حضور اکرم صلی الله علیہ واٰلہ وسلم کے بہت سے پیارے پیارے نام ہے جن میں کچھ نام تو اللہ پاک نے قرآن مجید میں ارشاد فرمائیں ہیں اور کچھ احادیث مبارک میں آئے ہیں اور میرے پیارے آقا صلی الله علیہ واٰلہ وسلم نام کی بھی بہت برکات ہیں پیارے آقا کی ہر نام کی ایک الگ الگ برکت ہے میں بس ان میں سے دس(10) نام ہی ذکر کروں گا اور وہ دس نام یہ ہیں:

اللہ پاک نے آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کو یہ خصوصیت دی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے ناموں کو آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی ثناء کے ضمن میں بیان کیا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے ذکر کے درمیان آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے شکرعظیم مضمر ( پوشیدہ) کیا ہے ۔ آپ کا نام احمد بروزن اَفْعَلْ ہے جو آپ کی صفت حمد میں مبالغہ ہے اورمحمد بر وزن مُفَعَّلْ ہے جو آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی کثرت حمد میں مبالغہ ہے ۔ پس حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم حمد کر نے والوں میں سب سے بڑھ کر ہیں اور ان سب سے افضل ہیں جن کی تعریف کی جاتی ہے اور تمام لوگوں سے بڑھ کرحمد کرنے والے ہیں ۔ پس آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم تعریف کئے ہوؤں میں سب سے بڑھ کر تعریف کئے ہوئے ( محمد ) ہیں اور تعریف کر نے والوں میں سب سے بڑھ کر تعریف کرنے والے ہیں۔(الشفاء )

اور آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے ساتھ بروز قیامت لِواء الحمد ہو گا تا کہ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے لئے حمد کی تکمیل ہو جائے اور میدان حشر میں آپ صفت حمد سے شہرت پائیں اور وہاں اللہ پاک آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کو مقام محمود میں بھیجے گا ۔ جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے وعدہ کیا ہے ۔ اس جگہ اولین و آخرین ان کی شفاعت کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی تعریف کر یں گے اور اس جگہ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم پر حمد کے الفاظ کھولے جائیں گے ۔ جیسا کہ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم فرماتے ہیں کہ کسی کو وہ ( الفاظ) نہیں دیئے گئے۔

حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کے والد سے الاسناد مروی ہے کہ نبی صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :میرے پانچ(5) نام ہیں: میں محمد ہوں اور میں احمد ہوں ،میں ماحی ہوں کہ میرے ذریعے سے اللہ پاک نے کفر کو مٹایا اور میں حاشر ہوں کہ میرے نقشِ قدم پر لوگ اٹھیں گے اور میں عاقب (پیچھے آنے والا )ہوں اور اللہ پاک نے میرا نام اپنی کتاب میں محمد اور احمد رکھا ہے۔(صحیح بخاری کتاب المناقب صحیح مسلم کتاب الفضائل جلد 4)

آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے نام مبارک محمد اور احمد کے بارے میں آیا کہ ہے جس کے نام محمد اور احمد ہوگا وہ بلاحساب جنت میں داخل ہوگا۔

پھر آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے ان دونوں ناموں میں عجیب وغریب خصوصیتوں اور نشانیوں کے علاوہ ایک دوسری خوبی بھی ہے ۔ وہ یہ کہ اللہ پاک نے آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے نام مبارک کی ایسی حفاظت فرمائی ہے کہ کسی نے آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے زمانہ اقدس سے پہلے یہ دونوں نام نہیں رکھے ۔

ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم ہمیں اپنے نام بتلا یا کر تے تھے ۔ پس فرماتے ہیں : محمد،احمد،مقفی، حاشر، نبی التوبہ نبی الملحمہ اور نبی الرحمہ ہوں ۔ ( صحیح مسلم ،4/1829 )

حذیفہ رضی اللہ عنہ نے بھی ابو موسیٰ رحمۃ الله علیہ کی حدیث کی مثل روایت کی ہے کہ آپ نبی الرحمۃ نبی التوبہ اور نبی الملاحمہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم ہیں۔ (شمائل ترمذی، ص:297)

اور قرآن پاک میں بھی اللہ پاک نے اپنے ناموں کے ساتھ پیارے حبیب صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے ناموں کو ذکر کیا ہے :وَ قُلْ اِنِّیْۤ اَنَا النَّذِیْرُ الْمُبِیْنُۚ(۸۹) كَمَاۤ اَنْزَلْنَا عَلَى الْمُقْتَسِمِیْنَۙ(۹۰) الَّذِیْنَ جَعَلُوا الْقُرْاٰنَ عِضِیْنَ(۹۱)ترجَمۂ کنزُالایمان:اور فرماؤ کہ میں ہی ہوں صاف ڈر سنانے والا(اس عذاب سے)جیسا ہم نے بانٹنے والوں پر اتارا جنہوں نے کلامِ الٰہی کو تِکّے بوٹی کرلیا ۔(پ 14،حجر:89تا 91)

(2) ایک نام حق بھی ہے: قُلْ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ قَدْ جَآءَكُمُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكُمْۚ-فَمَنِ اهْتَدٰى فَاِنَّمَا یَهْتَدِیْ لِنَفْسِهٖۚ-وَ مَنْ ضَلَّ فَاِنَّمَا یَضِلُّ عَلَیْهَاۚ-وَ مَاۤ اَنَا عَلَیْكُمْ بِوَكِیْلٍؕ(۱۰۸) ترجَمۂ کنزُالایمان:تم فرماؤ اے لوگو تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے حق آیا تو جو راہ پر آیا وہ اپنے بھلے کو راہ پر آیا اور جو بہکا وہ اپنے برے کو بہکا اور کچھ میں تم پر کڑوڑا(نگہبان)نہیں۔ (پ 11،یونس:108)

فَقَدْ كَذَّبُوْا بِالْحَقِّ لَمَّا جَآءَهُمْؕ-فَسَوْفَ یَاْتِیْهِمْ اَنْۢبٰٓؤُا مَا كَانُوْا بِهٖ یَسْتَهْزِءُوْنَ(۵)ترجَمۂ کنزُالایمان:تو بے شک انہوں نے حق کو جھٹلایا جب ان کے پاس آیا تو اب انہیں خبر ہوا چاہتی ہے اس چیز کی جس پر ہنس رہے تھے(پ 7،انعام:5)

ایک روایت میں ہے ۔ الحق سے مراد’محمد صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم ‘ ہیں اور یہ بھی کہا گیا کہ ’ ’ قرآن‘‘مراد ہے لیکن اس جگہ حق کے وہ معنی ہیں جو باطل کی ضد ہے اور صدق ہے ۔ یہ پہلے معنی کے ساتھ ہے اور المبين ‘ ‘ کا مطلب یہ ہے کہ جس کاحکم واضح اور روشن ہواوراس کی رسالت ظاہر ہو۔

(3 تا 6) سراج ، منیر ، شاہد ، مبشر : یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۴۵) : وَّ دَاعِیًا اِلَى اللّٰهِ بِاِذْنِهٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیْرًا(۴۶) ترجمہ کنزالعرفان: اے نبی!بیشک ہم نے تمہیں گواہ اور خوشخبری دینے والا اور ڈر سنانے والا۔اور اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلانے والااو ر چمکادینے والا ا ٓ فتاب بنا کر بھیجا۔پ 22،احزاب:45،46)

یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا: اے نبی!بیشک ہم نے تمہیں گواہ بنا کر بھیجا ۔ آیت کے اس حصے میں نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ایک وصف بیان فرمایا گیا کہ الله پاک نے آپ کو شاہد بنا کر بھیجا ہے ۔ شاہد کا ایک معنی ہے حاضر و ناظر یعنی مشاہدہ فرمانے والا اور ایک معنی ہے گواہ۔اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ نے شاہد کا ترجمہ ” حاضر ناظر “ فرمایا ہے ، اس کے بارے میں صدر الافاضل مفتی نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : شاہد کا ترجمہ حاضر و ناظر بہت بہترین ترجمہ ہے ، مفردات راغب میں ہے " الشھود و الشحادة الحضور مع المشاهدة اما بالبصر أو بالبصیرۃ “ یعنی شہود اور شہادت کے معنی ہیں حاضر ہونا مع ناظر ہونے کے ، بصر کے ساتھ ہو یا بصیرت کے ساتھ ۔ ( خزائن العرفان ، الاحزاب ، تحت الآیۃ : 45 ، ص :784 )

اگر اس کا معنی ’ ’ گواہ ‘ ‘ کیا جائے تو بھی مطلب وہی بنے گا جو اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے ترجمے میں لکھا ، کیونکہ گواہ کو بھی اسی لئے شاہد کہتے ہیں کہ وہ مشاہدہ کے ساتھ جو علم رکھتا ہے اس کو بیان کر تا ہے اور سر کار دو عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم چونکہ تمام عالم کی طرف مبعوث فرمائے گئے ہیں اور آپ کی رسالت عامہ ہے ، جیسا کہ سورہ فرقان کی پہلی آیت میں بیان ہوا کہ: تَبٰرَكَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰى عَبْدِهٖ لِیَكُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْرَ ﰳاۙ (۱) ترجمہ کنز العرفان : وہ ( اللہ ) بڑی برکت والا ہے جس نے اپنے بندے پر قرآن نازل فرمایا تا کہ وہ تمام جہان والوں کو ڈر سنانے والا ہو ۔ ( پ 18،فرقان : 1 )

اس لئے حضور پرنور صلی اللہ علیہ والہ وسلم قیامت تک ہونے والی ساری مخلوق کے شاہد ہیں اور ان کے اعمال ، افعال ، احوال ، تصدیق ، تکذیب ، ہدایت اور گمر اہی سب کا مشاہدہ فرماتے ہیں ۔ ( ابو سعود ، الاحزاب ، تحت الآیۃ : 45 ، 4 / 325 ، جمل ، الاحزاب ، تحت الآیۃ : 2،45 / 180 ، ملتقطاً )

حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم حاضر وناظر ہیں یا نہیں: اہلسنت کا یہ عقیدہ ہے کہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ والہ وسلم اللہ پاک کی عطا سے حاضر و ناظر ہیں اور یہ عقیدہ آیات ، احادیث اور بزرگان دین کے اقوال سے ثابت ہے ، یہاں پہلے ہم حاضر وناظر کے لغوی اور شرعی معنی بیان کرتے ہیں ، اس کے بعد ایک آیت ، ایک حدیث اور بزرگان دین کے اقوال میں سے ایک شخصیت کا قول ذکر کر یں گے ، چنانچہ حاضر کے لغوی معنی ہیں سامنے موجو د ہونا یعنی غائب نہ ہو نا اور ناظر کے کئی معنی ہیں جیسے دیکھنے والاء آنکھ کا تل ، نظر ، ناک کی رگ اور آنکھ کا پانی وغیرہ اور عالم میں حاضر و ناظر کے شرعی معنی یہ ہیں کہ قدسی قوت والا ایک ہی جگہ رہ کر تمام عالم کو اپنے ہاتھ کی ہتھیلی کی طرح دیکھے اور دور و قریب کی آواز کو سنے یا ایک آن میں تمام عالم کی سیر کرے اور سینکڑوں میل دور حاجت مندوں کی حاجت روائی کرے ۔ یہ رفتار خواہ روحانی ہو یا جسم مثالی کے ساتھ ہو یا اس جسم سے ہو جو قبر میں مدفون ہے یا کسی جگہ موجو د ہے ۔ ( جاءالحق ، حاضر و ناظر کی بحث ، ص 116 ، ملخصا )

قرآن مجید سے دلیل: سورہ احزاب کی آیت نمبر 6 میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے : " اَلنَّبِیُّ اَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ “ یعنی نبی کریم ( صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) مسلمانوں کے ان کی جانوں سے زیادہ قریب ہیں ۔ اور یہ بات ظاہر ہے کہ جو قریب ہو تا ہے وہ حاضر بھی ہو تا ہے اور ناظر بھی ۔

حدیث مبارک سے دلیل:حضرت عبد الله بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے ، تاجدار رسالت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ” اللہ پاک نے ساری دنیامیرے سامنے کر دی ہے ، لہذامیں ساری دنیا کو اور جو کچھ دنیا میں قیامت تک ہونے والا ہے سب کا سب یوں دیکھ رہا ہوں جیسے اس ہاتھ کی ہتھیلی کو دیکھ رہا ہوں ۔ ( کنز العمال ، کتاب الفضائل ، الباب الاول فی فضائل سید نا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ۔الخ ، الفصل الثالث ، 2 / 189 ، الحدیث : 31928 ، الجزء الحادی عشر )

بزرگوں کے قول سے دلیل: شاہ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اہل حق میں سے اس مسئلہ میں کسی ایک کا بھی اختلاف نہیں ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم اپنی حقیقی زندگی مہار کہ کے ساتھ دائم اور باقی ہیں اور امت کے احوال پر حاضر وناظر ہیں اور حقیقت کے طلبگاروں کو اور ان حضرات کو جو آپ کی طرف متوجہ ہیں ، ان کو فیض بھی پہنچاتے ہیں اور ان کی تربیت بھی فرماتے ہیں اور اس میں نہ تو مجاز کا شائبہ ہے نہ تاویل کا بلکہ تاویل کا وہم بھی نہیں ۔ ( مکتوبات شیخ مع اخبار الاخیار ، الرسالہ الثامنہ عشر سلوک اقرب السبل بالتوجه الى سيد الرسل صلی اللہ علیہ والہ وسلم ، ص 155 )

کیا اللہ پاک کو حاضر و ناظر کہہ سکتے ہیں ؟

یادر ہے کہ اللہ پاک کی عطا سے اس کے حبیب صلی اللہ علیہ والہ وسلم تو حاضر و ناظر ہیں جبکہ اللہ پاک کو حاضر و ناظر نہیں کہہ سکتے کیونکہ حاضر و ناظر کے جو لغوی اور حقیقی معنی ہیں وہ اللہ پاک کی شان کے لائق نہیں ۔ اعلی حضرت امام احمد رضاخان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : حاضر و ناظر کا اطلاق بھی باری عزوجل پر نہ کیا جائے گا ۔ علماء کرام کو اس کے اطلاق میں یہاں تک حاجت ہوئی کہ اس ( کا اطلاق کرنے والے ) پر سے نفی تکفیر فرمائی ۔ ( فتاوی رضویہ ، کتاب الشتی ، عروض و قوافی ، 29 /54)

دوسرے مقام پر فرماتے ہیں ’ ’ اسے ( یعنی اللہ پاک کو حاضر و ناظر بھی نہیں کہہ سکتے ، وہ شہید و بصیر ہے ، حاضر و ناظر اس کی عطا سے اس کے محبوب علیہ افضل الصلوۃ والسلام ہیں ۔ ( فتاوی رضویہ ، عقائد و کلام و دینیات ، 29 / 333 )

ومبشرا ونذيرا : اور خوشخبری دینے والا اور ڈر سنانے والا ۔ یہاں سید العالمین صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دو اوصاف بیان کئے گئے کہ اللہ پاک نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو ایمانداروں کو جنت کی خوشخبری دینے والا اور کافروں کو جہنم کے عذاب کا ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ۔ ( مدارک ، الاحزاب ، تحت الآیۃ : 45 ، ص :944 )

سراج اور منیر :اور چمکا دینے والا آفتاب ۔ یہاں سر کار و عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا یہ بھی وصف بیان فرمایا گیا کہ اللہ پاک نے آپ کو چمکا دینے والا آفتاب بنا کر بھیجا ۔ اس کے بارے میں صدر الافاضل مفتی نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : سراج کا تر جمہ آفتاب قرآن کریم کے بالکل مطابق ہے کہ اس میں آفتاب کو سراج فرمایا گیا ہے ، جیسا کہ سورۂ نوح میں ” وَّ جَعَلَ الشَّمْسَ سِرَاجًا(۱۶) “اور اور آخری پارہ کی پہلی سورت میں ہے ” وَّ جَعَلْنَا سِرَاجًا وَّهَّاجًاﭪ(۱۳) ‘ ‘ اور در حقیقت ہزاروں آفتابوں سے زیادہ روشنی آپ کے نور نبوت نے پہنچائی اور کفر و شرک کے ظلمات شدیدہ کو اپنے نور حقیقت افروز سے دور کر دیا اور خلق کے لئے معرفت و توحید الہی تک پہنچنے کی راہیں روشن اور واضح کر دیں اور ضلالت کی وادیِ تاریک میں راہ گم کرنے والوں کو اپنے انوارِ ہدایت سے راہ یاب فرمایا اور اپنے نورِنبوت سے ضمائر وبصائر اور قلوب و ارواح کو منور کیا ، حقیقت میں آپ کا وجود مبارک ایسا آفتاب عالم تاب ہے جس نے ہرارہا آفتاب بنا دیئے ، اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی صفت میں منیر ارشاد فرمایا گیا ۔ ( خزائن العرفان ، الاحزاب ، تحت الآیۃ : 42 ، ص :784 )

(7) نور: آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے ناموں میں سے ایک نام’’نور ‘ ہے۔اس کے معنی صاحب نور ما لک نور ہیں ۔ یعنی اس کا پیدا کر نے والا ہے یا آ سانوں اور زمین کو انوار کے ساتھ منور کر نے والا اور مؤمنین کے دلوں کو ہدایت کے ساتھ منور کرنے والا مراد ہے ۔

یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ قَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلُنَا یُبَیِّنُ لَكُمْ كَثِیْرًا مِّمَّا كُنْتُمْ تُخْفُوْنَ مِنَ الْكِتٰبِ وَ یَعْفُوْا عَنْ كَثِیْرٍ ﱟ قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّ كِتٰبٌ مُّبِیْنٌۙ(۱۵) ترجمۂ کنز العرفان :اے اہلِ کتاب! بیشک تمہارے پاس ہمارے رسول تشریف لائے، وہ تم پر بہت سی وہ چیزیں ظاہر فرماتے ہیں جو تم نے (اللہ کی) کتاب سے چھپا ڈالی تھیں اور بہت سی معاف فرما دیتے ہیں ،بیشک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور آگیا اور ایک روشن کتاب۔ (پ 6،مائدہ:15)

نور سے مراد:قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّ كِتٰبٌ مُّبِیْنٌۙ(۱۵)ترجمہ کنزالعرفان: بیشک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور آگیا اور ایک روشن کتاب۔(پ 6،المائدہ:15)

اس آیت مبار کہ میں نور سے کیا مراد ہے اس بارے میں مختلف اقوال ہیں ، ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد سر کار دوعالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ذات ہے ۔ اور فقیہ ابو اللیث سمر قندی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” وھو محمد صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم والقر آن “ یعنی نور سے مراد محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور قرآن ہیں ۔ ( سمر قندی ، المائدۃ ، تحت الآیۃ : 1،15 / 424 )

علامہ خازن رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ” یعنی محمد اصلی اللہ علیہ والہ وسلم “ یعنی نور سے مراد محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہیں اللہ پاک نے آپ کو نور اس لئے فرمایا کہ جس طرح اندھیرے میں نور کے ذریعے ہدایت حاصل ہوتی ہے اس طرح آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ذریعے بھی ہدایت حاصل ہوتی ہے ۔ ( خازن ، المائدۃ ، تحت الآیۃ : 1،15 / 477 )

(8) کریم: اللہ پاک کے ناموں میں’’الکریم “ بھی ہے ۔ اس کے معنی بہت سی بھلائی کر نے والا ۔ بعض نے کہا کہ احسان کر نے والا ۔ بعض نے کہا کہ معاف کرنے والا ۔ بعض نے کہا کہ اس کے معنی بلند کے ہیں اور اللہ پاک کے اسماء کے بیان میں جوحدیث ہے اس میں الاکرم ہے ۔ اللہ پاک نے آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کا نام بھی کریم رکھا ۔ جیسا کہ فرمایا : اِنَّهٗ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ كَرِیْمٍۙ(۱۹) ترجَمۂ کنزُالایمان:بیشک یہ عزت والے رسول کا پڑھنا ہے ۔ ( پ 30،تکویر:19)

ایک روایت میں ہے کہ اس سے مرادحضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم ہیں ۔ یہ بھی کہا گیا کہ اس سے جیریل علیہ السلام مراد ہے حضور اکرم نے فرمایا: انا اکرم ولد آدم یعنی میں اولاد آدم میں سب سے زیادہ مکرم ہوں ۔ اور کریم واکرام کے معنی حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے حق میں صحیح ہیں ۔

(9) العظیم: اللہ پاک کے ناموں میں ایک نام’العظیم “ ہے۔اس کے معنی ایسا بڑی شان والا کہ اس کے سواہر چیز کم ہو اور اللہ پاک نے حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے لئے ارشادفرمایا :

وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ(۴) ترجَمۂ کنزُالایمان: بیشک تمہاری خو بو ( خلق ) بڑی شان کی ہے ۔ (پ 29،قلم:4)

اور توریت کے حصہ اول میں حضرت اسماعیل علیہ السلام سے مروی ہے کہ عنقریب ایک عظیم فرزندامت عظیمہ کے لئے پیدا ہوگا ۔ وہ عظیم ہوگا اور بڑے خلق پر ہوگا ۔

(10) الجبار: اللہ پاک کے ناموں میں ایک نام الجبار “ ہے۔اس کے معنی اصلاح کر نے والا ہے ۔ ایک روایت میں ہے کہ قاہر اور ایک روایت میں بلند بڑی شان والے کے معنی بیان کئے ہیں ۔ کہا گیا کہ متکبراس کے معنی ہیں ۔ حضرت داؤد علیہ السلام کی کتاب زبور میں نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کا نام’جبار ‘ رکھا۔انہوں نے کہا : اے جبار ! آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم اپنی تلوارلٹکائے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی ناموس ( عزت ) اور آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی شریعت آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے تصرف کے دبدبہ کے ساتھ ملی ہوئی ہے ۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے حق میں اس کے معنی یا تو ہدایت تعلیم کے ساتھ اپنی امت کی اصلاح فرمانا یا اپنے دشمنوں پر قہرفر مانا ۔

اہم بات:یہ ہمارے آخری نبی کریم احمدِ مجتبیٰ محمدِ مصطفٰی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دس ناموں کے بارے میں کچھ معلومات ہے اور اگر آپ اس بارے میں اور مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو آپ کتاب :الشفاء،صراط الجنان اور اس کے علاوہ اور دیگر علماء اہلسنت کی کتب کا مطالعہ فرمائیں ۔اور میرے لئے دعا کرنا حضور اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کی اور باعمل عالم بننے کی اور اگر اس میں کوئی مجھ سے غلطی ہوگی تو میرے اصلاح فرمائیں۔ ان شاءاللہ مجھے دعاؤں سے شکر کرتا پائیں گے۔