اسماءِ حُسْنٰی کے فضائل: اَحادیث میں اسماءِ حسنیٰ کے بہت فضائل بیان کئے گئے ہیں چنانچہ

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’بے شک اللہ پاک کے ننانوے نام ہیں یعنی ایک کم سو، جس نے انہیں یاد کر لیا وہ جنت میں داخل ہوا۔(بخاری، کتاب الشروط، 2 / 229، الحديث: 2736)

اللہ پاک نے قرآنِ پاک میں ارشاد فرمایا:وَ لِلّٰهِ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰى فَادْعُوْهُ بِهَا۪-

ترجمہ کنزالایمان: اور اللہ ہی کے ہیں بہت اچھے نام تو اسے ان سے پکارو ۔(پ 9 ،الأعراف:180)

اسماءِ حُسْنٰی سے 10 کا اجمالاً ذکر

(1،2) الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ۔الرَّحْمَنُ دنیا میں مومنوں اور کافروں پر رحم کرنے والا اور، الرَّحِيمُ آخرت میں صرف مؤمنوں پر رحم فرمانے والا۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ اگر مومن جان لیتا کہ اللہ پاک کے پاس کتنا عذاب ہے تو کوئی بھی اس کی جنت کی امید نہ رکھتا اور اگر کافر جان لیتاکہ اللہ پاک کے پاس کتنی رحمت ہے تو اس کی جنت سے کوئی ناامید نہ ہوتا ۔(مسلم، کتاب التوبۃ، ،ص:1473،الحدیث:23(2755))

الملک:جس کا معنیٰ ہے بادشاہ جو چاہے کرے اور اس کے فعل پر کسی کو مجال اعتراض نہ ہو۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ پاک ہر رات آسمان دنیا کی طرف نزول فرماتا ہے جس وقت رات کا ابتدائی حصہ گذر جاتا ہے تو اللہ فرماتا ہے میں بادشاہ ہوں کون ہے جو مجھ سے دعا کرے اور میں اس کی دعا قبول کروں، کون ہے جو مجھ سے سوال کرے اور میں اسے عطا کروں، کون ہے جو مجھ سے مغفرت مانگے اور میں اسے معاف کر دوں، اللہ پاک اسی طرح فرماتا رہتا ہے یہاں تک کہ صبح روشن ہوجاتی ہے۔

( صحیح مسلم ، باب الترغیب فی الدعائ و الذکر فی آخر اللیل و الاجابۃ فیہ ، رقم الحدیث 1773، ص 307، مطبوعہ دار السلام للنشر و التوزیع ، المملکۃ العربیۃ السعودیۃ، الطبعۃ الثانیۃ ، 1421ھ ، 2000ء)

القدوس: المنزۃ من کل نقص والطاھر من کل عیب۔ جو ہر نقص سے منزہ اور ہر عیب سے پاک ہو۔ (ضیاء القرآن، جلد5، تفسیر سورۃ الحشر تحت الآیۃ 23، ص 186)

حدیث پاک میں ہے: أَنَّ رَسُول اللَّہِ صلی اللہ علیہ وسلم کَانَ یَقُولُ فِی رُکُوعِہِ وَسُجُودِہِ سُبُّوحٌ قُدُّوسٌ رَبُّ الْمَلاَءِکَۃِ وَالرُّوحِ

” حضرت مطرف بن عبد اللہ بن شخیر کہتے ہیں کہ مجھے عائشہ صدیقہ نے بتایا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رکوع اور سجدے میں یہ دعاپڑھا کرتے تھے۔ ملائکہ اور جبرائیل امین کے رب ہر قسم کی تسبیح و تقدیس تیرے لئے ہے۔ “(صحیح مسلم ، باب ما یقال فی الرکوع ، رقم الحدیث 1091، ص 202 ، مطبوعہ دار السلام للنشر و التوزیع ، المملکۃ العربیۃ السعودیۃ، الطبعۃ الثانیۃ ، 1421ھ ، 2000ء)

السّلام :ای ذو سلامۃ من النقائص۔ یعنی ہر قسم کی خامیوں سے محفوظ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ اس کا معنی یہ ہے کہ وہ اپنے بندوں کو آلام و مصائب سے بچاتا ہے۔( ضیاء القرآن ، تفسیر سورۃ الحشر تحت الآیۃ 23، 5/ 186)

حدیث پاک میں ہے:کَانَ رَسُول اللَّہ صلی اللہ علیہ وسلم إِذَا انْصَرَفَ مِنْ صَلاَتِہِ اسْتَغْفَرَ ثَلاَثًا وَقَال اللَّہُمَّ أَنْتَ السَّلاَمُ وَمِنْکَ السَّلاَمُ تَبَارَکْتَ ذَا الْجَلاَلِ وَالإِکْرَامِ

حضرت ثوبان بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز سے فارغ ہوتے تو تین مرتبہ استغفار کرتے اور یہ دعا پڑھتے۔ ” اے اللہ تو سلامتی والا ہے اور سلامتی تجھی سے حاصل ہوتی ہے بیشک تو بابرکت اور جلال واکرام والا ہے۔

(صحیح مسلم ، باب استحباب الذکر بعد الصلاۃ ، رقم الحدیث 1334، ص 239، مطبوعہ دار السلام للنشر و التوزیع ، المملکۃ العربیۃ السعودیۃ، الطبعۃ الثانیۃ ، 1421ھ ، 2000ء)

المؤمن : امن دینے والا ‘ کافروں کو ظلم سے اور مؤمنوں کو عذاب سے۔( حاشیہ تفسیر جلالین مکتبۃ البشریٰ، 3 / 499،سورۃ الحشر تحت الآیۃ 23)

الشاھد۔ گواہ۔ اور اس کو بھی کہتے ہیں جو کسی کو خوف سے امان دے۔

( ضیاء القرآن، جلد5، تفسیر سورۃ الحشر تحت الآیۃ 23، ص 186)

حضرت مسروق کہتے ہیں ہم حضرت ابو موسیٰ کے ساتھ تھے رات ایک باغ میں ٹھہرے تو آپ رات کو اٹھے اچھی قرأت کی اور یہ دعا مانگی «اللَّهُمَّ أنْتَ مُؤْمِنٌ تُحِبُّ المُؤْمِنَ، مُهَيْمِنٌ تُحِبُّ المُهَيْمِنَ، سَلامٌ تُحِبُّ السَّلامَ، صادِقٌ تُحِبُّ الصّادِقَ»

اے اللہ! تو مؤمن (امان دینے والا) ہے مؤمن کو پسند کرتا ہے، مُھَیمِن (نگہبان)ہے مھیمن کو پسند کرتا ہے، سلام (سلامتی والا) ہے سلامتی کو پسند کرتا ہے، صادق (سچا) ہے صادق کو پسند کرتا ہے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ 7/141)

العزیز: غالب ، بے مثال ،شدید ، قوی ،اور عزت دینے والے ہیں۔وَ اِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الْعَزِیْزُ الرَّحِیْمُ۠(۹)ترجمہ کنزالایمان : اور بے شک تمہارا رب ضرور وہی عزت والا مہربان ہے۔( سورۃ الشعراء ، الآیۃ 9)

یعنی اے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ کا ربّ ہی یقینی طور پر عزت والا ہے، وہی غالب اور کافروں کو سزا دینے پر قدرت رکھنے والا ہےاور وہی بہت بڑا مہربان ہےاور اسی نے اپنی رحمت سے مشرکوں کو فوری گرفت نہیں فرمائی بلکہ انہیں (حال سنوارنے کی) مہلت دی ہے۔(روح البیان، الشعراء، تحت لآیۃ264/6،9)

الجبار:سب پر غالب بڑی عظمت والا۔حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: يَطْوي اللهُ السَّماواتِ يومَ القيامةِ ثُمَّ يأخُذُهنَّ بيدِه اليمنى ثُمَّ يَطْوي الأَرَضينَ ثُمَّ يأخُذُهنَّ بشمالِه ثُمَّ يقولُ أنا المَلِكُ أين الجبَّارونَ أين المُتكبِّرونَ؟”روز قیامت اللہ آسمانوں کو لپیٹ کر اپنی شان کے مطابق اپنے دائیں ہاتھ میں لے لے گا پھر اللہ ساتوں زمینوں کو لپیٹ کر اپنی شان کے مطابق اپنے بائیں ہاتھ میں لے لے گا اور کہے گا: میں ہوں بادشاہ، کہاں ہیں جو سرکش بنے پھرتے تھے؟ کہاں ہیں جو متکبر بنے پھرتے ۔ (مجمع الزوائد ، 10/347 )

10۔المتكبر:التکبر۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے کہ: کبریائی میری چادر ہے اور عظمت میری ازار ہے۔ جو ان کو اوڑھنے کی کوشش کرے گا میں اس کی کمر توڑ دوں گا اور اس کو دوزخ میں پھینک دوں گا۔ (ضیاء القرآن ، 5 / 185، ضیاء القرآن پبلی کیشنز، لاہور)


مسلمانوں کو قرآن مجید میں اللہ پاک كو اچھے ناموں سے پکارنے کا حکم دیا گیا،چنانچہ سورہ اعراف، آیت:180 میں ارشاد ہوتا ہے: وَ لِلّٰهِ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰى فَادْعُوْهُ بِهَا۪-وَ ذَرُوا الَّذِیْنَ یُلْحِدُوْنَ فِیْۤ اَسْمَآىٕهٖؕ-سَیُجْزَوْنَ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(۱۸۰)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور بہت اچھے نام اللہ ہی کے ہیں تو اسے ان ناموں سے پکارو اور ان لوگوں کو چھوڑ دو جو اس کے ناموں میں حق سے دور ہوتے ہیں ، عنقریب اُنہیں ان کے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا۔اللہ پاک کے نام یاد کرنے کے دو فضائل:(1):حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عَنْہُ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: بے شک اللہ پاک کے ننانوے نام ہیں ، جس نے انہیں یاد کر لیا وہ جنت میں داخل ہوا۔(بخاری، کتاب الشروط، باب ما یجوز من الاشتراط ۔۔۔ الخ،2 /229، حدیث: 2736)

(2):حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عَنْہُ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ پاک کے ننانوے نام ہیں جس نے ان کے ذریعے دعا مانگی تو اللہ پاک اس کی دعا کوقبول فرمائے گا۔(جامع صغیر، ص143، حدیث:2370)

پس قرآن مجید میں اللہ پاک کے کئی اسماء الحسنی ہیں ،ان میں سے 20 اسماء مبارکہ یہ ہیں:

(1):اَللّٰہ ، یہ مبارک نام قرآن پاک میں تقریباً2697 مرتبہ آیا ہے۔(2): اَلرَّحْمٰن، یہ مبارک نام قرآن پاک میں تقریباً43 مرتبہ آیا ہے۔(3): الرَّحِیْم، یہ مبارک نام قرآن پاک میں تقریباً114 مرتبہ آیا ہے۔(4):اَلتَّوَاب، یہ مبارک نام قرآن پاک میں تقریباً12مرتبہ آیا ہے۔(5): اَلْقُدُوْس، یہ مبارک نام قرآن پاک میں تقریباً2 دو مرتبہ آیا ہے۔(5):اَلْمُھِیْمِن، یہ مبارک نام قرآن پاک میں صرف ایک مرتبہ آیا ہے۔(6):اَلْعَزِیْز، یہ مبارک نام قرآن پاک میں تقریباً 90مرتبہ اللہ پاک کے لئے استعمال ہوا ہے۔(7):اَلْحَکِیْم، یہ مبارک نام قرآن پاک میں تقریباً 92مرتبہ اللہ پاک کے لئے استعمال ہوا ہے۔(8):اَلْکَرِیْم، یہ مبارک نام قرآن پاک میں تقریباً 5مرتبہ اللہ پاک کے لئے استعمال ہوا ہے۔(9):اَلْصَمَد، یہ مبارک نام قرآن پاک میں تقریباً 1مرتبہ اللہ پاک کے لئے استعمال ہوا ہے۔ (10):اَلْحَمِیْد، یہ مبارک نام قرآن پاک میں تقریباً 17مرتبہ اللہ پاک کے لئے استعمال ہوا ہے۔ (11):اَلْوَدُوْد، یہ مبارک نام قرآن پاک میں تقریباً 2مرتبہ اللہ پاک کے لئے استعمال ہوا ہے۔ (12):اَلْقَدِيْر، یہ مبارک نام قرآن پاک میں تقریباً 44مرتبہ اللہ پاک کے لئے استعمال ہوا ہے۔ (13):اَلْمَجِیْد، یہ مبارک نام قرآن پاک میں تقریباً 2مرتبہ اللہ پاک کے لئے استعمال ہوا ہے۔ (14):اَلْقَادِر ، یہ مبارک نام قرآن پاک میں تقریباً 4مرتبہ اللہ پاک کے لئے استعمال ہوا ہے۔ (15): ذُو الْجَلٰلِ وَ الْاِكْرَامِ، یہ مبارک نام قرآن پاک میں تقریباً 3مرتبہ اللہ پاک کے لئے استعمال ہوا ہے۔ (16): الْقَیُّوْمُ، یہ مبارک نام قرآن پاک میں تقریباً 3مرتبہ اللہ پاک کے لئے استعمال ہوا ہے۔(17): اَلْحَیُّ ،یہ مبارک نام قرآن پاک میں تقریباً 3مرتبہ اللہ پاک کے لئے استعمال ہوا ہے۔ (18): اَلْغَنِيُّ ، یہ مبارک نام قرآن پاک میں تقریباً 18مرتبہ اللہ پاک کے لئے استعمال ہوا ہے۔(19): اَلْغَافِر،یہ مبارک نام قرآن پاک میں تقریباً ايك مرتبہ اللہ پاک کے لئے استعمال ہوا ہے۔(20): اَلْفَاطِر،یہ مبارک نام قرآن پاک میں تقریباً 6مرتبہ اللہ پاک کے لئے استعمال ہوا ہے۔


وَ لِلّٰهِ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰى فَادْعُوْهُ بِهَا۪-وَ ذَرُوا الَّذِیْنَ یُلْحِدُوْنَ فِیْۤ اَسْمَآىٕهٖؕ-سَیُجْزَوْنَ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(۱۸۰)ترجمۂ کنزالعرفان:اور بہت اچھے نام اللہ ہی کے ہیں تو اسے ان ناموں سے پکارو اور ان لوگوں کو چھوڑ دو جو اس کے ناموں میں حق سے دور ہوتے ہیں ، عنقریب اُنہیں ان کے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا۔(پ 9،الأعراف:180)

حديث شريف میں ہے اللہ پاک کےننانوے نام جس کسی نے یاد کر لئے جنتی ہوا۔علماء کااس پراتفاق ہےکہ اسمائے الہیہ ننانوے ہیں ۔ وَ لِلّٰهِ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰى : اور بہت اچھے نام اللہ ہی کے ہیں۔ شانِ نزول: ابوجہل نے کہا تھا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اور ان کے اصحاب (رضی اللہ عنہم )کا دعویٰ تو یہ ہے کہ وہ ایک پروردگار کی عبادت کرتے ہیں پھر وہ اللہ اور رحمٰن دو کو کیوں پکارتے ہیں ؟ اس پر یہ آیت ِکریمہ نازل ہوئی۔(خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: 180، 2 / 162)

اور اس جاہل بے خِرَد کو بتایا گیا کہ معبود تو ایک ہی ہے نام اس کے بہت ہیں۔

اسماءِ حُسْنٰی کے فضائل:

اَحادیث میں اسماءِ حسنیٰ کے بہت فضائل بیان کئے گئے ہیں ، ترغیب کے لئے دو احادیث درج ذیل ہیں :

(1) حضرت أبو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’بے شک اللہ پاک کے ننانوے نام ہیں یعنی ایک کم سو، جس نے انہیں یاد کر لیا وہ جنت میں داخل ہوا۔ (بخاری، کتاب الشروط، باب ما یجوز من الاشتراط والثّنیا فی الاقرار۔۔۔ الخ،2 / 229، الحدیث: 2736)

حضرت علامہ یحیٰ بن شرف نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ’’علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ اسمائے الہٰیہ ننانوے میں مُنْحَصِر نہیں ہیں ، حدیث کا مقصود صرف یہ ہے کہ اتنے ناموں کے یاد کرنے سے انسان جنتی ہو جاتا ہے۔ (نووی علی المسلم، کتاب الذکر والدعاء والتوبۃ۔۔۔ الخ، باب فی اسماء اللہ وفضل من احصاہا، 9 / 5، الجزء السابع عشر)

اسماءالحسنی :(1) الواسع :وسعت رکھنے والا ،(2)الحی :زندہ وجاوید ،(3)الکریم:صاحب کرم ،(4)العزیز : غلبہ اورعزت والا ،(5) الرحیم:نہایت مہربان ،(6)الوھاب :بغیرکسی منفعت کےخواب عطاکرنے والا ،(7) الحکیم : سب کام حکمت سے کرنےوالا ،(8)الغفار:گناہوں کابہت زیادہ بخشنے والا ،(9)الودود:اپنےبندوں کوچاہنے والا ،(10)السلام :جس کی ذاتی صفت سلامتی ہو ،(11)المھیمن:پوری نگہبانی کرنےوالا،(12) الظاہر: بالکل آشکار،(13) العلیم:سب کچھ جاننے والا،(14) المقتدر:سب پرکامل اقتداررکھنے والا،(15) البصیر:سب کچھ دیکھنے والا ،(16) الرحمٰن :بڑی رحمت والا،(17) السمیع :سب کچھ سننے والا،(18) الباطن: بالکل مخفی ،(19)الاول :سب سےپہلےوجودرکھنے والا،(20) الآخر:سب کے بعدوجودرکھنے والا ،(21) المصور:صورت گری کرنے والا ۔


اللہ پاک کے نام تو کافی ہیں احادیث میں آیاہے جس نے اللہ پاک کے ننانوے نام یاد کرلئے وہ جنتی ہوا۔ جن میں سےخدائے پاک کاذاتی نام اللہ ہے اس کو اسم ذات بھی کہتے ہیں لفظ اللہ کے سوا اور نام جو اس کی کسی صفت کوظاہر کرے اسے صفاتی نام یااسمائے صفات کہتےہیں  ۔ (فرض علوم سیکھئے ،ص: 24مکتبۃ المدینہ)

(2،1) الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِۙ(۲) ترجمہ :رحمٰن اور رحیم۔(پ1، فاتحہ 2) اللہ پاک کے دو صفاتی نام ہیں ، رحمٰن کا معنٰی ہے: نعمتیں عطا کرنے والی وہ ذات جو بہت زیادہ رحمت فرمائے اور رحیم کا معنی ہے : بہت رحمت فرمانے والا

(3،4،5،6) الْمَلِكِ الْقُدُّوْسِ الْعَزِیْزِ الْحَكِیْمِ(۱)ترجَمۂ کنزُالایمان:بادشاہ کمال پاکی والا عزت والا حکمت والا۔(پ 28،الجمعہ 1)

(7)وَّكِیْلٌ ترجمہ:مختار ۔وظیفہ:جس شخص کو آندھی،آسمانی بجلی یا کسی اور چیز سے نقصان پہنچنے کا ڈر ہو یا وہ تنگدستی کا شکار ہو تو اسے چاہئے کہ کثرت سے ’’یَا وَکِیْلُ‘‘ پڑھا کرے، اس سے ان شاء اللہ حاجتیں پوری ہوں گی،مصیبتیں دور ہوں گی اور پڑھنے والے کے لئے رزق اور بھلائی کے دروازے کھلیں گے ۔( روح البیان، الزّمر، تحت الآیۃ: 62، 8 / 131، ملخصاً)

(8,9) الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُؕ ترجَمۂ کنزُالایمان:عظمت والا تکبر والا (پ 28،الحشر 23)

21بارجو "یامتکبر " پڑھے گا ڈراؤنے خواب آتے ہوتونہیں آئیں گے۔( روحانی علاج ،ص 8)

(10)بَصِیْرٌۢ :دیکھ رہا ۔جوسات بار کوئی روزانہ پڑھے گاابتدائے وقت عصر تاغروب آفتاب کسی بھی وقت پڑھ لے گااچانک موت سے محفوظ رہے گا ۔(روحانی علاج ،ص:17)


حضرت سیِّدُنا زُبَیر بِن عَوَّام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ حضورِ اکرم ﷺکے پھوپھی زاد بھائی، خلیفۂ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہُ عنہ کے داماد ، ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہُ عنہا کے بھتیجے اور حضرت صفیہ بنت عبد المطلب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کے فرزند ہیں۔

بچپن کے زمانے میں والد کا سایہ شفقت اٹھ جانے کے بعد آپ کی تربیت کی ساری ذمہ داری آپ کی والدہ حضرت صفیہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا نے پوری کی ۔حضرت صفیہ نے ابتدا ء ہی سے ان کی ایسی تربیت کی تھی کہ وہ جوان ہوکر ایک عالی حوصلہ،بہادر،الوالعزم مرد ثابت ہوں، چنانچہ وہ بچپن میں عموماًانہیں سخت سے سخت محنت ومشقت کے کام کا عادی بناتی تھیں اور انکی سخت نگرانی کرتیں۔حضرت زبیر سابقین اسلام (سب سے پہلے ایمان لانے والوں) میں ممتاز اورنمایاں تقدم کا شرف رکھتے ہیں۔حضرت زبیر اگرچہ ابھی کمسن تھے،لیکن استقامت اورجان نثاری میں کسی سے پیچھے نہ تھے، قبول اسلام کے بعدمکہ میں یہ افواہ پھیل گئی کہ مشرکین نے آنحضرت ﷺ کو گرفتارکرلیاہے،یہ سن کر آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ اسی وقت ننگی تلوارکھینچ کر مجمع کو چیرتے ہوئے آستانہ اقدس پر حاضر ہوئے جب رسول اللہ ﷺ نے دیکھا تو پوچھا زبیر !یہ کیا ہے؟ عرض کیا مجھے معلوم ہوا تھا کہ آپ گرفتار کرلئےگئے ہیں،سرورکائنات ﷺ نہایت خوش ہوئے اوران کے لیے دعائے خیر فرمائی، اور اپنی چادر عنایت کی۔ علمافر ماتے ہیں کہ یہ پہلی تلوار تھی جو راہ فدویت وجان نثاری میں ایک بچے کے ہاتھ سے برہنہ ہوئی۔(الریاض النضرۃ،4/ 274 ) مکہ کے باقی مسلمانوں کی طرح حضرت زبیر بھی مشرکین مکہ کےظلم و ستم سے محفوظ نہ تھے،ان کے چچانے ہر ممکن طریقہ سے ان کو اسلام سے برگشتہ کرنا چاہا،لیکن توحید کا نشہ ایسانہ تھا جو اترجاتا ،بالآخراس نے برہم ہوکر اوربھی سختی شروع کر دی ، غرض مظالم وشدائد سے اس قدر تنگ آئے کہ وطن چھوڑکرپہلے حبشہ کی راہ لی، پھر دوسری دفعہ سرور کائنات ﷺ کے ساتھ مدینہ کا قصد کیا۔ (اسد الغابہ،2/295 )۔

نبی اکرم ﷺ کے ساتھ تمام غزوات میں شریک ہوئے، جنگ بدر میں بڑی جانبازی سے لڑے اور دیگر غزوات میں بھی بڑی شجاعت دکھائی۔ فتح مکہ کے روز رسول اللہ کے ذاتی دستے کے علمبردار تھے ۔ جنگ فسطاط میں حضرت عمرنے چار افسروں کی معیت میں چار ہزار مجاہدین کی کمک مصر روانہ کی۔ ان میں ایک افسر حضرت زبیر بھی تھے۔ اور اس جنگ کی فتح کا سہرا آپ کے سر ہے۔آپ رضی اللہ عنہ ان دس صحابہ کرام میں سے ہیں جن کو حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے دنیا ہی میں جنت کی بشارت دے دی۔(سنن الترمذی ،حدیث:3768 ،5/416 )آپ کا شمار ان چھ صحابہ کرام کی شوری ٰمیں بھی ہوتا ہے جو حضرت عمر نے اپنی دورِخلافت میں بنا یا تھا۔(اسد الغابہ ،2/296 )آپ کا لقب حواریِ رسول ہے۔ ( سنن الترمذی ،حدیث:3765 ،5/415)مدینہ ہجرت کرنے کے بعد سب سے پہلے آپ کے یہاں بیٹے (عبد اللہ بن زبیر) مولود ہوئے۔(البدایۃ والنہایۃ ، 2/ 633 )حضرت زبیر کا دامن اخلاقی زروجواہر سے مالا مال تھا، تقوی،پارسائی،حق پسندی،بے نیازی،سخاوت اورایثار آپ کا خاص شیوہ تھا،رقت قلب اورعبرت پذیری کا یہ عالم تھا کہ معمولی سے معمولی واقعہ پر دل کانپ اٹھتا تھا۔مساواتِ اسلامی کا اس قدر خیال تھا کہ دومسلمان لاشوں میں بھی کسی تفریق یا امتیاز کو جائز نہیں سمجھتے تھے، جنگ احد میں آپ کےماموں حضرت حمزہ شہید ہوئے تو حضرت صفیہ نے بھائی کی تجہیز و تکفین کے لیے دو کپڑے لاکر دئیے ،لیکن ماموں کے پہلو میں ایک انصاری کی لاش بھی بے گوروکفن پڑی تھی، دل نے گوارا نہ کیا کہ ایک کے لیے دودو کپڑے ہوں اوردوسرا بے کفن رہے،غرض تقسیم کرنے کے لیے دونوں ٹکڑوں کو ناپا،اتفاق سے چھوٹا بڑا نکلا قرعہ ڈال کر تقسیم کیا کہ اس میں بھی کسی طرح کی ترجیح نہ پائی جائے۔ (المسند للامام احمد،1/ 349 )

امانت و دیانت اورانتظامی قابلیت کا عام شہرہ تھا،یہاں تک کہ لوگ عموماًاپنی وفات کے وقت ان کو اپنے آل واولاد اورمال ومتاع کے محافظ بنانے کی تمنا ظاہر کرتے تھے،مطیع بن الاسود نے ان کو وصی بنانا چاہا، انہوں نے انکار کیا تو لجاجت کے ساتھ کہنے لگےمیں آپ کو خدا و رسول ﷺ اورقرابت داری کا واسطہ دیتا ہوں، میں نے فاروق اعظم کو کہتے سنا ہے کہ زبیر دین کے ایک رکن ہیں، حضرت عثمان ، مقداد ،عبد اللہ بن مسعود اورعبدالرحمان بن عوف وغیرہ نے بھی ان کو اپنا وصی بنایا تھا، (الاصابۃ،2/460 )چنانچہ یہ دیانتداری کے ساتھ ان کے مال ومتاع کی حفاظت کرکے ان کے اہل و عیال پر صرف کرتے تھے۔

فیاضی،سخاوت اورخداکی راہ میں خرچ کرنے میں بھی پیش پیش رہتے تھے، حضرت زبیر کے پاس ایک ہزار غلام تھے،روزانہ اجرت پر کام کرکے ایک بیش قرار رقم لاتے تھے، لیکن انہوں نے اس میں سے ایک حبہ بھی کبھی اپنی ذات یا اپنے اہل و عیال پر صرف کرنا پسند نہ کیا بلکہ جو کچھ آیا اسی وقت صدقہ کر دیا،غرض ایک پیغمبر کے حواری میں جو خوبیاں ہوسکتی ہیں،حضرت زبیر کی ذات والا صفات میں ایک ایک کرکے وہ سب موجود تھیں۔

آپ کا ذریعہ معاش تجارت تھا، انہوں نےجس کام میں ہاتھ لگایا، کبھی گھاٹا نہیں ہوا۔تجارت کے علاوہ مالِ غنیمت سے بھی گراں قدررقم حاصل کی،حضرت زبیر کی ملکیت کا صرف اس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ ان کے تمام مال کا تخمینہ پانچ کروڑدولاکھ درہم کیا گیا تھا، لیکن یہ سب نقد نہیں؛ بلکہ جائداد غیر منقولہ کی صورت میں تھا، اطراف مدینہ میں ایک جھاڑی تھی، اس کے علاوہ مختلف مقامات میں مکانات تھے،چنانچہ خاص مدینہ میں گیارہ ،بصرہ میں دو اورمصروکوفہ میں ایک ایک مکان تھا۔

دولت وثروت کے باوجود طرز معاشرت نہایت سادہ تھا،غذا بھی پرتکلف نہ تھی ،لباس عموماً معمولی اورسادہ زیب تن فرماتے ،البتہ جنگ میں ریشمی کپڑے استعمال کرتے تھے؛ کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے خاص طور پران کو اجازت دی تھی،آلاتِ حرب کا نہایت شوق تھا اوراس میں تکلف جائز سمجھتے تھے،چنانچہ ان کی تلوار کا قبضہ نقرئی تھا۔

رسول اللہ سے قربت رکھنے کے باعث بے شمار احادیث جانتے تھے۔ لیکن بہت کم حدیث بیان کی۔حضرت سیِّدُنا زُبَیربن عَوَام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے مختلف اوقات میں کل نو شادیاں کیں مگر اولاد صرف چھ ازواج سے ہوئی چنانچہ، (1) حضرت اسماء بنت ابی بکر صدیق سے عبد اللہ، عروہ ، منذر ، عاصم، مہاجر، خدیجۃ الكبرى، ام حسن، عائشہ (2)بنو اُمیہ کی أم خالد بنت خالد بن سعيد بن العاص سے خالد ، عمرو، حبیبۃ، سودة، ہند (3) بنی کلب کی رباب بنت اُنَيْف سے مصعب ، حمزہ، رملہ (4) بنو ثعلب کی ام جعفر زينب بنت مرثد سے عبيدہ ، جعفر (5) ام كلثوم بنت عقبۃ بن ابی معيط سے زينب (6)بنو اسد کی حلال بنت قيس بن نوفل سے خدیجۃ الصغرى رِضْوَانُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن ہیں۔ (طبقات الکبریٰ ،3/74)

حضرت سیِّدُنا زُبَیر بن عَوَّام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ جب جنگ جمل چھوڑ کر واپس جا رہے تھے، تو ابن جرموز نے تعاقب کر کے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کو دھوکےسےشہیدکردیا۔ یہ جنگ بروز جمعرات ۱۱جمادی الاخریٰ ۳۶ ھ؁ میں ہوئی۔ (الاصابۃ، 2/460) آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کا مزار مبارک عراق کی سر زمین پر جس شہر میں واقع ہے اس کا نام ہی مَدِیْنَۃُ الزُّبَیْر ہے۔

روایت میں ہے کہ جب حضرت سیِّدُنا زُبَیْربن عَوَام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے جامِ شہادت نوش فرمایا تو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے کوئی درہم و دینارنہ چھوڑا۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے ترکہ میں صرف غابہ کی چند زمینیں اور کچھ (تقریباً پندرہ) گھر تھے اور قرضے کا عالم یہ تھا کہ جب کوئی شخص ان کے پاس امانت رکھنے کے لئے آتا تو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے: ’’امانت نہیں ، قرض ہے کیونکہ مجھے اس کے ضائع ہونے کا اندیشہ ہے۔‘‘ لہٰذا جب میں نے حساب لگایا تو وہ بیس لاکھ (20,00,000) بنا، پس میں نے وہ قرض ادا کر دیا۔


عقل کی فضیلت

Fri, 11 Feb , 2022
3 years ago

اللہ پاک نےاپنی مُقَدَّس کتاب قرآنِ پاک میں عقل کی شرافت وبزرگی کابیان فرمایاہے،اہْلِ علم ومعرفت کہتے ہیں کہ عقل ایک روشن وچمکدار جوہر ہےجسےاللہ پاک نےدماغ میں پیدا فرمایااوراس کا نوردل میں رکھااور دل اس کے ذریعےواسطوں کے سہارے معلومات اور مشاہدے کی بدولت محسوسات کا علم حاصل کرتا ہے۔قرآنِ کریم میں لفظ ”عقل “ مختلف صیغوں کی صورت میں تقریبا49مرتبہ آیا ہےاورباربار’’لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ،اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ،لِقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ،فَہُمْ لَایَعْقِلُوْنَ،اَکْثَرُہُمْ لَایَعْقِلُوْن‘‘ سے عقل کے استعمال کی اہمیت بیان فرمائی ہے۔اسلام عقل کے استعمال کی ترغیب دیتا ہے ، اس کی تعریف بیان کرتا ہے ، اس کی طرف راغب کرتا ہے ، اللہ پاک نے ہر  انسان کو مختلف خوبیاں عطا فرمائی ہیں لیکن  ان سب میں سے افضل خوبی عقل ہے۔(فیض القدیر، 5/566،  تحت الحدیث: 7901)

٭عقل انسان کی  ہدایت کا ذریعہ بنتی اور اُسے اچھائی اور بُرائی میں فرق کرنا سکھاتی ہے۔ آدمی جب تک کوئی بھی نیا قدم اُٹھانے یا فیصلہ کرنے سے پہلے اپنی عقل اور فہم وفراست سے کام لیتا ہے کامیاب ہوتا ہے٭عقل وذہانت کے استعمال سے بڑی بڑی کامیابیاں نصیب ہوتی ہیں ۔صحابی ابنِ صحابی حضرت عبداللہ بن زبیررضی اللہ عنہماکو افریقہ کے لشکرمیں بھیجا گیا ،کامیابی نہیں ہورہی تھی، آپ نے امیرِلشکرکو مشورہ دیا کہ آدھے لشکرکودوپہرکے بعد آرام کروایا جائے تاکہ شام کو آرام کرنے والادستہ لشکرکشی کرکے کامیابی حاصل کرلے ،مشورہ قبول کیا گیا اورفتح حاصل ہو گئی۔٭کسی کام کی رائے دینا اورپھر کرنے کا طریقہ بھی بتانا اعلیٰ ذہانت کی علامت ہے٭عقل کے استعمال سے مشکلات کا مقابلہ کیا جاسکتاہے۔مشکلات میں کامیابی زیادہ کوشش سےحاصل ہوتی ہے ۔٭اگرایک طریقے سے کام نہ ہورہا ہو تو اس کا اندازاورڈھنگ بدلنے سے کامیابی حاصل ہوجاتی ہے۔٭اپنی صلاحیت کو بہترکرنے کے لیے اپنی مہارت کو بڑھانا ہوتاہے۔ ٭اچھے فیصلے اچھی عقل سے ہوتے ہیں ۔

عقل کی اقسام

عقل کی دو قسمیں ہیں:پہلی قسم وہ ہے جو کمی زیادتی کو قبول نہیں کرتی جبکہ دوسری قسم میں کمی اورزیادتی ہوسکتی ہے۔پہلی قسم فطری عقل کی ہے جو تمام عقل مندوں کے درمیان مشترک (یکساں )ہے، اس میں کمی یا زیادتی نہیں ہوتی ۔ دوسری قسم تجربے سے حاصل ہونے والی عقل ہے جو کہ کوشش سے حاصل ہوتی ہے، تجربات اور مشاہدات کی کثرت سے اس میں اضافہ ہوتا ہے،اس اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ بوڑھےشخص کی عقل کامل اور واقفیت زیادہ ہوتی ہے جبکہ تجربہ کارآدمی زیادہ معاملہ فہم اورمعرفت والا ہوتا ہے۔ زمانے کے واقعات نے جس کے بال سفید کردیےہوں،مختلف تجربات نےاس کی جوانی کے لباس کوبوسیدہ کردیا ہواوراللہ پاک نے اس کےتجربات کی کثرت کی بدولت اسےاپنی قدرت کےعجائبات دکھائےہوں ،وہ عقل کی پختگی اور درست رائے کا زیادہ حق دارہوتاہے۔ منقول ہےکہ تجربہ عقل کاآئینہ ہے،اسی لئےبوڑھے اَفراد کی رائے کی تعریف کی جاتی ہے یہاں تک کہا جاتا ہےکہ بوڑھےاَفراد وقارکادرخت ہوتے ہیں ،وہ نہ تو بھٹکتے ہیں اور نہ ہی بے عقلی کا شکار ہوتے ہیں۔ بوڑھے افراد کی رائے کو اختیار کرو کیونکہ اگران کے پاس عقل و دانائی نہ بھی ہوتوزندگی بھرکے تجربات کی بدولت ان کی رائے دوسروں سے اچھی ہوتی ہے۔ البتہ اللہ پاک اپنےلطف و کرم سےجسےچاہتا ہے خاص فرماکر عقل کی ایسی پختگی اورمعرفت کی زیادتی عطا فرماتا ہے جو کوشش سے حاصل نہیں ہوپاتی اور اس کی بدولت بندہ تجربہ کاراورسیکھے ہوئے لوگوں سے بھی سبقت لےجاتا ہے۔ اللہ پاک اپنے بندوں میں سے کسی کو منتخب فرماکر اس کے دل کو انوارِربّانی سےمنورفرماتا ہے تو وہ بندہ درستی کی طرف ہدایت پاتا ہے اوربہت سارے معاملات میں تجربہ کارافراد سے بھی فائق ہوجاتا ہے۔

عقلمندی کی علامتیں

٭کسی شخص کی عقل کے کامل ہونے پر اس سے صادر ہونے والے اَقوال واَفعال سے استدلال کیا جاتا ہے،جیسےاچھے اخلاق وعادات کی طرف مائل ہونا،گھٹیااعمال سے کنارہ کش ہونا ،بھلائی کے کاموں کی طرف راغب ہونا اور ایسی باتوں سے دُور ہونا ہے جو شرمندگی کا باعث بنیں اور جن کے سبب لوگ باتیں بنائیں۔ ٭ایک دانا(عقلمند)سےپوچھاگیا: کسی شخص کی عقل کی پہچان کیسےہوتی ہے؟جواب دیا: گفتگومیں غلطی کم اوردرستی زیادہ ہونے سے٭کسی شخص کی عقل پر سب سے بڑی گواہی اس کا لوگوں سے اچھا سلوک کرنا ہے۔منقول ہےکہ عقل مند شخص وہ ہے جو اپنے زمانے والوں کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔٭عقل بادشاہ جبکہ عادات واطوار اس کی رعایا ہیں،جب عقل اپنی رعایا کی دیکھ بھال میں ناکام ہوجائے تو ان میں بگاڑ پیدا ہوجاتا ہے۔٭منقول ہےکہ عقلمند بلند مرتبہ حاصل ہونے پر اِتراتا نہیں ،غرورنہیں کرتا جیسا کہ پہاڑ پر کتنی ہی تیز ہوائیں چلیں لیکن اسے ہِلا نہیں سکتیں جبکہ جاہل آدمی معمولی مقام ومرتبے پر پُھول جاتا ہے جیسا کہ گھاس معمولی ہوا سے بھی ہِلنے لگتی ہے۔٭اسلام کے چوتھے خلیفہ امیرالمؤمنین حضرت علیُّ المرتضی ٰکَرَّمَ اللہُ وَجْہَہُ الْکَرِیْم سےعرض کی گئی:ہمارے سامنے عاقل کی صفات بیان فرمادیجیے۔فرمایا:عاقل وہ ہےجو ہر چیز کو اس کے مقام پر رکھے۔پھرعرض کی گئی:جاہل کی پہچان بھی بتادیجیے۔فرمایا:وہ تو میں بتاچکاہوں،یعنی جو ہر چیز کو اس کے مقام ومرتبے پر نہ رکھے وہ جاہل ہے٭منقول ہےکہ3 چیزیں عقل کی بنیادہیں:لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا،اخراجات میں میانہ روی اور لوگوں کے نزدیک محبوب وپسندیدہ ہونا۔

عقل میں اضافے کا نسخہ

حضرت سیِّدُناابودرداءرَضِیَ اللہُ عَنْہ بیان کرتےہیں کہ حضور پُرنور، شافِعِ یومُ النُّشُورصَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے مجھ سے ارشاد فرمایا: اےعُوَیْمَر!اپنی عقل میں اضافہ کرو تمہارےقُربِ الٰہی میں بھی اضافہ ہوگا۔میں نےعرض کی:میرے ماں باپ آپ پرقربان ہوں!میں اپنی عقل میں کیسےاضافہ کرسکتا ہوں؟ ارشادفرمایا:اللہ پاک کی حرام کردہ باتوں سے اجتناب کرو اوراس کے فرائض کو ادا کرو، تم عقل مند بن جاؤ گے،پھراعمالِ صالحہ کواپنامعمول بنالودنیامیں تمہاری عقل بڑھےگی اور اللہ پاک کےہاں تمہیں جو قُرب اورعزت حاصل ہے اس میں بھی اضافہ ہوگا۔(بغية الباحث عن زوائد مسند الحارث، 2/ 808،حدیث: 829)

(اس مضمون کا زیادہ مواد المدینۃ العلمیہ کی کتاب ’’دین ودنیا کی انوکھی باتیں‘‘ صفحہ 46تا56سے لیا گیا ہے ،اس موضوع سے متعلق مزیدتفصیل وہاں دیکھئے۔)


دعوت اسلامی کا بڑا قدم

دعوتِ اسلامی فلاحی کاموں میں ایک مثالی اور نہایت احسن قدم اٹھانے جارہی ہے۔ شاندار قدم یہ ہے کہ دعوت اسلامی اب کراچی میں پہلا یتیم خانہ بنام ”مدنی ہوم“ قائم کرنے جارہی ہے۔ اس سینٹر کی پہلی برانچ کراچی کے علاقے نارتھ کراچی کریلا اسٹاپ پر موجود فیض مدینہ مسجد سے متصل وسیع و عریض جگہ میں قائم کی جائے گی جس کا اعلان 9فروری 2022ء کو نارتھ کراچی میں ہونے والے ذہنی آزمائش سیزن 13 کے 7th Pre Quarterمیں ترجمان دعوت اسلامی حاجی مولانا عبد الحبیب عطاری کی جانب سے کیا گیا۔

اس بارے میں تفصیلات سے بریف کرتے ہوئے دار الافتاء اہلسنت کے ہیڈ مولانا ثاقب عطاری مدنی نے کہا کہ یہ ”مدنی ہوم “دعوت اسلامی کے فلاحی شعبہ فیضان گلوبل ریلیف فاؤنڈیشن FGRFکے زیر انتظام قائم کیا جائیگا جبکہ اس یتیم خانے میں ان بچوں کو رجسٹرڈ کروایا جاسکے گا جن کے والدین یا دونوں میں سے ایک کا انتقال ہوچکا ہو یا ایسے بچے جن کی پروش کے حوالے سے مسائل کا سامنا ہو۔

اس سینٹر میں رجسٹرڈ کروانے کے لئے بچے کی عمر کم از کم چھ سال ہونا ضروری ہے۔اس ادارے کی انتظامیہ ایک اچھے باپ کی طرح بچوں کی قابلیت، صلاحیت اور ان کے رجحانات کو دیکھتے ہوئے ان کی تعلیم وتر بیت کا اہتمام کرے گی۔

بچوں کو دین و دنیا کی تعلیمات سے آراستہ کرنے کے لئے اس مدنی ہوم میں مدرسۃ المدینہ، جامعۃ المدینہ اور دار المدینہ انٹرنیشنل اسلامک اسکول سسٹم کا قیام کیا جائیگاجس کا مقصد یہ ہوگا بچہ دیگر علم و فنون میں ماہر ہونے کے ساتھ ساتھ دعوت اسلامی اور دین متین کا اچھا مبلغ اور ترجمان بن سکے۔

مولانا ثاقب عطاری نے مزید بتایا کہ اس ادارے میں دارالافتاء اہلسنت جو کہ پہلے سے موجود ہے اس کو مزید بہتر بنایا جائیگااس کے علاوہ اس سینٹر میں فیضان آن لائن اکیڈمی اور مکتبۃ المدینہ کی شاخیں بھی قائم کی جائیں گی۔

ترجمان دعوت اسلامی حاجی مولانا عبد الحبیب عطاری نے کہا کہ اس ادارے کو قائم کرنے سے قبل اس کی پلاننگ میں بچوں کی رہائش، میڈیکل، چھٹیوں کی ایکٹیوٹیز Activities، کھانے، پینے اور پہننے کے لئے لباس کے ساتھ ساتھ دیگر ضروریات کو ویسے ہی مد نظر رکھا گیا جیسے ہم اپنے خود کے بچوں کے بارے میں سوچتے ہیں کیونکہ یہاں آنے والے بچوں کا یہی گھر ہوگا۔ مولانا عبد الحبیب عطاری نے بتایا کہ یہ کروڑوں روپے کا پروجیکٹ ہے جوکہ اس کی تعمیرات میں لگنے ہیں۔

مولانا عبد الحبیب عطاری نے عاشقان رسول کو اس پروجیکٹ میں مالی تعاون کرنے کی ترغیب دلاتے ہوئے فرمایا کہ عاشقان رسول اس نیت کے ساتھ دعوت اسلامی کو عطیات دیں کہ ” مدنی ہوم ”یتیم خانہ“ اور دعوت اسلامی کے دیگر دینی شعبہ جات کی تعمیر اور دینی کاموں کے لئے عطیات دےرہا ہوں“۔

عاشقان رسول سے گزارش ہے کہ اپنی نفلی صدقات اور زکٰوۃ سے اس ادارے کو قائم کرنے میں دعوت اسلامی کے ساتھ تعاون کریں۔

دعوت اسلامی کے ساتھ مالی تعاون کرنے کے لئے اس اکاؤنٹ نمبر اور آن لائن ڈونیشن کے لئے نیچے لنک پر ابھی کلک کیجئے

0870667971003985

Donate Now


خاندان مصطفٰے صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے شجر کی ہر شاخ چودہویں کے چاند کی طرح چمکتا دمکتا اور تاریک ظلمت میں آفتاب کی طرح روشن ہے۔ ان میں سے ایک بہت بڑا نام شہید کرب و بلا، راکن دوشِ مصطفٰے، امام عرش مقام، امامِ ہمام، صحابی ابن صحابی، حضرت امام حسین رضی اللہُ عنہ کے پڑپوتے، عظیم تابعی بزرگ حضرت امام جعفر صادق رحمۃُ اللہِ علیہ کا بھی ملتا ہے جن کی ولادت 17 ربیع الاول 80 یا 83 ہجری کو مدینہ پاک میں ہوئی۔ آپ رحمۃُ اللہِ علیہ کی کنیت ابو عبد اللہ اور ابو اسماعیل جبکہ لقب صادق، فاضل اور طاہر ہے۔

حضرت امام جعفر صادق رحمۃُ اللہِ علیہکی والدہ محترمہ کا نام مبارک حضرت بی بی ام فردہ بنت قاسم بن محمد بن ابو بکر صدیق رضی اللہُ عنہم ہے جبکہ آپ کے والد محترم کا نام مبارک حضرت امام محمد باقر بن علی بن زین العابدین بن امام حسین رضی اللہُ عنہم ہے۔ یعنی آپ رحمۃُ اللہِ علیہ والد کی طرف ”حسینی سید“ اور والدہ کی طرف سے ”صدیقی“ ہیں۔ (اللباب فی تہذیب الانساب، ص229، فیضان صدیق اکبر، ص82)

عاشقان رسول کو حضرت سیدنا امام جعفر صادق رحمۃُ اللہِ علیہ کی سیرت سےبہرہ مند کرنے اور انہیں اپنانے کا ذہن دینے کے لئے امیر اہلسنت دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ نے اس ہفتے رسالہ فیضان امام جعفر صادق رحمۃُ اللہِ علیہ پڑھنے/سننے کی ترغیب دلائی ہے اور پڑھنے/سننے والوں کو اپنی دعاؤں سے نوازا ہے۔

دعائے عطار

یاربَّ المصطفٰے! جو کوئی 21 صفحات کا رسالہ فیضانِ امام جعفر صادِقپڑھ یا سن لے اُسے تمام صحابہ و اہل بیت کا سچا غلام بنااور اسے امام جعفر صادق کے پیارے پیارے نانا جان صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمکی قیامت میں شفاعت نصیب فرما۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتمِ النّبیِّین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

یہ رسالہ دعوتِ اسلامی کی ویب سائٹ سے ابھی مفت ڈاؤن لوڈ کیجئے

Download

رسالہ آڈیو میں سننے کے لئے کلک کریں

Audio Book


دعوت اسلامی کے شعبہ پروفیشنلز ڈیپارٹمنٹ کے زیر اہتمام دو دن پر مشتمل 12 اور 13 فروری بروز ہفتہ، اتوارعالمی مدنی مرکز فیضان مدینہ کراچی میں پروفیشنلز اجتماع منعقد ہونے جارہا ہے۔ اس پروگرام میں انجینئرز، فنانس آفیسرز، آئی ٹی پروفیشنلز، آئی ٹی، ڈاکٹرز اور کارپوریٹ پروفیشنلز کے ساتھ ساتھ دیگر شعبے سے وابستہ پروفیشنلز حضرات شرکت کریں گے۔

اجتماع کے دوسرے دن 13 فروری 2022ء کو دوپہر 2:00 بجے شیخ الحدیث والتفسیر مفتی محمد قاسم عطاری مُدَّ ظِلُّہُ العالی خصوصی بیان فرمائیں گے۔

تمام پروفیشنلز حضرات سے اس اجتماع میں شرکت کرنے کی درخواست ہے۔ 


شعبہ کفن دفن کے تحت 9 فروری 20222 ء بروز بدھ  جامع مسجد عمر فاروق گوجرانوالہ میں میٹر پولیٹن ڈسٹرکٹ اور ڈسٹرکٹ گوجرانوالہ ذمہ دار اسلامی بھائی نے شعبہ کفن دفن کا تعارف پیش کیا اور نماز جنازہ کورس کروایا مزید اسلامی بھائیوں کو ہفتہ وار سنتوں بھرے اجتماعات میں شرکت کی دعوت دی ۔ جس پر اسلامی بھائیوں نے اچھی اچھی نیتیں کیں ۔ 


دعوت اسلامی کے تحت 9 فروری 2022 ء کو میر پور خاص  میں شعبہ ڈونیشن سیل کے ذمہ داران کی ملاقات ہوئی جس میں ڈویژن ذمہ دار ڈونیشن سیل ڈپارٹمنٹ کا ڈگری شہر ، جھڈو شہراور ڈونیشن کاؤنٹر کا وزٹ کیا نیز شعبے کے حوالے سے رہنمائی کی اور جھڈو کے تنظیمی ڈویژن نگران کے ساتھ مشاورت کی ، کام میں ترقی و آئندہ کے اہداف طے ہوئے ۔


پچھلے دنوں اسپیشل پرسنز ڈیپارٹمنٹ دعوت اسلامی بلوچستان صوبے کے ذمہ دار شاہ حسین عطاری کا صحبت پور  میں شیڈول ہوا جس میں انہوں نے اسپیشل پرسنز اور ان کے سرپرستوں سے ملاقات کی ۔ ان کو نیکی کی دعوت پیش کی ، ہفتہ وار اجتماع و مدنی مذاکرے میں شرکت کی دعوت دی اور آخر میں اسپیشل پرسنز کا مدرسۃ المدینہ لگا یا گیا جس میں اسپیشل پرسنز نے قرآن پاک کی زیارت کی ۔ ( رپورٹ:محمد سمیر ہاشمی عطاری )