکلوں گا اور جب وہ اللہ کے حضور حاضر ہونگے تو میں ان کا قائد ہوں گا میں ان کا خطیب ہو گا اور جب وہ روک دیئے جائینگے تو میں ان کی سفارش کروں گااور جب وہ مایوس ہونگے تو میں ان کی مغفرت کی خوشخبری سناؤں گا۔(الدارمی 1/62)