صلح کروانا اور کرنا ربّ کریم جل جلالہ کو خوش کرنے والا کام ہے، صلح کرنے سے اللہ پاک راضی ہوتا ہے، صلح کروانا پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم  کی پیاری سنت ہے، صلح کروانا اسلاف کا معمول رہا ہے، صلح کرنے اور کروانے سے مسلمانوں کے دل خوش ہوتے ہیں، صلح کرنے اور کروانے سے شیطان ناراض ہوتا ہے، صلح کرنے سے اللہ پاک کی رحمت اترتی ہے حتی کہ قیامت کے دن ربّ کریم اپنے بندوں کے درمیان صلح کروائے گا، اسلام امن و سلامتی والا عالمگیر مذہب ہے، یہ مسلمانوں کو آپس کے لڑائی جھگڑوں، ناراضگیوں، منافرت اور قطع تعلقی سے بچنے اور اتفاق و اتحاد و امن و سلامتی کے ساتھ مل جل کر رہنے کا درس دیتا ہے اور اگر کبھی کوئی مسلمان کسی معاملے میں دوسرے مسلمان سے لڑ پڑے، ناراض ہو جائے تو دیگر مسلمانوں کو ان میں صلح کروانے کا حکم دیتا ہے، تاکہ مسلمان متحد ہو کر رہیں اور متفرق نہ ہوں۔

مسلمانوں میں صلح کروانے والوں کے لئے قرآن و حدیث میں جابجا فضائل بیان کئے گئے ہیں، چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:

ترجمہ کنزالایمان:"مسلمان مسلمان بھائی ہیں تو اپنے دو بھائیوں میں صلح کرو۔"(پارہ26، الحجرات: 10)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"کیا میں تمہیں ایسے عمل کے بارے میں نہ بتاؤں، جس سے اللہ اور اس کے رسول پسند کرتے ہیں؟ وہ یہ ہے کہ جب لوگ ایک دوسرے سے ناراض ہو کر روٹھ جائیں تو ان میں صلح کروا دو۔"(الترغیب والترہیب3/321، حدیث8) اے عاشقانِ رسول!

ہمیں بھی چاہیئے کہ ان فضائل کو حاصل کرنے کے لئے روٹھنے والے مسلمانوں میں صلح کروا دیا کریں، صلح کروانے سے پہلے اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا کریں، پھر لڑنے والوں کو الگ الگ بٹھا کر ان کی سنیں، پھر نرمی سے صلح کے فضائل بیان کریں اور آپسی جھگڑے و اختلافات کے دینی و دنیاوی نقصانات بیان کریں اور پھر دونوں کو آمنے سامنے بٹھا کر آپس میں صلح کروادیں۔