اللہ پاک نے اپنے حبیب احمد مجتبیٰ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان خصائص و امتیازات و کمالات و معجزات سے نوازا جو کائنات میں کسی دوسرے نبی یا رسول کو عطا نہیں کئے گئے۔ قرآن پاک کا لفظ لفظ ذکر مصطفی کے بلند کئے جانے پر دلالت کرتا ہے۔ قرآن پاک میں حضور علیہ الصلوٰۃ السلام کے دو ذاتی نام بیان ہوئے اور متعدد صفاتی نام مذکور ہیں جن میں سے 10 اسمائے مصطفیٰ اس مختصر تحریر میں لکھے گئے ہیں۔

(1)محمد صلی اللہ علیہ وسلم:لفظ محمد کا معنی بیان کرتے امام راغب الاصفہانی لکھتے ہیں محمد اسے کہتے ہیں جس کی قابل تعریف عادات حد اور شمار سے زیادہ ہوں۔(المفردات في غريب القرآن ،ص:256)

آیت مبارکہ: وَ  مَا  مُحَمَّدٌ  اِلَّا  رَسُوْلٌۚ ترجمہ کنزالایمان: اور محمد تو ایک رسول ہیں۔(پ 4،آل عمران:144)

امام حلبی روایت کرتے ہیں حضور علیہ الصلوۃ و السلام نے فرمایا اللہ پاک نے فرمایا:مجھے اپنی عزت اور بزرگی کی قسم میں کسی ایسے شخص کو آگ کا عذاب نہیں دوں گا جس کا نام آپ کے نام پر ہوگا۔

امام حلبی فرماتے ہیں اس سے مراد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مشہور نام یعنی محمد یا احمد مراد ہے۔(السيرة الحلبيہ إنسان العيون في سيرة الأمين المأمون،1/121)

(2)حضور کا نام احمد صلی اللہ علیہ وسلم:لفظ احمد کا معنی بیان کرتے ہوئے امام قاضی عیاض لکھتے ہیں اللہ پاک کی بہت زیادہ یا سب سے زیادہ حمد کرنے والا۔( الشفا بتعريف حقوق المصطفى وحاشيہ الشمني، 1/229)

آیت مبارکہ:یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْكُمْ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرٰىةِ وَ مُبَشِّرًۢا بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْۢ بَعْدِی اسْمُهٗۤ اَحْمَدُؕ ترجمۂ کنزالعرفان : اے بنی اسرائیل! میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں ، اپنے سے پہلی کتاب تورات کی تصدیق کرنے والا ہوں اور اس عظیم رسول کی بشارت دینے والا ہوں جو میرے بعد تشریف لائیں گے ان کا نام احمد ہے ۔(پ 28،الصف:6)

نامِ احمد پر حدیث مبارکہ:حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مجھے کچھ چیزیں ایسی دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! وہ کیا چیزیں ہیں؟ فرمایا: میری مدد رعب کے ذریعے کی گئی ہے، مجھے زمین کے خزانے دئیے گئے ہیں، میرا نام احمد رکھا گیا، مٹی کو میرے لئے پانی کی طرح پاک کرنے والا قرار دیا گیا ہے اور میری امت کو بہترین امت کا خطاب دیا گیا ہے۔( مسند احمد ، 2/156)

(3)خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم:خاتم النبیین کا معنی آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس پر آیت و حدیث مبارکہ آگے آرہی ہے۔

آیت مبارکہ:مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ ترجمہ کنزالعرفان: محمد تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے آخر میں تشریف لانے والے ہیں ۔(پ 22،الاحزاب:40)

حدیث مبارکہ:حضور علیہ السلام نے فرمایا :میں آخری نبی ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں۔(سنن الترمذي ،4/499)

(4)اَوْلٰی صلی اللہ علیہ وسلم:حضور علیہ السلام کے اسمائے مبارکہ میں سے اولیٰ بھی ہے جس کے بارے اللہ تعالی نے فرمایا: اَلنَّبِیُّ اَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ ترجمہ کنزالعرفان:یہ نبی مسلمانوں کے ان کی جانوں سے زیادہ مالک ہیں۔(پ 22،الاحزاب:6)

حدیث مبارکہ:نبی کریم علیہ السلام نے فرمایا، ہر مومن کا میں دنیا و آخرت میں سب سے زیادہ قریب ہوں۔( صحيح البخاري، 3/118)

(5)رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم:تمام جہانوں کے لئے رحمت۔آیت مبارکہ:وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۰۷) ترجمہ کنزالعرفان: اور ہم نے تمہیں تمام جہانوں کیلئے رحمت بنا کر ہی بھیجا۔(پ 17،الانبیاء:107)

حدیث مبارکہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب کفار و مشرکین کے ظلم حد سے بڑھ گئے تو حضور علیہ السلام سے عرض کیا گیا کہ ان کے لئے بد دعا فرمائیں اس پر آپ علیہ السلام نے فرمایا: مجھے لعنت کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا گیا (بلکہ) مجھے تو سراسر رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے۔( مسند أبي يعلى الموصلي، 11/35)

(6)سراج منیر صلی اللہ علیہ وسلم:قاضی ابوبکر بن عربی کہتے ہیں کہ ہمارے علماء نے آپ علیہ السلام کو سراج اس لئے کہا کیونکہ جس طرح ایک چراغ سے بے شمار چراغ جلائے جانے کے باوجود پہلے چراغ کی روشنی میں کوئی فرق نہیں پڑتا اسی طرح اطاعت کے تمام چراغ حضور علیہ السلام کے چراغ سے روشن ہوئے اور آپ علیہ السلام کی روشنی میں کوئی کمی واقع نہ ہوئی۔( سبل الہدى والرشاد في سيرة خير العباد، 1/469)

