حسد ایسا باطنی مرض ہے جسے ہر خطا کی جڑ اور برائیوں کی ماں کہا جاتا ہے جو شیطان کا مضبوط ترین ہتھیار  ہے ۔ حسد پہلا گناہ ہے جو آسمان میں ابلیس نے ،اور زمین میں قابیل نے کیا ۔بہت سی باطنی بیماریاں جیسے دشمنی ، بغض و عداوت ، تکبر ، احساس کمتری ، حب جاہ ، قلبی خباثت وغیرہ حسد کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں سب سے پہلے حسد کی تعریف پھر قراٰن و حدیث سے اس کی مذمت بیان کرتا ہوں۔

تعریف: کسی شخص کی دینی یا دنیاوی نعمت دیکھ کر تمنا کرنا کہ یہ نعمت اس سے زائل ہو کر میرے پاس آ جائے حسد کہلاتا ہے ۔ جو کہ حرام ہے ۔حسد کے بارے میں اللہ پاک قراٰنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَ مِنْ شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَدَ۠(۵)﴾ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور حسد والے کے شر سے جب وہ مجھ سے جلے ۔(پ30، الفلق: 5)

آقائے کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بھی ہمیں حسد سے بچنے کا حکم ارشاد فرمایا۔ اللہ پاک کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اپنی امت کے مشرک ہو جانے کا اتنا خوف نہ تھا جتنا حسد میں مبتلا ہونے کا ہوا ۔چنانچہ(1) حضرت عُقبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ایک دن گھر سے باہر تشریف لے گئے اور’’شہداء ِاُحُد‘‘کی قبروں پر اس طرح نماز پڑھی جیسے میت پر نماز پڑھی جاتی ہے، پھر پلٹ کر منبر پر رونق اَفروز ہوئے اور ارشاد فرمایا کہ میں تمہارا پیش رو اور تمہارا گواہ ہوں ، اور میں خدا کی قسم! اپنے حوض کو اس وقت دیکھ رہا ہوں اور بے شک مجھ کو زمین کے خزانوں کی کنجیاں دے دی گئی ہیں اور میں بخدا یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ مجھ کو تم لوگوں کے بارے میں ذرا بھی یہ ڈر نہیں ہے کہ تم لوگ میرے بعد مشرک ہو جاؤ گے ۔لیکن مجھے یہ خوف ہے کہ تم لوگ دنیا میں رغبت اور ایک دوسرے پر حسد کروگے۔(منتخب حدیثیں ،حدیث:31)

(2) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ،فرمایا رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے: اپنے کو بدگمانی سے بچاؤ کہ بدگمانی بدترین جھوٹ ہے ، اور نہ تو عیب جوئی کرو نہ کسی کی باتیں خفیہ سنو، اور نہ بخش کرو اور نہ ایک دوسرے سے حسد و بغض کرو نہ ایک دوسرے کی غیبت کرو اور اے الله کے بندو بھائی بھائی ہو جاؤ ۔ اور ایک روایت میں ہے اور نہ نفسانیت کرو۔(مشکوٰۃ المصابیح ،حدیث: 5028)حسد اور بغض ایسی بیماری ہے جو ایمان کو جڑ سے ختم کر دیتی ہیں۔ چنانچہ

(3) حضرت زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسولُ الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : تم میں پچھلی امتوں کی بیماری سرایت کر گئی حسد اور بغض یہ مونڈ دینے والی ہے میں نہیں کہتا کہ بال مونڈتی ہے لیکن یہ دین کو مونڈ دیتی ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح ،حدیث: 5039)

(4)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے آخری نبی محمد عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا :حسد سے بچو کہ حسد نیکیوں کو ایسے کھا جاتی ہے جیسے آگ لکڑی کو ۔(مشکوٰۃ المصابیح، حدیث: 5040)

(5) حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسولِ اکرم الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :فقیری قریب ہے کہ کفر ہوجاوے اور حسد قریب ہے کہ تقدیر پر غالب آجاوے۔ (مشکوٰۃ المصابیح، حدیث: 5051)

(6) حضرت عبداللہ ابن عمرو سے روایت ہے رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے عرض کیا گیا کہ لوگوں میں سے کون افضل ہے؟ فرمایا ہر سلامت دل والا سچی زبان والا، لوگوں نے عرض کیا کہ سچی زبان والے کو تو ہم جانتے ہیں تو سلامت دل والا کیا ہے ؟ فرمایا وہ ایسا ستھرا ہے جس پر نہ گناہ ہو نہ بغاوت نہ کینہ اور نہ حسد۔ (مشکوٰۃ المصابیح، حدیث: 5221)

( 7) طبرانی نے عبد اللہ بن بسر رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ ’’حسد اور چغلی اور کہانت نہ مجھ سے ہیں اور نہ میں ان سے ہوں یعنی مسلمان کا ان چیزوں سے بالکل تعلق نہیں ہونا چاہیے۔(مجمع الزوائد ،حدیث: 13126)

(8) حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی، کہ میں نے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو یہ فرماتے سنا کہ ’’حسد نہیں ہے مگر دو پر، ایک وہ شخص جسے خدا نے کتاب دی یعنی قراٰن کا علم عطا فرمایا وہ اس کے ساتھ رات میں قیام کرتا ہے اور دوسرا وہ کہ خدا نے اسے مال دیا وہ دن اور رات کے اوقات میں صدقہ کرتا ہے۔(صحیح بخاری حدیث 5025)

( 9) ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی، کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: ’’حسد نہیں ہے مگر دو شخصوں پر ایک وہ شخص جسے خدا نے قراٰن سکھایا وہ رات اور دن کے اوقات میں اس کی تلاوت کرتا ہے، اس کے پڑوسی نے سنا تو کہنے لگا، کاش! مجھے بھی ویسا ہی دیا جاتا جو فلاں شخص کو دیا گیا تو میں بھی اُس کی طرح عمل کرتا۔ دوسرا وہ شخص کہ خدا نے اسے مال دیا وہ (راہ) حق میں مال کو خرچ کرتا ہے، کسی نے کہا، کاش! مجھے بھی ویسا ہی دیا جاتا جیسا فلاں شخص کو دیا گیا تو میں بھی اسی کی طرح عمل کرتا۔(المرجع السابق، حدیث: 5026)ان دونوں حدیثوں میں حسد سے مراد غبطہ ہے جس کو لوگ رشک کہتے ہیں ۔

ہمیں بھی چاہیے کہ اگر کسی کو دنیاوی نعمتوں میں خوش دیکھیں تو حسد کی آگ میں جل کر اپنا سکون برباد کرنے کی بجائے نیک لوگوں کو دیکھ کر ان جیسی نیک عادتوں اور اچھی خصلتوں کو اپنانے کی کوشش کریں۔ اللہ پاک ہمیں حسد اور دیگر باطنی بیماریوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین

پیارے اسلامی بھائیو !حسد ایک بہت بڑا گناہ ہے۔اللہ پاک نے نہ صرف حسد بلکہ اس کی طرف لے جانے والے اسباب سے بھی بچنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے۔اللہ پاک قراٰنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے:﴿اَمْ یَحْسُدُوْنَ النَّاسَ عَلٰى مَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖۚ﴾ ترجمۂ کنزالایمان: یا لوگوں سے حسد کرتے ہیں اس پر جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے دیا۔ (پ5، النسآء : 54)

حسد کی تعریف: کسی کی دینی یا دنیاوی نعمت کے زوال (یعنی اس کے چھن جانے) کی تمنا کرنا یا یہ خواہش کرنا کہ فلاں شخص کو یہ نعمت نہ ملے، اس کا نام حسد ہے۔ (الحدیقۃ الندیۃ ،الخلق الخامس عشر۔۔۔الخ ،1/600)حسد کا حکم: اگر اپنے اختیار و ارادے سے بندے کے دل میں حسد کا خیال آئے اور یہ اس پر عمل بھی کرتا ہے یا بعض اعضاء سے اس کا اظہار کرتا ہے تو یہ حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔ (الحدیقۃ الندیۃ، الخلق الخامس عشر۔۔۔الخ، 1/601)

آئیے !اس سلسلے میں احادیث مبارکہ میں بیان کردہ حسد کے متعلق چند وعیدیں پڑھیے اور خوف خدا سے لرزیئے:(1)حسد سے دور رہو :حضرت سیِّدُنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم رؤف رحیم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: حسد سے دور رہو کیونکہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ خشک لکڑی کو۔(ابو داود، کتاب الادب، باب في الحسد، 4/360، حدیث: 4903)

(2)ایک دوسرے سے حسد نہ کرو : حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ حسد نہ کرو، نہ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ بغض رکھو، اور نہ ہی آپس میں ایک دوسرے سے قطع تعلق کرو، اور اللہ کے بندے بھائی بھائی ہوجاؤ۔(صحیح مسلم،4/1983)

(3)حسد نیکیوں کو کھا جاتی ہے: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: حسد نیکیوں کو کھا لیتا ہے جیسے آگ لکڑیوں کو کھا جاتی ہے اور صدقہ گناہوں کو بجھا دیتا ہے اور نماز نور ہے مؤمن کا اور روزہ ڈھال ہے دوزخ سے ۔ (سنن ابن ماجہ، جلد 4 ،حدیث:1091)

(4)دنیا کے مزوں کے لیے حسد نہ کرو :عقبہ بن عامر سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : مجھے اس کا ڈر بالکل نہیں ہے کہ تم میرے بعد مشرک ہو جاؤ گے البتہ میں اس بات کا اندیشہ کرتا ہوں کہ تم آپس میں ایک دوسرے سے دنیا کے مزوں میں پڑ کر حسد نہ کرنے لگو ۔ (صحیح بخاری، جلد 2،حدیث:1218)

(5)ہمیشہ بھلائی سے رہیں گے : ضمرہ بن ثعلبہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ لوگ ہمیشہ بھلائی سے رہیں گے جب تک وہ حسد سے بچتے رہیں گے۔ (طبرانی فی الکبیر،حدیث:7157)

حسد کے 3 نقصانات : (1) حسد نیکیوں کو اسی طرح کھا جاتی ہے جس طرح آگ سکھی لکڑی کو فوری طور پر جلا کر راکھ کر دیتی ہے۔(2) حسد ہی کی وجہ سے قابیل نے اپنے بھائی ہابیل کا قتل کیا تھا۔(3) حسد کا سب سے بڑا نقصان یہی ہے کہ حاسد انسان اللہ سے بدگمان ہوجاتا ہے اس کی سوچ غلط رخ پر کام کرنے لگتی ہے اور اس کے قول و عمل اور شب و روز کی سرگرمیوں سے خدا کے بارے میں بدگمانی اور ناانصافی کا اظہار ہونے لگتا ہے۔

حسد کے 3 علاج:(1) ’’توبہ کرلیجئے۔‘‘ حسد بلکہ تمام گناہوں سے توبہ کیجئے کہ یا اللہ پاک میں تیرے سامنے اقرار کرتا ہوں کہ میں اپنے فلاں بھائی سے حسد کرتا تھا تو میرے تمام گناہوں کو معاف فرمادے۔ اٰمین (2) ’’دعا کیجئے۔‘‘ کہ یا اللہ پاک ! میں تیری رضا کے لیے حسد سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتا ہوں ، تو مجھے اس باطنی بیماری سے شفا دے اور مجھے حسد سے بچنے میں استقامت عطا فرما۔ اٰمین (3) ’’دوسروں کی خوشی میں خوش رہنے کی عادت بنائیے۔‘‘ کیونکہ یہ ربّ کی مشیت اور نظامِ قدرت ہے کہ اس نے تمام لوگوں کے رہن سہن، ان کی دی جانے والی نعمتوں کو یکساں نہیں رکھا تو یقیناً اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ کسی کی نعمت چھن جانے سے وہ آپ کو ضرور مل جائے گی، لہٰذا حسد کے بجائے اپنے بھائی کی نعمت پر خوش رہیں۔

محترم قارئین !آپ نے حسد کی تباہ کاریاں ملاحظہ کیں کہ حسد نیکیوں کو کھا جاتا ہے، حسد ہی کی وجہ سے دنیا میں پہلا قتل ہوا اور حاسد انسان اللہ سے بدگمان ہوجاتا ہے اور شب و روز خدا باری تعالی کے بارے میں بدگمانی بڑھتی چلی جاتی ہے۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں دیگر گناہوں کے ساتھ ساتھ حسد جیسے بڑے گناہ سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


مہلک کا معنی ہے "ہلاکت میں ڈالنے والا عمل"۔ اس کے بارے میں ضروری احکامات کا جاننا مسلمان کے لئے لازم ہے کیونکہ جو شخص مہلکات کے بارے میں ضروری علم حاصل نہیں کرے گا تو وہ ان گناہوں سے خود کو کس طرح بچا پائے گا؟ مہلکات سے بچنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ جب کسی مہلک کے درپیش ہونے کا اندیشہ ہو تو اس کے دنیوی نقصانات اور اخروی عذابات پر خوب غور کرے تاکہ اس کے اندر اس مہلک سے بچنے کا جذبہ پیدا ہو ۔ علمائے کرام نے اپنی کتب میں اس طرح کے کئی مہلکات کو بیان فرمایا ہے جن میں سے ایک حسد بھی ہے ۔

حسد کی تعریف: کسی کی دینی یا دنیاوی نعمت کے زوال (یعنی اس کے چھن جانے) کی تمنا کرنا یا یہ خواہش کرنا کہ فلاں شخص کو یہ نعمت نہ ملے ۔اس کا نام حسد ہے ۔

حسد کی مذمّت میں 5 احادیث مبارکہ درج ذیل ہیں:

(1) حضرت عبد اللہ ابن عمرو سے روایت ہے کہ رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے عرض کیا گیا کہ لوگوں میں سے کون افضل ہے؟ فرمایا ہر سلامت دل والا، سچی زبان والا، لوگوں نے عرض کیا کہ سچی زبان والے کو تو ہم جانتے ہیں تو سلامت دل والا کیا ہے ؟ فرمایا: وہ ایسا ستھرا ہے جس پر نہ گناہ ہو نہ بغاوت نہ کینہ اور نہ حسد۔ (ابن ماجہ، حدیث: 4216)

(2)حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: بدگمانی سے بچتے رہو کیونکہ بدگمانی کی باتیں اکثر جھوٹی ہوتی ہیں، لوگوں کے عیوب تلاش کرنے کے پیچھے نہ پڑو، آپس میں حسد نہ کرو، کسی کی پیٹھ پیچھے برائی نہ کرو، بغض نہ رکھو، بلکہ سب اللہ کے بندے آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو۔ (صحیح البخاری ، حدیث: 6064)

(3)حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: حسد سے بچو کہ حسد نیکیوں کو ایسے کھا جاتی ہے جیسے آگ لکڑی کو۔ (ابوداؤد ، حدیث: 4903)

(4) حضرت عُقبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ایک دن گھر سے باہر تشریف لے گئے اور’’شہداء ِاُحُد‘‘کی قبروں پر اس طرح نماز پڑھی جیسے میت پر نماز پڑھی جاتی ہے پھر پلٹ کر منبر پر رونق اَفروز ہوئے اور ارشاد فرمایا کہ میں تمہارا پیش رو اور تمہارا گواہ ہوں اور میں خدا کی قسم! اپنے حوض کو اس وقت دیکھ رہا ہوں اور بے شک مجھ کو زمین کے خزانوں کی کنجیاں دے دی گئی ہیں یا یہ فرمایا کہ زمین کی کنجیاں دی گئی ہیں اور میں بخدا یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ مجھ کو تم لوگوں کے بارے میں ذرا بھی یہ ڈر نہیں ہے کہ تم لوگ میرے بعد مشرک ہوجاؤ گے لیکن مجھے یہ خوف ہے کہ تم لوگ دنیا میں رغبت اور ایک دوسرے پر حسد کروگے۔(صحیح بخاری ، حدیث:: 6590)

(5) حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تم میں پچھلی امتوں کی بیماری سرایت کر گئی، حسد اور بغض۔ یہ مونڈ دینے والی ہے ،میں نہیں کہتا کہ بال مونڈتی ہے لیکن یہ دین کو مونڈ دیتی ہے۔(ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، 4/ 228،حدیث: 2518)

پیارے پیارے اسلامی بھائیو! حسد ایک ایسا مرض ہے کہ جس کے خاتمے کے لیے باقاعدہ علاج کی ضرورت ہے ۔ لہٰذا حسد کے چند علاج پیش خدمت ہیں ۔(1)اللہ پاک کی بارگاہ میں توبہ کیجئے اور دعا کیجئے کہ دل ہمیشہ حسد سے پاک رہے (2)اللہ پاک نے جتنا عطا کیا اسی پر راضی رہئے اور اس کا شکر ادا کیجئے (3)حسد کے نقصانات کو ہر دم پیش نظر رکھئے، کیونکہ کوئی بھی عقلمند شخص اس کام میں ہاتھ نہیں ڈالتا جس میں نقصان ہو ۔

پیارے پیارے اسلامی بھائیو! حسد کا ایک علاج اچھی صحبت بھی ہے ۔ الحمدللہ عاشقان رسول کی مدنی تحریک دعوت اسلامی کا مدنی ماحول اچھی صحبت پانے کا بہترین ذریعہ ہے لہٰذا آپ حسد سے خود کو بچانے کے لیے عملی طور پر دعوت اسلامی کے مدنی ماحول سے وابستہ ہو جایئے ان شاء اللہ آپ حسد اور معاشرے میں پائے جانے والے دیگر گناہوں سے بچنے میں کامیاب ہو جائیں گے ۔ اللہ پاک ہمیں حسد اور دیگر باطنی گناہوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


حسد کی تعریف : کسی بندے کے پاس کوئی چیز دیکھ کر اس بات کی تمنا کرنا اس سے چھن کر مجھے مل جائے اور یہ اس سے محروم ہوجائے یہ حسد کہلاتا ہے اور حسد کرنے والا ایسا ہے گویا کہ وہ اللہ پاک کی تقسیم پر راضی نہیں معاذ اللہ۔ کسی کو اللہ پاک نے کوئی نعمت دی یہ اللہ پاک کا فضل ہے حسد کرنے والا بندہ کہتا ہے فلاں کو یہ بھی مل چکا یہ بھی فلاں کو مل گیا یہ تو اس قابل ہی نہیں اب یہ اللہ پاک کی مرضی وہ جسے چاہے عزت دے جسے چاہے شہرت دے طاقت دے حسن دے ہمیں کوئی حق نہیں بنتا ہم اپنے دل میں اس کے لیے حسد پیدا کریں ہم یہ دیکھے کہ جس کو جو بھی ملا یہ میرے کریم مالک ربِ کائنات کی مرضی سے ملا منقول ہے کہ تین برائیاں ایسی ہیں وہ جس میں ہوں وہ اپنی زندگی سے لذت (مزہ) نہیں اٹھا سکتا (1) کینہ (2) حسد (3) بداخلاقی ۔ پیارے محترم بھائیو! حسد کی مذمّت پر کئی احادیث مبارکہ موجود ہیں ان میں سے 5 احادیث ملاحظہ فرمائیں :۔

(1) اپنی نیکیاں بچاؤ : نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے : اِیَّاکُمْ وَ الْحَسَدَ فَاِنَّ الْحَسَدَ یَأْکُلُ الْحَسَنَاْتِ کَمَا تَأْکُلُ النَّارُ الْحَطَبَ ترجمہ: حسد سے بچو کیونکہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جیسے آگ خشک لکڑی کو کھا جاتی ہے۔ ( سنن ابی داؤد ،4/360، الحدیث:4903 )

(2) حسد ہر خطا کی جڑ ہے: نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے: حسد سے بچتے رہو کیونکہ حضرت آدم علیہ السّلام کے دو بیٹوں میں سے ایک نے دوسرے کو حسد کی ہی بنا قتل کیا تھا لہذا حسد ہر خطا کی جڑ ہے۔ ( جامع الا احادیث للسیوطی،3/390، حدیث:9314)

(3) حسد اور ایمان ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے : نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے: لَا یَجْتَمِعُ فِیْ جَوْفِ عَبْدٍ مُؤْمِنٍ اَلْاِیْمَانُ وَ الْحَسَدُ یعنی مؤمن کے دل میں حسد اور ایمان جمع نہیں ہوتے ۔( شعب الایمان ،5/266، حدیث:6609)

(4)آپس میں حسد نہ کرو : نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: آپس میں حسد نہ کرو آپس میں بغض عداوت نہ رکھو پیٹھ پیچھے ایک دوسرے کی برائی بیان نہ کرو اور اے اللہ پاک کے بندو بھائی بھائی ہو کر رہو ۔( صحیح بخاری کتاب الادب ،4/117،حدیث:6066)

(5)۹ حاسد کا حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے کوئی تعلق نہیں : نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: لَیْسَ مِنِّیْ ذُوْ حَسَدٍ وَلَا نَمِیْمَةٍ وَلَا کَھَانَةٍ وَلَا اَنَا مِنْهُ یعنی حسد کرنے والا چغلی کھانے والا اور کاہن کا مجھ سے اور میرا ان سے کوئی تعلق نہیں۔ ( مجمع الزوائد کتاب الادب باب ما جاء فی الغیبۃ والنمیمۃ ، 8/172،حدیث:13126)

حسد کے اسباب: پیارے محترم اسلامی بھائیو!اتنے سارے دنیوی و اخروی نقصانات کا سبب بننے والا حسد یونہی بیٹھے بیٹھاے پیدا نہیں ہوتا اس کے بہت سارے اسباب ہوتے ہیں بنیادی طور پر سات چیزوں سے حسد ہوتا ہے۔(1) بغض وعداوت (2)خود ساختہ عزت (3)احساس کمتری (4)من پسند کے مقاصد کے فوت ہونے کا خوف (5) حبِّ جاہ (6) قلبی خباثت (7) تکبّر۔ ( احیاء العلوم، 3/237 )

حسد کا علاج : دعا کیجیے ۔ رضائے الہی پر راضی رہیں ۔ اپنی موت کو یاد کیجیے ۔ لوگوں کی نعمتوں پر نگاہ مت کیجیے ۔ دوسروں کی خوشی میں خوش رہنے کی عادت بنا لیجیے ۔ مدنی انعامات پر عمل کیجیے ۔ان کی تفصیلی معلومات جاننے کے لیے مکتبۃُ المدینہ کی کتاب حسد ص 54 تا 63 کا مطالعہ کیجیے۔

اللہ پاک ہم سب کو حسد کرنے سے بچائے اور حاسدوں کے حسد بھی سے بچائے۔ اٰمین بجاہ النبی الکریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


حسد: کسی کی دینی یا دنیاوی نعمت کے زوال (اس کے چھن جانے) کی تمنا کرنا یا یہ خواہش کرنا کہ فلاں شخص کو یہ نعمت نہ ملے اس کا نام حسد ہے۔ حسد ایک باطنی بیماری ہے۔حسد کی مذمت بیان کرنے سے پہلے یہ بیان کرنا اشد ضروری ہے کہ باطنی بیماری کسے کہتے ہیں۔

باطنی بیماری: باطنی بیماریاں وہ مہلکات (ہلاک کرنے والی) ہیں جن کا تعلق باطنی عضو دل کے ساتھ ہوتا ہے۔

حسد ایک ایسی باطنی بیماری ہے جس میں آج کل اکثریت گرفتار نظر آتی ہے۔اس بیماری کو دور کرنا انتہائی ضروری ہے۔ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس بیماری کی مذمت کئی مقامات پر مختلف طریقوں سے بیان فرمائی ہے۔

(1) حسد نیکیوں کو کھا جاتا ہے: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کی نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: حسد سے دور رہو کیونکہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ لکڑی کو۔ (ابو داود ،کتاب الادب،باب فی الحسد ج 4،حدیث: 4903)اس حدیث کی شرح میں محدثین لکھتے ہیں کہ حسد نیکیوں کو برباد کرنے کا ذریعہ بن جاتا ہے یعنی حاسد ایسے کام کر بیٹھتا ہے جس سے نیکیاں ضبط ہو جائیں۔

2: دین کو مونڈنے والی: حضرت زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: تم میں پچھلی امتوں کی بیماریاں سرایت کر گئیں (1) حسد (2) بغض، یہ مونڈ دینے والی ہیں میں نہیں کہتا کہ بال مونڈتی ہیں لیکن یہ دین کو مونڈ دیتی ہے۔ ( مشکوۃ المصابیح حدیث: 5039)مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہ علیہ اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں کہ یہ (حسد) دین و ایمان کو جڑ سے ختم کر دیتی ہے کبھی انسان بغض و حسد میں اسلام ہی چھوڑ دیتا ہے۔ شیطان بھی انہیں دو بیماریوں کا مارا ہوا ہے۔

(3) حسد کفر تک پہنچا دیتا ہے:حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: فقیری قریب ہے کہ کفر ہو جائے اور حسد قریب ہے کہ تقدیر پر غالب آ جائے۔( مراۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح، جلد 6،حدیث 5051)مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حسد تقدیر کو اس طرح بدلتا ہے کہ حاسد (حسد کرنے والا) خود محسود (جس سے حسد کر رہا ہے) کی تقدیر بدلنا چاہتا ہے اس کی نعمت کا زوال چاہتا ہے اس کا (یعنی محسود) کا تو کچھ نہیں بگڑتا لیکن حاسد کی نعمتیں زائل ہو جاتیں ہیں چونکہ کبھی حسد بھی کفر تک پہنچا دیتا ہے اس لیے حسد کو فقیر کے ساتھ بیان کیا۔

اگر انسان کے اختیار و ارادے سے دل میں حسد کا خیال آئے اور وہ اس پر عمل بھی کرتا ہے یا بعض اعضاء سے اس کا اظہار کتا ہے تو یہ حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔ (الحدیقہ الندیہ، 1/ 601)ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے ظاہر و باطن کو اس بیماری سے محفوظ رکھیں۔ باطنی بیماریوں کی معلومات حاصل کرنے کے لیے المدینۃُ العلمیہ کی کتاب ” باطنی بیماریوں کی معلومات“ کا مطالعہ کریں اور باطنی بیمار یوں سے بچنے کی کوشش کریں۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں حسد جیسی بری خصلت سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


حسد  : کسی کی دینی و دنیوی نعمت کے زوال(یعنی چھن جانے) کی تمنّا کرنا یا یہ خواہش کرنا کہ فلاں شخص کو یہ نعمت نہ ملے، حَسَد ہے۔ (گناہوں کے عذابات، ص30) حکم : حسد حرام ہے۔ (بہارِ شریعت، 3/542)

حسد ایک ایسا باطنی مرض ہے جو کہ سب سے پہلا گناہ ہے۔ ابلیس لعین نے حضرت آدم علیہ السّلام کے بلند رتبے پر ان سے حسد کیا تھا۔ اس بیماری نے ہی اسے اللہ پاک کی نافرمانی پر ابھارا تھا اور سجدہ کرنے سے انکار کیا تھا۔ (احیاء العلوم مترجم، 3/575)حسد کی وجوہات کئی ہیں جیسا کہ بغض و کینہ، حبِ جاہ، دوسرے کی برتری پر عدم برداشت، تکبر، دشمنی۔ اگر انسان ان باطنی امراض سے اپنے آپ کو پاک رکھے گا تو کسی کی نعمت کی طرف برے نظر سے نہیں دیکھے گا اور اللہ پاک کی تقسیم پر رضا مند رہے گا، وگرنہ جس جس کو ناپسند کرے گا تو اس کی نعمتوں پر حسد کرے گا جس سے محسود(جس سے حسد کیا جائے) اس کا تو کچھ نہیں بگڑتا لیکن حاسد(حسد کرنے والا) اپنا نقصان کروا لیتا ہے۔

قراٰن و حدیث میں بندے کا اللہ پاک کی تقسیم سے رضا مند نہ ہونے پر سختی سے ممانعت ہے، جیسا کہ فرمانِ باری ہے: ﴿وَ لَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللّٰهُ بِهٖ بَعْضَكُمْ عَلٰى بَعْضٍؕ-لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اكْتَسَبُوْاؕ-وَ لِلنِّسَآءِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اكْتَسَبْنَؕ-وَ سْــٴَـلُوا اللّٰهَ مِنْ فَضْلِهٖؕ-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا(۳۲)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور تم ا س چیز کی تمنا نہ کرو جس سے اللہ نے تم میں ایک کو دوسرے پرفضیلت دی ہے ۔ مردوں کے لئے ان کے اعمال سے حصہ ہے، اور عورتوں کے لئے ان کے اعمال سے حصہ ہے اور اللہ سے اس کا فضل مانگو ۔ بیشک اللہ ہر شے کو جاننے والا ہے۔(پ5، النسآء : 32) احادیث میں بھی حسد کی مذمت بیان ہوئی ہے:

(1) ایک مرتبہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : اللہ پاک کی نعمتوں کے بھی دشمن ہوتے ہیں۔ عرض کی گئی: وہ کون ہیں؟ ارشاد فرمایا: جو لوگوں سے اس لئے حسد کرتے ہیں کہ اللہ پاک نے اپنے فضل و کرم سے اُن کو نعمتیں عطا فرمائی ہیں۔ (احیاء العلوم مترجم، 3/574)

(2)روئے زمین پر سب سے پہلا قتل جو قابیل نے اپنے بھائی ہابیل کا کیا اس کی وجہ بھی حسد تھا۔ جیسا کہ فرمانِ مصطفٰی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے : حسد سے بچتے رہو کیونکہ حضرت آدم (علیہ الصلوۃ والسلام ) کے دو بیٹوں میں سے ایک نے دوسرے کو حسد ہی کی بنا پر قتل کیا تھا۔لہذا حسد ہر خطا کی جڑ ہے۔ (حسد،ص42)

(3)فرمانِ مصطفٰی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے :حسد نیکیوں کو ایسے کھا جاتا ہے جیسے آگ لکڑی کو۔ (مرأةالمناجیح، ج6،حدیث:5040)

(4)حضور نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: مجھے اپنی اُمت پر سب سے زیادہ اس بات کا خوف ہے کہ ان میں مال کی کثرت ہو جائے گی تو آپس میں حسد کرنے اور ایک دوسرے کو قتل کرنے لگیں گے۔ (احیاء العلوم مترجم، 3/574)

(5)حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : تم میں پچھلی امتوں کی بیماری سرایت کر گئی، حسد اور بغض، یہ مونڈ دینے(ختم کرنے) والی ہے، میں نہیں کہتا کہ بال مونڈتی ہے لیکن یہ دین کو مونڈ دیتی ہے۔ (مراةالمناجیح، ج6،حدیث:5039)

لہذا ہمیں دوسروں کی نعمتوں اور کامیابیوں پر اپنے آپ کو اندر سے جلانے کے بجائے انہیں دعا دینی چاہیے، اور اگر کسی کی کوئی نعمت اچھی لگے تو حسد کرنے کے بجائے غِبطہ(یعنی رشک) کرنا چاہیے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ بندہ اللہ پاک کی تقسیم پر رضامند رہتے ہوئے دوسروں کو ملنے والی نعمت پر انہیں مبارکباد دے اور اس نعمت کے لیے اپنے حق میں بھی دعا کرے، جیسا کہ، اے اللہ! جو نعمت تو نے اپنے فلاں بندے کو دی ہے، یہ نعمت مجھے بھی عطا کر اور دونوں کے لیے اس میں برکت ڈال۔ اور اگر کوئی کسی سے حسد کرتا ہو یا ایسا محسوس ہو کہ شاید کسی سے حسد کرتا ہے تو اپنے دل کو صاف کرنے کے لیے اس شخص کے لیے دل سے دعا کرے، جب وہ ملے تو خود آگے بڑھ کر مسکراتے ہوئے مصافحہ کرے اور ممکن ہو تو اپنی طرف سے دعوت یا تحفہ بھی پیش کرے۔ اس سے اگر کسی سے حسد ہوگا یا دل میں شک بھی ہوگا تو حسد اور شک دونوں دور ہوجائیں گے۔ ان شاء اللہ، حسد کے بارے میں مزید جاننے کے لیے مکتبۃ المدینہ کا شائع کردہ رسالہ بنام ” حسد “ کا مطالعہ کیجیے۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں حسد اور اس جیسی تمام باطنی بیماریوں سے شفا عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


دنیا کی زندگی بہت مختصر ہے لیکن ہر ایک کو اس کا حساب دینا ہے، انسان دنیا  میں جو بھی نیک اعمال کرے گا اس کا اجر اسے آخرت میں دیا جائے گا اور جو گناہ کرے اس کی سزا اسے آخرت میں دی جائے گی۔ آخرت کی تکالیف دنیا کی تکالیف سے کئی گناہ زیادہ سخت ہیں جنہیں برداشت کرنے کی ہمت و طاقت کسی انسان میں نہیں۔ لہٰذا ہمیں آخرت کی زندگی کو بہتر بنانے کے لئے دنیا میں گناہوں سے بچنا پڑے گا۔ ہم گناہوں سے بچنے کی کوشش کرتے بھی ہیں تو کسی حد تک ظاہری گناہوں سے تو بچنے میں کامیاب ہو جاتے۔ جیسے (قتل زنا وغیرہ ) لیکن باطنی گناہوں سے نہیں بچ پاتے جیسے (غیبت، چغلی وغیرہ) اور ایک باطنی گناہ کے سبب کئی ظاہری گناہوں کا ارتکاب ہوجاتا ہے، اگر باطن خراب ہو تو ظاہری اعمال بھی خراب ہوں گے اور اگر باطن حسد، تکبر اور ریا وغیرہ عیوب سے پاک ہو تو ظاہری اعمال بھی درست ہوتے ہیں۔(منہاج العابدین،ص13،ملخصاً) لہٰذا باطنی گناہوں سے بچنے کے لئے ہمیں ان گناہوں کی معلومات کا ہونا بھی ضروری ہے۔

ا ن باطنی گناہوں میں سے ایک گناہ حسد بھی ہے، جس میں مسلمانوں کی اکثریت مبتلا رہتی ہے اور اسی گناہ کے سبب انسان بہت سے گناہوں میں جا پڑتا ہے، اور اپنی کی ہوئی نیکیاں بھی ضائع کر دیتا ہے۔ اس کے بارے میں سیکھنا ہم پر فرض ہے، چنانچہ اعلیٰ حضرت امام اہلِ سنت امام احمد رضا خان فاضلِ بریلوی رحمۃُ اللہِ علیہ فتاویٰ رضویہ جلد 23،صفحہ624،پر لکھتے ہیں: مُحَرَّماتِ باطِنِیَّہ (باطنی ممنوعات)مثلاً تکبر و ریا، عجب و حسد وغیرہ اور ان کے مُعالَجَات(علاج) کہ ان کا علم بھی ہر مسلمان پر اہم فرائض سے ہے۔(فتاویٰ رضویہ مخرجہ،23/624)

بفضل الٰہی حسد کی مذمت پر مختصر تحریر تیار کی ہے بنام( حسد کی مذمت احادیث کی روشنی میں) ۔اللہ کریم اس تحریر کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ہمیں اس گناہ سے نجات عطا فرمائے اٰمین۔

حسد کی تعریف: کسی کی دینی یا دنیاوی نعمت کے زوال (یعنی اس سے چھِن جائے) کی تمنّا کرنا یا یہ خواہش کرنا کہ فلاں شخص کو یہ نعمت نہ ملے،اس کا نام حسد ہے۔(الحدیقۃ الندیۃ، الخلق الخامس عشر،1/600)

(1)اللہ و رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ناراضگی کا سبب: دینا و آخرت کی ساری بھلائیاں بھی اللہ و رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی رضا سے بڑھ کر نہیں ہو سکتیں، اور اللہ و رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ناراضگی دنیا و آخرت کی ہزار بربادیوں کا سبب ہے۔ کوئی بھی عقل مند شخص اللہ اور اس کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ناراض نہیں کرنا چاہتا کیونکہ ان کی ناراضگی سے دنیا اور آخرت دونوں برباد ہیں۔ لیکن حسد ایسی باطنی بیماری ہے کہ اس کا مُرتَکِب(کرنے والا) اللہ اور اس کے پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ناراض کرتا ہے اور اللہ پاک کی نعمتوں کا دشمن قرار پاتا ہے۔ چنانچہ فرمانِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم: اللہ کی نعمتوں کے بھی دشمن ہوتے ہیں، عرض کی گئی: وہ کون لوگ ہیں؟ تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: وہ جو لوگوں سے اس لئے حسد کرتے ہیں کہ اللہ نے اپنے فضل و کرم سے ان کو نعمتیں عطا فرمائی ہیں۔(التفسیر الکبیر،1/645،البقرۃ،تحت الاٰیۃ:109 ،والزواجر،1/114)

(2) حاسِد کا مجھ سے اور میرا حاسِد سے کوئی تعلق نہیں:اللہ نے جسے جو بھی عطا فرمایا اپنے محبوب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صدقے سے ہی عطا فرمایا، حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی نسبت ہی ہے جو اس امت کو دوسری امتوں سے ممتاز بناتی ہے، المختصر یہ کہ جس کا تعلق آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے جتنا مضبوط ہے اللہ کی بارگاہ میں وہ اتنا ہی زیادہ مقرب ہے، لیکن یہ حسد کی نحوست ایسی ہے کہ اس کی مذمت اللہ کے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنے فرامین میں فرمائی اور حاسد سے لاتعلقی کا اعلان فرمایا، چنانچہ فرمان مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم: لَیسَ مِنِّی ذُو حَسَدٍ وَلَا نَمِیمَۃٍ وَلَا کَھَانَۃٍ وَلَا اَنَا مِنہُ یعنی حسد کرنے والے، چغلی کھانے والے اور کاہن کا مجھ سے اور میرا ان سے کوئی تعلق نہیں۔(مجمع الزوائد،کتاب الادب،باب ماجاءفی الغیبۃ والنمیمۃ،8/172،حدیث:13126)

(3)ایمان کی خرابی کا ایک سبب حَسَد بھی ہے: مسلمان کے لئے ایمان سب سے بڑی دولت ہے کہ اسی کی سلامتی سے آخرت کی سلامتی و دائمی نعمتوں کا حصول ممکن ہے، اسی لئے مسلمان کے لئے ایمان کی حفاظت بہت ضروری ہے، حدیث پاک میں حسد کو بھی ایمان کے بگڑنے کا سبب قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ فرمان مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے : تم میں پچھلی امتوں کی بیماری سرایت کر گئی، حسد اور بغض۔ یہ مونڈ دینے والی ہے ،میں نہیں کہتا کہ بال مونڈتی ہے لیکن یہ دین کو مونڈ دیتی ہے۔(ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، 4/ 228،حدیث: 2518)

(4) حسد نیکیوں کو کھا جاتا ہے: آخرت میں ملنے والے اجر و ثواب کے لئے ہمارے پاس نیکیوں کا خزانہ ہونا بھی ضروری ہے جو شیطان کبھی جمع کرنے نہیں دیتا اور اگر ہم اسے شکست دے کر کچھ نیکیاں اپنے نامۂ اعمال میں جمع کر بھی لیتے ہیں تو یہ ہمیں گناہوں میں مبتلا کروا کر ہماری ان نیکیوں کو ضائع کروا دیتا ہے، اور ان گناہوں میں ایک حسد بھی ہے۔ چنانچہ فرمان مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم: حسد سے بچو وہ نیکیوں کو اس طرح کھاتا ہے جیسے آگ خشک لکڑی کو۔(سنن ابی داؤد،4/320،حدیث:4903)

(5) حسد اور ایمان جمع نہیں ہو سکتے: ایمان کی سلامتی کے لئے جہاں دوسرے گناہوں سے بچنا ضروری ہے وہیں حسد سے بھی ہمیں بچنا چاہئے کیوں کہ پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس سے بچنے کی ترغیب ارشاد فرمائی ہے، اور شیطان بھی بغض، تکبر اور حسد ہی کی وجہ سے ملعون ہوا، اور یہ سچے مؤمن کی علامت ہے کہ وہ اپنے آپ کو گناہوں سے محفوظ رکھتا ہے اور حسد سے بچتا ہے۔ چنانچہ فرمان مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم: لَا یَجتَمِعُ فِی جَوفِ عَبدٍ مُّؤمِنٍ اَلاِیمانُ وَالحَسَدُ یعنی مؤمن کے دل میں ایمان اور حسد جمع نہیں ہوتے۔(شعب الایمان،5/266،حدیث:6609)

حسد سے بچنے کے طریقے: کسی بھی بری چیز سے بچنے کے لئے اس کے نقصانات کا علم ہونا ضروری ہے جبھی انسان کا دل اس سے بیزار ہوگا، اور حسد ایسا گناہ ہے جس کے نقصانات ہی نقصانات ہیں، اور اس سے بچنے کے لئے مسلسل کوشش ضروری ہے، چنانچہ حسد سے بچنے کے چند اہم طریقے پیشِ خدمت ہیں۔

(1)دوسروں کی نعمتوں پر نظر نہ رکھنا۔ ہمیشہ ان لوگوں پر نظر رکھئے جو آپ سے کم درجہ ہوں نہ کہ ان پر جو ہم سے بلند درجہ ہوں چنانچہ، اللہ کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ اپنے سے نیچے درجے والوں کی طرف دیکھا کرو اور اوپر کے درجے والوں کی طرف نظر نہ کرو اگر تم ایسا کرو گے تو اللہ کی کسی نعمت کو حقیر نہ جانو گے۔(ابن ماجہ،4/443،حدیث:4142)

(2) حسد سے بچنے کے فضائل پر غور کیجئے۔ انسان کی فطرت ہے کہ جس چیز میں فائدہ ہو انسان اس چیز کو اپنانے کی کوشش کرتا ہے لہٰذا جب اس گناہ سے بچنے والے انعام کی طرف نظر رہے گی تو کافی حد تک اس گناہ سے بچنے میں کامیابی نصیب ہوگی ان شاء اللہ ۔(حضرت موسیٰ علیہ السّلام نے ایک شخص کو عرش کے سایہ میں دیکھا، عرض کی :اے اللہ اس کو یہ مقام کیسے نصیب ہوا تو اللہ نے ارشاد فرمایا تین اعمال کی وجہ سے۔(1) یہ کسی پر حسد نہ کرتا تھا۔(2)ماں باپ کا فرمانبردار تھا۔(3)یہ چغل خوری سے محفوظ تھا۔)(مکارم الاخلاق،ص183،حدیث:257)

(3)رضائے الٰہی پر راضی رہیے۔ جب ہمارا یہ ذہن بن جائے کہ اللہ نے جس حال میں مجھے رکھا ہے میں اس سے راضی ہوں تو حسد سے بچنا ہمارے لئے بہت آسان ہوجائے گا۔ چنانچہ نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اللہ ارشاد فرماتا ہے :جو میرے فیصلے اور میری تقدیر پر راضی نہیں اسے چاہئے کہ میرے علاوہ دوسرا رب تلاش کرلے۔(شعب الایمان،1/218،حدیث:200)

حسد میں مبتلا شخص بے سکون رہتا ہے، حاسد کبھی ترقی نہیں کر پاتا کیوں کہ وہ اپنا سارا وقت دوسروں پر نظر کرتے ہوئے ہی ضائع کر دیتا ہے، حاسد کبھی کسی سے اچھا تعلق قائم نہیں کر پاتا ،اسی لئے اس گناہ سے بچنے کا ذہن دین اسلام ہمیں دیتا ہے۔ لہٰذا دوسروں کی کسی نعمت کو اگر آپ بھی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اللہ سے دعا کیجئے، حسد نہ کیجئے، اپنے اندر صلاحیت پیدا کیجئے نہ کہ حسد کیجئے۔


پیارے اسلامی بھائیو! آج اس پُر فتن دور میں ہر جگہ گناہوں کا بازار گرم ہی دکھائی دیتا ہے ، وہ گناہ جس کی وعید اور مذمّت پر قراٰن پاک کی بہت آیات اور احادیثِ مبارکہ وارد ہیں ، ان گناہوں میں سے ایک گناہ حسد بھی ہے۔

حسد کی تعریف ، اس کا حکم ، اس کی مذمّت پر چند احادیثِ مبارکہ آپ بھی پڑھیئے!حسد کی تعریف: کسی کی دینی یا دُنیاوی نعمت کے زَوال (یعنی اس سے چھن جانے) کی تمنّا کرنا یا یہ خواہش کرنا کہ فُلاں شخص کو یہ یہ نعمت نہ ملے ، اس کا نام ''حسد'' ہے (الحدیقۃ النديہ ، الخلق الخامس عشر ، 1/600)حَسَد کرنے والے کو ''حاسِد'' اور جس سے حسد کیا جائے اسے ''مَحْسُود'' کہتے ہیں ۔

حسد کا حکم: اگر اپنے اختیار و ارادے سے بندے کے دل میں حسد کا خیال آئے اور یہ اس پر عمل بھی کرتا ہے یا بعض اعضاء سے اس کا اظہار کرتا ہے تو یہ حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔( الحدیقۃُ النديہ ، الخلق الخامس عشر ، 1/601)

(1)اللہ پاک کے آخری نبی محمّد عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حاسد سے اپنی بیزاری کا اظہار اس طرح فرمایا:  ليسَ منِّي ذُو حسدٍ، و لا نميمةٍ، و لا كهانةٍ، و لا أنا منهُ یعنی حسد کرنے والے، چغلی کھانے والے ، اور کاہن کا مجھ سے اور میرا ان سے کوئی تعلق نہیں ۔ ( مجمع الزوائد ، کتاب الادب ، باب ماجاء فی الغيبۃ والنميمۃ ،8/172، حدیث: 13126)

(2) اللہ پاک کے آخری نبی رسولِ ہاشمی حضرتِ محمدِ مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے : تم میں پچھلی امتوں کی بیماری سرایت کر گئی، حسد اور بغض۔ یہ مونڈ دینے والی ہے ،میں نہیں کہتا کہ بال مونڈتی ہے لیکن یہ دین کو مونڈ دیتی ہے۔(ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، 4/ 228،حدیث: 2518)مفسرِ شہیر حکیم الامت مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ الحنان اس حدیثِ مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں : اس طرح کہ دین و ایمان کو جڑ سے ختم کر دیتی ہے کبھی انسان بُغض و حسد میں اسلام ہی چھوڑ دیتا ہے شیطان بھی انہیں دو بیماریوں کا مارا ہوا ہے۔ (مرأة المناجیح ، 6/615)

(3)نبیّ پاک صاحبِ لولاک سیّاحِ افلاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے:   الحسَدُ يُفسِدُ الإيمانَ، كما يُفسِدُ الصَّبرُ العسلَ یعنی حسد ایمان کو اس طرح بگاڑ دیتا ہے ، جیسے ایلوا ، شہد کو بگاڑ دیتا ہے ۔(الجامع الصغیر للسیوطی ، ص 223 ،حديث: 3819) حضرتِ علامہ ملا علی قاری رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حسد کے ایمان میں فساد پیدا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ ایمان کے کمال اور تمام نیکیوں کو برباد کرتا ہے یہ مراد نہیں کہ حسد سِرے سے ایمان کو لے جاتا اور اسے فنا کر دیتا ہے ۔(مرقاة المفاتيح ، 8/773)

(4)سرکارِ دو عالم نورِ مجسم شاہِ بنی آدم رسولِ محتشم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ دلکش نشان ہے: لا يجتَمِعُ في جَوفِ عبدٍ مؤمنٍ الإيمانُ والحسَدُ یعنی مؤمن کے دل میں ایمان اور حسد جمع نہیں ہوتے۔(شعب الایمان، 5/266، حديث :6609)

بوقتِ نزْع سلامت رہے مِرا ایماں

مجھ نصیب ہو توبہ ہے التجا یا ربّ(وسائلِ بخشش ص 94)

(5)نبیّ اکرم نورِ مجسم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: إيّاكُم والحسدَ فإنّ الحسدَ يأكلُ الحسناتِ كما تأكلُ النّارُ الحطبَ یعنی حسد سے بچو وہ نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ خشک لکڑی کو ۔(سنن ابي داؤد ، 4/ 360، حديث : 4903)حضرتِ علامہ ملا علی قاری رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں : یعنی تم مال اور دنیوی عزت و شہرت میں کسی سے حسد کرنے سے بچو کیونکہ حاسد حسد کی وجہ سے ایسے ایسے گناہ کر بیٹھتا ہے جو اس کی نیکیوں کو اسی طرح مٹا دیتے ہیں جیسے آگ لکڑی کو ! مثلاً حاسِد محْسود کی غیبت میں مبتلا ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے اس کی نیکیاں محسود کے حوالے کر دی جاتی ہیں ، یوں محسود کی نعمتوں اور حاسد کی حسرتوں میں اضافہ ہو جاتا ہے ۔(مرقاة المفاتيح، 8/772)

(6) نبیّ رحمت شفیعِ امّت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے: حسد سے بچتے رہو کیونکہ حضرت آدم (علیہ الصلوۃ والسلام)کے دو بیٹوں میں سے ایک نے دوسرے کو حسد ہی کی وجہ سے قتل کیا تھا ، لہٰذا حسد ہر خطا کی جڑ ہے۔(جامع الاحادیث للسیوطی ، 3/390،حديث :9314)

حسد کرنے والے کے حسد سے بچنے کے متعلق چند مدنی پھول:( 1) دعا کرتے رہیئے ۔ قراٰن پاک میں حاسد کے حسد سے پناہ مانگتے رہنے کی تاکید ہے۔ چنانچہ پارہ 30 سورةُ الفلق آیت نمبر 5 میں ارشاد ہوتا ہے : ﴿وَ مِنْ شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَدَ۠(۵)﴾ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور حسد والے کے شر سے جب وہ مجھ سے جلے ۔(پ30، الفلق: 5) (02) حاسد سے توجہ ہٹا لیجئے کیونکہ بسا اوقات یہی احساس کہ میرا کوئی حاسد یا دشمن ہے انسان کو نقصان پہنچاتا ہے۔( 3) صدقہ و خیرات کرتے رہیئے کیونکہ حدیثِ مبارکہ میں ہے کہ آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: صدقہ دینے میں جلدی کیا کرو کیونکہ بَلا صدقہ سے آگے نہیں بڑھ سکتی۔(مجمع الزوائد ، 3/284،حديث:4606)

اللہ پاک کی بارگاہِ عالیہ میں التجا ہے کہ ہمیں فرامین مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر عمل کرتے ہوئے حسد کرنے سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


حسد کی تعریف: کسی کی نعمت چھن جانے کی آرزو کرنا حسد کہلاتا ہے (یعنی یہ آرزو کرنا کہ اس سے نعمت چھن کر مجھے مل جائے) حسد کی مذمت کے متعلق چند احادیث ذکر کی جا رہی ہیں آپ بھی ملاحظہ کیجئے:

(1)حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے: حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ لکڑیوں کو کھا جاتی ہے۔(جہنم میں لے جانے والے اعمال ،ص 190)

(2)حُسنِ اخلاق کے پیکر حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: حسد ایمان کو اس طرح خراب کر دیتا ہے جیسے ایلوا (یعنی ایک کڑوے درخت کا جما ہوا رس) شہد کو خراب کر دیتا ہے۔ ( جہنم میں لے جانے والے اعمال، ص 190)

(3)حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عالیشان ہے: حسد کرنے والے چغلی کھانے والے اور کاہن کے پاس جانے والے کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی میرا اس سے کوئی تعلق ہے۔(جہنم میں لے جانے والے اعمال،ص 191)

(4)حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اللہ پاک کی نعمتوں کے بھی دشمن ہیں عرض کی گئی وہ کون ہیں تو اپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: وہ جو لوگوں سے حسد کرتے ہیں کہ اللہ پاک نے اپنے فضل و کرم سے ان کو نعمتیں عطا فرمائی ہیں۔(جہنم میں لے جانے والے اعمال، ص 195)

(5)حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: چھ قسم کے لوگ حساب سے ایک سال پہلے جہنم میں داخل ہو جائيں گے۔ عرض کی گئی: یارسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! وہ کون لوگ ہیں؟ ارشاد فرمایا:(1)اُمرا ظلم کی وجہ سے(2)عرب تعصُّب کی وجہ سے(3)سردار تکبُّر کی وجہ سے (4)تاجر خیانت کی وجہ سے (5)ديہاتی جہالت کی وجہ سے اور (6)عُلَما حسد کی وجہ سے ۔( جہنم میں کے جانے والے اعمال، ص 196)

(6) حضرت سیدنا زکریا علی نبینا علیہ الصلواة والسلام فرماتے ہیں کہ اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: حاسد میری نعمت کا دشمن ، میرے فیصلہ سے ناخوش اور میرے تقسیم پر ناراض رہتا ہے جو میں نے اپنے بندو کے درمیان فرمائی ہے ۔(جہنم میں لے جانے والے اعمال، ص 196)

(7)حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عالیشان ہے: حسد سے بچتے رہو کیونکہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ لکڑیوں کو کھا جاتی ہے۔(جہنم میں لے جانے والے اعمال، ص 190)

(8)دو جہاں کے مالک و مختار آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ ابلیس اپنے چیلوں سے کہتا ہے انسانوں سے ظلم اور حسد کراؤ کیونکہ یہ دونوں عمل اللہ پاک کے نزدیک شرک کے مساوی ہیں۔(جہنم میں لے جانے والے اعمال، ص 191)

اللہ پاک ہمیں حسد سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور اس باطنی بیماری سے ہمیں محفوظ رکھے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


علم ایک ایسا نور ہے جو جہالت کی تاریکیوں کو مٹا دیتا ہے، انسانی اوصافِ حمیده کا سردار اگر علم کو کہا جائے تو کوئی مبالغہ نہ ہوگا، بلکہ بعض بزرگوں سے منقول ہے "عالم ہی انسان ہوتا ہے" اللہ پاک کے آخری نبی محمد عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے: "طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِيضَةٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ و مسلمة" علم کی تلاش ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے۔ (سنن ابن ماجہ، كتاب المقدمۃ، باب فضل العلماء،1/146،حديث:224)

یاد رہے! جس طرح نماز، روزہ، حج وغیرہ ظاہری اعمال کا علم سیکھنا ہر مسلمان مکلَّف پر اس کی حالت کے مطابق فرض ہے، اسی طرح باطنی امراض، تکبر، ریا، بغض و کینہ اور حسد وغیرہ کا بھی علم سیکھنا ضروری ہے۔ اسی ضرورت کے پیش نظر ہم باطنی بیماریوں میں سے ایک بیماری " جو کہ باطنی امراض کی ماں ہے، نیکیوں کو تباہ کرنے والی ہے، اور پہلی مرتبہ رب العالمین کی نافرمانی کا سبب بننے والی ہے۔ "حسد"، کی مذمت احادیث کی روشنی میں بیان کرتے ہیں۔

مگر اولاً حسد کی تعریف کرنا مناسب ہے: کسی کی دینی یا دنیاوی نعمت کے زوال(یعنی اس سے چھن جانے) کی تمنا کرنا یا یہ خواہش کرنا کہ فلاں کو یہ یہ نعمت نہ ملے، اس کا نام "حسد" ہے۔ (حسد ص 7)

حسد ایمان کو جڑ سے ختم کر دیتی ہے: روایت ہے حضرت زبیر رضی اللہُ عنہ سے فرماتے ہیں فرمایا رسولُ الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے: تم میں پچھلی امتوں کی بیماری سرایت کر گئی، حسد اور بغض یہ مونڈ دینے والی ہے میں نہیں کہتا کہ بال مونڈتی ہے لیکن یہ دین کو مونڈ دیتی ہے۔

اس کی تشریح میں حکیم الامت مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہِ علیہ و الرضوان فرماتے ہیں: اس طرح کہ دین و ایمان کو جڑ سے ختم کر دیتی ہے کبھی انسان بغض و حسد میں اسلام ہی چھوڑ دیتا ہے، شیطان بھی انہیں دو بیماریوں کا مارا ہوا ہے۔ (مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح ، جلد 6 ، حدیث:5039)

حسد کرنے والا اللہ پاک کی نعمتوں کا دشمن ہوتا ہے(معاذ اللہ): اللہ پاک کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اللہ پاک کی نعمتوں کے بھی دشمن ہوتے ہیں! عرض کی گئی "وہ کون ہیں" فرمایا: وہ جو لوگوں سے اس لیے حسد کرتے ہیں کہ اللہ پاک نے انہیں اپنے فضل و کرم سے ان کو نعمتیں عطا فرمائیں۔(الزواجر، 1/46 ،مطبوعہ حجازی بالقاھرہ)اللہ پاک سے دشمنی کرنے کی کسی میں طاقت نہیں اور یہ بات مجرَّب (تجربہ شدہ) ہے کہ دشمن اپنے مخالف کی سب سے عمدہ و قیمتی چیز چھینتا ہے، اور انسان کی سب سے قیمتی چیز "ایمان" ہے۔

حسد کرنے والے کا تعلق نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے منقطع ہے: اللہ پاک کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حاسد سے اپنی بیزاری کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: حسد کرنے والے، چغلی کھانے والے اور کاہن کا مجھ سے اور میرا ان سے کوئی تعلق نہیں۔ (مجمع الزوائد کتاب الادب،باب ما جاء فی الغیبۃ و النمیمۃ، 8/172،حدیث:13126) اللہ اکبر! ذرا غور تو کرے اگر اپنے نبی سے ہی ہمارا تعلق ختم ہو گیا تو ہم کس کے در پر جا کر اپنے عصیاں کا مداوا کرے گیں، یہی تو وہ مقدس بارگاہ ہے کہ جس کی طرف ہمیں ہمارے رب نے بھیجا ہے: ﴿وَ لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ جَآءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَ اسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا(۶۴)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے تھے تو اے حبیب! تمہاری بارگاہ میں حاضر ہو جاتے پھر اللہ سے معافی مانگتے اور رسول (بھی) ان کی مغفرت کی دعا فرماتے تو ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا، مہربان پاتے۔ (پ5،النسآء :64)

اعلی حضرت مجدد دین و ملت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:

تجھ سے چھپاؤں مُنھ تو کروں کس کے سامنے

کیا اور بھی کسی سے توقع نظر کی ہے

جاؤں کہاں پکاروں کسے کس کا منہ تکوں

کیا پرسِش اور جَا بھی سگِ بے ہنر کی ہے

حسد نیکیوں کو ضائع اور حسرت میں اضافے کا سبب ہے: رسولوں کے سردار ، ہم بے بسوں کے مددگار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے : حسد سے بچو وہ نیکیوں کو اس طرح کھاتا ہے جیسے آگ خشک لکڑی کو ۔(سنن ابی داؤد، 4/360،حدیث:4903)

ملا علی قاری رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں : حسد کرنے والا حسد کی وجہ سے ایسے ایسے گناہ کر بیٹھتا ہے جو اس کی نیکیوں کو اسی طرح مٹا دیتے ہیں جیسے آگ لکڑی کو، مثلاً حاسد(حسد کرنے والا محسود(جس پر حسد کیا گیا) کی غیبت میں مبتلا ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے اس کی نیکیاں محسود کے حوالے کر دی جاتی ہیں یوں محسود کی نعمتوں اور حاسد کی حسرتوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔(مرقاۃ المفاتیح،8/772،ملخصاً)

پیارے اسلامی بھائیو! حسد ایک ایسا دلدل ہے جس میں انسان پھنستا ہی چلا جاتا ہے، حسد کی ہی وجہ سے انسان غیبت، چغلی، تہمت، عیب دری، جھوٹ، دل آزاری، قطع رحمی، جادو، اور تو اور قتل جیسے شنیع گناہوں کی گندگی میں جا گرتا ہے، اور سب سے زیادہ لرزا دینے والی بات یہ ہے کہ حسد ایمان جیسی انمول دولت کے ضائع ہونے کا بہت بڑا سبب ہے کہ جس کی وعید روایات و سلف صالحین کے واقعات میں موجود ہے۔

حسد کی بنیاد غصہ ہے، کیونکہ غصہ، کینہ کو اور کینہ حسد کو جنم دیتا ہے، لہذا حسد کا علاج غصہ نہ کرنا ہے، نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کوئی شخص کشتی سے پہلوان نہیں ہوتا، پہلوان وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے کو قابو میں رکھے۔

کشتی قوتِ جسمانی ہے اور غصے پر کنٹرول قوتِ روحانی ہے اور روحانی طاقت والا جسمانی طاقت والے سے بہت زیادہ باکمال اور طاقتور ہوا کرتا ہے ۔یہی وہ حقیقت ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ڈاکٹر اقبال نے کہا ہے کہ:

کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زورِ بازو کا

نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں

(منتخب حدیثیں ،جلد1 حدیث:35)

اللہ کریم ہمیں حسد ،بغض، عداوت اور تمام باطنی و ظاہری امراض سے محفوظ فرمائے، ہمیں غصے پر قابو پانے والا بنائے، اور اپنے ایمان کی حفاظت کی فکر عطا فرمائے، اور ہمارا خاتمہ ایمان پر فرمائے۔ اٰمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


پیارے پیارے اسلامی بھائیو! اس زمانے میں جس طرح ظاہری گناہوں سے بچنا مشکل ہے اسی طرح باطنی گناہوں سے بچنا بھی بہت دشوار ہے باطنی گناہوں سے نا بچنے کی ایک اہم وجہ باطنی گناہوں کا علم نا ہونا ہے۔ مسلمانوں کو باطنی گناہوں کے بارے میں معلومات دینے کے لیے ہر ماہ ماہنامہ فیضان مدینہ میں ایک مضمون باطنی گناہوں کے موضوع پر بھی شایع ہوتا ہے اس ماہنامہ فیضان مدینہ کے اس مضمون میں آپ کو ایک باطنی گناہ  حسد کے بارے میں معلومات فراہم کی جائے گی ۔

حسد کی تعریف: کسی کی دینی یا دنیاوی نعمت کے اس سے چھن جانے کی تمنا کرنا یا یہ خواہش کرنا کہ فلاں شخص کو یہ یہ نعمت نہ ملے اس کا نام حسد ہے۔ حسد کا حکم: کسی مسلمان سے حسد کرنا حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔

احادیث مبارکہ میں حسد سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے کیونکہ یہ ایک برا فعل ہے ہر مسلمان کو اس کے ارتکاب سے بچنا چاہیے حسد کی مذمت پر 6 فرامینِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم آپ بھی پڑھیے اور اس مذموم صفت سے بچنے کی کوشش کیجیے ۔

(1) حسد سے بچو وہ نیکیوں کو اس طرح کھاتا ہے جیسے آگ لکڑی کو۔ (حسد، ص31)

(2) مومن کے دل میں ایمان اور حسد جمع نہیں ہو سکتے۔ (حسد، ص27)

(3) حسد ایمان کو اس طرح بگاڑ دیتا ہے جیسے ایلوا (کڑوے درخت کا رس) شہد کو بگاڑ دیتا ہے۔ (حسد ص27)

(4) تم میں پچھلی امتوں کی بیماری حسد اور بغض سرایت کر گئی یہ مونڈ دینے والی ہے میں یہ نہیں کہتا کہ بال مونڈتی ہے لیکن یہ دین کو مونڈ دیتی ہے۔ (حسد، ص26)

(5) حسد کرنے والے چغلی کھانے والے اور کاہن کا مجھ سے اور میرا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ (حسد، ص25)

(6) اللہ پاک کی نعمتوں کے بھی دشمن ہوتے ہیں عرض کی گئی وہ کون ہیں تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: وہ جو لوگوں سے اس لئے حسد کرتے ہیں کہ اللہ پاک نے اپنے فضل و کرم سے ان کو نعمتیں عطا فرمائی ہیں۔ (حسد ،ص24)

پیارے پیارے اسلامی بھائیو! بعض امراض ایسے خطرناک ہوتے ہیں جن کے خاتمے کے لئے باقاعدہ اور طویل علاج کی ضرورت ہوتی ہے انہیں میں سے ایک حسد بھی ہے اس کا علاج مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں۔ درج ذیل تدابیر اختیار کر کے حسد سے جان چھڑائی جا سکتی ہے۔(1) توبہ کرلیجئے (2)دعا کیجئے (3)رضائے الٰہی پر راضی رہیے (4)حسد کی تباہ کاریوں پر نظر رکھئے (5)اپنی موت کو یاد کیجیے (6)حسد کا سبب بننے والی نعمتوں پر غور کیجئے (7)لوگوں کی نعمتوں پر نگاہ نہ رکھیے (8)حسد سے بچنے کے فضائل پر نظر رکھئے (9)اپنی خامیوں کی اصلاح میں لگ جائیے (10)حسد کی عادت کو رشک میں تبدیل کر لیجئے (11)نفرت کو محبت میں بدلنے کی تدبیریں کیجئے (12)دوسروں کی خوشی میں خوش رہنے کی عادت بنا لیجئے (13)روحانی علاج بھی کیجئے (14)مدنی انعامات پر عمل کیجئے۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہم سب کو حسد سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور دین اسلام کے احکامات کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق مرحمت عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

نوٹ: حسد کے بارے میں مزید معلومات کیلئے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ کتاب حسد کا مطالعہ کیجئے۔ علم دین کا انمول خزانہ ہاتھ آئے گا۔


عزازیل جو جنات میں سے تھا اللہ پاک نے اس کو بہت بڑے مقام و مرتبے سے نوازا ۔یہ بہت بڑا عبادت گزار تھا اس نے دنیا کے ہر کونے پہ اللہ پاک کی عبادت کی پھر اس کو یہ مرتبہ  ملا کہ یہ فرشتوں کا استاد بنا دیا گیا یہ فرشتوں میں وعظ کیا کرتا تھا فرشتے اس کے تابع فرمان تھے جو اتنے بڑے مقام پر فائز ہو غور کریں کہ رب کریم کی بارگاہ میں کتنا مقبول ہوگا۔ عزازیل کا اتنا بڑا مرتبہ ایک دن زائل ہو گیا۔ وہ عزازیل جو رب کی بارگاہ میں مقبول تھا وہ مردود ہو گیا ایسا کیا کیا اس نے۔ آئیے اس بارے میں جانتے ہیں اللہ پاک نے جب حضرت آدم علیہ السّلام کو پیدا کیا تو تمام فرشتوں کو حکم دیا کہ حضرت آدم علیہ السّلام کو سجدہ کریں سب فرشتے حکم پاتے ہی فوراً سجدے میں گر گئے اور اس عزازیل نے سجدے سے انکار کر دیا اور کہنے لگا (انا خیر منہ) میں ان سے بہتر ہوں ۔اپنے آپ کو اللہ کے ایک نبی علیہ السّلام سے بہتر سمجھ کر اس نے حسد کیا اب اس کا انجام کیا ہوا کل تک جو اللہ پاک کی بارگاہ میں مقبول تھا وہ مردود ہو گیا۔ غور کریں حسد کیسا برا فعل ہے جس نے عزازیل جیسے کو بھی بلندی کے اعلی مقام سے پستی کے گڑھے میں دھکیل دیا ، اسی حسد نے عزازیل کو رب کی نافرمانی پہ ابھارا اور رب کی نافرمانی کر کے وہ مردود ہو گیا ۔اب اس کا نام عزازیل نہ رہا بلکہ ابلیس کردیا گیا عوام و خواص میں اس کا مشہور نام شیطان ہے۔ اتنا ذلیل ہوا کہ آج بچہ بچہ شیطان کو ناپسند کرتا ہے۔ آئیے اب حسد کے بارے میں جانتے ہیں یہ کہتے کسے ہیں ؟کسی کی دینی یا دنیاوی نعمت کے زوال یعنی اس کے چھن جانے کی تمنا کرنا یا یہ خواہش کرنا کہ فلاں شخص کو یہ یہ نعمت نہ ملے اس کا نام حسد ہے ۔قراٰنِ کریم میں حسد کرنے والے کے بارے میں فرمایا گیا : ﴿وَ مِنْ شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَدَ۠(۵)﴾ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور حسد والے کے شر سے جب وہ مجھ سے جلے ۔(پ30، الفلق: 5)

(1) اسی طرح آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنے کئی فرامین کے ذریعے اس سے بچنے کی ترغیب ارشاد فرمائی ۔ جیسا کہ ایک موقع پر ارشاد فرمایا: وَلَا تَحَاسَدُوا ترجمہ (ایک دوسرے سے حسد نہ کرو ) (مشکاۃ المصابیح حدیث : 5028)

(2) ایک اور جگہ ارشاد فرمایا: وَعَنِ الزُّبَيْرِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ: دَبَّ إِلَيْكُمْ دَاءُ الْأُمَمِ قَبْلَكُمُ الْحَسَدُ وَالْبَغْضَاءُ هِيَ الْحَالِقَةُ لَا أَقُولُ تَحْلِقُ الشَّعْرَ وَلٰكِنْ تَحْلِقُ الدِّيْنَ ترجمہ : حضرت زبیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: تم میں پچھلی امتوں کی بیماری سرایت کر گئی حسد اور بغض یہ مونڈ دینے والی ہے میں نہیں کہتا کہ بال مونڈتی ہے لیکن یہ دین کو مونڈ دیتی ہے ۔( مشکاۃ المصابیح حدیث : 5039)

(3) ایک اور حدیث پاک میں ہے :وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِيَّاكُمْ وَالْحَسَدَ فَإِنَّ الْحَسَدَ يَأْكُلُ الْحَسَنَاتِ كَمَا تَأْكُلُ النَّارُ الْحَطَبَ ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمنے فرمایا کہ حسد سے بچو کہ حسد نیکیوں کو ایسے کھا جاتی ہے جیسے آگ لکڑی کو ۔(ابوداؤد)

ذرا اندازہ لگائیے حسد نیکیوں کو بھی کھا جاتا ہے آج کل اگر اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں یہ بیماری عام نظر آتی ہے دنیاوی معاملات کی طرف نظر کریں تو اگر آج کوئی زیادہ مال دار ہے تو کم مال دار اس کو دیکھ کر حسد میں مبتلا ہوجاتا ہے اور یہ تمنا کرتا نظر آتا ہے کاش اس سے یہ مال چھن جائے کاش میں اس سے زیادہ امیر ہو جاؤں کسی نے اگر اچھا گھر بنا لیا تو اب بجائے اپنے مسلمان بھائی کی خوشی میں خوش ہونے کہ یہ کہتے نظر آتے ہیں اس نے یہ گھر حرام مال کے پیسوں سے بنایا ہوگا ۔ نہ صرف یہ بیماری دنیاوی لوگوں میں ہے بلکہ اب تو بہت سے دین دار اس میں مبتلا نظر آتے ہیں اگر کوئی نعت خواں ہے تو اپنے سے اچھے نعت خواں سے حسد کرنے لگتا ہے اور اس کے بارے میں طرح طرح کی باتیں کرتا نظر آتا ہے اگر کہیں اس کی تعریف کی جائے تو اس کے دل پہ یہ بات انتہائی ناگوار گزرتی ہے وہ سوچتا ہے کاش اس کی تعریف نہ ہوتی میری تعریف ہوتی الغرض جو بھی شعبہ ہو بس حال اس قدر خراب ہو چکا ہے کہ کسی کی خوشی میں خوش ہونے کا ذہن رہا ہی نہیں ۔

حسد کرنے والا بہت نقصان و خسارے کا سودا کرتا ہے ایک تو وہ گناہِ کبیرہ کا ارتکاب کرتا ہے اور کسی کی نعمت پہ ناخوش ہو کر وہ گویا کہہ رہا ہوتا ہے کہ اللہ پاک نے اس کو یہ نعمت دے کر صحیح نہیں کی اس کو نہیں ملنی چاہیے تھی یہ شخص اللہ پاک کی تقسیم پہ راضی نہیں ہوتا ۔

اس کا علاج: امیر اہلسنت حضرت علامہ مولانا ابو بلال الیاس عطار قادری دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ بیان کرتے ہیں کہ جس سے حسد ہے اس کے حق میں دعا کرتا رہے انشاء اللہ یہ مرض دور ہوجائے گا۔ اللہ پاک ہمیں حسد سے محفوظ فرمائے ۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


ظاہری بیماری بدن کو کھا جاتی ہے جبکہ باطنی بیماریاں ایمان کو ختم کر دیتی ہیں۔ جسم کے ختم ہو جانے سے موت واقع ہو جاتی ہے جبکہ ایمان کے لٹ جانے سے دنیا و آخرت تباہ ہو جاتی ہے۔ باطنی گناہوں کے سبب پھیلنے والی بیماریاں ظاہری گناہوں کی نسبت زیادہ خطرناک ہوتی ہیں کیونکہ ایک باطِنی گناہ بے شمار ظاہری گناہوں کا سبب بن سکتا ہے۔ ان باطنی بیماریوں میں سے ایک حسد بھی ہے۔ حسد ایسی خطرناک باطنی بیماری ہے جو انسان کے سینے میں کینہ، بغض اور کھوٹ کا بیج بو دیتی ہے، جس سے انسان کے تمام نیک اعمال ضائع ہو جاتے ہیں، اور اُس سے اعمالِ صالحہ کی توفیق چھین لی جاتی ہے۔

حسد کی تعریف: کسی کی دینی یا دنیاوی نعمت کے زوال (یعنی اس کے چھن جانے) کی تمنا کرنا یا یہ خواہش کرنا کہ فلاں شخص کو یہ نعمت نہ ملے، اس کا نام حسد ہے۔ ( الحدیقۃ الندیۃ ،1/ 600)حسد کا حکم: اگر اپنے اختیار و ارادے سے بندے کے دل میں حسد کا خیال آئے اور یہ اس پر عمل بھی کرتا ہے یا بعض اعضاء سے اس کا اظہار کرتا ہے تو یہ حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔(باطنی بیماریوں کی معلومات، ص 44 )

احادیث مبارکہ میں حسد کی بہت زیادہ مذمت کی گئی ہے۔ چنانچہ:

(1)حضرت سیِّدُنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ پاک کے پیارے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: حسد سے دور رہو کیونکہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ خشک لکڑی کو۔( ابو داؤد ج4/ ،360 حدیث:4903)

(2)حضرت سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو اور نہ حسد کرو اور نہ غیبت کرو اور اللہ پاک کے بندے بھائی بھائی ہو کر رہو اور کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ جدا رہے (یعنی قطع تعلق کرے)۔(بخاری ،4/ 117 ، حدیث:6066)

(3)فرمانِ آخری نبی رسول ہاشمی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم: لوگ ہمیشہ بھلائی پر رہیں گے جب تک وہ حسد سے بچتے رہیں گے۔(طبرانی فی الکبیر، حدیث: 7157)

(4)فرمان آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم: حسد کرنے والے چغلی کھانے والے اور کاہن کے پاس جانے والے کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی میرا اس سے کوئی تعلق ہے۔(مجمع الزوائد،8 /173 ،حدیث:13126)

(5) فرمان آخری نبی رسول ہاشمی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم: حسد ایمان کو اس طرح خراب کر دیتا ہے جس طرح ایلوا(یعنی ایک کڑوے درخت کا جما ہوا رس) شہد کو خراب کر دیتا ہے۔(کنزالعمال ، 3/ 186 ،حدیث: 7437)

حسد سے بچنے کے طریقے: حسد بلکہ تمام گناہوں سے توبہ کیجئے۔ دعا کیجئے۔ کہ یا اللہ پاک ! میں تیری رضا کے لیے حسد سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتا ہوں ،مجھے اس باطنی بیماری سے شفا دے، رضائے الٰہی پر راضی رہیے۔ حسد کی تباہ کاریوں پر نظر رکھیے۔ کہ حسد اللہ پاک و رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ناراضگی کا سبب ہے، دوسروں کی خوشی میں خوش رہنے کی عادت بنائیے۔ جب بھی دل میں حسد کا خیال آئے تو اَعُوْذُبِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم پڑھ کر اپنے بائیں طرف تین بار تھو تھو کر دیجئے۔

اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا ہے کہ اللہ پاک ہم سب کو حسد جیسی خطرناک باطنی بیماری سے محفوظ فرمائے اور اپنی رضا پر راضی رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم