میاں بیوی کا رشتہ اگرچہ کچے دھاگے سے بندھا ہوتا ہے مگر اسلام نے دونوں کو ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھتے ہوئے اس رشتے کو مضبوط بنانے کا جو طریقہ بتایا ہے، اس کے پیش نظر زندگی کے ساتھ ساتھ اس مقدس رشتے کی مضبوطی میں مزید اضافہ ہی ہوتا ہے۔ میاں بیوی چونکہ گاڑی کے دو پہیوں کی مثل ہوتے ہیں جن کا متوازی اور ایک دوسرے کے ساتھ چلنا انتہائی ضروری ہوتا ہے، لہذ از ندگی کے کسی موڑ پر اگر ایک پہیہ کمزور بھی پڑ جائے تو دوسرا اسے سہارا دیتا ہے۔ صحابیات طیبات کی ازدواجی زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ انہوں نے ہمیشہ اپنے زندگی کے ہم سفر کا ساتھ دیا، ان کے دکھ سکھ اور سفر و حضر میں ان کے قدم سے قدم ملا کر چلتی رہیں۔ زندگی کے کسی موڑ پر بھی انہوں نے اپنے ہم سفر کو کبھی تھکن محسوس نہ ہونے دی، بلکہ ہمیشہ ان کی ڈھارس بندھائے رہتیں۔ جیسا کہ جنگ یرموک کے موقع پر رومیوں کی پے در پے یلغار کی تاب نہ لاتے ہوئے جب حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ جیسے بطل جلیل (بہت بڑے بہادر) کا حوصلہ بھی پست ہو گیا تو ان کی زوجہ حضرت ہندہ رضی اللہ عنہا نے جس طرح ان کے حوصلے کو مہمیز لگائی وہ اپنی مثال آپ ہے۔ (صحابیات و صالحات کے مدنی پھول، ص386تا 389)

شوہر کے حقوق اس قدر ہیں کہ اس کے حقوق ادا کرنے سے جنت بھی ملنے کی بشارت ہے اور اگر حقوق ادا نہ کرے تو جہنم کی وعید بھی سنائی گئی ہے۔اللہ پاک نے عورت سے زیادہ مرد کو مقام و مرتبہ عطا کیا ہے۔جیسے کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ (پ 5، النساء: 34) ترجمہ کنز العرفان: مرد عورتوں پر نگہبان ہیں۔ ہم اسلامی بہنوں کو چاہیے کہ شادی سے پہلے اس کے متعلق ضرور علم حاصل کریں، آئیے حدیث مبارکہ میں حضور ﷺ کے ارشادات سے شوہر کے متعلق حقوق کے بارے میں جانتی ہیں:

1۔ ایک خثعمیہ خاتون نے بارگاہ رسالت میں عرض کی: یارسول اللہ میری شادی نہیں ہوئی، مجھے بتائیں کہ شوہر کا عورت پر کیا حق ہے؟ تاکہ اگر میں اُس کے ادا کی طاقت دیکھوں تو نکاح کروں ورنہ یوں ہی بیٹھی رہوں۔ ارشاد فرمایا: بیشک شوہر کا زوجہ پر حق یہ ہے کہ عورت کجاوہ پر بیٹھی ہو اور مرد اُسی سواری پر اس سے نزدیکی چاہے تو انکار نہ کرے اور مرد کا عورت پر یہ بھی حق ہے کہ اس کی اجازت کے بغیر نفلی روزہ نہ رکھے، اگر رکھے گی تو بے کار بھوکی پیاسی رہی، روزہ قبول نہ ہوگا اور گھر سے اس کی اجازت کے بغیر بھی کہیں نہ جائے، اگر جائے گی تو آسمان اور رحمت و عذاب کے فرشتے سب اس پر لعنت کریں گے جب تک کہ پلٹ کر نہ آئے۔ یہ سن کر عرض کرنے لگی: پھر تو میں کبھی نکاح نہ کروں گی۔ (مجمع الزوائد، 4/403، حدیث: 7638)

2۔ ایک اور صحابیہ نے بارگاہ رسالت میں اپنے چچا کے بیٹے کے متعلق عرض کی کہ اس نے مجھے پیام نکاح دیا ہے۔ لہذا مجھے بتائیے کہ شوہر کا عورت پر کیا حق ہے؟ اگر اس کی ادائیگی میرے بس میں ہو تو میں اُس سے نکاح کرلوں۔ ارشاد فرمایا: مرد کا ایک ادنیٰ حق یہ ہے کہ اگر اُس کے دونوں نتھنے خون یا پیپ سے بہتے ہوں اور عورت اُسے اپنی زبان سے چاٹے تو بھی شوہر کے حق سے بری نہ ہوئی، اگر آدمی کا آدمی کو سجدہ روا ہوتا تو میں عورت کو حکم دیتا کہ مرد جب باہر سے اس کے سامنے آئے، اسے سجدہ کرے کہ خدا نے مرد کو فضیلت ہی ایسی دی ہے۔ یہ ارشاد سُن کر وہ بولی: قسم اس کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا میں ساری زندگی نکاح کا نام نہ لوں گی۔ (مجمع الزوائد، 4/403، حدیث:7639)

3۔ ایک صحابی اپنی بیٹی کو لے کر بارگاہ نبوی میں حاضر ہوئے اور عرض کی: میری یہ بیٹی نکاح کرنے سے انکار کر رہی ہے۔ حضور ﷺ نے اسے ارشاد فرمایا: اپنے باپ کا حکم مانو۔ تو اس لڑکی نے عرض کی: قسم اس کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا! میں (اس وقت تک) نکاح نہ کروں گی جب تک آپ مجھے یہ نہ بتائیں کہ خاوند کا عورت پر کیا حق ہے؟ ارشاد فرمایا: شوہر کا حق عورت پر یہ ہے اگر اس کے کوئی پھوڑا ہو عورت اسے چاٹ کر صاف کرے یا اس کے نتھنوں سے پیپ یا خون نکلے عورت اسے نگل لے تو بھی مرد کا حق ادانہ ہو۔ اس پر اس نے قسم کھائی کہ میں کبھی شادی نہ کروں گی تو حضور پر نور ﷺ نے ارشاد فرمایا: عورتوں کا نکاح نہ کرو جب تک ان کی مرضی نہ ہو۔ (مستدرک، 2/547، حدیث: 2822)

4۔ روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عورتوں سے فرمایا کہ اے عورتوں کی جماعت اللہ پاک سے ڈرو اور اپنے شوہر کی خوشیوں کو پیش نظر رکھو۔ اگر عورت جان لے کہ اس کے شوہر کا کیا حق ہے تو صبح وشام کا کھانا لے کر کھڑی رہے۔ (کنز العمال، جز 16، 2/145، حدیث: 44809)

5۔ ایک مرتبہ حضرت خولاء عطارہ رضی اللہ عنہا نے بارگاہ مصطفے میں اپنے شوہر کی شکایت کرتے ہوئے عرض کی: میں رضائے الہی کی خاطر ہر روز اپنے شوہر کے لیے دلہن کی طرح خوشبو لگاتی اور بناؤ سنگار کرتی ہوں، اس کے باوجو دوہ مجھ میں رغبت نہیں رکھتے، بلکہ ان کے پاس جاتی ہوں تو وہ اپنا چہرہ پھیر لیتے ہیں، اب تو مجھے یہ محسوس ہونے لگا ہے کہ وہ مجھے پسند ہی نہیں کرتے۔ اس پر آپ نے انہیں سمجھاتے ہوئے ارشاد فرمایا: جا کر اپنے شوہر کی اطاعت کرتی رہو۔ عرض کی: اس میں میرے لیے کیا اجر ہے؟ تو آپ نے اسے بتایا کہ میاں بیوی جب ایک دوسرے کے حقوق ادا کرتے ہیں تو بہت زیادہ اجر کے مستحق ٹھہرتے ہیں، مزید آپ نے حمل کی تکالیف اور ولادت سے دودھ چھڑانے تک کے تمام معاملات میں ملنے والے اجر کا بھی ذکر فرمایا۔ (اسد الغابہ، 7/77)

ان حدیث مبارکہ میں ان اسلامی بہنوں کو عبرت و نصیحت حاصل کرنی چاہیے جو اپنے شوہر کے آگے زبان چاہتی ہیں انہیں جوتی کی نوک کے برابر رکھتی ہے اور عورتیں اپنے شوہر پر چلاتی ہیں۔جو اسکی مرضی کی بجائے اپنے مرضی کرتی ہیں جو اس سے ہر وقت لڑائی بجھائی میں لگی رہتی ہیں۔اس قدر شوہر کے حقوق ہیں اللہ اکبر! صحابیات کی سیرت کا مطالعہ کریں۔ آئیے امیر اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ کی اپنی بیٹی کو رخصتی کے وقت کی جانے والی چند نصیحتیں ملاحظہ کرتی ہیں:

امیر اہل سنت کی اپنی شہزادی کو رخصتی کے وقت نصیحتیں:

شوہر کی طرف سے ملنے والا ہر حکم جو خلاف شرع نہ ہو بجالاناضروری ہے۔ اپنے شوہر اور ساس کا کھڑے ہوکر استقبال کیجئے اور کھڑے ہو کر ہی رُخصت بھی کیجئے۔ دن میں کم از کم ایک بار (ممکن ہو تو) ساس کی دست بوسی کیجئے۔ اپنی ساس اور سسر کا والدین کی طرح اکرام کیجئے۔ ان کی آواز کے سامنے اپنی آواز پست رکھئے۔ ان کے اور اپنے شوہر کے سامنے جی جناب سے بات کیجئے۔ شوہر ضرورتاً سزا دینے کا مجاز ہے۔ ایسا ہو تو صبر و تحمل کا مظاہرہ کیجئے، جھگڑا کر کے یا زبان درازی کر کے گھر سے رُوٹھ کر آجانے کی صورت میں آپ پر میکے کے دروازے بند ہیں۔

ہاں بغیر روٹھے شوہر کی اجازت کی صورت میں جب چاہیں میکے آسکتی ہیں۔ اپنے میکے کی کوتاہیاں شوہر کو بتا کر غیبت کے گناہ کبیرہ میں نہ خود مبتلا ہوں نہ اپنے شوہر کو سننے کے گناہ کبیرہ میں ملوث کریں۔ بہارِ شریعت حصہ 7 سے نان نفقہ کا بیان، زو جین کے حقوق وغیرہ کا مطالعہ کر لیجئے۔ اپنے لئے کسی قسم کا سوال اپنے شوہر سے کر کے ان پر بوجھ مت بننا۔ ہاں اگر وہ منظور کردہ حقوق ادا نہ کریں تو مانگ سکتی ہیں۔ مہمان کی خدمت سعادت سمجھ کر کرنا، اس کے اخراجات کے معاملے میں شوہر پر بے جا بوجھ مت ڈالنا اپنے والد (یعنی سگِ مدینہ) سے طلب کر لینا۔ ان شاء اللہ مایوسی نہیں ہوگی اور اگر وہ خوش دلی سے رضامند ہوں تو ان کی سعادت مندی ہوگی۔ شوہر کی اجازت کے بغیر ہر گز گھر سے نہ نکلیں۔ (صحابیات و صالحات کے مدنی پھول، ص 406تا 405)

میری ہر بہن سے مدنی التجاء ہے کہ ان نصیحتوں کو اچھی طرح پڑھ لیں بلکہ یاد کر کے دوسروں تک پہنچائیں اوپر بیان کردہ احادیث مبارکہ کو ملاحظہ فرمائیں اور ان سے مدنی پھول حاصل کیجئے۔ اللہ کریم سے دعا ہے کہ ہمیں ازدواجی زندگی کو خوشیوں سے بھرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ہر بیوی کو شوہر کے حقوق کے ساتھ سب کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین