راحیل افضل (درجہ رابعہ
جامعۃُ المدینہ فیضان ابن مسعود کراچی ، پاکستان)
اللہ پاک کا کروڑ ہا کروڑ احسان کہ اس نے ہمیں رمضان المبارک جیسی عظیم الشان نعمت سے سرفراز
فرمایا۔ اس ماہ مبارک کی تو ہر گھڑی رحمت بھری ہے۔اس کے ہر دن اور ہر رات میں فرشتے اس امت کے لئے استغفار کرتے ہیں ۔ اس ماہ مبارک میں نیکیاں قبول ہوتیں گناہ معاف
ہوتے اور درجات بلند ہوتے ہیں۔ اللہ پاک مخلوق کی طرف نظر رحمت فرماتا ہے۔ اعمال
کا ثواب بڑھا دیا جاتا ہے۔ بہت سے ایسے
گناہگاروں کی بخشش ہوتی ہے جن پر جہنم واجب ہو چکا ہوتا ہے۔ ایک روایت میں ہے جب
رمضان آتا ہے آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں۔(صحیح البخاري، 1/626،حدیث: 1899)
ایک دوسری روایت میں ہے کہ: رحمت کے دروازے کھول دیئے
جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں شیاطین زنجیروں میں جکڑ دئیے
جاتے ہیں۔(صحیح مسلم،2/543،حدیث:1079)
ماہ رمضان
المبارک کے اور بھی بہت سے فضائل و خصائص
ہیں۔ چند خصوصیات ملاحظہ ہوں:
(1)روزوں کی فرضیت:ماہ رمضان المبارک کو ایک خصوصیت یہ حاصل ہے کہ مسلمانوں پر
اس ماہ کے روزے رکھنا فرض ہے۔ جیسا کہ سنن نسائی میں امام نسائی کی روایت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہے
کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (حدیث کے ابتدائی الفاظ یہ ہیں ) رمضان
آگیا ہے یہ برکت والا مہینہ ہے اللہ پاک نے تم پر اس کے روزے فرض کیے۔( سنن نسائی،
حدیث2103، ص355)
(2) قرآن کریم کا
نزول: اس ماہ مبارک کو قرآن کریم سے خصوصی نسبت حاصل ہے کہ صرف اسی
ماہ مبارک کا نام قرآن کریم میں آیا اور قرآن کریم کے نازل ہونے کی ابتدا بھی اسی
ماہ مبارک میں ہوئی اسی طرح مکمل قرآن کریم بھی اسی ماہ مبارک کی شب قدر میں لوح محفوظ سے آسمانِ دنیا کی طرف
اتارا گیا۔ جیسا کہ شیخ الحدیث والتفسیر ابو صالح مفتی محمد قاسم قادری سلمہ الغنی
"تفسیر صراط الجنان" میں نزول قرآن پاک کے معانی بیان کرتے ہوئے فرماتے
ہیں:اس مہینے (یعنی رمضان المبارک) میں قرآن کریم اترنے کے یہ معانی ہیں: (1)
رمضان وہ ہے جس کی شان و شرافت کے بارے میں قرآن پاک نازل ہوا۔(2)قرآن کریم کے
نازل ہونے کی ابتدا رمضان میں ہوئی۔(3) مکمل قرآن پاک رمضان المبارک کی شب قدر میں
لوح محفوظ سے آسمانِ دنیا کی طرف اتارا گیا اور بیت العزت میں رہا۔(صراط الجنان، سورہ
بقرہ تحت آیۃ185)
(3) گناہ گاروں کی
بخشش: اس ماہ مبارک کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں لاکھوں
گنہگاروں کی بخشش ہو جاتی ہے۔جیسا کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں ہے
کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :جب رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے اللہ پاک
اپنی مخلوق کی طرف نظر فرماتا ہے اور جب اللہ پاک کسی بندے کی طرف نظر فرمائے تو
اسے کبھی عذاب نہ دے گا اور ہر روز دس لاکھ کو جہنم سے آزاد فرماتا ہے اور جب انتیسویں
رات ہوتی ہے تو مہینے بھر میں جتنے آزاد کیے، ان کے مجموعہ کے برابر اس رات میں
آزاد کرتا ہے پھر جب عید الفطر کی رات آتی ہے، ملائکہ خوشی کرتے ہیں اور اللہ پاک
اپنے نور کی خاص تجلی فرماتا ہے، فرشتوں سے فرماتا ہے:اے گروہ ملائکہ! اس مزدور کا
کیا بدلہ ہے جس نے کام پورا کر لیا؟ فرشتے
عرض کرتے ہیں: اس کو پورا اجر دیا جائے۔ اللہ پاک فرماتا ہے: میں تمہیں گواہ کرتا ہوں کہ میں نے ان سب کو
بخشش دیا۔(کنز العمال،8/219،حدیث:23702)
(4) عشرۂ اخیرہ کا
سنت اعتکاف: رمضان المبارک کے آخری عشرے میں مسلمان سنت اعتکاف ادا
کرتے ہیں یہ ایسی پیاری عبادت ہے جس پر پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے مواظبت (یعنی
ہمیشگی ) فرمائی۔جیسا کہ امّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے
کہ پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے
آخری عشرے کا اعتکاف فرمایا کرتے تھے یہاں تک کہ اللہ پاک نے آپ علیہ السلام کو
وفات دی اور آپ علیہ السلام کے بعد آپ کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن اعتکاف کیا
کرتیں۔ (بخاری،1/664،حدیث:2026)
سرکار علیہ
الصلوۃ و السلام اعتکاف کس قدر رغبت سے کیا کرتے تھے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا
جا سکتا ہے کہ اگر کسی مرتبہ آپ علیہ السلام اعتکاف نہ کر پاتے تو آئندہ سال اس کی
قضا فرماتے۔ جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کرتے تھے۔ ایک سال اعتکاف نہ کر سکے جب اگلا
سال آیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بیس دن اعتکاف فرمایا۔ (ترمذی،2/212،حدیث:803)
اعتکاف کے فضائل پر
دو فرامین مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم:(1)جس نے ایمان
کے ساتھ ثواب حاصل کرنے کی نیت سے اعتکاف کیا تو اس کے تمام پچھلے گناہ بخش دیئے
جائیں گے۔ (جامع صغیر،ص516،حدیث8480) (2)جس نے رمضان المبارک میں دس دن اعتکاف کر
لیا وہ ایسا ہے جیسے دو حج اور دو عمرے کیے۔ (شعب الایمان،3/425،حدیث: 2966)
(5) ہزار مہینوں سے
افضل رات: ماہ رمضان
المبارک میں ہمیں بے شمار نعمتیں میسر آئیں ہیں جن میں سے ایک نعمت شب قدر بھی ہے یہ
بڑی ہی شرف و برکت والی رات ہے اس رات میں عبادت کرنے والے کو ایک ہزار ماہ سے بھی
زیادہ عبادت کا ثواب ملتا ہےاور جو شخص اس رات سے محروم رہا وہ تمام بھلائیوں سے
محروم رہا۔ چناچہ حضرت سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک بار جب ماہ رمضان تشریف
لایا تو تاجدار مدینہ سرور قلب و سینہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے پاس
ایک مہینہ آیا ہے جس میں ایک رات ایسی بھی ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے جو شخص اس
رات سے محروم رہ گیا گویا تمام کی تمام بھلائی سے محروم رہ گیا اور اس کی بھلائی
سے محروم نہیں رہتا مگر وہ شخص جو حقیقتاً محروم ہی ہے۔ (ابن ماجہ، 2/298، حدیث: 1644)
اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں رمضان المبارک کی قدر کرنے اور
اس میں خوب نیکیاں کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم