رسول اللہ کے 5 حقوق از بنتِ ساجد، فیضان فاطمۃ الزہرا مدینہ کلاں
لالہ موسیٰ
حبیبِ خدا، مکی مدنی مصطفٰے ﷺ نے اپنی امت کی ہدایت و اصلاح
اور فلاح کے لیے بے شمار تکالیف برداشت کیں نیز آپ کی اپنی امت کی نجات و مغفرت کی
فکر اور شفقت ورحمت کی اس کیفیت پر قرآن بھی شاہد ہے۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ
اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ
بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ(۱۲۸) (پ11،التوبۃ:128)ترجمہ کنز الایمان: بےشک تمہارے پاس تشریف
لائے تم میں سے وہ رسول جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا گراں ہے تمہاری بھلائی کے
نہایت چاہنے والے مسلمانوں پر کمال مہرباں مہربان۔
محبوبِ باریﷺ پوری پوری رات جاگ کر
عبادت میں مشغول رہتے اور امت کی مغفرت کے لیے دربار باری میں انتہائی بے قراری کے
ساتھ گر یہ وزاری فرما تے تھے یہاں تک کہ کھڑے کھڑے اکثرآپ کے پائے مبارک پر ورم
آجاتا تھا۔ چنانچہ آپ ﷺ نے اپنی امت کے لیے جو مشقتیں اٹھائیں ان کا تقاضہ ہے کہ
امت پہ آپ کے کچھ حقوق ہیں جن کو ادا کرنا بھی امتی پر فرض و واجب ہے۔
حق کی تعریف: حقوق آزادی یا استحقاق کے قانونی، سماجی یا اخلاقی اصول
ہیں یعنی حقوق بنیادی قوانین ہیں جو کسی قانونی نظام، سماجی کنونشن یا اخلاقی اصول کے مطابق افراد
کو دیگر افراد کی جانب سے اجازت یا واجب الادا ہیں۔
1-ایمان بالرسول: رسولِ
خداﷺ پر ایمان لانا اور جو کچھ آپ اللہ پاک کی طرف سے لائےہیں صدقِ دل سے اس کو
سچا ماننا ہر امتی پر فرضِ عین ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بغیر رسول پر ایمان
لائے ہر گز کوئی مسلمان نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا یا درکھئے کہ محض توحید و رسالت کی
گواہی کافی نہیں بلکہ کسی کا بھی ایمان اس وقت تک کامل نہیں ہو سکتا جب تک اللہ
پاک کے پیارے حبیب ﷺکو اپنی جان ومال بلکہ سب سے زیادہ محبوب نہ بنا لیا جائے۔
جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ پاک کے محبوبﷺ نے فرمایا:تم میں
سے کوئی اس وقت (کامل) مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے باپ، اس
کی اولاد اور تمام لوگوں سے بڑھ کر محبوب نہ ہو جاؤ ں۔(صحابیات و صالحات کے اعلیٰ
اوصاف،ص75)
خاک ہوکر
عشق میں آرام سے سونا ملا جان
کی اکسیر ہے الفت رسول الله کی
2-اتباعِ سنتِ رسول:سرورِ
کائنات،فخرِ موجودات ﷺ کی سیرتِ مبارکہ اور سنتِ مقدسہ کی پیروی ہر مسلمان پر واجب
و لازم ہے جیسا کہ فرمانِ باری ہے۔ قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ
اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۳۱)
(پ 3،اٰل عمران: 31)ترجمہ کنز الایمان: اے محبوب تم فرما دو کہ لوگو اگر تم اللہ
کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمانبردار ہو جاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے
گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
اس لیے آسمان امت کے چمکتےہوئے ستارے، ہدایت کے چاند تارے، اللہ
پاک اور اس کے پیارے رسولﷺکے پیارے صحابہ کرام و صحابیات طیبات آپﷺ کی ہر سنت
کریمہ کی پیروی کو لازم و ضروری جانتے اور بال برابر بھی کسی معاملہ میں اپنے
پیارے رسولﷺ کی سنتوں سے انحراف یا ترک گوارا نہیں کرتے تھے۔(صحابیات وصالحات کے
اعلیٰ اوصاف،ص76)
3-اطاعتِ
رسول: یہ بھی ہر امتی پر رسولِ خداﷺ کا حق
ہے کہ ہر امتی ہرحال میں آپ کے ہر حکم کی اطاعت کرے اور آپ جس بات کا حکم دیں بال
کے کروڑویں حصے کے برابر بھی اس کی خلاف ورزی کا تصور نہ کرے کیونکہ آپ کی اطاعت
اور آپ کے احکام کے آگے سرِ تسلیم خم کر دینا ہر امتی پر فرض ِعین ہے۔ چنانچہ
ارشاد خداوندی ہے: اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا
الرَّسُوْلَ (پ5،النساء:59)ترجمہ کنز
الایمان:حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا۔ ایک اور مقام پر ہے: مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَۚ-(پ5،النساء: 80) ترجمہ کنزالایمان: جس نے رسول کا حکم مانا
بے شک اُس نے اللہ کا حکم مانا۔
اطاعتِ رسول کے بغیر اسلام کا تصور بھی نہیں کیاجاسکتا اور
اطاعت کرنے والوں ہی کے بلند درجات ہیں۔ لہٰذا ہم پر لازم ہے کہ ہر قسم کے قول و
فعل میں آپ کی سیرت طیبہ سے رہنمائی لی
جائے اور آپ کی بیان کردہ شرعی حدود سے تجاوزنہ کریں۔(صحابیات و صالحات کے اعلیٰ
اوصاف،ص76)
4-
تعظیمِ رسول: امت پر ایک بہت بڑایہ بھی حق ہے کہ
ہر امتی پر فرض عین ہے کہ آپ اور آپ کی نسبت و تعلق رکھنے والی تمام چیزوں کی
تعظیم و توقیر اور ادب و احترام بجا لائے اور ہر گزہرگز کبھی ان کی شان میں کوئی
بےادبی نہ کر ے جیسا کہ اللہ پاک کا فرمان عالیشان
ہے: اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا
وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۸) لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ
تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُؕ- (پ 26، الفتح: 9) ترجمہ کنز الایمان:
بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشی اور ڈر سناتا تاکہ اے لوگو تم اللہ
اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیرکرو۔
5۔ محبتِ رسول:اسی
طرح ہر امتی کا حق ہے کہ وہ سارے جہان سے بڑھ کر آپ سے محبت رکھے اور ساری دنیا کی
محبوب چیزوں کو آپ کی محبت پر قربان کر دے۔ حضور کی محبت صرف کامل واکمل ایمان کی
علامت ہی نہیں بلکہ ہرامتی پر آپ کا یہ حق بھی ہے کہ وہ سارے جہان سے بڑھ کر آپ سے
محبت رکھےاور ساری دنیا کو آپ کی محبت پہ قربان کردے۔
محمد کی
محبت دینِ حق کی شرطِ اول ہے
اسی میں ہ اگر خامی تو سب کچھ نا مکمل ہے
محمد کی
محبت ہے سند آزاد ہونے کی خدا
کے دامنِ توحید میں آبادہونے کی
(صحابیات
وصالحات کے اعلی اوصاف،ص77)