صلح بمعنی سلامتی، درستی، یہ مصالحت کا اسم ہے،(مذکر ومؤنث) کہا جاتا
ہے، یعنی صلح کرنے والے ہیں، اس طرح کہا جاتا ہے، قوم صلوحٌ یعنی رضامند ہیں، مصدر کے
ساتھ وصف بیان کیا جاتا ہے۔
صلح کروانا ہمارے پیارے مدنی آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ
ہے، اسی طرح کسی بزرگ کا قول بھی ہے"زندگی کے ہر موڑ پر صلح کرنا سیکھو،
جھکتا وہی ہے جس میں جان ہوتی ہے، اکڑنا تو مردے کی پہچان ہوتی ہے۔"
صلح کروانے کے بہت سے فضائل قرآن و حدیث میں وارد ہیں، قرآن مجید میں
پارہ 26 سورۃ الحجرات کی آیت نمبر 9 میں خدائے رحمٰن عزوجل کا فرمانِ عالیشان ہے:
وَ اِنْ طَآىِٕفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا
بَيْنَهُمَا١ۚ ترجمہ کنزالایمان:"اور اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں
تو ان میں صلح کراؤ۔"
اس آیت کریمہ کا شان نزول بیان کرتے صدر الفاضل حضرت علامہ مولانا سید
محمد نعیم الدین مرادآبادی علی رحمۃ اللہ علیہ نے خزائن العرفان میں فرماتے ہیں:"نبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم دراز گوش پر تشریف لے جا رہے تھے، انصار کی مجلس پر گزرے،
جہاں تھوڑا سا توقف فرمایا،اس جگہ درازگوش نے پیشاب کیا تو ابن ابئ نے اپنی ناک
بند کر لی،حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ
وسلم کے دراز گوش کا پیشاب تیرے مشک سے بہتر خوشبو ہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ
وسلم تشریف لے گئے، ان دونوں میں بات بڑھ گئی، اور ان دونوں کی قومیں آپس میں لڑ
گئیں اور ہاتھا پائی تک نوبت پہنچی،آقا صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف
لائے،ان میں صلح کرا دی۔
اس معاملہ میں یہ آیت نازل ہوئی، اس طرح ایک اور مقام پر اللہ عزوجل
کا فرمانِ عالیشان ہے: والصلح خیر۔ترجمہ
کنزالایمان:"اور صلح خوب ہے۔"(پارہ 5، سورہ نساء)
اسی طرح احادیث مبارکہ میں بھی صلح کروانے کے بے شمار فضائل بیان
ہوئے ہیں، نماز، روزہ، صدقہ سے افضل عمل اسے قرار دیا گیا ہے، چنانچہ
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہ سرورِ ذیشان صلی اللہ علیہ
وسلم کا فرمانِ مغفرت نشان ہے:"جو شخص لوگوں کے درمیان صلح کروائے گا، اللہ
تعالیٰ اس کا معاملہ درست فرما دے گا اور ہر کلمہ بولنے پر ایک غلام آزاد کرنے کا
ثواب عطا فرمائے گا، جب لوٹے گا تو اپنے پچھلے گناہوں سے مغفرت یافتہ ہو کر لوٹے گا۔"(الترغیب
والتر ہیب، کتاب الادب 321، حدیث9)
ایک اور حدیث مبارکہ میں تاجدارِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ
فضیلت نشان ہے:"کیا میں تمہیں روزہ، نماز اور صدقہ سے افضل نہ بتاؤں؟ صحابہ
کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی:یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ضرور بتائیے، ارشاد
فرمایا: وہ عمل آپس میں روٹھنے والوں میں صلح کرا دینا ہے، کیونکہ وہ روٹھنے والوں
میں فساد خیر کو کاٹ دیتا ہے۔"(ابو داؤد، کتاب الادب،ح 4919)
ان آیات و روایات سے صلح کروانے کی اہمیت اور اس کے فضائل و برکات
معلوم ہوئے، لہذا جب بھی کسی مسلمان میں ناراضگی ہو جائے تو ان کے درمیان صلح کروا
کر فضائل و برکات حاصل کرنے چاہئیں، مولانا روم فرماتے ہیں:
تو برائے وصل کردن آمدی
نے برائے فصل کردن آمدی
یعنی تو جوڑ پیدا کرنے کے لئے آیا ہے، توڑ پیدا کرنے کے لئے نہیں آیا۔
اللہ پاک ہمیں شیطان کے وسوسوں سے بچاتے ہوئے آپس کے تعلقات درست
رکھنے کی توفیق عطا فرمائے، مشہور کہاوت ہے:"سوئی بن جودو کو ایک کردے ،قینچی
نہ بن جو ایک کو دو کر دے"،یعنی مسلمان کے تعلقات کو جس طرح سوئی میں دھاگا
پرو کر دو کو ایک کر دیا جاتا ہے، مسلمان بھی ایک بن کر رہیں، نہ کہ قینچی جیسے
تعلقات کہ جو دو کپڑوں کو چار اور ایک کپڑے کو دو بنا دے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کوئی ایسی صلح بھی ہے، جو کروانا جائز نہیں؟
تو جی ہاں، ایسی صلح جس کا کروانا جائز نہیں، وہ یہ ہے کہ اگر بغض، کینہ، دشمنی کسی بد مذہب
سے ہو تو اس سے صلح نہ کی جائے، کیونکہ بدمذہبوں سے دور رہنے کا شریعت نے حکم دیا
ہے اور ان سے کینہ بھی واجب ہے۔
منکر کے لئے نارِ جہنم ہے مناسب
جو آپ سے جلتا ہے وہ جل جائے تو اچھا