دنیا کی زندگی بہت مختصر ہے لیکن ہر ایک کو اس کا حساب دینا ہے، انسان دنیا  میں جو بھی نیک اعمال کرے گا اس کا اجر اسے آخرت میں دیا جائے گا اور جو گناہ کرے اس کی سزا اسے آخرت میں دی جائے گی۔ آخرت کی تکالیف دنیا کی تکالیف سے کئی گناہ زیادہ سخت ہیں جنہیں برداشت کرنے کی ہمت و طاقت کسی انسان میں نہیں۔ لہٰذا ہمیں آخرت کی زندگی کو بہتر بنانے کے لئے دنیا میں گناہوں سے بچنا پڑے گا۔ ہم گناہوں سے بچنے کی کوشش کرتے بھی ہیں تو کسی حد تک ظاہری گناہوں سے تو بچنے میں کامیاب ہو جاتے۔ جیسے (قتل زنا وغیرہ ) لیکن باطنی گناہوں سے نہیں بچ پاتے جیسے (غیبت، چغلی وغیرہ) اور ایک باطنی گناہ کے سبب کئی ظاہری گناہوں کا ارتکاب ہوجاتا ہے، اگر باطن خراب ہو تو ظاہری اعمال بھی خراب ہوں گے اور اگر باطن حسد، تکبر اور ریا وغیرہ عیوب سے پاک ہو تو ظاہری اعمال بھی درست ہوتے ہیں۔(منہاج العابدین،ص13،ملخصاً) لہٰذا باطنی گناہوں سے بچنے کے لئے ہمیں ان گناہوں کی معلومات کا ہونا بھی ضروری ہے۔

ا ن باطنی گناہوں میں سے ایک گناہ حسد بھی ہے، جس میں مسلمانوں کی اکثریت مبتلا رہتی ہے اور اسی گناہ کے سبب انسان بہت سے گناہوں میں جا پڑتا ہے، اور اپنی کی ہوئی نیکیاں بھی ضائع کر دیتا ہے۔ اس کے بارے میں سیکھنا ہم پر فرض ہے، چنانچہ اعلیٰ حضرت امام اہلِ سنت امام احمد رضا خان فاضلِ بریلوی رحمۃُ اللہِ علیہ فتاویٰ رضویہ جلد 23،صفحہ624،پر لکھتے ہیں: مُحَرَّماتِ باطِنِیَّہ (باطنی ممنوعات)مثلاً تکبر و ریا، عجب و حسد وغیرہ اور ان کے مُعالَجَات(علاج) کہ ان کا علم بھی ہر مسلمان پر اہم فرائض سے ہے۔(فتاویٰ رضویہ مخرجہ،23/624)

بفضل الٰہی حسد کی مذمت پر مختصر تحریر تیار کی ہے بنام( حسد کی مذمت احادیث کی روشنی میں) ۔اللہ کریم اس تحریر کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ہمیں اس گناہ سے نجات عطا فرمائے اٰمین۔

حسد کی تعریف: کسی کی دینی یا دنیاوی نعمت کے زوال (یعنی اس سے چھِن جائے) کی تمنّا کرنا یا یہ خواہش کرنا کہ فلاں شخص کو یہ نعمت نہ ملے،اس کا نام حسد ہے۔(الحدیقۃ الندیۃ، الخلق الخامس عشر،1/600)

(1)اللہ و رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ناراضگی کا سبب: دینا و آخرت کی ساری بھلائیاں بھی اللہ و رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی رضا سے بڑھ کر نہیں ہو سکتیں، اور اللہ و رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ناراضگی دنیا و آخرت کی ہزار بربادیوں کا سبب ہے۔ کوئی بھی عقل مند شخص اللہ اور اس کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ناراض نہیں کرنا چاہتا کیونکہ ان کی ناراضگی سے دنیا اور آخرت دونوں برباد ہیں۔ لیکن حسد ایسی باطنی بیماری ہے کہ اس کا مُرتَکِب(کرنے والا) اللہ اور اس کے پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ناراض کرتا ہے اور اللہ پاک کی نعمتوں کا دشمن قرار پاتا ہے۔ چنانچہ فرمانِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم: اللہ کی نعمتوں کے بھی دشمن ہوتے ہیں، عرض کی گئی: وہ کون لوگ ہیں؟ تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: وہ جو لوگوں سے اس لئے حسد کرتے ہیں کہ اللہ نے اپنے فضل و کرم سے ان کو نعمتیں عطا فرمائی ہیں۔(التفسیر الکبیر،1/645،البقرۃ،تحت الاٰیۃ:109 ،والزواجر،1/114)

(2) حاسِد کا مجھ سے اور میرا حاسِد سے کوئی تعلق نہیں:اللہ نے جسے جو بھی عطا فرمایا اپنے محبوب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صدقے سے ہی عطا فرمایا، حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی نسبت ہی ہے جو اس امت کو دوسری امتوں سے ممتاز بناتی ہے، المختصر یہ کہ جس کا تعلق آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے جتنا مضبوط ہے اللہ کی بارگاہ میں وہ اتنا ہی زیادہ مقرب ہے، لیکن یہ حسد کی نحوست ایسی ہے کہ اس کی مذمت اللہ کے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنے فرامین میں فرمائی اور حاسد سے لاتعلقی کا اعلان فرمایا، چنانچہ فرمان مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم: لَیسَ مِنِّی ذُو حَسَدٍ وَلَا نَمِیمَۃٍ وَلَا کَھَانَۃٍ وَلَا اَنَا مِنہُ یعنی حسد کرنے والے، چغلی کھانے والے اور کاہن کا مجھ سے اور میرا ان سے کوئی تعلق نہیں۔(مجمع الزوائد،کتاب الادب،باب ماجاءفی الغیبۃ والنمیمۃ،8/172،حدیث:13126)

(3)ایمان کی خرابی کا ایک سبب حَسَد بھی ہے: مسلمان کے لئے ایمان سب سے بڑی دولت ہے کہ اسی کی سلامتی سے آخرت کی سلامتی و دائمی نعمتوں کا حصول ممکن ہے، اسی لئے مسلمان کے لئے ایمان کی حفاظت بہت ضروری ہے، حدیث پاک میں حسد کو بھی ایمان کے بگڑنے کا سبب قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ فرمان مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے : تم میں پچھلی امتوں کی بیماری سرایت کر گئی، حسد اور بغض۔ یہ مونڈ دینے والی ہے ،میں نہیں کہتا کہ بال مونڈتی ہے لیکن یہ دین کو مونڈ دیتی ہے۔(ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، 4/ 228،حدیث: 2518)

(4) حسد نیکیوں کو کھا جاتا ہے: آخرت میں ملنے والے اجر و ثواب کے لئے ہمارے پاس نیکیوں کا خزانہ ہونا بھی ضروری ہے جو شیطان کبھی جمع کرنے نہیں دیتا اور اگر ہم اسے شکست دے کر کچھ نیکیاں اپنے نامۂ اعمال میں جمع کر بھی لیتے ہیں تو یہ ہمیں گناہوں میں مبتلا کروا کر ہماری ان نیکیوں کو ضائع کروا دیتا ہے، اور ان گناہوں میں ایک حسد بھی ہے۔ چنانچہ فرمان مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم: حسد سے بچو وہ نیکیوں کو اس طرح کھاتا ہے جیسے آگ خشک لکڑی کو۔(سنن ابی داؤد،4/320،حدیث:4903)

(5) حسد اور ایمان جمع نہیں ہو سکتے: ایمان کی سلامتی کے لئے جہاں دوسرے گناہوں سے بچنا ضروری ہے وہیں حسد سے بھی ہمیں بچنا چاہئے کیوں کہ پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس سے بچنے کی ترغیب ارشاد فرمائی ہے، اور شیطان بھی بغض، تکبر اور حسد ہی کی وجہ سے ملعون ہوا، اور یہ سچے مؤمن کی علامت ہے کہ وہ اپنے آپ کو گناہوں سے محفوظ رکھتا ہے اور حسد سے بچتا ہے۔ چنانچہ فرمان مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم: لَا یَجتَمِعُ فِی جَوفِ عَبدٍ مُّؤمِنٍ اَلاِیمانُ وَالحَسَدُ یعنی مؤمن کے دل میں ایمان اور حسد جمع نہیں ہوتے۔(شعب الایمان،5/266،حدیث:6609)

حسد سے بچنے کے طریقے: کسی بھی بری چیز سے بچنے کے لئے اس کے نقصانات کا علم ہونا ضروری ہے جبھی انسان کا دل اس سے بیزار ہوگا، اور حسد ایسا گناہ ہے جس کے نقصانات ہی نقصانات ہیں، اور اس سے بچنے کے لئے مسلسل کوشش ضروری ہے، چنانچہ حسد سے بچنے کے چند اہم طریقے پیشِ خدمت ہیں۔

(1)دوسروں کی نعمتوں پر نظر نہ رکھنا۔ ہمیشہ ان لوگوں پر نظر رکھئے جو آپ سے کم درجہ ہوں نہ کہ ان پر جو ہم سے بلند درجہ ہوں چنانچہ، اللہ کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ اپنے سے نیچے درجے والوں کی طرف دیکھا کرو اور اوپر کے درجے والوں کی طرف نظر نہ کرو اگر تم ایسا کرو گے تو اللہ کی کسی نعمت کو حقیر نہ جانو گے۔(ابن ماجہ،4/443،حدیث:4142)

(2) حسد سے بچنے کے فضائل پر غور کیجئے۔ انسان کی فطرت ہے کہ جس چیز میں فائدہ ہو انسان اس چیز کو اپنانے کی کوشش کرتا ہے لہٰذا جب اس گناہ سے بچنے والے انعام کی طرف نظر رہے گی تو کافی حد تک اس گناہ سے بچنے میں کامیابی نصیب ہوگی ان شاء اللہ ۔(حضرت موسیٰ علیہ السّلام نے ایک شخص کو عرش کے سایہ میں دیکھا، عرض کی :اے اللہ اس کو یہ مقام کیسے نصیب ہوا تو اللہ نے ارشاد فرمایا تین اعمال کی وجہ سے۔(1) یہ کسی پر حسد نہ کرتا تھا۔(2)ماں باپ کا فرمانبردار تھا۔(3)یہ چغل خوری سے محفوظ تھا۔)(مکارم الاخلاق،ص183،حدیث:257)

(3)رضائے الٰہی پر راضی رہیے۔ جب ہمارا یہ ذہن بن جائے کہ اللہ نے جس حال میں مجھے رکھا ہے میں اس سے راضی ہوں تو حسد سے بچنا ہمارے لئے بہت آسان ہوجائے گا۔ چنانچہ نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اللہ ارشاد فرماتا ہے :جو میرے فیصلے اور میری تقدیر پر راضی نہیں اسے چاہئے کہ میرے علاوہ دوسرا رب تلاش کرلے۔(شعب الایمان،1/218،حدیث:200)

حسد میں مبتلا شخص بے سکون رہتا ہے، حاسد کبھی ترقی نہیں کر پاتا کیوں کہ وہ اپنا سارا وقت دوسروں پر نظر کرتے ہوئے ہی ضائع کر دیتا ہے، حاسد کبھی کسی سے اچھا تعلق قائم نہیں کر پاتا ،اسی لئے اس گناہ سے بچنے کا ذہن دین اسلام ہمیں دیتا ہے۔ لہٰذا دوسروں کی کسی نعمت کو اگر آپ بھی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اللہ سے دعا کیجئے، حسد نہ کیجئے، اپنے اندر صلاحیت پیدا کیجئے نہ کہ حسد کیجئے۔