محمد طلحٰہ خان عطاری ( درجہ خامسہ جامعۃُ المدینہ فیضان خلفائے راشدین
بحریہ راولپنڈی پاکستان)
حسد : کسی کی دینی و
دنیوی نعمت کے زوال(یعنی چھن جانے) کی تمنّا کرنا یا یہ خواہش کرنا کہ فلاں شخص کو
یہ نعمت نہ ملے، حَسَد ہے۔ (گناہوں کے عذابات، ص30)
حکم : حسد حرام ہے۔ (بہارِ شریعت، 3/542)
حسد ایک ایسا باطنی مرض ہے جو کہ سب سے پہلا گناہ ہے۔ ابلیس
لعین نے حضرت آدم علیہ السّلام کے بلند
رتبے پر ان سے حسد کیا تھا۔ اس بیماری نے ہی اسے اللہ پاک کی نافرمانی پر ابھارا
تھا اور سجدہ کرنے سے انکار کیا تھا۔ (احیاء العلوم مترجم، 3/575)حسد کی وجوہات کئی
ہیں جیسا کہ بغض و کینہ، حبِ جاہ، دوسرے کی برتری پر عدم برداشت، تکبر، دشمنی۔ اگر
انسان ان باطنی امراض سے اپنے آپ کو پاک رکھے گا تو کسی کی نعمت کی طرف برے نظر سے
نہیں دیکھے گا اور اللہ پاک کی تقسیم پر رضا مند رہے گا، وگرنہ جس جس کو ناپسند
کرے گا تو اس کی نعمتوں پر حسد کرے گا جس سے محسود(جس سے حسد کیا جائے) اس کا تو
کچھ نہیں بگڑتا لیکن حاسد(حسد کرنے والا) اپنا نقصان کروا لیتا ہے۔
قراٰن و حدیث میں بندے کا اللہ پاک کی تقسیم سے رضا مند نہ
ہونے پر سختی سے ممانعت ہے، جیسا کہ فرمانِ باری ہے: ﴿وَ لَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ
اللّٰهُ بِهٖ بَعْضَكُمْ عَلٰى بَعْضٍؕ-لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا
اكْتَسَبُوْاؕ-وَ لِلنِّسَآءِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اكْتَسَبْنَؕ-وَ سْــٴَـلُوا
اللّٰهَ مِنْ فَضْلِهٖؕ-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا(۳۲)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور تم ا س چیز کی تمنا نہ کرو جس سے
اللہ نے تم میں ایک کو دوسرے پرفضیلت دی ہے ۔ مردوں کے لئے ان کے اعمال سے حصہ ہے،
اور عورتوں کے لئے ان کے اعمال سے حصہ ہے اور اللہ سے اس کا فضل مانگو ۔ بیشک اللہ
ہر شے کو جاننے والا ہے۔(پ5، النسآء : 32) احادیث میں بھی حسد کی مذمت بیان ہوئی
ہے:
(1) ایک
مرتبہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : اللہ پاک کی نعمتوں کے بھی
دشمن ہوتے ہیں۔ عرض کی گئی: وہ کون ہیں؟ ارشاد فرمایا: جو لوگوں سے اس لئے حسد
کرتے ہیں کہ اللہ پاک نے اپنے فضل و کرم سے اُن کو نعمتیں عطا فرمائی ہیں۔ (احیاء
العلوم مترجم، 3/574)
(2)روئے زمین پر سب سے پہلا قتل جو قابیل نے اپنے بھائی
ہابیل کا کیا اس کی وجہ بھی حسد تھا۔ جیسا کہ فرمانِ مصطفٰی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے : حسد
سے بچتے رہو کیونکہ حضرت آدم (علیہ الصلوۃ والسلام ) کے دو بیٹوں میں سے ایک نے
دوسرے کو حسد ہی کی بنا پر قتل کیا تھا۔لہذا حسد ہر خطا کی جڑ ہے۔ (حسد،ص42)
(3)فرمانِ مصطفٰی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے :حسد
نیکیوں کو ایسے کھا جاتا ہے جیسے آگ لکڑی کو۔ (مرأةالمناجیح، ج6،حدیث:5040)
(4)حضور نبی
پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: مجھے اپنی اُمت پر سب سے
زیادہ اس بات کا خوف ہے کہ ان میں مال کی کثرت ہو جائے گی تو آپس میں حسد کرنے اور
ایک دوسرے کو قتل کرنے لگیں گے۔ (احیاء العلوم مترجم، 3/574)
(5)حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : تم میں
پچھلی امتوں کی بیماری سرایت کر گئی، حسد اور بغض، یہ مونڈ دینے(ختم کرنے) والی
ہے، میں نہیں کہتا کہ بال مونڈتی ہے لیکن یہ دین کو مونڈ دیتی ہے۔ (مراةالمناجیح،
ج6،حدیث:5039)
لہذا ہمیں دوسروں کی نعمتوں اور کامیابیوں پر اپنے آپ کو
اندر سے جلانے کے بجائے انہیں دعا دینی چاہیے، اور اگر کسی کی کوئی نعمت اچھی لگے
تو حسد کرنے کے بجائے غِبطہ(یعنی رشک) کرنا چاہیے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ بندہ اللہ
پاک کی تقسیم پر رضامند رہتے ہوئے دوسروں کو ملنے والی نعمت پر انہیں مبارکباد دے
اور اس نعمت کے لیے اپنے حق میں بھی دعا کرے، جیسا کہ، اے اللہ! جو نعمت تو نے
اپنے فلاں بندے کو دی ہے، یہ نعمت مجھے بھی عطا کر اور دونوں کے لیے اس میں برکت
ڈال۔ اور اگر کوئی کسی سے حسد کرتا ہو یا ایسا محسوس ہو کہ شاید کسی سے حسد کرتا
ہے تو اپنے دل کو صاف کرنے کے لیے اس شخص کے لیے دل سے دعا کرے، جب وہ ملے تو خود
آگے بڑھ کر مسکراتے ہوئے مصافحہ کرے اور ممکن ہو تو اپنی طرف سے دعوت یا تحفہ بھی
پیش کرے۔ اس سے اگر کسی سے حسد ہوگا یا دل میں شک بھی ہوگا تو حسد اور شک دونوں
دور ہوجائیں گے۔ ان شاء اللہ، حسد کے بارے میں مزید جاننے کے لیے مکتبۃ المدینہ کا
شائع کردہ رسالہ بنام ” حسد “ کا مطالعہ کیجیے۔
اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں حسد اور اس جیسی تمام باطنی
بیماریوں سے شفا عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم