علمائے اہل سنت کا اس بات پر اجماع ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ انبیاء کرام کے بعد سب سے افضل ہیں۔

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیوں! حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی شان بیان کرتے ہوئے مولائے کائنات جناب علی المرتضی شیر خدا رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

خیر ھذہ الامۃ بعد نبیھا ابوبکر و عمر یعنی اس امت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے بہتر حضرت ابوبکر کو عمر رضی اللہ عنہما ہیں۔

نوٹ: علامہ ذھبی اس قول کے بارے میں فرماتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا یہ قول ان سے تواتر کے ساتھ مروی ہے۔( تاریخ الخلفا)

اور اسی طرح بخاری شریف میں ہے۔حضرت محمد بن حنفیہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ: میں نے اپنے والد گرامی حضرت سیدنا علی المرتضیٰ سے پوچھا کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کے بعد سب سے افضل کون ہیں ؟ تو آپ نے فرمایا:( قَالَ: اَبُوْ بَکْرٍ)حضرت ابو بکر سب سےافضل ہیں ۔پھر میں نے عرض کی ان کے بعد کون؟تو آپ نے فرمایا: ( قَالَ: عُمَرُ )حضرت عمر رضی اللہ عنہ سب سے افضل ہیں۔حضرت محمد بن حنفیہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں( خشیتُ ان یقول عثمان)کہ مجھے خوف ہوا کہ اب اس کے بعد عثمان رضی اللہ عنہ کا نام لیں گے۔ تو میں نے کہا کہ اس کے بعد آپ سب سے افضل ہیں۔ تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:(ما انا الا رجل من المسلمین) کہ میں تو مسلمانوں میں سے ایک آدمی ہوں ۔(مشکوٰۃشریف)

امیر المومنین ہیں آپ، امام المسلمین ہیں آپ

نبی نے جنتی جن کو کہا صدیق اکبر ہیں

عمر سے بھی وہ افضل ہیں وہ عثماں سے بھی اعلیٰ

یقیناً پیشوائے مرتضیٰ صدیق اکبر ہیں

اور محترم اسلامی بھائیو! حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سارے صحابہ کرام میں سب سے زیادہ شجاع اور بہادر بھی تھے۔

علامہ بزار رحمۃ اللہ علیہ اپنی مسند تحریر فرماتے ہیں۔ کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے دریافت کیا کہ بتاؤ سب سے زیادہ بہادر کون ہے؟ ان لوگوں نے کہا کہ سب سے بہادر آپ رضی اللہ عنہ ہیں۔ تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں تو ہمیشہ اپنے جوڑ سے لڑتا ہوں۔ پھر میں کیسے بہادر ہوا ۔تم لوگ یہ بتاؤ سب سے زیادہ بہادر کون ہے؟ تو لوگوں نے کہا کہ ہمیں نہیں معلوم آپ ہی بتا دیں۔ تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: سب سے زیادہ شجاع اور بہادر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں۔ سنو ! جنگ بدر میں ہم لوگوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ایک جھونپڑا بنایا تھا۔ تاکہ گرد و غبار سے حضور علیہ السلام محفوظ رہ سکیں۔ تو ہم لوگوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کون رہے گا؟ کہیں کوئی ان پر حملہ نہ کردے۔(فواللہ ما دنا منّا احد الا ابو بکر) یعنی خدا کی قسم اس کام کے لئے سوائے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے کوئی آگے نہیں بڑھا۔ آپ شمشیرِ برہنہ ہاتھ میں لے کر حضور علیہ السلام کے پاس کھڑے ہوگئے۔ پھر کسی دشمن کو آپ علیہ السلام کے پاس آنے کی جرأت نہ ہوسکی۔ اس لئے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی سب سے زیادہ شجاع اور بہادر تھے۔(تاریخ الخلفاء)

حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک بار کا واقعہ ہے کہ کافروں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پکڑ لیا اور کہنے لگے کہ تم ہی ہو جو کہتے ہو کہ خدا ایک ہے ۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا :تو قسم خدا کی !اس موقع پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے علاوہ کوئی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب نہیں گیا ۔ آپ آگے بڑھے اور کافروں کو مارا اور انہیں دھکے دے دے کر ہٹایا اور فرمایا :تم پر افسوس ہے کہ تم لوگ ایسی ذات کو تکلیف پہنچارہے ہو جو یہ کہتا ہے کہ میرا پروردگار صرف اللہ ہے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ لوگ اپنے ایمان کو چھپاتے تھے مگر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنے ایمان کو علی الاعلان ظاہر فرماتے تھے اس لئے آپ سب سے زیادہ بہادر تھے ۔

( تاریخ الخلفا ، ابو بکر صدیق، شجاعتہ، ص28)

جان دی ، دی ہوئی اُسی کی تھی

حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا