استاد کے ادب کے فوائد

Tue, 23 Jun , 2020
3 years ago

دنىا مىں سب سے پاکىزہ رشتہ استاد و شاگرد کا ہے اور اس رشتے مىں ترقى اس وقت تک نہىں ہوتى جب تک ادب ملحوظ خاطر نہ رکھا جائے۔ کسى عربى شاعر نے کىا خوب کہا ہے:

ماہ وصل من وصل الابالحرمۃ

وما سقط من سقط الابترک ا لحرمة

جس نے جو کچھ پاىا ادب و احترام کرنے کى وجہ سے پاىا اور جس نے جو کچھ کھوىا وہ ادب و احترام نہ کرنے کے سبب ہى کھوىا۔(کامىاب طالبِ علم کون؟ ص ۵۵)

اردو مىں اس شعر کو عام طور پر ان الفاظ کے ساتھ بولا جاتا ہے’’با ادب بانصىب ، بے ادب بے نصىب‘‘

استاد کے ادب کے بے حد فوائد ہىں آئىے سب سے پہلے ہمارے بزرگانِ دىن رحمہم اللہ الممبین اپنے استاد کا کىسا ادب کرتے تھے اور انہىں کىسے فوائد و ثمرات ملے اس بارے مىں ملاحظہ فرمائىں۔

حضرت سىدنا امام فخر الدىن ارسا ہندى رحمۃ اللہ علیہ جلىل القدر بزرگ تھے ، ’’مرو‘‘ شہر مىں رئىس الائمہ کے مقام پر فائز تھے اورسلطان الوقت آپ کا بے حد ادب و احترام کىا کرتا تھا آپ رحمۃاللہ علیہ اس مقام کو پہنچنے کى وجہ بىان کرتے ہوئے فرماتے ہىں :کہ مجھے ىہ منصب اپنے استاد کى خدمت کرنے کى وجہ سے ملا ہے زىب اپنے استاد کى خدمت کىا کرتے تھے ىہاں تک کہ مىں نے ان کا تىن سال تک کھانا پکانا اور استاد کى عظمت کو ملحوظ رکھتے ہوئے مىں نے کبھى بھى اس مىں سے کچھ نہ کھاىا۔ (راہِ علم ص ۳۱)

دىکھا آپ نے ہمارے بزرگانِ دىن اساتذہ اکرام کا کس قدر ادب و احترام اور خدمت کىا کرتے تھے۔جس کى برکت سے انہىں اپنے فوائد ثمرات ملے کہ انہىں آج رئیس الائمہ کے لقب سے ىاد کىا جاتاہے۔ آئىں امام الائمہ ،سراج الغمہ ،امام اعظم ابو حنىفہ رضى اللہ تعالىٰ عنہ کا اىک بہت ہى مشہور واقعہ ملاحظہ کىجئے۔

الخىراث الحسان مىں ہے، آپ رضى اللہ تعالىٰ عنہ زندگى بھراپنے استاد محترم سىدنا امام حماد علیہ الرحمۃالجوا د کے مکان عظمت نشان کى طرف پاؤں پھىلا کر نہىں لىٹے حالانکہ ک وہ آپ کے مکان عالى شان اور استادمحترم علىہ الرحمۃ کے مکان عالى شان اور استادِ محترم علیہ الرحمۃ اکرم کے مکان عظىم الشان کے درمىان تقرىبا سات گلىاں پڑتى تھىں۔(اشکوں کى برسات ۹)

سبحان اللہ عزوجل ہمارے امام اعظم اپنے استاد کا کتنا ادب فرماتے! اس ادب کى برکت سے آپ رضى اللہ تعالى عنہ کو کىسا مقام عطا ہوا کہ پورى امت کا بار آپ کے کاندھوں پر رکھا گىا ،اور آپ کو اىسے قوانىن و اصو ل بنانے کا شرف حاصل ہوا کہ تا قىامت امت محمدىہ ان پر عمل پىرا رہے گى۔

اسى طرح مشہور محدىث حصرت سىدنا امام محمد بن اسماعىل بخارى رحمۃ اللہ علیہ کى سىرت کا اىک حسىن پہلو استاد کا حکم ماننا بھى ہے جس کى وجہ ہے آپ کو نماىاں مقام حاصل ہوا، اور آپ کى کتاب کی شہرت ہوئى قران پاک کے بعد آپ کى کتاب کو مقدس و افضل جانا جاتا ہے، جى ہاں اس صحىح بخارى شرىف کے بارے مىں بات کررہى ہوں۔

آپ کا واقعہ کچھ ىوں بىان کىا جاتا ہے آپ رحمۃ اللہ علیہ اپنے استاد محترم حضرت سىدنا امام محمد کى خدمت سراپا عظمت مىں حاضر ہوئے اور فقہ مىں کتاب الصلوة سىکھنے لگے ، حضرت سىدنا امام محمد رحمۃ اللہ علیہ نے جب ان کى طبیعت مىں ،فقہ مىں عدم دلچسپى اور علم حدىث کى طرف رغبت دىکھى تو ان سے فرماىا: تم جاؤ اور علم حدىث حاصل کرو، پس جب حضرت سىدنا امام بخارى رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے ا ستاد کا مشورہ قبول کىا اور علم حدىث حاصل کرناشروع کىا تو دىکھنے والوں نے دىکھا کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ تمام آئمہ حدىث سے سبقت لے گئے۔(راہِ علم ص ۳۶)

دىکھا آپ نے استاد کے ادب کى برکت بزرگانِ دىن رحمۃ اللہ علیہ کو کىسا علمى مقام عطا ہوا کہ قىامت تک لوگ ان کے علمى کارناموں سے مستفىد ہوتے رہىں گے۔

اللہ عزوجل سے دعا کہ وہ ہمىں بھى اپنے اساتذہ کا ادب کرنے ان کى تعظىم کرنے اور ان کى خدمت کرنے کى توفىق نصىب فرمائے۔