دینِ اسلام میں استاذ کو وہ فضیلت حاصل ہے جو اس کے علاوہ کو حاصل نہیں ۔ایک مشہور قول ہے: جس نے معالج کی عزت نہ کی، وہ شفا سے معدوم رہا اور جس نے استاذ کی عزت نہ کی ،وہ علم سے محروم رہ گیا ۔

استاذ کا مرتبہ و مقام :علم کا حقیقی مالک اللہ پاک ہے جس نے حضرت آدم علیہ اسلام کو علم کی بنا پر فرشتوں سے اونچا مقام عطا کیا ۔ اور پھر انبیا کے ذریعے انسان علم سے آراستہ ہوا، استاذ کی تعظیم کرنا بھی علم ہی کی تعظیم ہے ۔حضرت علی رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں :جس نے مجھے ایک حرف سکھایا میں اس کا غلام ہوں چاہے اب وہ مجھے فروخت کردے،چاہے تو آزاد کردے اور چاہے تو غلام بنا کر رکھے۔(راہ علم ،ص29)

طالب علم اس وقت تک نہ تو علم حاصل کرسکتا ہے اور نہ ہی اس سے نفع اٹھا سکتا ہے جب تک کہ وہ ،اہل علم اور اپنے استاذ کی تعظیم و توقیر نہ کرتا ہو۔ کسی نے کہا ہے کہ ''جس نے جو کچھ پایا ادب و احترام کر نے کے سبب ہی سے پایا اور جس نے جو کچھ کھویا وہ ادب و احترام نہ کرنے کے سبب ہی کھویا''۔

استاذ کے 5 حقوق : استاذ اور طالب العلم کا رشتہ انتہائی مقدس ہوتا ہے۔ لہذا طالب العلم کو چاہئے کے استاذ کے حقوق اچھے انداز میں سر انجام دے:

(1) اعلی حضرت مجد دین ملت و ملت الشاہ امام احمد رضا خان فاضلِ بریلوی متوفی (1340)ھ رحمۃاللہ کتب معتبرہ کے حوالے سے بیان فرماتے ہیں فتاوی رضویہ جلد24 صفحہ 413 پر استاذ کے حقوق بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں فتاوی عالمگیر میں ،نیز امام حافظ الدین کردی سے ہے: فرمایا امام زندویستی نے عالم کا حق جاہل پر اور استاذ کا حق شاگرد پر یکساں ہے اور وہ یہ کہ اس سے پہلے بات نہ کرے اور اس کے بیٹھنے کی جگہ اس کی غیبت (عدم موجودگی) میں بھی نہ بیٹھے اس کی بات کو نہ رد کرے اور چلنے میں اس سے آگے نہ بڑھے۔(فتاوی عالمگیری:5/373 کتاب الکراہیۃ)

(2) آدمی کو چاہئے کہ اپنے مال میں سے کسی چیز سے استاذ کے حق میں بخل سے کام نہ لے یعنی جو کچھ اسے درکار ہو بخوشی حاضر کردے اور اس کے قبول کر لینے میں اس کا احسان اور اپنی سعادت تصور کرے۔

(3)جس نے اسے اچھا علم سکھایا اگرچہ ایک ہی حرف پڑھایا ہو اس کے لیے تواضع کرےگا اور لائق نہیں کہ کسی وقت اس کی مدد سے باز رہے اپنے استاذ پر کسی کو ترجیح نہ دے اگر ایسا کرےگا تو اس نے اسلام کی رسیوں سے ایک رسی کھولدی۔

(4) استاذ گھر کے اندر ہو اور یہ حاضر ہو تو اس کا دروازہ نہ کھٹکھٹائے بلکہ اس کے باہر آنے کا انتظار کرے۔اللہ پاک فرماتا ہے : اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَآءِ الْحُجُرٰتِ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ (۴) وَ لَوْ اَنَّهُمْ صَبَرُوْا حَتّٰى تَخْرُ جَ اِلَیْهِمْ لَكَانَ خَیْرًا لَّهُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۵) ترجمۂ کنزالایمان: بےشک وہ جو تمہیں حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں اکثر بے عقل ہیں اور اگر وہ صبر کرتے یہاں تک کہ تم آپ اُن کے پاس تشریف لاتےتو یہ اُن کے لیے بہتر تھا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے (پ26،الحجرات:4، 5)

اس آیت سے اشارة معلوم ہوا کہ جب اللہ تعالیٰ کی بارگاہ کے مقرب بندوں اور باعمل علما کی بارگاہ میں حاضر ہوں تو ان کے آستانے کا دروازہ بجا کر جلدی بازی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے بلکہ انتظار کرنا چاہئے تاکہ وہ اپنے معمول کے مطابق آستانے سے باہر تشریف لے آئیں۔ ہمارے بزرگان دین کا یہی طرز عمل ہوا کرتا تھا، چنانچہ بلند پایا عالم حضرت ابو عبید رحمۃُ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے :میں نے کبھی بھی کسی استاذ کے دروازہ پر دستک نہیں دی بلکہ میں ان کا انتظار کرتا رہتا اور جب وہ خود تشریف لاتے تو میں ان سے استفادہ حاصل کرتا۔(صراط الجنان،پ 26،ص 408)

(5)(استاد کو اپنی جانب سے کسی قسم کی اذیت نہ پہنچنے دے کہ)جس سے اس کے استاذ کو کسی قسم کی اذیت پہنچی، وہ علم کی برکت سے محروم رہےگا۔(فتاوی رضویہ جلد 10۔ص 96،97)