صلح کروانے کی بہت اہمیت ہے اور اس کے فضائل و برکات بھی بہت ہیں۔ چنانچہ قرآنِ پاک میں اللہ پاک کا فرمان ہے: ترجمعہ کنزالایمان: اور اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑیں تو ان میں صُلح کراؤ۔ (پ26، الحجرات، 9)  اسی طرح ایک اور مقام پر صلح کی ترغیب دلاتے ہوئے ارشاد فرمایا: ترجمہ کنزالایمان: مسلمان، مسلمان بھائی ہیں تو اپنے دو بھائیوں میں صلح کرو اور اللہ سے ڈرو کہ تم پر رحمت ہو۔ (پ26، الحجرات، 10)

یونہی احادیثِ مبارکہ میں بھی صلح کروانے کے بے شمار فضائل بیان ہوئے ہیں۔ چنانچہ

حضرتِ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ پیارے آقاﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص لوگوں کے درمیان صلح کرائے گا اللہ پاک اس کا معاملہ درست فرما دے گا اور اسے ہر کلمہ بولنے پر ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب عطا فرمائے گا اور جب وہ لوٹے گا تو اپنے پچھلے گناہوں سے مغفرت یافتہ ہو کر لوٹے گا۔ (الترغیب والترھیب، کتاب الادب وغیرہ، الترغیب فی الاصلاح بین الناس، 321/3، حدیث: 9 دارالکتب العلمیة بیروت) ایک اور حدیث پاک میں نبیِ کریمﷺ کا فرمان فضیلت نشان ہے: کیا میں تمہیں روزہ، نماز اور صدقہ سے افضل عمل نہ بتاؤں؟ صحابہ کرام علیھم الرضوان نے عرض کی: یا رسول اللہﷺ ضرور بتایے۔ ارشاد فرمایا: وہ عمل آپس میں روٹھنے والوں میں صلح کرا دینا ہے کیونکہ روٹھنے والوں میں ہونے والا فساد خیر کو کاٹ دیتا ہے۔ (ابوداود، کتاب الادب، باب فی اصلاح ذات البین، 365/4، حدیث: 4919 دار احیاء التراث العربی بیروت)

ان آیات و روایات سے صلح کروانے کی اہمیت اور اس کے فضائل و برکات معلوم ہوئے ہمیں بھی یہ فضائل و برکات حاصل کرنے چاہئیں۔ جب کوئی مسلمان کسی دوسرے مسلمان سے ناراض ہو جائے یا کسی کے درمیان لڑائی جھگڑا ہو جائے تو ہمیں ان کے درمیان صلح کروا کر صلح کروانے کے فضائل و برکات حاصل کرنے چاہئیں۔ ہمارا یہ حال ہے کہ ہم چھوٹی چھوٹی باتوں پر ایک دوسرے سے ناراض ہو جاتے ہیں اپنے مسلمان بھائیوں سے بات تک نہیں کرتے۔ اس میں ہمارا بہت بڑا نقصان ہے یہ سب شیطان کے وار ہیں۔ مسلمانوں میں رنجشیں ڈال کر، مسلمانوں کا آپس میں لڑائی جھگڑا کروا کر، نفرتیں پھیلا کر، انہیں ایک دوسرے سے دور کرنے سے شیطان بہت خوش ہوتا ہے اور ہمیں شیطان کو نہیں بلکہ اللہ پاک کو خوش کرنا ہے اور اللہ کی رضا کے لئے صلح کروانی چاہیے۔ صلح کروانے والے کو چاہیے کہ وہ صلح کروانے سے پہلے اللہ پاک کی بارگاہ میں کامیابی کی دعا کرے پھر دونوں کو الگ الگ بٹھا کر ان کی شکایات غور سے سنے اور دونوں کی مکمل بات سننے کے بعد انہیں صلح پر آمادہ کرے اور سمجھائے کہ پیارے آقاﷺ نے تکلیف پہنچانے والوں، ستانے والوں بلکہ اپنے جانی دشمنوں کو بھی معاف فرمایا ہے۔ ہمیں بھی ان کی پیروی کرتے ہوئے ایک دوسرے کے قصور معاف کر دینے چاہئیں۔ انہیں سمجھایا جائے کہ اگر آپکو ان سے تکلیف پہنچی ہے تو انہیں بھی آپ سے رنج پہنچا ہو گا۔ ہم اس دنیا میں ایک دوسرے کو دکھ تکلیف دینے کے لئے نہیں آئے بلکہ ہم تو آپس میں اتفاق و محبت کے ذریعے جوڑ پیدا کرنے کے لئے آئے ہیں۔ جیسا کہ

مولانا روم علیہ رحمۃ اللہ القیوم فرماتے ہیں: تُو برائے وَصل کَردن آمدی نے برائے فَصل کَردن آمدی یعنی تُو جوڑ پیدا کرنے کے لئے آیا ہے، توڑ پیدا کرنے کے لئے نہیں آیا۔ (مثنوی مولوی معنوی، 173/2 مرکز الاولیا لاہور)

یونہی صلح کروانے اور انہیں ایک دوسرے کے قریب لانے کے لئے خلافِ واقع بات (یعنی جھوٹی بات) بھی کہہ سکتے ہیں مثلاً ایک کے سامنے جا کر اس طرح کہنا کہ وہ تمہیں اچھا جانتا ہے، تمہاری تعریف کرتا ہے یا اس نے تمہیں سلام کیا ہے پھر اسی طرح دوسرے کے پاس جا کر بھی اسی طرح کی باتیں کرے تاکہ ان دونوں میں بغض و عداوت کم ہو اور صلح ہو جائے۔

حضرت سیدتنا اسماء بنتِ یزید رضی اللہ عنھا سے رِوایت ہے کہ پیارے آقاﷺ کا فرمان ہے: تین باتوں کے سِوا جھوٹ بولنا جائز نہیں، خاوند اپنی بیوی کو راضی کرنے کے لئے کوئی بات کہے، جنگ کے موقع پر جھوٹ بولنا اور لوگوں کے درمیان صُلح کروانے کے لئے جھوٹ بولنا۔ (ترمذی، کتاب البر والصلة، باب ماجاء فی اصلاح ذات البین، 377/3، حدیث: 1945 دارالفکر بیروت)

دیکھا آپ نے شریعتِ مُطہرہ کو مسلمانوں کا آپس میں اتفاق و اتحاد کس قدر محبوب ہے کہ ان میں صُلح کروانے کے لئے جھوٹ تک بولنے کی اجازت مَرحمت فرمائی ہے۔ لہذا اللہ پاک کی رضا کے لئے مسلمانوں میں صلح کروا کر اتفاق و اتحاد پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ جو دو مسلمان بھائی آپس میں ناراض ہوتے ہیں انہیں سمجھا کر صلح کروانا چاہیں تو وہ آپس میں صلح کرنے کے لئے راضی نہیں ہوتے اور صلح کرنے والا یہ سوچ کر سمجھانا چھوڑ دیتا ہے کہ یہ صلح کر ہی نہیں رہے، انہیں سمجھانا بیکار ہے۔ ایسا ہر گز نہیں کرنا چاہیے بلکہ حکمتِ عملی کے ساتھ اور محبت و نرمی کے ساتھ سمجھانا جاری رکھنا چاہیے۔ یاد رکھیے! مسلمان کو سمجھانا بیکار نہیں بلکہ مفید ہے۔ جیسا کہ

اللہ پاک کا فرمان ہے: ترجمعہ کنزالایمان: اور سمجھاؤ کہ سمجھانا مسلمانوں کو فائدہ دیتا ہے۔ (پ27، الذاریت، 55)

اللہ پاک کے اس فرمان سے معلوم ہوا کہ مسلمان کو سمجھانا بیکار نہیں ہے لہذا ایک دوسرے کو سمجھا کر صلح کروا کر اتفاق و اتحاد پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ہاں اگر بغض و کینہ، نفرتیں اور عداوت و دشمنی کسی بدمذہب سے ہو تو اس سے صلح نہ کی جائے اور نہ کروائی جائے کیونکہ بدمذہبوں سے دور رہنے کا ہی شریعت نے حکم دیا ہے اور ان سے کینہ بھی واجب ہے۔ منکر کے لئے نارِ جہنم ہے مناسب جو آپ سے جلتا ہے وہ جل جائے تو اچھا اللہ پاک ہمیں دوسرے مسلمانوں کا خیر خواہ بنائے اور آپس میں ناراض مسلمانوں کو حکمتِ عملی کے ساتھ سمجھا کر ان کے درمیان صلح کروانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامینﷺ