وہاں پیارا کعبہ یہاں سبز ِگنبد                                    وہ مکہ بھی میٹھا تو پیارا مدینہ(وسائل بخشش،ص 327)

مکہ مکرمہ و مدینہ منورہ نہایت بابرکت اور صاحبِ عظمت شہر ہے، مکہ مکرمہ ہو یا مدینہ منورہ دونوں شہر اسلام کی بنیاد ہیں، دیگر انبیا بالخصوص حضرت ابراہیم علیہ السلام اور آپ کی آل و اولاد کا تذکرہ خیر مکہ مکرمہ سے منسوب ہے، جبکہ سید عالم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ دونوں مقدس شہروں کو اپنی فیوض و برکات سے نوازا اور آپ سے نسبت کی وجہ سے ہی ان دونوں شہروں کو عظمت و شرف ملا۔آئیے!قرآنِ پاک سے ذکرِ مکہ و مدینہ پڑھتی ہیں اور اپنے دل و دماغ کو ان عظیم شہروں کے ذکر سے منور کرتی ہیں۔

ذکرِ مکہ مکرمہ:

دعائے ابراہیم:وَ اِذْ قَالَ اِبْرٰهِیْمُ رَبِّ اجْعَلْ هٰذَا الْبَلَدَ اٰمِنًا وَّ اجْنُبْنِیْ وَ بَنِیَّ اَنْ نَّعْبُدَ الْاَصْنَامَ ؕ ۔اوریاد کرو جب ابراہیم نے عرض کی:اے میرے ربّ! اس شہر کو امان والا کردے۔(سورہ ابراہیم، آیت 35)

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ پاک سے دعا کی:اے میرے ربّ کریم! مکہ مکرمہ کو امن والا شہر بنا دے کہ قیامت کے قریب دنیا کے ویران ہونے کے وقت یہ شہر ویرانی سے محفوظ رہے یا شہر والے امن میں ہوں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یہ دعا قبول ہوئی اور اللہ پاک نے مکہ مکرمہ کو ویران ہونے سے محفوظ فرما دیا۔

شہرِ مکہ کی قسم:

لَآقْسِمُ بِھٰذَاالْبَلَدِْ، وَاَنْتَ حِلٌّ بِھٰذَاالْبَلَدِ۔ترجمہ: مجھے اِس شہر کی قسم!جبکہ تم اِس شہر میں تشریف فرما ہو۔

یہاں ان آیات میں ارشاد فرمایا:اے حبیب! مجھے اس شہر مکہ کی قسم! جبکہ تم اِس شہر میں تشریف فرما ہو۔(تفسیر صراط الجنان)یہاں اللہ کریم نے مکہ مکرمہ کی فضیلت کی وجہ اس کی قسم ارشاد فرمائی اور مکہ مکرمہ کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ اللہ کریم نے اِسے امن والی جگہ بنایا۔

مکہ مکرمہ میں ہی حرم ہے:

اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَكَّةَ مُبٰرَكًا وَّ هُدًى لِّلْعٰلَمِیْنَ ۚ ۔بے شک سب سے پہلا گھر جو لوگوں کی عبادت کے لئے بنایا گیا وہ ہے جو مکہ میں ہے، برکت والا ہے اور سارے جہاں والوں کے لئے ہدایت ہے۔

ذکرِ مدینہ منورہ :

عزت والا مقام: یَقُوْلُوْنَ لَىٕنْ رَّجَعْنَاۤ اِلَى الْمَدِیْنَةِ لَیُخْرِجَنَّ الْاَعَزُّ مِنْهَا الْاَذَلَّ ؕوَ لِلّٰهِ الْعِزَّةُ وَ لِرَسُوْلِهٖ وَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ وَ لٰكِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ۠ ۔

وہ کہتے ہیں: قسم ہے! اگر ہم مدینہ کی طرف لوٹ کر گئے تو ضرور جو بڑی عزت والا ہے، وہ اس میں نہایت ذلت والے کو نکال دے گا، حالانکہ عزت تو اللہ اور اس کے رسول اور مسلمانوں ہی کے لئے ہے، مگر منافقوں کو معلوم نہیں۔(سورہ منافقون، آیت8)

مدینہ طابہ ہے:

وَ اِذْ قَالَتْ طَّآىٕفَةٌ مِّنْهُمْ یٰۤاَهْلَ یَثْرِبَ لَا مُقَامَ لَكُمْ فَارْجِعُوْا ۚوَ یَسْتَاْذِنُ فَرِیْقٌ مِّنْهُمُ النَّبِیَّ یَقُوْلُوْنَ اِنَّ بُیُوْتَنَا عَوْرَةٌ وَ مَا هِیَ بِعَوْرَةٍ ۚۛاِنْ یُّرِیْدُوْنَ اِلَّا فِرَارًا ۔ترجمۂ کنزالعرفان: اور جب ان میں سے ایک گروہ نے کہا، اے مدینہ والو! یہاں ٹھہرنے کی جگہ نہیں، تم گھروں کو واپس چلو اور ان میں سے ایک گروہ نبی سے اذن مانگتا تھا یہ کہہ کر کہ ہمارے گھر بے حفاظت ہیں اور وہ بے حفاظت نہ تھے وہ تو نہ چاہتے تھے مگر بھاگنا۔(سورہ احزاب، آیت13)

اس آیت میں یثرب کا لفظ ذکر ہوا،اس کے بارے میں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:قرآنِ پاک میں لفظ یثرب آیا، ربّ کریم نے منافقین کا قول نقل فرمایا ہے،یثرب کالفظ فساد و ملامت سے خبر دیتا ہے، وہ ناپاک اسی طرف اشارہ کر کے یثرب کہتے، اللہ پاک نے ان پر ردّ کے لئے مدینہ منورہ کا نام طابہ رکھا۔حضوراقدس صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں:یَقُوْلُوْنَ یَثْرِبَ وَہِیَ الْمَدِیٌنَۃُوہ اسے یثرب کہتے ہیں اور وہ تو مدینہ ہے۔(بخاری، کتاب فضائل المدینہ، حدیث 1871، تفسیر صراط الجنان)اور فرماتے ہیں:بے شک اللہ کریم نے مدینہ کا نام طابہ رکھا۔

مدینہ اس لئے عطار جان و دل سے ہے پیارا کہ رہتے ہیں میرے آقا میرے دلبر مدینے میں

(وسائل بخشش، صفحہ 406)