صلح کے معنی ہیں، سلامتی، دوستی، پر امن ہونا اور یہ جنگ کا الٹ ہے، یعنی
لڑائی اور جنگ والے معاملات کو ختم کر کے سلامتی و امن قائم کرنا صلح ہے، صلح
کروانا میٹھے آقا، مدنی مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت بھی ہے اور اعلی درجہ کی
عبادت بھی، قرآن کریم اور احادیث کریمہ میں اس کے متعلق بہت سی برکات اور فضائل کا
بیان ہے، یہاں چند پیش کی جاتی ہیں،ارشادِ باری تعالیٰ ہے: وَ الصُّلْحُ خَيْرٌ١ؕ
"اورصلح خوب ہے۔"(پارہ 5، سورۃ النساء:128)
ایک اور مقام پر صلح کی ترغیب دلاتے ہوئے ارشاد فرمایا۔
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ فَاَصْلِحُوْا بَيْنَ اَخَوَيْكُمْ وَ اتَّقُوا
اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَؒ۱۰
ترجمہ کنزالایمان:"مسلمان، مسلمان بھائی ہیں تو اپنے دو بھائیوں
میں صلح کرادو اور اللہ سے ڈرو تاکہ تم پر رحمت ہو۔"
تفسیر صراط الجنان میں اس آیت کے تحت درج ہے کہ جب دو بھائیوں میں
جھگڑا ہو تو ان میں صلح کرا دو اور اللہ سے ڈرو تا کہ تم پر رحمت ہو، کیونکہ اللہ
تعالیٰ سے ڈرنا اور پرہیزگاری اختیار کرنا ایمان والوں کی باہمی محبت اور الفت کاسبب
ہے اور جو اللہ سے ڈرتاہے، اس پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہوتی ہے۔"(خازن، تحت
الآیۃ10، 4/168)
احادیث طیبہ میں بھی صلح کے بہت فضائل کا بیان ہے، چنانچہ
روزے، نماز اور زکوۃ سے افضل عمل:
حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا:"کیا میں تمہیں ایسا کام نہ بتاؤں، جو درجے میں روزے، نماز
اور زکوة سے بھی افضل ہے؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی:یارسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم کیوں نہیں، فرمایا:آپس میں صلح کروا دینا۔"(ابو داؤد، کتاب
الادب، باب فی اصلاح ذات البین ،ح 4919)
صلح کرنے والے کا معاملہ اللہ عزوجل درست فرما دے گا:
محبوب ربّ رحمن صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ عظمت نشان ہے:" جو
شخص لوگوں کے درمیان صلح کروائے گا، اللّٰہ عزوجل اس کامعاملہ درست فرمادے گا اور
اسے ہر کلمہ بولنے پر ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب عطا فرمائے گا اور جب وہ لوٹے گا
تو اپنے پچھلے گناہوں سے مغفرت یافتہ ہو کر لوٹے گا۔(الترغیب والتر ہیب، کتاب
الادب وغیرہا، الترغیب فی الاصلاح بین
الناس، جلد 3/321، حدیث9، دار الکتب العلمیہ بیروت)
صلح کرانے والا جھوٹا نہیں:
حضرت ام کلثوم بنت عقبہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، سید عالم امام
المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"وہ شخص جھوٹا نہیں، جو لوگوں
کے درمیان صلح کرائے کہ اچھی بات پہنچاتا ہے یا اچھی بات کہتا ہے۔"(بخاری،
کتاب الصلح، 2/210، ح2692)
کیا صلح کروانا ناجائز بھی ہے؟
جی ہاں، یاد رہے! کہ مسلمانوں میں وہی صلح کروانا جائز ہے، جو شریعت
کے دائرے میں ہو، جبکہ ایسی صلح جو حرام کو حلال اور حلال کو حرام کر دے، وہ جائز
نہیں، جیسا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضور اقدس صلی اللہ علیہ
وسلم نے ارشاد فرمایا:"مسلمانوں کے مابین صلح کروانا جائز ہے، مگر وہ صلح جو
حرام کو حلال کر دے یا حلال کو حرام کر دے، (وہ جائز نہیں)۔(ابو داؤد، کتاب الاقضیۃ،
باب فی الصلح 3/425، ح3594)
اللہ کریم ہمیں ظاہری، باطنی گناہوں سے بچتے ہوئے اور مسلمانوں کی خیر
خواہی، ہمدردی اور محبت کے جذبے کے تحت مسلمانوں کے مابین صلح و صفائی اور امن
قائم کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین