حضرت سیدنا علی المرتضی شیر خدا رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
میں حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی حیات طیبہ کے آخری لمحات میں آپ کی خدمت
میں حاضر تھا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے مجھ سے فرمایا: اے علی جب میرا انتقال ہو جائے
تو مجھے بھی اسی مبارک برتن سے غسل دینا جس برتن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
کو غسل دیا گیا تھا۔ پھر مجھے کفن دے کر نبی کریم رؤف الرحیم صلی اللہ علیہ وسلم
کی قبر انور کی جانب لے جانا اور بارگاہ رسالت سے یوں اجازت طلب کرنا: السلام
علیک یا رسول اللہ ! ھذا ابو بکر یستاذن یعنی یا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !آپ پر سلام ہو ابوبکر آپ کی خدمت میں حاضر ہے اور
اجازت چاہتے ہیں۔ اگر روضہ اقدس کا دروازہ کھلے تو مجھے اس میں دفن کرنا نہ اور
اگر اجازت نہ ملے تو مسلمانوں کے قبرستان ( جنّت البقیع) میں دفن کر دینا۔ حضرت
سیدنا علی المرتضی شیر خدا کرم اللہ وجہ الکریم فرماتے ہیں کہ میں حضرت سیدنا
ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو غسل و کفن کے معاملات سے فارغ ہونے کے بعد آپ رضی
اللہ عنہ کی کے مطابق روضہ محبوب کے دروازے پر حاضر ہوا رسول اکرم صلی اللہ علیہ
وسلم کی بارگاہ میں یوں عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ابوبکر آپ سے اجازت کے طالب ہیں۔ حضرت سیدنا علی
المرتضی شیر خدا رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جیسے میرے الفاظ مکمل ہوئے تو میں نے
دیکھا کہ روزہ رسول اللہ کا دروازہ کھل گیا اور اندر سے آواز آئی: ادخلوا
الحبیب الی الحبیب یعنی محبوب کو محبوب سے ملا دو۔ چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ کو
سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں دفنا دیا گیا۔(الخصائص الکبریٰ، 2/492)
حضرت سیدنااصبغ بن نباتہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
فرماتے ہیں کہ میں نے امیر المومنین حضرت سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ سے
استفسار کیا کہ امت میں رسول اللہ کے بعد سب سے افضل کون ہے؟ فرمایا: اس امت میں
سب سے افضل حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں، ان کے بعد حضرت سیدنا عمر
فاروق رضی اللہ عنہ، پھر حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ پھر میں (یعنی حضرت علی
رضی اللہ عنہ )۔(الریاض النضرۃ، 1/57)
حضرت علی المرتضی شیر خدا رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: غزوہ بدر کے روز
ہم نے دو عالم کے مالک کو مختار مکی مدنی سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اور
نگہداشت کے لئے ایک سائبان بنایا تاکہ کوئی کافر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ کر
کے تکلیف نہ پہنچا سکے، اللہ پاک کی قسم ہم سے کوئی بھی آگے نہیں بڑھا صرف حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ننگی تلوار
ہاتھ میں لئے آگے تشریف لائے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھڑے ہو گئے
اور پھر کسی کافر کو یہ جرأت نہ ہو سکی کہ آپ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب
بھی پھٹکے اس لئے ہم میں سب سے زیادہ بہادر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی ہیں۔
( کنزالعمال ،کتاب الفضائل، فضائل الصحابہ
6/235،الحدیث:35685)