امت مسلمہ کی یہ فضیلت اور اونچا مقام نبی کریم ﷺ کی رفعتِ شان پر دلالت کرتا ہے۔جب آپ ﷺ اس قدر عظیم و  رفیع شان و منزلت کے حامل ہیں تو اللہ پاک نے آپﷺ کے کچھ حقوق و واجبات بھی رکھے ہیں جن کی ادائیگی مسلمانوں پر فرض ہے۔لہٰذا ہر کلمہ گو پر ان حقوق و واجبات کو پہچاننا،سمجھنا اور پھر ان پر قولی و عملی اعتقاد رکھنا لازم ہے لیکن افسوس! اکثر لوگ اس بارے میں جہالت کا شکار ہیں اور جن لوگوں کو ان حقوق و واجبات کی معرفت و پہچان ہے وہ بھی ان کی ادائیگی میں کوشاں نظر نہیں آتے۔

حق کی تعریف:حق کے لغوی معنی صحیح،مناسب،درست،ٹھیک،موزوں،بجا،سچ،انصاف،جائز مطالبہ یا استحقاق کے ہیں۔اس طرح حق ایک ذو معنی لفظ ہے۔ایک طرف یہ سچائی کی طرف اشارہ کرتا ہے تو دوسری جانب اس چیز کی طرف جسے قانوناً اور با ضابطہ طور پر ہم اپنا کہہ سکتی ہیں یا اس کی بابت اپنی ملکیت کا دعویٰ کر سکتی ہیں۔

1۔ حضور ﷺ پر ایمان:لفظ ایمان کے اہلِ لغت کے ہاں کئی معانی ہیں،ان میں سے ایک معنی تصدیق کرنا ہے جیسا کہ امام محمد بن احمد الہروی الازہری فرماتے ہیں:لغت والوں اور ان کے علاوہ اہلِ علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ایمان کا معنی تصدیق ہے۔لیکن علمائے سلف کے ہاں اس کے معنی اکیلے تصدیق کے نہیں،بلکہ تصدیق کے ساتھ ساتھ اقرار اور اس کے مطابق عمل بھی لازمی ہے۔ایمان کا لغوی معنی سکون قلب و تصدیق ہے جس کی ضد تکذیب ہے اور تیسرا معنی امن ہے جس کی ضد خوف ہے، کیونکہ انسان ایمان لے آتا ہے تو وہ امن میں آجاتا ہے اور اللہ پاک اس کو اپنی امان میں لے لیتا ہے،جیسا کہ قرآنِ حکیم میں ہے: اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ لَمْ یَلْبِسُوْۤا اِیْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ اُولٰٓىٕكَ لَهُمُ الْاَمْنُ وَ هُمْ مُّهْتَدُوْنَ۠(۸۲) (پ 7، الانعام:82)ترجمہ کنز الایمان: وہ جو ایمان لائے اور اپنے ایمان میں کسی ناحق کی آمیزش نہ کی انہیں کے لیے امان ہے اور وہی راہ پر ہیں۔

رسول اللہ ﷺ پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ کی تصدیق کی جائے کہ آپ ﷺ اللہ پاک کے بندے اور سچے رسول ہیں جن کو اللہ پاک نے تمام لوگوں اور جنوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا ہے۔آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور آپ جو کچھ لے کر آئے ہیں ان کی تصدیق، پیروی و اتباع کرنا واجب ہے۔

2۔اطاعتِ رسول:آپﷺ کے حقوق میں سے ایک حق یہ ہے کہ آپ ﷺ کی اطاعت و فرمانبرداری کی جائے،یہ اللہ کی طرف سے ہم پر لازم ہے۔اللہ نے اپنے فرامین میں ہم پر فرض کیا ہے، جیسا کہ فرمانِ باری ہے:اے ایمان والو!اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کا کہا مانو او ر اپنے اعمال غارت نہ کرو۔(محمد:33)

3۔اتباعِ رسول:نبی کریم ﷺ کا ایک حق یہ ہے کہ آپ ﷺ کے فرامین کو مانا جائے اور عمل کیا جائے اور اتباع کا مطلب یہ ہے کہ جو کام آپ ﷺ کریں اس کے مطابق عمل کیا جائے۔فرمانِ باری ہے:کہہ دیجیے کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری تابع داری کرو خود اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ معاف فرمادے گا۔

4۔ اختلافی امور میں نبی کریم ﷺ کی طرف رجوع:نبی کریمﷺ کے حقوق میں سے ایک حق یہ ہے کہ اختلافی امور میں رسول اللہ ﷺ کی طرف رجوع کیا جائے۔انسان ہونے کے ناطے اختلاف طبع اور اختلاف فہم کی وجہ سے اعمال و افعال میں ایک دوسرے سے اختلاف رائے ہوسکتا ہے اور اس سے صحابہ کرام علیہم الرضوان بھی محفوظ و مامون نہ تھے، لیکن ایسی صورت حال میں اختلاف کا حل کتاب اللہ اور سنتِ رسول کے ہاں سمجھتے تھے۔یہی سبیل المومنین ہے۔اگر اختلافی امور میں رجوع الی اللہ اور رجوع الی الرسول نہیں ہوگا تو اختلاف و تنازعات ختم کرنا خام خیالی ہے،جیسا کہ فرمانِ باری ہے: فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَ الرَّسُوْلِ(پ 5، النساء: 59) ترجمہ کنز الایمان: اگر تم میں کسی بات کا جھگڑا اٹھے تو اُسے اللہ و رسول کے حضور رجوع کرو۔

5۔ رسولِ کریم ﷺ کی کسی معاملہ میں مخالفت نہ کی جائے:آپﷺ کے حقوق میں سے پانچواں حق یہ ہے کہ کسی بھی معاملہ میں رسول اللہ ﷺ کی مخالفت نہ کی جائے،کیونکہ آپ ﷺ کی مخالفت کرنے والوں کو اللہ نے فتنہ اور عذاب الیم سے ڈرایا ہے۔فرمانِ باری ہے: فَلْیَحْذَرِ الَّذِیْنَ یُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِهٖۤ اَنْ تُصِیْبَهُمْ فِتْنَةٌ اَوْ یُصِیْبَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۶۳) (پ 18، النور: 63) ترجمہ: سنو جو لوگ حکمِ رسول کی مخالفت کرتے ہیں انہیں ڈرتے رہنا چاہئے کہ کہیں ان پر کوئی زبردست آفت نہ آپڑے یا انہیں درد ناک عذاب نہ پہنچے۔اور یہاں صرف ڈرایا نہیں بلکہ فی الواقع ایسا ہوا ہے کہ آپ ﷺ کی مخالفت کرنے والوں کو اسی دنیا میں اللہ پاک نے کسی مصیبت اور آزمائش میں مبتلا کردیا۔