مسلمان بھائی بھائی ہیں انہیں آپس میں مَحَبّت اور اِتفاق سے رہنا چاہے مگر
شیطان کو یہ کیسے گوارا ہو سکتا ہے اس لیے وہ مَردود مسلمانوں کو آپس میں لڑواتا ہے۔مسلمانوں
میں اگر لڑائی ہو جائے تو صُلح کروانے کی کوشش کریں کہ صُلح کروانا ثواب ہے،آقا کریم
صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت ہے۔
اللہ کا فرمان ہے:ترجمہ:اور
اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑیں تو ان میں صلح کرواؤ۔
ایک مرتبہ آقا کریم صلی الله علیہ وسلم درازگوش پر سُوار ہو کر تشریف
لے جا رہے تھے،اس دوران انصار کی مجلس کے پاس سے گزر ہوا تو وہاں تھوڑی دیر
ٹھہرے،اس جگہ درازگوش نے پیشاب کیا تو عبد اللہ بن اُبی نے ناک بند کرلی۔ یہ دیکھ کر حضرت
عبد اللہ بن رَواحہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دَراز گوش کا پیشاب تیرے مُشک
سے بہتر خوشبو رکھتا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ
وسلم تو تشریف لے گئے لیکن ان دونوں میں بات بڑھ گئی اور ان دونوں کی قومیں آپس میں
لڑ پڑیں اور ہاتھا پائی تک نوبت پہنچ گئی،صورتِ حال معلوم ہونے پر آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لائے اور ان میں صلح
کروا دی۔(پارہ26,سورہ الحجرات،آیت 9 تفسیر صراط الجنان*)
صلح کی ترغیب میں ارشاد باری
ہے: ترجمہ:مسلمان مسلمان بھائی ہیں تو اپنے دو بھائیوں میں صلح کرو اور اللہ سے ڈرو کہ تم پر رحمت ہو۔
ارشاد فرمایا مسلمان تو آپس میں بھائی بھائی ہی ہیں۔
کیونکہ یہ آپس میں دینی تعلق اور اسلامی محبّت کے ساتھ مَربوط ہیں
اور یہ رشتہ تمام دنیوی رشتوں سے مضبوط تر ہے،لہٰذا جب کبھی دو بھائیوں میں جھگڑا
واقع ہو تو ان میں صلح کرادو اور اللہ سے
ڈرو تاکہ تم پر رَحمت ہو کیونکہ اللہ سے
ڈرنا اور پرہیزگاری اختیار کرنا ایمان والوں کی باہمی مَحبّت اور اُلفت کا سبب ہے
اور جو اللہ سے ڈرتا ہے اس پر اللہ کی رحمت ہوتی ہے۔ (خازن،الحجرات،تحت الآیة:10,
168/4,مدارك الحجرات تحت الآیة:10, ص 1153:ملتقطا) (سورہ الحجرات،آیت 10،تفسیر
صراط الجنان)
پیاری بہنو! اَحادیث
مُبارَکہ میں صلح کے فضائل ملاحظہ فرمائیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: جو شخص لوگوں کے درمیان
صلح کرائے گا، اللہ اس کا معاملہ درست فرما دے گا اور اسے ہر کلمہ بولنے پر ایک
غلام آزاد کرنے کا ثواب عطا فرمائے
گا اور جب وہ لوٹے گا تو اپنے پچھلے گناہوں سے مَغفرت یافتہ ہو کر لوٹے گا۔ (الترغیب
والترھیب،کتاب الادب وغیرہ،الترغیب فی الاصلاح بین الناس،3 /321،حدیث:9 دارالکتب
العلمیہ بیروت)(صلح کروانے کے فضائل* ص4)
حدیث مُبارَک ہے:میں تمہیں روزہ، نماز اور صدقہ سے افضل عمل نہ
بتاؤں؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کی
یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ضرور بتائیے۔ارشاد فرمایا: وہ
عمل آپس میں روٹھنے والوں میں صلح کرا دینا ہے کیونکہ روٹھنے والوں میں ہونے والا
فساد خیر کو کاٹ دیتا ہے۔ (ابو داؤد،کتاب الادب، باب فی اصلاح ذات البین،4/ 365,حدیث:4919
داراحیاء التراث العربی بیروت)(صلح کروانے کے فضائل ص4,5)
صلح کروانے والی بہنوں کو چاہیے کہ صلح کروانے سے پہلے اللہ پاک کی بارگاہ میں کامیابی کی دعا کریں۔کسی
ایک کی بات سن کر فیصلہ نہ کریں کہ اس طرح دوسرے کی حق تلفی ہو گی۔فریقین کو صلح کی
ترغیب دیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم
کی مبارک زندگی ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جانی دشمنوں کو بھی معاف
فرما دیا۔فریقین کو صلح کے فضائل اور آپس کے اختلافات کے سبب پیدا ہونے والے دینی
و دنیوی نقصانات بیان کریں۔ فریقین کو آمنے سامنے بٹھا کر ان کر درمیان صلح میں پہل
کرنے کا جذبہ پیدا کر کے انہیں ملوا دیں۔ خیال رہے،فریقین آپس میں بحث ومباحثہ نہ
کریں کہ اس سے صلح کروانا مشکل ہو جائے گا۔
دو مسلمانوں میں صلح کروانے کے لیے خلافِ واقعہ بات (یعنی جھوٹی بات)
بھی کہہ سکتے ہیں کہ شریعت مُطہرہ نے اجازت دی ہے۔آقاکریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: تین باتوں کے سوا
جھوٹ بولنا جائز نہیں، جن میں سے ایک لوگوں کے درمیان صلح کرانے کے لیے جھوٹ بولنا
ہے۔ (صلح کے فضائل ص10).
یادرکھیں کہ اگر یہ عداوت ودشمنی بدمذہب سےہو تو یہ صلح کرواناجائز
نہیں کہ شریعت مطہرہ نے ان سے دوررہنے کاحکم دیا ہے۔ اللہ پاک ہمیں مسلمانوں میں صلح کروانے اور لڑائی
جھگڑے سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ
وسلم۔