اللہ پاک نے حضرت محمد ﷺ کو ساری مخلوق کی طرف مبعوث فرمایا اور ظاہر و کھلے معجزات کے ذریعے ان کی تائید فرمائی۔آپ ﷺ نے پل صراط،میزان،حوض وغیرہ امور آخرت نیز برزخ،نکیرین کے سوالات اور قبر کے ثوابات و عذابات  وغیرہ کے متعلق جو بھی خبریں دیں وہ ان سب میں سچے ہیں۔قرآنِ پاک اور تمام آسمانی کتب حق ہیں۔تمام انبیا ومرسلین علیہم السلام حق ہیں۔جنت و دوزخ حق ہیں اور ان سے متعلق جو کچھ ہمارے پیارے آقا ﷺ نے بتایا وہ سب حق ہے۔(مختصر منہاج العابدین،ص17)

حق کی تعریف:حق کا مطلب ہوتاہے کہ ایسی ذمہ داری جو اللہ پاک کی طرف سے ایک ذات پر کسی دوسری ذات کے مقابلے میں لازم کی گئی۔اگر وہ ذات خود اللہ کی ہے، اس نے اپنی ذات کے پیشِ نظر ہم پہ ذمہ داری کچھ رکھی ہے وہ حق اللہ ہے جیسے نماز پڑھے،روزہ رکھے،زکوٰۃ دے،گناہ نہ کرے تو یہ حق اللہ کہلائے گا،اور اگر کسی بندے کو ملحوظ رکھتےہوئے اللہ پاک نے اس کے مقابلے میں ہمیں ذمہ داری دی ہے وہ اس بندے کا حق کہلائے گا۔بندے کے سلسلے میں شوہر کی ذمہ داریاں تو ہیں اس کا حق،اگر شوہر کو پیش نظر رکھ کر بیوی پر ذمہ داری رکھی تو بیوی کا حق ہے۔ایسے ہی پڑوسی کا حق،ایسے ہی افسر و حاکم، ماتحت،عالمِ دین کا حق۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ پہلے ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ مجھ پر فلاں شخص کے مقابلے میں کیا ذمہ داری عائد ہوتی ہے،تبھی میں تعین حق کرسکوں گا اور جب حق کی تعیین ہو اس کو ادا بھی کرسکتا ہے اور اگر میں سمجھتا ہوں کہ دوسرے پر میرے پیش نظر کچھ چیزیں ذمہ داری کے طور پر لازم کی گئی ہیں تو اس کا مطالبہ بھی کرسکتا ہوں۔

امت پر حقوق ِ مصطفے:حضور اقدسﷺ نے اپنی امت کی ہدایت و اصلاح اور ان کی صلاح و فلاح کے لئے جیسی تکالیف برداشت فرمائیں اور اس راہ میں آپ کو کئی مشکلات درپیش ہوئیں، پھر آپ کو اپنی امت سے جو بے پناہ محبت اور اس کی نجات و مغفرت کی فکر اور ایک ایک امتی پر آپ کی شفقت و محبت کی جو کیفیت ہے اس پر قرآن میں خداوند قدوس کا فرمان گواہ ہے،چنانچہ سورۂ توبہ میں ہے: لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ(۱۲۸) (پ11،التوبۃ:128)ترجمہ کنز الایمان: بےشک تمہارے پاس تشریف لائے تم میں سے وہ رسول جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا گراں ہے تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے مسلمانوں پر کمال مہربان مہربان۔

پوری پوری راتیں جاگ کر عبادت میں مصروف رہتے اور امت کی مغفرت کے لئے دربار باری میں انتہائی بے قراری کے ساتھ گریہ و زاری فرماتے رہتے یہاں تک کہ کھڑے کھڑے اکثر آپ کے پائے مبارک پر ورم آجاتا تھا۔ظاہر ہے کہ حضور سرور انبیا ﷺ نے اپنی امت کے لئے جو جو مشقتیں اٹھائیں ان کا تقاضا ہے کہ امت پر حضور ﷺ کے کچھ حقوق ہیں جن کو ادا کرنا ہر امتی پر فرض ہے۔اس کا خلاصہ تحریر کرتے ہوئے مندرجہ ذیل پانچ حقوق کا ذکر کرتے ہیں:

1-ایمان بالرسول:حضور اقدسﷺ کی نبوت و رسالت پر ایمان لانا اور جو کچھ آپ ﷺ اللہ پاک کی طرف سے لائے ہیں صدقِ دل سے اس کو سچا ماننا ہر ہر امتی پر فرضِ عین ہے اور ہر مومن کا اس پر ایمان ہے کہ بغیر رسول پر ایمان لائے ہوئے ہرگز ہرگز کوئی مسلمان نہیں ہوسکتا۔ قرآنِ پاک کی سورہ فتح میں خداوند عالم کا فرمان ہے: جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان نہ لایاتو یقیناً ہم نے کافروں کے لئے بھڑکتی ہوئی آگ تیار کر رکھی ہے۔

اس آیت نے نہایت وضاحت و صفائی کے ساتھ یہ فیصلہ کردیا کہ جو لوگ رسول اللہ ﷺ کی رسالت پر ایمان نہیں لائیں گے وہ اگرچہ خدا کی توحید کا عمر بھر ڈنکا بجاتے رہیں مگر وہ کافر اور جہنمی ہی رہیں گے،اس لئے اسلام کا بنیادی کلمہ یعنی کلمہ طیبہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہے یعنی مسلمان ہونے کے لئے خدا کی توحید اور رسول اللہ ﷺ کی رسالت دونوں پر ایمان لانا ضروری ہے۔

2-اتباعِ سنتِ رسول:رسول اللہ ﷺ کی سیرتِ مبارکہ اور آپ کی سنت مقدسہ کی اتباع اور پیروی ہر مسلمان پر واجب و لازم ہے۔رب کریم کا سورۂ اٰل عمران میں فرمان ہے: قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۳۱) (پ 3،اٰل عمران: 31)ترجمہ کنز الایمان: اے محبوب تم فرما دو کہ لوگو اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمانبردار ہو جاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ اسی لئے آسمان امت کے چمکتے ہوئے ستارے، ہدایت کے چاند ستارے،اللہ اور رسول ﷺ کے پیارے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ کی ہر سنت کریمہ کی اتباع اور پیروی کو اپنی زندگی کے ہر قدم قدم پر اپنے لئے لازم الایمان اور واجب العمل سمجھتے تھے اور بال برابر بھی کبھی کسی معاملہ میں بھی اپنے پیارے آقا ﷺ کی مقدس سنتوں سے انحراف یا ترک گوارا نہیں کرسکتے تھے۔

اطاعتِ رسول اللہﷺ:یہ بھی ہر امتی پر رسول اللہ ﷺ کا حق ہے کہ ہر امتی ہر حال میں آپ کے ہر حکم کی اطاعت کرے اور آپ جس بات کا حکم دے دیں بال کے کروڑویں حصے کے برابر بھی اس کی خلاف ورزی کا تصور بھی نہ کرے کیونکہ آپ کی اطاعت اور آپ کے احکام کے آگے سر تسلیم خم کردینا ہر امتی پر فرضِ عین ہے۔قرآنِ پاک کی سورۂ نساء میں ارشاد خداوندی ہے: اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ (پ5،النساء:59)ترجمہ کنز الایمان:حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا۔ اسی سورت میں ہے: مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَۚ-(پ5،النساء: 80) ترجمہ کنزالایمان: جس نے رسول کا حکم مانا بے شک اُس نے اللہ کا حکم مانا۔ قرآن پاک کی یہ مقدس آیات اعلان کر رہی ہیں کہ اطاعت رسول کے بغیر اسلام کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا اور اطاعت رسول کرنے والوں ہی کے لئے ایسے ایسے بلند درجات ہیں کہ وہ حضرات انبیائے کرام،صدیقین،شہدا اور صالحین کے ساتھ رہیں گے۔

4-درود شریف:ہر مسلمان کو چاہیے کہ رسول اللہ ﷺ پر درود شریف پڑھتا رہے۔فرمانِ باری ہے: اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ-یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(۵۶) (پ 22، الاحزاب: 56) ترجمہ کنز الایمان: بےشک اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں اس غیب بتانے والے (نبی) پر اے ایمان والو ان پر درود اور خوب سلام بھیجو۔

5-تعظیم رسول:امت پر حضور ﷺ کے حقوق میں سے ایک نہایت ہی اہم اور بہت ہی بڑا حق یہ بھی ہے کہ ہر امتی پر فرضِ عین ہے کہ حضور ﷺ اور آپ سے نسبت و تعلق رکھنے والی تمام چیزوں کی تعظیم و توقیر اور ان کا ادب و احترام کرے اور ہرگز ہرگز کبھی ان کی شان میں کوئی بے ادبی نہ کرے۔اللہ پاک کا فرمان ہے: اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۸) لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُؕ- (پ 26، الفتح: 8- 9) ترجمہ کنز الایمان: بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشی اور ڈر سناتا تاکہ اے لوگو تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیرکرو۔