علم ایک ایسا نور ہے جو جہالت کی تاریکیوں کو مٹا دیتا ہے، انسانی اوصافِ حمیده کا سردار اگر علم کو کہا جائے تو کوئی مبالغہ نہ ہوگا، بلکہ بعض بزرگوں سے منقول ہے "عالم ہی انسان ہوتا ہے" اللہ پاک کے آخری نبی محمد عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے: "طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِيضَةٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ و مسلمة" علم کی تلاش ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے۔ (سنن ابن ماجہ، كتاب المقدمۃ، باب فضل العلماء،1/146،حديث:224)

یاد رہے! جس طرح نماز، روزہ، حج وغیرہ ظاہری اعمال کا علم سیکھنا ہر مسلمان مکلَّف پر اس کی حالت کے مطابق فرض ہے، اسی طرح باطنی امراض، تکبر، ریا، بغض و کینہ اور حسد وغیرہ کا بھی علم سیکھنا ضروری ہے۔ اسی ضرورت کے پیش نظر ہم باطنی بیماریوں میں سے ایک بیماری " جو کہ باطنی امراض کی ماں ہے، نیکیوں کو تباہ کرنے والی ہے، اور پہلی مرتبہ رب العالمین کی نافرمانی کا سبب بننے والی ہے۔ "حسد"، کی مذمت احادیث کی روشنی میں بیان کرتے ہیں۔

مگر اولاً حسد کی تعریف کرنا مناسب ہے: کسی کی دینی یا دنیاوی نعمت کے زوال(یعنی اس سے چھن جانے) کی تمنا کرنا یا یہ خواہش کرنا کہ فلاں کو یہ یہ نعمت نہ ملے، اس کا نام "حسد" ہے۔ (حسد ص 7)

حسد ایمان کو جڑ سے ختم کر دیتی ہے: روایت ہے حضرت زبیر رضی اللہُ عنہ سے فرماتے ہیں فرمایا رسولُ الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے: تم میں پچھلی امتوں کی بیماری سرایت کر گئی، حسد اور بغض یہ مونڈ دینے والی ہے میں نہیں کہتا کہ بال مونڈتی ہے لیکن یہ دین کو مونڈ دیتی ہے۔

اس کی تشریح میں حکیم الامت مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہِ علیہ و الرضوان فرماتے ہیں: اس طرح کہ دین و ایمان کو جڑ سے ختم کر دیتی ہے کبھی انسان بغض و حسد میں اسلام ہی چھوڑ دیتا ہے، شیطان بھی انہیں دو بیماریوں کا مارا ہوا ہے۔ (مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح ، جلد 6 ، حدیث:5039)

حسد کرنے والا اللہ پاک کی نعمتوں کا دشمن ہوتا ہے(معاذ اللہ): اللہ پاک کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اللہ پاک کی نعمتوں کے بھی دشمن ہوتے ہیں! عرض کی گئی "وہ کون ہیں" فرمایا: وہ جو لوگوں سے اس لیے حسد کرتے ہیں کہ اللہ پاک نے انہیں اپنے فضل و کرم سے ان کو نعمتیں عطا فرمائیں۔(الزواجر، 1/46 ،مطبوعہ حجازی بالقاھرہ)اللہ پاک سے دشمنی کرنے کی کسی میں طاقت نہیں اور یہ بات مجرَّب (تجربہ شدہ) ہے کہ دشمن اپنے مخالف کی سب سے عمدہ و قیمتی چیز چھینتا ہے، اور انسان کی سب سے قیمتی چیز "ایمان" ہے۔

حسد کرنے والے کا تعلق نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے منقطع ہے: اللہ پاک کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حاسد سے اپنی بیزاری کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: حسد کرنے والے، چغلی کھانے والے اور کاہن کا مجھ سے اور میرا ان سے کوئی تعلق نہیں۔ (مجمع الزوائد کتاب الادب،باب ما جاء فی الغیبۃ و النمیمۃ، 8/172،حدیث:13126) اللہ اکبر! ذرا غور تو کرے اگر اپنے نبی سے ہی ہمارا تعلق ختم ہو گیا تو ہم کس کے در پر جا کر اپنے عصیاں کا مداوا کرے گیں، یہی تو وہ مقدس بارگاہ ہے کہ جس کی طرف ہمیں ہمارے رب نے بھیجا ہے: ﴿وَ لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ جَآءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَ اسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا(۶۴)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے تھے تو اے حبیب! تمہاری بارگاہ میں حاضر ہو جاتے پھر اللہ سے معافی مانگتے اور رسول (بھی) ان کی مغفرت کی دعا فرماتے تو ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا، مہربان پاتے۔ (پ5،النسآء :64)

اعلی حضرت مجدد دین و ملت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:

تجھ سے چھپاؤں مُنھ تو کروں کس کے سامنے

کیا اور بھی کسی سے توقع نظر کی ہے

جاؤں کہاں پکاروں کسے کس کا منہ تکوں

کیا پرسِش اور جَا بھی سگِ بے ہنر کی ہے

حسد نیکیوں کو ضائع اور حسرت میں اضافے کا سبب ہے: رسولوں کے سردار ، ہم بے بسوں کے مددگار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے : حسد سے بچو وہ نیکیوں کو اس طرح کھاتا ہے جیسے آگ خشک لکڑی کو ۔(سنن ابی داؤد، 4/360،حدیث:4903)

ملا علی قاری رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں : حسد کرنے والا حسد کی وجہ سے ایسے ایسے گناہ کر بیٹھتا ہے جو اس کی نیکیوں کو اسی طرح مٹا دیتے ہیں جیسے آگ لکڑی کو، مثلاً حاسد(حسد کرنے والا محسود(جس پر حسد کیا گیا) کی غیبت میں مبتلا ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے اس کی نیکیاں محسود کے حوالے کر دی جاتی ہیں یوں محسود کی نعمتوں اور حاسد کی حسرتوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔(مرقاۃ المفاتیح،8/772،ملخصاً)

پیارے اسلامی بھائیو! حسد ایک ایسا دلدل ہے جس میں انسان پھنستا ہی چلا جاتا ہے، حسد کی ہی وجہ سے انسان غیبت، چغلی، تہمت، عیب دری، جھوٹ، دل آزاری، قطع رحمی، جادو، اور تو اور قتل جیسے شنیع گناہوں کی گندگی میں جا گرتا ہے، اور سب سے زیادہ لرزا دینے والی بات یہ ہے کہ حسد ایمان جیسی انمول دولت کے ضائع ہونے کا بہت بڑا سبب ہے کہ جس کی وعید روایات و سلف صالحین کے واقعات میں موجود ہے۔

حسد کی بنیاد غصہ ہے، کیونکہ غصہ، کینہ کو اور کینہ حسد کو جنم دیتا ہے، لہذا حسد کا علاج غصہ نہ کرنا ہے، نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کوئی شخص کشتی سے پہلوان نہیں ہوتا، پہلوان وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے کو قابو میں رکھے۔

کشتی قوتِ جسمانی ہے اور غصے پر کنٹرول قوتِ روحانی ہے اور روحانی طاقت والا جسمانی طاقت والے سے بہت زیادہ باکمال اور طاقتور ہوا کرتا ہے ۔یہی وہ حقیقت ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ڈاکٹر اقبال نے کہا ہے کہ:

کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زورِ بازو کا

نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں

(منتخب حدیثیں ،جلد1 حدیث:35)

اللہ کریم ہمیں حسد ،بغض، عداوت اور تمام باطنی و ظاہری امراض سے محفوظ فرمائے، ہمیں غصے پر قابو پانے والا بنائے، اور اپنے ایمان کی حفاظت کی فکر عطا فرمائے، اور ہمارا خاتمہ ایمان پر فرمائے۔ اٰمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم