محمد شاہد مہتاب عطاری (درجہ دورۃ الحدیث شریف جامعۃ المدینہ فیضان عطار، ناگپور)
جب
بھی کسی کی تعریف کی جاتی ہے یا تو دیکھ کر کی جاتی ہے یا سن کر ۔ اور یہ بات ظاہر
ہے کہ دیکھی جانے والی چیز نہ دیکھے ہوئے کے مقابلے میں زیادہ معتبر ہوتی ہے۔ جیسا
کہ عربی مقولہ ہے "لَيْسَ الْخَبَرُ كَالْمُعَايَنَةِ"
اور
فارسی میں کہا جاتا ہے شنیدہ کَےْ بُوَد مانند دیدہ (یعنی سنی ہوئی بات دیکھی ہوئی
کی طرح نہیں ہو سکتی)نیز اگر وہی بات ایسی عظیم شخصیت نے کی ہو جسے آقائے کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے باب العلم کے لقب سے سرفراز کیا ہو۔ تو اس کی
بات کس اعلی معیار کی ہوگی۔ اور بات بھی کسی عام شخص کے بارے میں نہ ہو بلکہ افضل
البشر بعد الانبیاء بالتحقیق کے بارے میں ہو تو پھر کون اس رفیع القدر شخصیت کے
بارے میں شک کر سکتا ہے ۔
شان
صدیق اکبر رضی اللہ عنہ تو قرآن و حدیث میں جا بجا وارد ہوئی ہے اور یہ کسی اہل علم پر پوشیدہ نہیں ۔لیکن شان یارغار بزبان حیدر کرار ملاحظہ
فرمائیے کہ کس اچھوتے اور انوکھے انداز میں مولاے کائنات رضی اللہ عنہ نے یارِ غار نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی
مدح و سرائی کی ہے۔
امت میں سب سے افضل !:حضرت
اصبغ بن نباتہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے استفسار
(Question) کیا:
اس امت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے افضل کون ہیں؟فرمایا: اس
امت میں سب سے افضل حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں۔ (الرياض النضرة ،1/49)
آل فرعون کے مؤمن سے
بہتر:ایک
مقام پر شیر خدا کرم اللہ وجہہ الکریم نے اُس دن سے متعلق ارشاد فرمایا جس دن
کفارِ قریش اللہ پاک کے محبوب صلی اللہ علیہ
وسلم کو تکلیفیں دے
رہے تھے۔ اور کوئی بھی آپ صلی اللہ علیہ
وسلم کے قریب نہ
گیا ،سوائے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے، آپ ایک قریشی کو پیٹتے ،اور دوسرے
کو دھکا دیتے ،تیسرے پر دباؤ ڈالتے ہوئے سب کو پیچھے ہٹانے لگتے اور ساتھ ساتھ یہ
فرماتے جاتے : افسوس ہے تم پر! ایسی شخصیت کو شہید کرنا چاہتے ہو جس کا کہنا ہے کہ
میرا رب اللہ ہے ۔‘‘یہ فرمانے کے بعد انہوں نے اپنے
اوپر سے چادر اٹھائی اور زارو قطار رونے لگے اور اتنا روئے کہ آپ کی ریش مبارک(beard)
آنسوؤں
سے تر ہوگئی، پھر ارشاد فرمایا: میں تمہیں خدا کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں مجھے
بتاؤ کہ’’ آل فرعون کا مؤمن برتر تھا یا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ؟ ‘‘تمام
لوگ خاموش رہے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
مجھے جواب کیوں نہیں دیتے؟ خدا کی قسم! حضرت ابوبکر صدیق کی حیاتِ طیبہ کا ایک
لمحہ آلِ فرعون کے مؤمن جیسے شخص کے ہزاروں لمحات سے بہتر ہے، ارے وہ شخص تو اپنے
ایمان کو چھپایا کرتا تھا اور یہ پاکیزہ ہستی اپنے ایمان کا اعلانیہ اظہار کرتی
تھی ۔
(تاريخ الخلفاء ص 33)
سب سے زیادہ ثواب کے حق
دار
!:حضرت
علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: "أعظمُ الناسِ في المصاحفِ أجراً أبو بكر رحمة الله
على أبي بكر هو أولُ من جمع كتابَ اللہ یعنی مصاحف میں سب سے زیادہ
ثواب حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا ہے اور اللہ پاک ان پر رحم فرمائے
کہ انہوں نے سب سے پہلے قرآن کو جمع فرمایا ۔‘‘ (عمدة القاري ،19/24)
سب سے زیادہ رحم دل:ایک
مقام پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یاد رکھو! وہ(صدیق اکبر) انسانوں میں سب
سے زیادہ رحم دل،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یارِ غار اور آپ صلی اللہ
علیہ وسلم کو اپنے مال
سے سب سے زیادہ نفع پہچانے والے ہیں۔
(الرياض
النضرة ،1/114)
الزام تراشوں والی سزا:حضرت
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جو مجھے حضرت ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما سے
افضل کہے گا تو میں اس کو مفتری کی (یعنی تہمت لگانے والے کو دی جانے والی ) سزا
دوں گا۔(تاريخ مدينہ دمشق ،30/383)
ان
تمام اقوال وآثار سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ
عنہ کس اعلی درجے پر فائز تھے اور صحابہ کا آپس میں ایک دوسرے سے الفت و محبت کا
کیسا اچھوتا انداز تھا ۔
اللہ
پاک ہمیں صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اور تمام صحابہ کے فیضان سے مالامال فرمائے۔اٰمین
بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم