اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ فَاَصْلِحُوْا بَيْنَ اَخَوَيْكُمْ ترجمہ کنزالایمان:"مسلمان، مسلمان بھائی ہیں تو اپنے بھائیوں میں
صلح کرو اور اللہ سے ڈرو، تاکہ تم پر رحمت ہو۔"(پ26، حجرات:10)
صلح کروانا افضل عبادت ہے، لیکن صلح کرواتے وقت یہ بات ذہن میں رہے
کہ مسلمان میں صرف وہی صلح کروانا جائز ہے، جس میں شرعی طور پر کوئی برائی نہ ہو،
صلح کے فضائل پر 5 فرامینِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ملاحظہ ہوں۔
1۔حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا:"کیا میں تمہیں ایسا کام نہ بتاؤں، جو درجے میں روزے، نماز اور
زکوة سے بھی افضل ہے؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی:یارسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم کیوں نہیں، فرمایا:آپس میں صلح کروا دینا۔"(ابو داؤد،4/365،ح 4919)
2۔حضرت ام کلثوم، بنتِ عقبہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"وہ شخص جھوٹا نہیں، جو لوگوں کے
درمیان صلح کروائے کہ اچھی بات پہنچاتا یا اچھی بات کہتا ہے۔"(صراط الجنان،
ج9، ص416،بخاری،2/210،حدیث نمبر 2692)
3۔ایک روز سرورِکائنات صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے، چہرہ
مبارک پر تبسم نمودار ہوا، جناب عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے عرض کی، یارسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم میرے ماں باپ آپ پر قربان! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کس لئے تبسم
فرمایا؟ارشاد فرمایا: میرے دو امتی اللہ کریم کی بارگاہ میں دو زانو ہو کر گر پڑیں
گے، ایک عرض کرے گا، یا اللہ اس سے میرا انصاف دلا، کہ اس نے مجھ پر ظلم کیا تھا،
اللہ کریم مدّعی(یعنی دعویٰ کرنے والے) سے فرمائے گا، تم اپنے بھائی کے ساتھ کیا
کرو گے، اس کے پاس تو کوئی نیکی باقی نہیں، مظلوم عرض کرے گا:میرے گناہ اس کے ذمے
ڈال دیں، اتنا ارشاد فرماکر سرورِکائنات صلی اللہ علیہ وسلم روپڑے، فرمایا:وہ دن
بہت عظیم دن ہوگا، کیونکہ اس وقت ہر ایک اس بات کا ضرورت مند ہو گا کہ اس کے
گناہوں کا بوجھ ہلکا ہو، اللہ پاک مظلوم سے فرمائے گا، دیکھ تیرے سامنے کیا ہے؟ وہ
عرض کرے گا، اے پروردگار! میں اپنے سامنے سونے کے بڑے بڑے شہر اور بڑے بڑے محلات دیکھ
رہا ہوں، جو موتیوں سے آراستہ ہیں، یہ شہر اور عمدہ محلات کس پیغمبر یا صدیق یا شہید
کے لئے ہیں؟ اللہ کریم فرمائے گا: یہ اس کے لئے ہیں، جو ان کی قیمت ادا کرے، بندہ
عرض کرے گا:ان کی قیمت کون ادا کرسکتا ہے؟اللہ کریم فرمائے گا: تو ادا کرسکتا ہے،
عرض کرے گا:کس طرح؟ اللہ کریم فرمائے گا:اس طرح کہ تو اپنے بھائی کے حقوق معاف
فرما دے، بندہ عرض کرے گا:یا اللہ میں نے سب حقوق معاف کئے، اللہ پاک فرمائے گا،
اپنے بھائی کا ہاتھ پکڑو اور جنت میں چلے جاؤ۔ پھر سرکارِ نامدار اللہ نے فرمایا:"اللہ
سے ڈرو اور مخلوق میں صلح کرواؤ، کیونکہ اللہ نے بھی بروزِ قیامت مسلمانوں میں صلح
کروائے گا۔"(مستدرک للحاکم،5/795، حدیث8758)
4۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضور اقدس صلی اللہ علیہ
وسلم نے ارشاد فرمایا:"مسلمانوں کے مابین صلح کروانا جائز ہے، مگر وہ صلح
جائز نہیں، جو حرام کو حلال کر دے یا حلال کو حرام کر دے۔"(ابوداؤد 3/425، ح3594)
5۔ حضرت سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرورِ ذیشان صلی اللہ
علیہ وسلم کا فرمان مغفرت نشان ہے:"جو شخص لوگوں کے درمیان صلح کرائے گا،
اللہ عزوجل اس کا معاملہ درست فرمائے گا اور ہر کلمہ بولنے پر ایک غلام آزاد کرنے
کا ثواب عطا فرمائے گا اور جب وہ لوٹے گا تو اپنے پچھلے گناہوں سے مغفرت یافتہ ہو
کر لوٹے گا۔"(الترغیب والتر ہیب، 3/321، ح9،صلح کروانے کے فضائل، ص4)