والدین کی فرمانبرداری از بنت میاں
محمد یوسف قمر، جامعۃ المدینہ پاکپورہ جیل روڈ سیالکوٹ
دین اسلام نے خاندان کو خصوصی اہمیت سے سرفراز
فرمایا ہے اور اہل خانہ پر ایک دوسرے کے حقوق بھی مقرر فرمائے ہیں جن میں والدین
سب سے مقدم ہیں۔ قرآن مجید فرقان حمید میں رب نے بڑی عظمت سے یوں بیان فرمایا ہے: وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ
بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ-اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ
اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ
لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا(۲۳) (پ
15، بنی اسرائیل: 23) ترجمہ کنز الایمان: اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے
سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو اگر تیرے سامنے ان میں ایک
یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے ہوں(اف تک)نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا
اور ان سے تعظیم کی بات کہنا۔
آئیے والدین کی اطاعت و فرمانبرداری کی اہمیت
احادیث کی روشنی میں ملاحظہ کرتے ہیں:
1۔ والدین کے ساتھ بھلائی کرنا حج، عمرہ اور راہ
خدا میں جہاد کرنے سے افضل ہے۔ (مسند ابی یعلی الموصلی، 3/ 6، حدیث: 2752 مفہوماً)
2۔ حضرت اسماء بنت ابی بکر صدیق رضی اللہ عنہا
فرماتی ہیں: جس زمانہ میں قریش نے صاحب قرآن ﷺ سے معاہدہ کیا تھا (یعنی صلح حدیبیہ
کے بعد) میری مشرکہ ماں میرے پاس آئی، میں نے عرض کی: یا رسول اللہ ﷺ! میری ماں
آئی ہے اور وہ دین سے دور ہے کیا میں اس سے صلہ رحمی کروں؟ ارشاد فرمایا: ہاں اس
کے ساتھ صلہ رحمی سے پیش آؤ۔ (صحابیات و صالحات کے اعلیٰ اوصاف، ص 131) مفتی احمد
یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں: کافر و مشرک ماں باپ
کی بھی خدمت اولاد پر لازم ہے۔ فقہا فرماتے ہیں کہ مشرک باپ کو بت خانہ لے نہ جائے
مگر جب وہاں پہنچ چکا ہو تو وہاں سے گھر لے آئے کہ لے جانے میں بت پرستی پر مدد ہے
اور لے آنے میں خدمت ہے۔ (مراۃ المناجیح، 6 / 517)
3۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے
ہیں میں نے نبی ﷺ سے پوچھا کہ اللہ کو کون سا عمل زیادہ پیارا ہے؟ فرمایا: وقت پر
نماز۔ میں نے کہا: پھر کونسا؟ فرمایا: ماں باپ سے بھلائی۔(بخاری، 4/589، حدیث: 7534)
4۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول
اکرم شاہ بنی آدم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اس شخص کی ناک خاک آلود ہو، پھر اس کی ناک
خاک آلود، پھر اس کی ناک خاک آلود ہو کہ جو والدین میں سے ایک یا دونوں کو پائے
اور (ان کی خدمت کر کے) جنت میں داخل نہ ہو۔ (مسلم، ص 1060، حدیث: 6510)
5۔ حضرت سیدنا ابو اسید مالک بن ربیعہ ساعدی رضی
اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم حضور نبی کریم ﷺ کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ بنو
سلمہ قبیلے کا ایک شخص آیا اور پوچھا: یا رسول اللہ ﷺ ! کیا میرے والدین کے مرنے
کے بعد ان سے بھلائی کرنے کی کوئی صورت ہے؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ہاں! ان کے لیے
دعا کرنا، ان کے لیے استغفار کرنا، ان کے کیے ہوئے وعدے کو پورا کرنا، ان کے رشتہ
داروں سے صلہ رحمی کرنا اور ان کے دوستوں کی عزت کرنا۔ (ابو داود، 4/434، حدیث:
5142)
امیر اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ لکھتے ہیں:
مطیع اپنے ماں باپ کا کر میں انکا ہر اک حکم لاؤں بجا
یاالٰہی
اللہ ہمیں صحیح معنوں میں والدین کا حکم بجا لانے
اور ان کی اطاعت و فرمانبرداری کی توفیق عنایت فرمائے۔
حقوق والدین کی تفصیل جاننے کیلئے فتاویٰ رضویہ کی
24ویں جلد میں موجود اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن کا رسالہ
الحقوق لطرح العقوق (والدین، زوجین اور اساتذہ کے حقوق) کا مطالعہ کیجئے۔