اللہ پاک  جب کسی کو حکمرانی کا تاج عطا فرماتا ہے تو ان کے ذمہ عوام کے کچھ فرائض ہوتے ہیں۔ اللہ پاک کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ‏ نے زندگی کے تمام شعبہ جات میں ہماری راہنمائی کی ہے آپ علیہ ‏السلام نے ارشاد فرمایا: تم میں سے ہر ایک راعی ونگہبان ہے اور سب سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہوگا۔‏(صحیح البخاری، ص1057)

جان عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ‏ نے مزید ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ جسے کسی قوم کا حاکم ونگہبان بنائے اور وہ ہر طرح ان کی خیرخواہی نہ کرے تو وہ جنت کی ‏خوشبوبھی نہ پائے گا۔‏ (صحیح البخاری 10582)‏‏

آقائے نامدار مدینے کے تاجدار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ‏ نے کا ایک اور فرمان پیش نظر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جسے رعایا کا حاکم ونگہبان بنایا اور وہ اس حال میں مرا کہ اپنی رعایا کے ساتھ غداری ‏کرتاتھا تو اللہ تعالیٰ اس پر جنت کو حرام فرمادے گا۔ (صحیح مسلم شریف ، ص81، ج۱)‏

مندرجہ بالا احادیث اس بات کی طرف راہنمائی فرماتی ہیں کہ حاکم کے ذمہ جو کوئی فرائض ہیں ان ‏کو پورا کرنا اس کی ذمہ داری ہےاور حکمران بروز حشر اللہ تعالی کے سامنے اپنی رعایا کا جواب دہ ہو گا۔ وہ کون سے حقوق ہیں ہم ان میں سے چند حقوق کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

‏ تواضع و انکساری:‏مسلمان حکمران کو چاہیے کہ وہ تما م مسلمانوں کے ساتھ تواضع و انکساری سے پیش آئے اور اپنے ‏اقتدار کی طاقت کی وجہ سے کسی بھی وجہ سے مسلمان کے ساتھ تکبر سے پیش نہ آئے۔ حاکم اس ‏بات پر یقین رکھے کہ اللہ تعالی ہر متکبر اور جابر کو دشمن رکھتا ہے۔‎ ‎‎

‏ عدل کا نفاذ : ‏حاکم کا عدل وانصاف تمام رعایا کے لیے عام ہونا چاہیے۔ اور اس معاملے میں احسان کے لیے اہل یا نا ‏اہل کے درمیان کوئی فرق روا نہ رکھے۔ حاکمِ وقت کو چایئے کہ وہ اپنے سامنے خلفاءِ راشدین کے ادوار کی مثالیں رکھے ۔ کہ کیسے حضرت ابو بکر صدیق نے اپنے دور میں اسلام کی خدمت کی ، فاروق اعظم رضی اللہ عنہ ‏نے کیسے اسلام کی ترویج کے لئے اپنا کردار ادا کیا، عثمان غنی اور مولی علی رضی اللہ عنہما کیسے حاکم ‏ثابت ہوئے۔

رعایا کی ضرورتوں کا خیال رکھنا: حاکم کا فرض ہے کہ اپنی قوم کی بنیادی ضرورتوں کا خیال رکھےجیسے: کھانا پینا، رہائش، علاج و تعلیم ‏وغیرہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ :‏لَوْ مَاتَتْ شَاةٌ عَلَى شَطِّ الْفُرَاتِ ضَائِعَةً‎ ‎‏ اگر نہر ِفُرات کے کنارے ایک بکری بھی بھوکی ‏مرگئی

لَظَنَنْتُ اَنَّ اللهَ تَعَالٰی سَائِلِي عَنْهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ‎ ‎تو مجھے خطرہ ہے کہ قیامت کے دن ‏اللہ پاک مجھ سے اُس کے بارے میں سُوال فرمائے گا ۔‏ (حلیۃ الاولیاء‏‎ ‎، عمر بن الخطاب‎ ‎،‎ ‎۱‏ / ‏۸۹‏‎ ‎،‎ ‎حدیث : ۱۴۱)

قوم کی خوشی و غمی میں شریک ہونا: رعایا تو اپنے حاکم کے لئے گھر کے افراد جیسی ہوتی ہے، حاکم کو چاہئے کہ اپنی رعایا کے ساتھ ایسا ہی ‏سلوک روا رکھے جیسا کہ اپنے گھر والوں کے ساتھ رکھا جاتا ہے۔ ‏حکمرانوں کو چاہئے کہ اپنی قوم کے ساتھ تکبر و غرور کے ساتھ پیش آنے کی بجائے انکی خوشیوں ‏میں شامل ہوں اور انکے دکھوں کو بانٹیں ایسے موقع پر پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ‏ کی پیاری پیاری ادائیں مد ‏نظر رکھیں کہ کیسے دو عالم کے داتا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ‏ اپنے غلاموں کے خوشیوں میں شامل ہوتے اور ان کے ‏غموں کا مداوا بنتے۔

‎ ‎مشہور مفسرِ قرآن ،‎ ‎مفتی احمد یار خان نعیمی‎ ‎رحمۃا للہ علیہ فرماتے ہیں : حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ‏ کے اخلاقِ ‏کریمہ میں سے ہے کہ آپ‎ ‎ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ‏ ہر امیر وغریب کے‎ ‎گھر بیمار پرسی کے لئے تشریف لے جاتے۔‏‏(مرآۃ المناجیح ، جلد : 2 ، صفحہ : 407)

نظام مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ‏ کا نفاذ: حاکم وقت کافرض ہے کہ اپنی قوم کے درمیان اپنے ملک میں رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ‏ کے عطا کردہ نظام کا ‏نفاذ کرے، سود، رشوت، کرپشن وغیرہ کو جڑ سے ختم کر کے اسلامی طرز عمل کو نافذ کرے فقط یہی ‏ایک واحد طریقہ ہے کہ جس کی مدد سے ملک و قوم کا بھلا ممکن ہے ۔ اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایک اردو شاعر نے کیا خوب کہا

غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دَو میں

پہناتی ہے درویش کو تاجِ سرِ دارا

دِیں ہاتھ سے دے کر اگر آزاد ہو ملّت

ہے ایسی تجارت میں مسلماں کا خسارا

اللہ پاک ہمارے پیارے ملک پاکستان کو بھی نیک سیرت، صالح حکمران عطا فرمائے۔ ‏ آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ‏