دعوتِ اسلامی کی جانب سے  عاشقانِ رسول کی شرعی رہنمائی کرنے کے لئے ایک شعبہ بنام دارالافتاء اہل سنت قائم کیا گیا ہے جس میں روانہ کی بنیاد پر سینکڑوں عاشقانِ رسول کی شرعی رہنمائی کی جاتی ہے۔ دارالافتاء اہل سنت کی جانب سے وقتاً فوقتاً مختلف کورسز کا انعقاد بھی کیا جاتا رہتا ہے تاکہ عاشقانِ رسول کو دینِ اسلام کی بنیادی باتوں سے آگاہی حاصل ہو ۔

اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے حالیہ دنوں میں دارالافتاء اہل سنت کی جانب سے عاشقانِ رسول کو قرآن و حدیث کے احکامات سے آگاہی فراہم کرنے کے لئے ایک کورس بنام”فیضانِ قرآن و حدیث کورس“لاؤنچ کردیا گیا ہے جس کی پہلی نشست گزشتہ روز 13 فروری کو جامع مسجد دارالحبیبیہ دھوراجی کالونی کراچی میں اڑھائی بجے سے چار بجے تک منعقد ہوئی۔

نشست کا آغاز تلاوتِ کلامِ پاک و نعتِ رسول ِ مقبولﷺ سے ہوا جس کے بعد استاذ الحدیث مفتی حسان عطاری مدنی مُدَّ ظِلُّہُ العالی نے ”مسلمانوں پر قرآن کے حقوق“ کے موضوع پر درسِ قرآن دیا جبکہ مفتی جمیل غوری عطاری مدنی مُدَّ ظِلُّہُ العالی نے ”حدیثِ جبرئیل کے مفاہیم“ کے عنوان سے درسِ حدیث دیا۔

دھوراجی کے علاوہ یہی کورس فیضانِ غوث پاک خیابانِ حافظ DHA فیز 6 میں بھی منعقد ہورہا ہے ۔ فیضانِ غوث پاک میں عصر کی نماز کے بعد منعقد ہونے والے اس کورس کی پہلی نشست میں استاذ الحدیث مفتی حسان عطاری مدنی مُدَّ ظِلُّہُ العالی نے سنتوں بھرا بیان فرمایا اور قرآن و حدیث کی روشنی میں عاشقانِ رسول کی رہنمائی کی۔

دارالافتاء اہلِ سنت کے ہیڈ مولانا ثاقب عطاری مدنی مُدَّ ظِلُّہُ العالی نےکورس کے متعلق دعوتِ اسلامی کے شب وروز کو بتایا کہ اس کورس کی کلاسز 13 فروری 2022ء بروز اتوار سے لے کر رمضان المبارک سے پہلے تک ہر اتوار کو جامع مسجد دارالحبیبیہ دھوراجی کالونی کراچی اور فیضانِ غوث پاک خیابانِ حافظ DHA فیز 6 میں ہوا کریں گی۔ سات کلاسز پر مشتمل ان کلاسز میں ہر کلاس کے دوران دو درس ہوا کریں گے، پہلا درسِ قرآن اور دوسرا درسِ حدیث ہوگا۔

عاشقانِ رسول سے التجا ہے کہ جن سے ممکن ہو وہ جامع مسجد دارالحبیبیہ دھوراجی کالونی کراچی یا فیضانِ غوث پاک خیابانِ حافظ DHA فیز 6 میں تشریف لاکر اس کورس میں شرکت فرمائیں اور علم دین کا ڈھیروں ڈھیر خزانہ حاصل فرمائیں۔

واضح رہے کہ یہ کورس جامعۃ المدینہ دارالحبیبیہ دھوراجی کراچی کے فیس بُک پیج پر براہِ راست نشر بھی کیا جارہا ہے۔

PAGE LINK

https://www.facebook.com/darulhabibya/


کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں کہ نماز میں بہت دیر تک کھانسنے کی نوبت آجائے جس کی وجہ سے تین سُبْحٰنَ اللہ کی مقدار تاخیر بھی ہوجاتی ہو تو ایسی صورت میں کیا سجدۂ سہو وغیرہ کرنا ہوگا؟ سائل:محمدشفیع عطاری(5-E،نیوکراچی)

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

عذر کی بنا پر مثلاً کھانسنے کے سبب بالفرض اگر تین مرتبہ سُبْحٰنَ اللہ کہنے کی مقدار قراءَت یا تَشَہُّد وغیرہ میں سُکُوت ہوجائے یا فرض و واجب کی ادائیگی میں تاخیر ہوجائے تو اس سے نماز پر کچھ اثر نہیں پڑتا اور اس صورت میں سجدۂ سہو بھی لازم نہیں ہوتا۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہُ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

الجواب صحیح

عبدہ المذنب ابو الحسن فضیل رضا العطاری عفا عنہ الباری

کتبــــــــــہ

المتخصص فی الفقہ الاسلامی

ابو عبداللہ محمد سعید عطاری مدنی


سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ سنا ہے کہ دعا سے تقدیر بدل جاتی ہے کیا یہ بات درست ہے؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب:تقدیر کی تین قسمیں ہیں:

(1) ”مُبْرَمِ حقیقی“جو کسی دعا یا عمل سے نہیں بدل سکتی۔ (2) ”تقدیر ِمُعَلَّق مشابہ مُبْرَمصُحُفِ ملائکہ میں بھی نہیں لکھا ہوتا ہے یہ کس دعایا عمل سے بدلے گی البتہ خَوَاص اَکَابِر کی اس تک رسائی ہوتی ہے ۔اسی کے متعلق حدیث پاک میں ہے:اِنَّ الدُّعَا یَرُدُّ الْقَضَاءَ بَعْدَ مَا اَبْرَمَیعنی دعا قضائے مُبْرَم (معلق مشابہ مبرم)کو ٹال دیتی ہے۔ (کنز العمال،1/28،جزء ثانی،بالفاظِ متقاربۃ) (3)”تقدیرِ مُعَلَّق مَحْض“یہ قسم صحف ملائکہ میں لکھی ہوتی ہے کہ کس دعا یا عمل سے یہ تقدیر بدل سکتی ہے اس تک اکثر اولیاء کی رسائی ہوتی ہے اِن کی دعا سے اِن کی ہمت سے ٹل جاتی ہے۔ (بہار شریعت، 1/12،حصہ1، مکتبۃ المدینہ ۔المعمتد المستند، ص54)

سُنَنِ ابنِ ماجہ میں ہے۔”عَنْ ثَوْبَانَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَزِيْدُ فِي الْعُمْرِ اِلَّا الْبِرُّ وَلَا يَرُدُّ الْقَدْرَ اِلَّا الدُّعَاءُحضرت ثوبانرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ رسولُاللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا کہ نیکی کے سوا کوئی چیز عمر میں اضافہ نہیں کرتی اور دعا کے سوا کوئی چیز تقدیر کو رد نہیں کرتی۔(سنن ابن ماجہ،1/69،حدیث:90)

حکیمُ الاُمَّت مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ارشاد فرماتے ہیں:”یعنی دعا کی برکت سے آتی بلا ٹل جاتی ہے دعائے درویشاں رَدِّ بلا۔ قضاء سے مراد تقدیرِ مُعَلَّق ہے یا مُعَلَّق مُشَابَہ بِا لمُبْرَم کہ ان دونوں میں تبدیلی تَرْمِیْمِی ہوتی رہتی ہے تقدیرِ مُبْرَم کسی طرح نہیں ٹلتی۔“(مراٰۃ المناجیح، 3/295)

اِس مسئلہ کی مزید معلومات کے لئے رَئِیْسُ المُتَکَلِّمِیْن مفتی محمد نقی علی خان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی کتاباَحْسَنُ الوِعَا لِآدَابِ الدُّعَاءِبنام ”فضائل ِدعا“ مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، صفحہ243تا 248 کا مطالعہ فرمائیے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہُ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم


تعزیت سے متعلق احکام

سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ان مسائل کے بارے میں کہ (1)تین دن بعد تعزیت کا حکم کیا ہےمکروہِ تنزیہی یا تحریمی؟ (2)کلماتِ تعزیت کیا ہیں ۔کیا کلماتِ دعاء اور صرف یہ کہنا آپ کی والدہ کا پتا چلا اللہ پاک مغفرت فرمائے یہ کلماتِ تعزیت ہیں یا نہیں ؟(3)تعزیت کا مقصد کیا ہے اور یہ کیوں کی جاتی ہے ؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب:(1)تعزیت کا وقت وفات سے تین دن تک ہے افضل یہ ہے کہ پہلے ہی دن تعزیت کی جائے۔ البتہ جس شخص کو فوتگی کا علم نہ ہو تو وہ بعد میں بھی تعزیت کر سکتا ہے۔باقی لوگوں کے لئے تین دن([1])بعد تعزیت کرنا مکروہِ تنزیہی ہے۔([2])

سیّدی اعلیٰ حضر ت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالیٰ عَلَیْہ ارشاد فرماتے ہیں: ”پہلے ہی دن ہونا بہتر و افضل ہے فی الدر المختار اَوَّلُہَا اَفْضَلُھَا یعنی ایام تعزیت“ یعنی تعزیت کے ایام میں سب سے افضل پہلا دن ہے۔(فتاویٰ رضویہ،9/395)

(2)تسلّی اور دُعا دونوں طرح کے الفاظ تعزیت کے کلمات کہلاتےہیں۔ ([3])تعزیت کاطریقہ بیان کرتےہوئے صدر الشَّرِیعہ بدرُ الطریقہ مفتی محمد امجد علی اَعظمی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اِرشاد فرماتے ہیں:”تعزیت میں یہ کہے، اللہ تَعَالٰی میّت کی مغفرت فرمائے اور اس کو اپنی رحمت میں ڈھانکے اور تم کو صبر روزی کرے اور اس مصیبت پر ثواب عطا فرمائے۔ نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّم نے اِن لفظوں سے تعزیت فرمائی:لِلّٰہِ مَا اَخَذَ وَاَعْطٰی وَکُلُّ شَیْئٍ عِنْدَہٗ بِاَجَلٍ مُّسَمًّیخدا ہی کا ہے جو اُس نے لیا دیا اور اُس کے نزدیک ہرچیز ایک میعادِمقرر(وقتِ مقرر)کے ساتھ ہے۔“ (بہار شریعت، 1 /852، حصہ4،مکتبۃ المدینہ)

مُفسِّرِ شَہِیْر حکیمُ الاُمَّت مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں:”تعزیت کے ایسے پیارے الفاظ ہونے چاہئیں جس سے اس غمزَدہ کی تسلی ہوجائے یہ الفاظ بھی کتبِ فقہ میں منقول ہیں۔فقیر کا تَجْرِبَہ ہے کہ اگر اس موقع پر غمزدوں کو واقعاتِ کربلا یاد دلائے جائیں اور کہا جائے کہ ہم لوگ تو کھا پی کر مرتے ہیں وہ شاہزادے تو تین دن کے روزہ دار شہید ہوئے تو بہت تسلی ہوتی ہے۔“

(مراٰۃ المناجیح، 2/507)

(3) تعزیت کا بنیادی مقصد لَوَاحِقِیْن کے غم میں شریک ہو کر اُنہیں حوصلہ دینا اور انہیں صبر کی تلقین کرنا ہے۔تعزیت مَسْنُوْن عمل ہے اور اگر قریبی رشتہ ہوتو صِلَۂ رَحمی کے تقاضے کے پیشِ نظر تعزیت کی اَہْمِیَّت مزید بڑھ جاتی ہے یونہی حقِّ پڑوس اور حقِّ رفاقت یا دوستی یا ساتھ کام کرنا وغیرہ وہ تعلقات ہیں جن میں تعزیت کرنا اور لَوَاحِقِیْن کو حوصلہ دینا اِنتہائی اَہَم عمل ہے۔اس عمل سے ایک طرف رشتہ داروں یا ساتھ اُٹھنے بیٹھنے والوں سے تعزیت کرنے ،تسلِّی دینے اور میت کے لئے دُعا کرکے لَوَاحِقِیْن کے دل میں خوشی داخل کرنے سے لَوَاحِقِیْن پر پہاڑ جیسے صَدْمَہ کا بوجھ کم ہوتاچلا جاتا ہے۔ تو دوسری طرف تعزیت کرنے والا خودغرضی اور مطلب پرستی کا شکار نہیں ہوتاکیونکہ جو انسان اپنے رشتہ داروں، دوست احباب اور پڑوسیوں کی خوشی غمی میں شریک ہوتا ہے وہ مِلَنْسار کہلاتا ہے اور مِلَنْسار ہونا اَخلاقِیات میں ایک اچھا وصف ہے۔ فیضُ القدیر میں ہے: امام نَوَوِی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہفرماتے ہیں کہ تعزیت کا مطلب یہ ہے کہ صبر کی تلقین کی جائے اور ایسی باتیں ذکر کی جائیں جو میت کے لَوَاحِقِیْن کوتسلی دیں اور اُن کے غم اور مصیبت کو ہلکاکریں۔(فیض القدیر، 6/232)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہُ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم


[1]۔۔وَاَوَّلُهَا اَفْضَلُ وَتُكْرَهُ بَعْدَهَا اِلَّا لِغَائِبٍ(درمختار مع ردالمحتار، 3/177)

[2]۔۔ ردالمحتار میں ہے: ”وَالظَّاهِرُ اَنَّهَا تَنْزِيْهِيَّة ٌ “( ردالمحتار، 3/177)

[3] ۔۔ تَصْبِيْرهم وَالدُّعَاء لَهُمْ بِهٖ “ (ردالمحتار، 3/174)


کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ (1)مسجد کی انتظامیہ محفلِ میلادُ النبی صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے لئے اور دیگر محافل کے لیے جو چندہ اکٹھا کرتی ہے اس میں سے محفل کے اَخراجات کے بعد جو چندہ بچ جائے اسے مسجد کے پیسوں میں جمع کرسکتی ہے یا نہیں؟ (2)اگر محفل کے لئے جمع کیا گیا چندہ کم پڑجائے تو کیا مسجد کے پیسوں سے اس کمی کو پورا کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟ جبکہ ہمارے ہاں عام طور پرمحافل کے لیے الگ سے چندہ کیا جاتا ہے، مسجد کے چندے سے محافل نہیں کی جاتیں ۔سائل:محمد الیاس عطاری (مرکزالاولیالاہور)

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ

اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

(1)اس باقی ماندہ ( یعنی باقی بچے ہوئے)چندے کو اس طرح مُطلقاً مسجد کے پیسوں میں جمع کرنا جائز نہیں بلکہ اس طرح کے چندے میں کچھ تفصیل ہوتی ہے جو درج ذیل ہے کہ اولاً جن لوگوں نے یہ چندہ دیا تھا ان کو حصَۂ رَسد کے مطابق واپس کرنا فرض ہے یا وہ جس کام میں کہیں اس میں لگا دیا جائے، اُن کی اِجازت کے بغیر کسی دوسرے کام میں اِستعِمال کرنا حرام ہے اور اگر وہ فوت ہوچکے ہوں تو ان کے ورثا کو واپس کیا جائے اور اگر چندہ دینے والوں کا عِلم نہ ہو یا یہ معلوم نہ ہوسکے کہ کس سے کتنا لیا تھا تو جس کام کے لئے چندہ لیا تھا اسی طرح کے دوسرے کام میں اِستعمال کریں اور اگر اس طرح کا دوسرا کام نہ ملے تو کسی فقیر کو دیدیا جائے یا مسجد و مدرسہ میں خرچ کر دیا جائے۔

حصَۂ رَسد سے مراد یہ ہے کہ مثلاً 8 افراد نے 100، 100 روپے اور 4 افراد نے50، 50 روپے چندہ دیا، اب اس 1000 روپے میں سے 600 روپے استعمال ہوگئے اور 400 بچ گئے تو 100 روپے دینے والوں میں سے ہر ایک کو 40 روپے اور 50 روپے دینے والوں میں سے ہر ایک کو 20 روپے واپس کرنے ہونگے۔

اِس صورتِ حال سے بچنے کا آسان حل یہ ہے کہ محفل کے لیے چندہ کرتے ہوئے لوگوں سے اس طرح اجازت لے لی جائے کہ محفل سے جو پیسے باقی بچ جائیں گے وہ ہم مسجد کے چندے میں شامل کر لیں گے۔ اگر چندہ دینے والے اس کی اجازت دیدیتے ہیں تو پھر باقی رہ جانے والی رقم کو آپ مسجد کے چندہ میں شامل کر سکتے ہیں کہ ایک کام کے لئے دیئے ہوئے مال میں سے باقی بچ جانے والے مال کو کسی دوسرے کام میں صَرف(خرچ) کرنے کا وکیل بنانا جائز و درست ہے ۔

یہاں اگرچہ صراحتاً باقی بچ جانے والے چندے کو دوسرے کام میں صرف کرنے کا تذکرہ نہیں لیکن چونکہ سوال میں مذکور کام مختلف مہینوں میں ہونگے تو دلالۃً یہی سمجھ آتا ہے کہ ہر پہلے کام سے بچ جانے والی رقم دوسرے کام میں صَرف (یعنی خرچ) ہوگی اور یہاں اس کی اجازت دی گئی ہے۔

(2)پوچھی گئی صورت میں مسجد کا چندہ محفل کے لئے استعمال کرنا جائز نہیں کہ اس صورت میں جو چندہ مسجد کے لئے جمع کیا گیا ہے وہ صرف مسجد کی ضروریات و مَصَالح پر ہی خرچ ہوسکتا ہے، کسی دوسرے کام محفل وغیرہ میں خرچ کرنا ناجائز و گناہ ہے۔

وَاللہُ  اَعْلَمُ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم عَزَّوَجَلَّ وَ  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین اس بارے میں کہ میری عزیزہ کو طلاق ہوئی۔ اس کے پاس دو طرح کا سامان تھا۔ ایک وہ سامان (فرنیچر، کپڑے، زیورات وغیرہ) جو اس کے والدین نے دیا اور دوسرا وہ سامان (کپڑے، زیورات وغیرہ) جو شوہر اور اس کے والدین نے دیا۔ شرعی رہنمائی فرمائیں! اس صورت میں کونسا سامان عورت کا ہے اور کونسا شوہر کاہے؟

سائل:غلام دستگیر (خانقاہ چوک،مرکزالاولیالاہور)

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

عورت کو جو سامان مَیکے کی طرف سے بطورِ جہیز ملا وہ عورت ہی کی مِلْکِیَّت ہے۔ اس میں کسی اور کا حق نہیں۔

شوہر یا اس کے گھر والوں کی طرف سے جو سامان اور زیورات وغیرہ عورت کو دئیے جاتے ہیں اس کی تین صورتیں ہوتی ہیں:

(1)شوہر یا اس کے گھر والوں نے صراحتاً (واضح طور پر) عورت کو سامان اور زیورات دیتے وقت مالک بناتے ہوئے قبضہ دیا تھا۔ (2)شوہر یا اس کے گھر والوں نے صراحتاً عورت کو سامان اور زیورات عاریتاً (یعنی عارضی استعمال کیلئے) دئیے تھے۔ (3)شوہر یا اس کے گھر والوں نے دیتے وقت کچھ بھی نہیں کہا۔پہلی صورت میں عورت سامان اور زیورات کے ہِبہ (Gift) کیے جانے کی وجہ سے مالکہ ہے، اسی کو یہ سب دیا جائے گا۔ دوسری صورت میں جس نے دیا وہی مالک ہے۔ وہ واپس لے سکتا ہے اور تیسری صورت میں شوہر کے خاندان کا رواج دیکھا جائے گا۔ اگر وہ عورت کو ان اشیاء کا مالک بناتے ہیں تو عورت کو دیا جائے گا ورنہ وہ حقدارنہیں اس سے واپس لیا جا سکتا ہے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم عَزَّوَجَلَّ وَ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم


کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہم شروع سے نمازِ جنازہ پڑھتے آرہے ہیں اور چوتھی تکبیر کے بعد جب امام دائیں طرف سلام پھیرتا ہے تو دایاں ہاتھ اور جب بائیں طرف سلام پھیرتا ہے تو بایاں ہاتھ چھوڑ دیتے تھے، پچھلے دِنوں ایک شخص نے جنازہ پڑھایا تو اُس نے کہا کہ جیسے ہی چوتھی تکبیر ہو دونوں ہاتھ چھوڑ دئیے جائیں،اس کے بعد سلام پھیریں، آپ یہ ارشاد فرمائیں کہ کونسا طریقہ صحیح ہے؟

سائل:حاجی لیاقت (کینٹ،مرکزالاولیالاہور)

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ

اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

صحیح یہ ہے کہ جیسے ہی امام جنازہ کی چوتھی تکبیر کہے تو دونوں ہاتھ چھوڑ دیں پھر اس کے بعد سلام پھیریں، وجہ اس کی یہ ہے کہ قیام میں جہاں ٹھہرنا ہوتا ہے یا جہاں ذکر و تلاوت کرنی ہوتی ہے وہاں ہاتھوں کو باندھیں گے اور جہاں ایسا معاملہ نہیں ہے وہاں ہاتھ نہیں باندھیں گے اور چوتھی تکبیر کے بعد چونکہ کچھ ذکر و اذکار نہیں کرنا ہوتا اور نہ ہی مزید ٹھہرنا ہوتا ہے بلکہ تکبیر کے فوراً بعد سلام پھیرناہوتا ہے، اس لئے یہاں ہاتھ باندھنے کی حاجت نہیں جس طرح کہ عیدین کی تکبیراتِ زائدہ (زائد تکبیروں )کے دوران کچھ نہیں پڑھنا ہوتا اس لئے وہاں ہاتھ نہیں باندھتے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم عَزَّوَجَلَّ وَ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

کیافرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ (1)بچے کا عقیقہ کس عمر تک ہوسکتا ہے؟ (2)اگر بچہ عقیقے کے وقت اس جگہ حاضر نہ ہو تو کیا عقیقہ ہوجاتا ہے، یا نہیں؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب

)1(ساتویں دن ”عقیقہ“ کرنا بہتر ہے اگر ساتویں دن نہ ہوسکے تو زندگی میں جب چاہیں کرسکتے ہیں سنت ادا ہوجائے گی، البتہ ساتویں دن کا لحاظ رکھا جائے تو بہتر ہے، اس کے یاد رکھنے کا طریقہ یہ ہے کہ جس دن بچہ پیدا ہوا، اُس دن سے ایک دن قبل ساتواں دن بنے گا۔مثلاً بچہ جمعہ کو پیدا ہوا تو جمعرات ساتواں دن ہے اور ہفتے کو پیدا ہوا تو ساتواں دن جمعہ ہوگا، پہلی صورت میں جس جمعرات کو اور دوسری صورت میں جس جمعہ کو ”عقیقہ“ کریگا اس میں ساتویں کا حساب ضرور آئے گا۔ہاں البتہ فوت ہوجانے کے بعد ”عقیقہ“ نہیں ہو سکتا کہ عقیقہ شکرانہ ہے اور شکرانہ زندہ کیلئے ہی ہوسکتا ہے۔

)2(”عقیقہ“ کرتے وقت بچے کا عقیقے کی جگہ حاضر ہونا کوئی ضروری نہیں، بلکہ اگر بچہ دُنیا کے کسی بھی کونے میں ہو، اس کی طرف سے عقیقہ ہوجائے گا۔

اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ والدین کو اولاد کے حقوق گنواتے ہوئے تحریرفرماتے ہیں:ساتویں اور نہ ہو سکے تو چودہویں ورنہ اکیسویں دن عقیقہ کرے۔ (مشعلة الا رشاد فی حقو ق الاولاد، ص 16)

صدرالشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ تحریر فرماتے ہیں: ساتویں دن اوس (اُس) کا نام رکھا جائے اور اوس(اُس) کا سرمونڈا جائے اور سر مونڈنے کے وقت عقیقہ کیا جائے۔ اور بالوں کو وزن کر کے اوتنی (اُتنی) چاندی یا سونا صدقہ کیا جائے۔(بہارِشریعت، 3/355)

مزید فرماتے ہیں:عقیقہ کے لیے ساتواں دن بہتر ہے اور ساتویں دن نہ کرسکیں تو جب چاہیں کرسکتے ہیں سنت ادا ہو جائے گی۔ بعض نے یہ کہا کہ ساتویں یا چودہویں یا اکیسویں دن یعنی سات دن کا لحاظ رکھا جائے یہ بہتر ہے اور یاد نہ رہے تو یہ کرے کہ جس دن بچہ پیدا ہو اوس دن کو یاد رکھیں اوس سے ایک دن پہلے والا دن جب آئے وہ ساتواں ہوگا مثلاًجمعہ کو پیدا ہوا تو جمعرات ساتویں دن ہے اور سنیچر کو پیدا ہوا تو ساتویں دن جمعہ ہوگا پہلی صورت میں جس جمعرات کو اور دوسری صورت میں جس جمعہ کو عقیقہ کریگا اوس (اُس) میں ساتویں کا حساب ضرور آئے گا۔(بہارِشریعت، 3/356)

مفتی امجد علی اعظمی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سے سوال ہوا کہ مردہ کی جانب سے ”عقیقہ“ جائز ہے،یا نہیں؟ تو آپ نے جواباً تحریر فرمایاہے:مردہ کا ”عقیقہ“ نہیں ہوسکتا کہ عقیقہ دم ِ شکر ہے اور یہ شکرانہ زندہ ہی کیلئے ہوسکتا ہے۔(فتاویٰ امجدیہ، 2/336)

وَاللہُ تَعَالٰی اَعْلَمُ وَرَسُوْلُہُ اَعْلَم عَزَّوَجَلَّ وَ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

کتبـــــــــــــــــــــــــــہ

عبدہ المذنب فضیل رضا العطاری عفی عنہ الباری

25شعبان المعظم 1437 ھ/02جون 2016 ء


شادی میں دیے جانے والے نیوتا کا حکم

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ہمارے خاندان میں ولیمہ وغیرہ دعوتوں کے مواقع پر کچھ نہ کچھ پیسے دیئے جاتے ہیں اور نیت یہ ہوتی ہے کہ جب ہمارے ہاں شادی وغیرہ ہوگی تو یہ کچھ زیادتی کے ساتھ ہمیں مل جائیں گے مثلاً 1000 ہم نے دیا ہے تو یہ 1500 دیں گے اور ہم اگلی بار اس سے بھی کچھ زیادہ دیں گے، یہ باقاعدہ رجسٹر پر لکھا بھی جاتا ہے، اگر بالکل ہی وہ نہ دے تو ناراضگی کا اظہار اور برا بھلا بھی کہا جاتا ہے۔ دریافت طلب امر (پوچھنے کی بات) یہ ہے کہ مذکورہ صورتِ حال میں پہلے کم پیسے دینا پھر زیادہ پیسے لینا اور بالکل ہی نہ دیں تو نا راضگی کا اظہار کرنا شرعاً جائز ہے یا ناجائز؟      سائل:محمد سعید عطاری (مدرس کورس، صدر، باب المدینہ کراچی)

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

شادی اور دیگر مواقع پر جو رقم دی جاتی ہے اس کی دو صورتیں ہیں:(1)جہاں برادری نظام ہے اور وہ اس رقم کو باقاعدہ لکھتے ہیں کہ کس نے کتنا دیا ہے پھر جب دینے والے کے گھر کوئی دعوت ہوتی ہے تو یہ اس سے کچھ زیادہ رقم دیتا ہے، یہ بھی اس رقم کو لکھتا ہے۔ اس رقم کا حکم یہ ہے کہ یہ لینا جائز ہے مگر اس پر ثواب نہیں ملتا اور نہ ہی اس میں برکت ہوتی ہے البتہ اس رقم کا واپس کرنا فرض ہے اور اس صورت میں جس نے بغیر کسی عذرِ شرعی کے وہ رقم واپس نہیں کی، اس سے ناراضگی کا اظہار کرنا اور اسے برا بھلا کہنا جائز و درست ہے۔ (2)جہاں برادری نظام نہیں ہے یا غیر برادری کے لوگ عقیدت یا دوستی یا خیرخواہی کی نیت سے دیتے ہیں تو بلا اجازتِ شرعی اس کا مطالبہ کرنا یا نہ دینے پر ناراض ہونا، اس پر طعن و تشنیع کرنا (برا بھلا کہنا) غلط و باطل ہے۔ مذکورہ حکم کی وجہ یہ ہے کہ جہاں برادری نظام میں اسے لکھ کر رکھتے ہیں وہاں یہ رقم دوسرے شخص پر قرض ہوتی ہے، پھر جب وہ اس رقم کو لوٹاتا ہے تو اس پر مزید کچھ قرض چڑھا دیتا ہے مثلاً یہ 1000 روپے دے کر آیا تھا تو وہ اسے 1500 دیتا ہے جس میں 1000 کے ذریعے قرض سے سبکدوش ہوتا ہے اور باقی 500 اس پر مزید قرض ہوجاتے ہیں اور یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہتا ہے۔ چونکہ یہ رقم لینے والے پر قرض ہے اس لیے اس کی ادائیگی کرنا فرض ہے اور اگر یہ بلا اجازتِ شرعی ادائیگی میں کوتاہی کرے گا تو اس پر اظہارِ ناراضگی و مطالبے میں سختی فی نفسہٖ (بذاتِ خود) جائز لیکن عرفاً معیوب (بُرا) اور عموماً دوسرے کثیر گناہوں مثلاً قطع رحمی (رشتہ داروں سے تعلق توڑ دینا) وغیرہ کا ذریعہ بنتی ہے۔

اور جہاں برادری سسٹم نہیں یا غیربرادری کے لوگ عقیدت یا دوستی میں دیتے ہیں وہاں یہ رقم ہدیہ و تحفہ ہوتی ہے اور اس کے تمام احکام یہاں بھی جاری ہوں گے لہٰذامثلاً کسی نے 1000 روپے دئیے اور اس نے لے کر خرچ کر لیے تو اب دینے والا اس رقم کا مطالبہ نہیں کرسکتا اور جب لینے والے پر واپس کرنا ہی ضروری نہیں تو نہ دینے کی وجہ سے اس پر اظہارِ ناراضگی اور طعن و تشنیع کرنا بہت قبیح (بُرا) اور بری حرکت ہے جس سے بچنا ضروری ہے۔ بہر صورت (ہر حال میں) ہونا یہ چاہیے کہ اس رسم کو ختم کیا جائے اور صرف رضائے الٰہی پانے کے لیے جس کے ہاں دعوت ہو اسے رقم وغیرہ دی جائے تا کہ ہمیں اس پر ثواب بھی ملے اور برکت بھی۔ اور جو یہ چاہتے ہوں کہ ہم اس قرض سے بچ جائیں انہیں چاہیے کہ ابتدا میں ہی لوگوں سے کہہ دے کہ میں قرض لینا نہیں چاہتا، اگر مجھ سے ممکن ہوا تو میں بھی دینے والے کی تقریب میں کچھ خرچ کردوں گا۔ اس طرح جو رقم ملے گی وہ قرض نہیں، تحفہ ہوگی اور بعد میں واپس نہ بھی کی تو اس پر کوئی مواخذہ (بُرا) نہیں۔ اللّٰہ تعالٰی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے)وَمَاۤ اٰتَیۡتُمۡ مِّنۡ رِّبًا لِّیَرْبُوَا۠ فِیۡۤ اَمْوٰلِ النَّاسِ فَلَا یَرْبُوۡا عِنۡدَ اللہِ ۚ( ترجمۂ کنز الایمان: اور تم جو چیز زیادہ لینے کو دو کہ دینے والے کے مال بڑھیں تو وہ اللہ کے یہاں نہ بڑھے گی۔(پارہ 21، سورۃ الروم، آیت 39) اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں صدر الافاضل مفتی نعیم الدین مراد آبادی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:”لوگوں کا دستور تھا کہ وہ دوست احباب اور آشناؤں (جاننے والوں) کو یا اور کسی شخص کو اس نیّت سے ہدیہ دیتے تھے کہ وہ انہیں اس سے زیادہ دے گا، یہ جائز تو ہے لیکن اس پر ثواب نہ ملے گا اور اس میں برکت نہ ہوگی کیونکہ یہ عمل خالصاً لِلّٰہ تعالٰی (اللہ کی رضا کے لیے) نہیں ہوا۔“(تفسیر خزائن العرفان، صفحہ 754، مکتبۃ المدینہ، باب المدینہ کراچی)

علامہ ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ لکھتے ہیں: فتاوی خیریہ میں ہے: شادی وغیرہ میں ایک شخص جو چیزیں دوسرے کو بھیجتا ہے، اس کے بارے میں سوال ہوا کہ کیا ان کا حکم قرض کی طرح ہے اور اسے ادا کرنا لازم ہے یا نہیں؟ جواب ارشاد فرمایا: اگر عرف یہ ہو کہ لوگ بدل کے طور پر دیتے ہیں تو ادائیگی لازم ہے، اگر دی جانے والی مثلی ہے تو اس کی مثل لوٹائے اور قیمتی ہے تو قیمت واپس کرے۔ اور اگر عرف اس کے خلاگ ہو اور دینے والے یہ چیزیں بطور تحفہ دیتے ہوں نیز اس کے بدلے میں ملنے والی چیز کی طرف ان کی نظر نہ ہوتی ہو تو یہ تمام احکام میں ہبہ (تحفے کے طور پر دی گئی چیز) کی طرح ہے لہٰذا اس چیز کے ہلاک ہونے یا اس کو ہلاک کرنے کے بعد رجوع نہیں ہوسکے گا (یعنی اسے واپس نہیں لوٹایا جاسکے گا)۔ اور اس معاملے میں اصل یہ ہے کہ جو معہود (ذہن میں طے) ہوتا ہے وہ مشروط کی طرح ہی ہوتا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ یہ عرف ہمارے شہروں میں بھی پایا جاتا ہے، ہاں بعض علاقوں میں لوگ اسے قرض شمار کرتے ہیں یہاں تک کہ ہر دعوت میں وہ ایک لکھنے والے کو بلاتے ہیں جو انہیں ملنے والی چیزیں لکھتا ہے اور جب دینے والا کوئی دعوت کرتا ہے تو وہ اسی لکھے ہوئے کی طرف مراجعت کرتا (دیکھتا) ہے اور پہلا دوسرے کو اسی طرح کی چیز دیتا ہے جیسی اس نے دی تھی۔(ردالمحتار، کتاب الہبہ، جلد8، صفحہ 583، کوئٹہ) سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرَّحمٰن فرماتے ہیں:”نیوتا وصول کرنا شرعاً جائز ہے اور دینا ضروری ہے کہ وہ قرض ہے۔“(فتاوی رضویہ، جلد 23، صفحہ 268، رضا فاؤنڈیشن، مرکزالاولیالاہور) ایک اور مقام پر آپ اس کی وضاحت یوں فرماتے ہیں:”اب جو نیوتا جاتا ہے وہ قرض ہے، اس کا ادا کرنا لازم ہے، اگر رہ گیا تو مطالبہ رہے گا اور بے اس کے معاف کئے معاف نہ ہوگا والمسئلۃ فی الفتاوی الخیریۃ (اور یہ مسئلہ فتاوی خیریہ میں ہے۔) چارہ کار (بچنے کی صورت) یہ ہے کہ لانے والوں سے پہلے صاف کہہ دے کہ جو صاحب بطورِ امداد عنایت فرمائیں، مضائقہ نہیں مجھ سے ممکن ہوا تو اُن کی تقریب میں امداد کروں گا لیکن میں قرض لینا نہیں چاہتا، اس کے بعد جو شخص دے گا وہ اس کے ذمّہ قرض نہ ہوگا ہدیہ ہے جس کا بدلہ ہوگیا فبہا، نہ ہوا تو مطالبہ نہیں۔“(فتاوی رضویہ، جلد 23، صفحہ 586، رضا فاؤنڈیشن، مرکزالاولیالاہور) سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ قرض کی وصولی کے متعلق فرماتے ہیں: ”قرض حسنہ دے کر مانگنے کی ممانعت نہیں، ہاں مانگنے میں بے جاسختی نہ ہو: )وَ اِنۡ کَانَ ذُوۡعُسْرَۃٍ فَنَظِرَۃٌ اِلٰی مَیۡسَرَۃٍ ؕ( (ترجمۂ کنز الایمان: اور اگر قرضدار تنگی والا ہے تو اسے مہلت دو آسانی تک۔)

اور اگر مدیون (مقروض) نادار (مفلس) ہے جب تو اسے مہلت دینا فرض ہے یہاں تک کہ اس کا ہاتھ پہنچے اور جو دے سکتا ہے اور بلا وجہ لَیت و لَعل (ٹالم ٹول) کرے وہ ظالم ہے اور اس پر تشنیع و ملامت (برا بھلا کہنا) جائز۔ قَالَ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم مَطْلُ الْغَنِیِّ ظُلْمُ ولَیُّ الْوَاجِدِ یَحِلُّ مَالُہُ وَعِرْضُہُ (ترجمہ: نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا، غنی کا (ادائے قرض میں) ٹالم ٹول کرنا ظلم ہے اور مال ہوتے ہوئے ٹالم ٹول کرنا اس کے مال اور اس کی عزت کو حلال کردیتا ہے۔) (فتاوی رضویہ، جلد 23، صفحہ 585-586، رضا فاؤنڈیشن، مرکز الاولیا لاہور)

صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں:”شادی وغیرہ تمام تقریبات میں طرح طرح کی چیزیں بھیجی جاتی ہیں اس کے متعلق ہندوستان میں مختلف قسم کی رسمیں ہیں، ہر شہر میں ہر قوم میں جدا جدا رسوم ہیں، ان کے متعلق ہدیہ اور ہبہ کا حکم ہے یا قرض کا۔ عموماً رواج سے جو بات ثابت ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ دینے والے یہ چیزیں بطور قرض دیتے ہیں اِسی وجہ سے شادیوں میں اور ہر تقریب میں جب روپے دئیے جاتے ہیں تو ہر ایک شخص کا نام اور رقم تحریر کر لیتے ہیں جب اُس دینے والے کے یہاں تقریب ہوتی ہے تو یہ شخص جس کے یہاں دیا جاچکا ہے فہرست نکالتا ہے اور اُتنے روپے ضرور دیتا ہے جو اُس نے دئیے تھے اور اس کے خلاف کرنے میں سخت بدنامی ہوتی ہے اور موقع پاکر کہتے بھی ہیں کہ نیوتے کا روپیہ نہیں دیا اگر یہ قرض نہ سمجھتے ہوتے تو ایسا عرف نہ ہوتا جو عموماً ہندوستان میں ہے۔“(بہارشریعت، جلد 3، صفحہ 79، مکتبۃ المدینہ، باب المدینہ کراچی)ادی وغیرہ تمام تقریبات میں طرح طرح کی چیزیں بھجی ہنچے اور جو دے سکتا ہے اور بلا وجہ قرض لینا نہیں چاہتا، اس کے بعد جو شخص دے گ

حکیم الامت مفتی احمد یار خان علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:”نیوتا بھی بہت بری رسم ہے جو غالباً دوسری قوموں سے ہم نے سیکھی ہے اس میں خرابی یہ ہے کہ ہم نے کسی کے گھر چار موقعوں پر دو دو روپے دئیے ہیں تو ہم بھی حساب لگاتے رہتے ہیں اور وہ بھی جس کو یہ روپیہ پہنچا۔ اب ہمارے گھر کوئی خوشی کا موقع آیا ہم نے اس کو بلایا تو ہماری پوری نیّت یہ ہوتی ہے کہ وہ شخص کم از کم دس روپے ہمارے گھر دے تاکہ آٹھ روپے ادا ہوجائیں اور دو روپے ہم پر چڑھ جائیں ادھر اس کو بھی یہ ہی خیال ہے کہ اگر میرے پاس اتنی رقم ہو تو میں وہاں دعوت کھانے جاؤں ورنہ نہ جاؤں، اب اگر اس کے پاس اس وقت روپیہ نہیں تو وہ شرمندگی کی وجہ سے آتا ہی نہیں اور اگر آیا تو دو چار روپے دے گیا۔ بہرحال ادھر سے شکایت پیدا ہوئی، طعنے بازیاں ہوئیں، دل بگڑے۔ بعض لوگ تو قرض لے کر نیوتا ادا کرتے ہیں۔“(اسلامی زندگی، صفحہ 25، مکتبۃ المدینہ، باب المدینہ کراچی)

مفتی محمد وقار الدین قادری رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں:”جن لوگوں میں برادری نظام ہے ان میں نیوتا قرض ہی شمار کیا جاتا ہے، وہ لکھ کر رکھتے ہیں، کس نے کتنا دیا ہے، اُس کے یہاں شادی ہونے کی صورت میں اتنا ہی واپس کرتے ہیں، اِن برادریوں میں نیوتا قرض ہی سمجھا جاتا ہے اور جن برادریوں میں ایسا کوئی برادری کا قانون نہیں ہے یا غیر برادری کے لوگ دوستی، تعلقات اور عقیدت کی وجہ سے شادی میں کچھ دیتے ہیں وہ ہدیہ ہے۔“(وقارالفتاوی، جلد 3، صفحہ 117، بزم وقارالدین، باب المدینہ کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

کتبہ

محمد قاسم القادری

23ذیقعدۃ الحرام1437ھ/27اگست2016ء