ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہمارے لے بہترین نمونہ ہے۔ آپکی زندگی کا ہر گوشہ، ہر لمحہ ہمارے لئے قابل فخر اور قابل تقلید  ہے آپ ایذاء دینے والوں بلکہ اپنے جانی دشمنوں کوبھی معاف کردیا کرتے تھے۔

واہ رے حِلم کہ اپنا تو جگرٹکڑے ہو

پھر بھی ایذائےستم گرکے روادار نہیں

ہمیں بھی آقا علیہ السلام کی تقلید کر کے اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش آنا چاہیےاگر ان سے کوئی غلطی صادر ہو جائے تو معاف کر دینا چاہیے اگر ناراض ہو جائیں تو صلح میں پہل کرنا چاہیے کیونکہ رنجشوں اور ناچاقیوں سے نقصان ہوتا ہے اور یہ شیطان کی خوشی کا سامان ہے۔

جیسا کہ مولانا روم علیہ رحمۃ اللہ القیوم فرماتے ہیں

"تو برائے وصل کردن آمدی

نے برائے فضل کردن آمدی''

(یعنی تو جوڑ پیدا کرنے کے لئے آیا ہے،توڑ پیدا کرنے کے لئے نہیں آیا)

ہم اس دنیا میں ایک دوسرے کو رنج دینے جدائیاں پیدا کرنے نہیں آ ئے ہیں بلکہ آپس میں اتفاق و محبت کر کے جوڑ پیدا کرنے کے لئے آ ئے ہیں۔مسلمانوں میں صلح کروانا مکی مدنی آقاﷺ کی سنت ہے اور اعلی درجے کی عبادت ہے اس سنت کو اپنا کر ہم معاشرے میں امن وامان قائم رکھ سکتے ہیں۔

اللہ عزوجل سورۃ الھجرات /10 پ26 میں ارشاد فرماتا ہے

ترجمہ کنزالایمان؛"مسلمان مسلمان بھائی ہیں تو اپنے دو بھائیوں میں صلح کرو اور اللہ سے ڈرو کہ تم پر رحمت ہو۔ ''

تفسیر صراط الجنان؛ ارشاد فرمایا مسلمان تو آپس میں بھائی بھائی ہی ہیں کیونکہ یہ آپس میں دینی تعلق اور اسلامی محبت کے ساتھ مربوط ہیں اور یہ رشتہ تمام دنیوی رشتوں سے مضبوط تر ہے لہذا جب کبھی دو بھائیوں میں جھگڑا ہو تو ان کے درمیان صلح کرادو اور اللہ سے ڈرو کہ تم پررحمت ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنا اور پرہیزگاری اختیار کرنا ایمان والوں کی باہمی محبت اور الفت کا سبب ہے اور جو اللہ سے ڈرتا ہے اس پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہوتی ہے۔(خازن ،الحجرات تحت الایۃ 10،168/4 مدراک للحجرات تحت اللایۃ 10 ،ص 1153 ،ملتقطا)(تفسیر صراط الجنان ص 422)

اللہ عزوجل پ 26 سورۃ الحجرات آیت 9 میں فرماتا ہے:

"اور اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑیں تو ان میں صلح کراؤ"

شان نزول:اس آیت کریمہ کا شان نزول بیان کرتے ہوئے صدرالافاضل حضرت علامہ نعیم الدین مرادآبادی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ خزائن العرفان میں فرماتے ہیں "نبی پاک ﷺ دراز گوش(خچر) پر سوار تشریف لے جا رہے تھے انصار کی مجلس پر گزر ھوا وہاں تھوڑا سا توقف فرمایا اس جگہ دراز گوش نے پیشاب کیا تو ابن ابی نے ناک بند کر لی حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حضور ﷺ کے خچر کا پیشاب تیرے مشک سے بہتر خوشبو رکھتا ہے حضور ﷺ تو تشریف لے گئے لیکن ان دونوں میں بات بڑھ گئ اور ان دونوں کی قومیں آپس میں لڑ گئیں اور ہاتھا پائ تک نوبت پہنچی تو سید عالم ﷺ واپس تشریف لائے اور ان کی صلح کروائ اس واقع پر یہ آیت نازل ہوئی-

احادیث مبارکہ کی روشنی میں صلح کے فضائل و برکات:-

حضرت ام کلثوم بنت عقبہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کہ سید المرسلین ﷺ نے ارشاد فرمایا "وہ شخص جھوٹا نہیں ہو سکتا جو لوگوں کے درمیان صلح کرائے کی اچھی بات پہنچاتا ہے اور اچھی بات کہتا ہے"(بخاریَ، کتاب الصلح، باب لیس الکاذب الذی یصلح بین الناس 2/210 الحدیث2692)(صراط الجنان جلد9ص415پ26)

احادیث مبارکہ میں صلح کروانے کے بے شمار فضائل بیان ہوئے ہیں چناچہ حضرت سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے وایت ہے سرور کونین ﷺ کا فرمان عالیشان ہے کہ "جو شخص لوگوں کے درمیان صلح کروائے گا اللہ عزوجل اس کا معاملہ درست فرمائے گا اور اسے ہر کلمہ بولنے پر ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب عطا فرمائے گا اور جب وہ لوٹے گا تو اپنے پچھلے گناہوں سے مغفرت یافتہ ھو کر لوٹے گا(الترغیب والترھیب ،کتاب الادب وغیرہ ، الترغیب فی الاصلاح بین الناس 3/321 حدیث9 دارالکتب العلمیۃ بیروت(رسالہ صلح کروانے کے فضائل ص5 فیضان مدنی مذاکرہ قسط؛29)

حدیث پاک میں صلح کروانے کی اہمیت اور اس کے فضائل معلوم ہوئے لہذا جب کبھی مسلمانوں میں ناراضی ہوجائے تو ھمیں صلح کرواکر ادائے مصطفی کو ادا کرنا چاہئےحضور پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا "کیا میں تمہیں نماز، روزے اور صدقے سےافضل چیز کے بارے میں نہ بتاوں صحابہ کرام نے عرض کی کیوں نہیں ارشاد فرمایا:یعنی لوگوں کے درمیان صلح کرانا کیونکہ باہمی تعلقات میں بگاڑ دین کو مٹانے والا ہے''۔

ان تمام احادیث مبارکہ کی روشنی میں صلح کروانے کی اھمیت اجاگر ھو رہی ہے ھمیں بھی صلح کروانے کے ان فضائل کو مدنظر رکھ کر ناراض ھونے والوں کو منانا چاہئے

کون سی صلح کروانا جائز نہیں؛ البتہ یاد رہے کہ مسلمانوں میں وہی صلح کروانا جائز ھے جو شریعت کے دائرے میں ھو جبکہ ایسی صلح جو حرام کو حلال اورحلال کو حرام کردے وہ جائز نہیں ھے جیسا کہ حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ھے حضور اقدسﷺ نے ارشاد فرمایا"مسلمانوں کے مابین صلح کروانا جائز ھے مگر وہ صلح(جائز نہیں) جو حرام کو حلال کر دے یا

حلال کو حرام کردے(ابوداود کتاب الافضیہ باب فی الصلح 3 / 425 حدیث 3594)(تفسیر صراط الجنان ج 9 سورہ الھجرات پ 26 ص 415)

جیسے عورت کو تین طلاق دینے والے شوہر سے لوگ کہتے ھیں کہ کوئی بات نہیں تم سے جو غلطی ہوئی ہے اللہ معاف کرے گا اب تم آپس میں صلح کرلو ایسی صلح کروانے والے خود بھی گناہ گار ھونگے اور ان کے درمیان تعلق قائم کرنا حرام ہوگا اور اس حرام کام میں جو ان کی مدد کر رہے ہیں وہ بھی اس کے گناہ میں برابر کے شریک ھوں گے اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو عقل سلیم عطا فرمائے اور شریعت کی حدود میں رہتے ھوئے مسلمانوں کے درمیان صلح کروانے کی توفیق عطا فرمائے اللہ عزوجل ہمیں نرمی اپنانے ایک دوسرے کو منانے اور لڑائی جھگڑے سے خود کو بچانے کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ النبی الامین ﷺ

تو نرمی کو اپنانا جھگڑے منانا رہے گا سدا خوشنما مدنی ماحول

تو غصے جھڑکنے سے بچنا وگرنا یہ بدنام ہو گا تیرا مدنی ماحول