وَّ دَاعِیًا اِلَى اللّٰهِ بِاِذْنِهٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیْرًا(۴۶) ترجمہ کنزالعرفان: اور اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلانے والا اور چمکا دینے والا آفتاب بنا کر بھیجا۔(پ 22،الاحزاب:46)

حضور علیہ السلام کو سراج و منیر کہنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے امام بیضاوی لکھتے ہیں:آپ علیہ السلام سے جہالت کی تاریکیوں میں روشنی حاصل کی جاتی ہے اور آپ علیہ السلام کے نور سے بصیرت کا نور حاصل کیا جاتا ہے۔(تفسير البيضاوي أنوار التنزيل وأسرار التأويل ،4/234)

علامہ اسماعیل حقی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں :پس آپ علیہ السلام ہی ہیں جنہیں اللہ پاک نے نور بنایا اور مخلوق کی طرف بھیجا۔( روح البيان، 7/198)

(7)نور صلی اللہ علیہ وسلم: قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّ كِتٰبٌ مُّبِیْنٌۙ(۱۵)ترجمہ کنزالعرفان: بیشک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور آگیا اور ایک روشن کتاب۔(پ 6،المائدہ:15)

امام نسفی لکھتے ہیں:نور سے مراد حضور علیہ السلام ہیں کیونکہ نور سے ہدایت ملتی ہے جیسا کہ (اللہ پاک نے) آپ کو سراج فرمایا۔( مدارك التنزيل وحقائق التأويل، 1/436)

ایک طویل حدیث مبارکہ کا جز ہے:حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے عرض کیا یارسول اللہ میرے ماں باپ آپ پر قربان مجھے بتائیے کہ اللہ تعالی نے سب سے پہلے کیا چیز پیدا فرمائی؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا: اے جابر بیشک اللہ نے تمام مخلوق سے پہلے تیرے نبی کا نور اپنے نور سے پیدا فرمایا۔ الخ ( المواہب اللدنيہ بالمنح المحمديہ، 1/48)

(8)رءٔوف رحیم صلی اللہ علیہ وسلم: اللہ پاک نے آپ علیہ السلام کو یہ صفت عطا کی تاکہ آپ علیہ السلام عاشقوں کے لئے باعث رحمت ہوں۔( سبل الهدى والرشاد في سيرة خير العباد، 1/465)

لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ(۱۲۸) ترجمہ کنز العرفان :بیشک تمہارے پاس تم میں سے وہ عظیم رسول تشریف لے آئے جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا بہت بھاری گزرتا ہے، وہ تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے، مسلمانوں پر بہت مہربان، رحمت فرمانے والے ہیں ۔(پ 11،التوبہ:128)

حضرت جبیر بن معطم رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں اللہ پاک نے آپ علیہ السلام کا نام رؤف رحیم رکھا ہے۔( تفسير ابن أبي حاتم ، محققا، 6/1918)

(9)شاھد صلی اللہ علیہ وسلم: اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۸) ترجمہ کنزالعرفان:بیشک ہم نے تمہیں گواہ اور خوشخبری دینے والااور ڈر سنانے والا بنا کربھیجا۔(پ 26،الفتح:8)

حدیث مبارکہ:حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں حضور علیہ السلام نے فرمایا: میں (آج کے دن کی طرح) روز قیامت (بھی) تمہارے اوپر گواہ ہوں گا۔(المستدرك على الصحيحين للحاكم ،1/510)

(10)مُحَلِّل ٌ صلی اللہ علیہ وسلم: محلل کا معنی امام صالحی الشامی لکھتے ہیں : حلال قرار دینے والا کہ جس کے حکم سے چیزوں کا استعمال شرعًا جائز ہو جائے۔( سبل الهدى والرشاد في سيرة خير العباد، 1/507)

یہ نام اس آیت سے ثابت ہے: وَ یُحِلُّ لَهُمُ الطَّیِّبٰتِ ترجمہ کنزالعرفان: اور ان کیلئے پاکیزہ چیزیں حلال فرماتے ہیں۔(پ 9،الاعراف:157)

حضور علیہ السلام نے مرد کے لئے ریشمی کپڑا پہننا حرام قرار دیا تھا لیکن حضرت عبدالرحمن بن عوف اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہما کو عذر کے باعث ریشمی کپڑا پہننے کی اجازت عطا فرمائی۔

حضرت انس بیان کرتے ہیں حضرت عبدالرحمن بن عوف اور حضرت زبیر نے حضور علیہ السلام کی بارگاہ میں جوئیں پڑنے کی شکایت کی تو آپ علیہ السلام نے انہیں ریشم پہننے کی اجازت عطا فرمائیں پس میں نے غزوات میں اُن دونوں کو ریشم پہنے دیکھا۔(صحيح البخاري ،4/42)

دعا ہے کہ خدائے رحیم و کریم ہمیں حضور علیہ السلام کے ناموں کے فیضان کا حصہ عطا کرے اور روزِ محشر آپ علیہ السلام کی شفاعت نصیب فرمائے۔

اٰمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ والہ واصحابہ و ازواجہ اجمعین