قرآنِ
کریم میں ذکرِ مکہ و مدینہ از بنت محمد انور خان، ڈیرہ
اسماعیل خان
مکہ و مدینہ
کے فضائل پر مختصر تمہید:
شیخ
عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی
تصنیف جذب القلوب الٰی دیار المحبوب میں لکھا ہے: امت کے تمام علما کا اس پر اتفاق
ہےکہ زمین بھر کے سب شہروں میں سب سے زیادہ فضیلت اور بزرگی رکھنے والے دو شہر مکہ
معظمہ اور مدینہ منورہ ہیں، مگر اس میں اختلاف ہے کہ دونوں شہروں میں سے کس شہر کو
کس شہر پر فضیلت اور کس کو کس پر ترجیح ہے۔تمام علما کا اس پر اجماع ہے کہ زمین کے
تمام حصوں حتی کی کعبۃ اللہ سے بلکہ بعض علما جملہ آسمانوں سے یہاں تک کہ عرشِ معلی
سے بھی افضل زمین کا وہ مبارک ٹکڑا ہے ،جس سے حضور سرورِ کائنات صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا جسمِ
اطہر ملا ہوا ہے، کیونکہ آسمان اور زمین دونوں ہی حضور علیہ
السلام
کے قدموں سے مشرف ہوئے ہیں۔
حضرت
عمر فاروقِ اعظم وحضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اور
حضرت امام مالک رحمۃُ اللہِ علیہ اور
اکثر علمائے مدینہ منورہ کا مذہب یہ ہے کہ مکہ معظمہ پر مدینہ منورہ کو فضیلت ہے،
لیکن بعض علما کہتے ہیں:مدینہ منورہ اگر چہ مکہ معظمہ سے افضل ہے،لیکن خاص کعبۃ
اللہ اس سے مستثنی ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ شہر مکہ معظمہ حضور نبی کریم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی قبر شریف کو چھوڑ کر باقی مدینہ شہر سے افضل ہے
اور سرکار صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی قبر شریف کی زمین مکہ کے شہر بلکہ خانہ کعبہ سے
بھی افضل ہے۔
جن آیات
میں مکہ مدینہ کا ذکر آیا ہے، ان کا ترجمہ و تفسیر اور مختصر پس منظر:
آیت:لَا اُقْسِمُ
بِہٰذَالْبَلَدْترجمہ:مجھے
اس شہر کی قسم کہ اے محبوب! تم اس شہر میں تشریف فرما ہو۔
اس آیت اور اس
کے بعد والی آیت میں ارشاد فرمایا: اے پیارے حبیب!مجھے اس شہر مکہ کی قسم! جب کہ
تم اس شہر میں تشریف فرما ہو۔
مکہ
مکرمہ کے فضائل:
یہاں اللہ کریم
نے مکہ مکرمہ کی فضیلت کی وجہ سے اس قسم کی ارشاد فرمائی اور مکہ مکرمہ کو یہ فضیلت
حاصل ہے کہ اللہ کریم نے اسے حرم اور امن والی جگہ بنایا اور اس میں موجود مسجد کے
بارے میں فرمایا:ترجمہ:بے شک سب سے پہلا گھر جو لوگوں کی عبادت کے لئے بنایا گیا
ہے، وہ مکہ میں ہے، برکت والا ہے اور سارے جہان والوں کے لئے ہدایت ہے،اس میں کھلی
نشانیاں ہیں،ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ ہے جو اس میں داخل ہوا امن والا ہو گیا۔(سورۂ
ال عمران:97،98)
حضرت علامہ شیخ
عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے
ہیں:علما فرماتے ہیں:اللہ کریم نے اپنی کتاب میں نبی کریم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے علاوہ کسی نبی کی رسالت کی قسم یاد نہ فرمائیں
اور اس سورۂ مبارکہ:لَآقْسِمُ بِھٰذَاالْبَلَدِْ، وَاَنْتَ
حِلٌّ بِھٰذَاالْبَلَدِ۔اس میں رسولِ کریم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی انتہائی تکریم و تعظیم کا بیان ہے، کیونکہ اللہ
کریم نے قسم کو اس شہر سے جس کا نام بلد الحرام اور بلدالامین کے ساتھ مقید
فرمایا ہے اور جب سے حضور صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم
نے اس مبارک شہر میں نزولِ اجلال فرمایا،
تب سے اللہ کریم کے نزدیک وہ شہر معزز و مکرم ہو گیا اور مزید فرماتے ہیں:اللہ پاک
اپنی ذات و صفات کے علاوہ کسی اور چیز کی قسم یاد فرمانا اس چیز کا شرف اور فضیلت
ظاہر کرنے کے لئے اور دیگر اشیا کے مقابلے میں چیز کو ممتاز کرنے کے لئے ہے، جو
لوگوں کے درمیان موجود ہے،تاکہ لوگ جان سکیں کہ یہ چیز انتہائی عظمت و شرافت والی
ہے۔(مدارج
النبوہ، باب سوم در بیان فضل و شرافت1/45)
مدینہ
منورہ کے فضائل:
حضرت ابوہریرہ
رضی اللہ عنہسےروایت ہے،رسولِ
کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے
فرمایا:مدینہ منورہ کے دو پتھریلے کناروں کے درمیان کی جگہ کو میری زبان سے حرام
قرار دیا گیا ہے۔اللہ کریم نےہر نبی کے لئے حرم بنایا ہے اور آپ صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے لئے حرم مدینہ منورہ ہے اور اسے رسولِ پاک صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی زبانِ اقدس سے حرم فرمایا۔رسولِ پاک صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:اے اللہ پاک! میں ان کو پہاڑوں کے
درمیان کی جگہ کو حرم قرار دیتا ہوں، جیسے حضرت ابراہیم علیہ
السلام
نے مکہ کو حرم بنایا تھا۔ اے اللہ پاک! اہلِ مدینہ کے مد اور صاع میں برکت عطا
فرما۔کیا شان ہے مدینہ کے شہر کی ! اس کے لئے آقا صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے خود دعائیں مانگی اور اسے حرم قرار دیا ہے۔