اللہ پاک نے اپنے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم  کو بے شمار خصوصیات عطا فرمائی ،انہی خصوصیات میں ایک خصوصیت یہ ہے کہ اللہ پاک نے آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو قرآن مجید میں آپ کے صفاتی ناموں سے پکارا ہے ۔ چند اسماء النبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم آپ بھی ملاحظہ کیجئے:

(1): مُحُمَّدْ: یہ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا ذاتی نام ہے اور اسی نام پر قرآن پاک کی سورت کا نام ” محمد “ہے۔ یہ نام قرآن پاک میں چار مقام پر آیا ہے (1) اٰل عمران:144۔ (2)الاحزاب:40۔ (3) محمد :2۔(4)الفتح:29۔ امام راغب اَصْفَہانی رحمۃُ اللہِ علیہ اسمِ محمد کے بارے میں فرماتے ہیں :وَمُحَمّدٌ اِذَا کَثُرَتْ خِصَالُہٗ الْمَحْمُوْدَۃُ، محمد اس ذات کو کہا جاتا ہے جس میں قابلِ تعریف خَصْلَتیں بہت کثرت سے پائی جائیں ۔ (المفردات فى غريب القرآن ، ص256،دار القلم)

(2) اَحْمَدْ : یہ بھی آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا ذاتی نام ہے ۔احمدکے معنی بیان کرتے ہوئے علامہ حلبی رحمۃ ُالله علیہ فرماتےہیں:اس سے وہ ذات مراد ہے جو محامدین میں سب سے زیادہ اللہ پاک کی تعریف کرنے والی ہو۔(السيرة الحلبيۃ ،1/118 ، دار الكتب العلميۃ ، بيروت )

(3):شَاهِدْ،(4): مُبَشِّرْ،(5):نَذِیْرْ : یہ تینوں نام اکٹھے نبی مکرم کے لئے قرآن پاک میں دو مقام پر آئے ہیں،(1) : یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۴۵) ترجَمۂ کنزُالایمان: اے غیب کی خبریں بتانے والے (نبی) بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر ناظر اور خوشخبری دیتا اور ڈر سناتا۔(پ 22،احزاب:45)

شیخ عبدُالحق مُحدّث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: شاہد کا معنی ہے اُمّت کے حال، ان کی نجات و ہلاکت اور تصدیق و تکذیب پر حاضر اور عالِم۔(مدارج النبوۃ،1/260)

(6) اُمِّی: نبی مکرم کا یہ نام قرآن پاک میں تین مقام پر آیا ہے،ان میں ایک یہ ہے: هُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیّٖنَ رَسُوْلًا ترجَمۂ کنزُالایمان:وہی ہے جس نے اَن پڑھوں میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا۔(پ28،جمعہ:2)

علامہ عبد المصطفیٰ رحمۃُ اللہِ علیہ اُمی کےمعنی بیان کرتے ہوئے فرماتےہیں: یہ ”اُم القریٰ“ کی طرف نسبت ہے،جو مکہ مکرمہ کا لقب ہے۔ لہٰذا اس کے معنی مکہ مکرمہ کے رہنے والے یا”اُمّی“کے معنی ہیں کہ آپ نے دنیا میں کسی انسان سے لکھنا پڑھنا نہیں سیکھا،یہ حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا بہت ہی عظیم الشان معجزہ ہے کہ دنیا میں کسی نے بھی آپ کو پڑھایا لکھایا نہیں ۔ مگر اللہ پاک نے آپ کو اس قدر علم عطا فرمایا کہ آپ کا سینہ اولین و آخرین کے علوم و معارف کا خزینہ بن گیا۔(سیرت مصطفیٰ،ص:83)

(7)رَءُوْفٌ، (8) رَحِیْم : لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ(۱۲۸) ترجمہ کنز العرفان :بیشک تمہارے پاس تم میں سے وہ عظیم رسول تشریف لے آئے جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا بہت بھاری گزرتا ہے، وہ تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے، مسلمانوں پر بہت مہربان، رحمت فرمانے والے ہیں ۔(پ 11،التوبہ:128)

(9) اَوَّل،(10) اٰخِر، (11) ظَاهِر،(12) بَاطِن،(13) عَلِیْم : یہ چاروں نام اس آیت مبارکہ میں ہے: هُوَ الْاَوَّلُ وَ الْاٰخِرُ وَ الظَّاهِرُ وَ الْبَاطِنُۚ-وَ هُوَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ(۳) ترجَمۂ کنزُالایمان:وہی اوّل وہی آخر وہی ظاہر وہی باطن اور وہی سب کچھ جانتا ہے۔(پ 27،حدید:3)

مولانا شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃُ اللہِ علیہ نے ’’مدارجُ النُّبوۃ“کے خطبے میں ذکر کیا ہے:سیّد المرسَلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اوّل بھی ہیں ، آخر بھی ہیں ، ظاہر بھی ہیں ، باطن بھی ہیں اور سب کچھ جانتے بھی ہیں ۔( مدارج النبوۃ،1/2 ، ملتقطاً)

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں :

نمازِ اقصیٰ میں تھا یہی سِّرعیاں ہوں معنِیٔ اوّل آخر

کہ دست بستہ ہیں پیچھے حاضر جو سلطنت آگے کر گئے تھے