ذکرآیا ہے محبوب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے مبارک شہروں کا، ایک کو مجبوب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ولادت مبارکہ کا شرف عطا فرمایااور ایک کو وصال شریف کا، ایک عاشق کے عشق کو اُبھارنے کے لئے یہ موضوع کافی معلوم ہوتا ہے، ارے کوئی اس کا دل چیر کے تو دیکھے، کیا سوز، کیا محبتیں، کیا آرزوئیں، کیا تمنائیں، کیا خیالات، کیا تصورات اُبل رہے ہیں، کبھی آنسوؤں سے دکھائی دیتے ہیں، کبھی اس کے چہرے پر فراق کی زردی بن کر ظاہر ہوجاتے ہیں، غرض محبوب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا مَسکَن عُشاق کے عشق کا ایک اہم جز ہے۔یہ تو بندے کی محبت کی جھلک تھی،ربّ کائنات جو محبوب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم سے بہت محبت فرماتا ہے،وہ اپنے محبوب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے مبارک شہروں سے کتنی محبت فرماتا ہوگا، ہاں ہاں یہ ظاہر بھی فرمایا کہ جگہ جگہ محبوب کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے شہروں کا ذکر فرمایا، ربِّ کریم فرماتا ہے:وَ اِذْ قَالَ اِبْرٰهٖمُ رَبِّ اجْعَلْ هٰذَا بَلَدًا اٰمِنًا ۔ترجمۂ کنزالایمان:اور جب عرض کی ابراہیم نے کہ اے ربّ میرے اس شہر کو امان والا کردے۔(پارہ 1، سورہ بقرہ، آیت 126)بَلَدًایعنی شہر سے مراد مکہ مکرمہ ہے۔ اور ارشاد فرمایا: لَاۤ اُقْسِمُ بِهٰذَا الْبَلَدِۙ ۔ترجمۂ کنزالایمان:مجھے اس شہر کی قسم۔( پارہ30، سورہ بلد:1)

حضرت عبداللہ بن عدی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:میں نے تاجدارِ رسالت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم مقام ِحزورہ کے پاس اونٹنی پر بیٹھے فرما رہے تھے،اللہ پاک کی قسم! تو اللہ پاک کی ساری زمین میں بہترین زمین ہے اور اللہ پاک کی تمام زمین میں مجھے زیادہ پیاری ہے۔ خدا کی قسم! اگر مجھے اس جگہ سے نہ نکالا جاتا تو میں ہرگز نہ نکلتا۔(ابن ماجہ، جلد 3، صفحہ 518، حدیث3108، عاشقان رسول کی حکایات، صفحہ 188)اس سے معلوم ہوا!اللہ کے پیارے نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم شہرِ مکہ کو کتنا عزیز رکھتے تھے۔

اللہ پاک فرماتا ہے:وَ اِذْ جَعَلْنَا الْبَیْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَ اَمْنًاؕ۔ترجمۂ کنزالایمان:اور یاد کرو جب ہم نے اس گھر کو لوگوں کے لئے مرجع اور اَمان بنایا۔(پارہ 1، البقرہ: 125)یہاں بیت سے مراد مکہ مکرمہ ہے۔

ارشاد فرمایا:اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَكَّةَ مُبٰرَكًا وَّ هُدًى لِّلْعٰلَمِیْنَ ۚ ۔ترجمۂ کنزالایمان:بے شک سب میں پہلا گھر جو لوگوں کی عبادت کو مقرر ہوا، وہ ہے جو مکے میں ہے، برکت والا اور سارے جہان کا رہنما۔(پارہ 4، ال عمران:96)

ہاں! یہ ساری شانیں مکہ کو حاصل ہوئیں،اس دو عالم کے سردار صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی وجہ سے، اس کے کعبہ، اس کے صفا و مروہ،مقامِ ابراہیم،حجرِاسود سب آقا کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی برکتیں لیتے رہے، یہاں تک کہ کریم ربّ نے ان کو معزز و متبرک بنا دیااور ارشاد فرمایا:یَقُوْلُوْنَ لَىٕنْ رَّجَعْنَاۤ اِلَى الْمَدِیْنَةِ لَیُخْرِجَنَّ الْاَعَزُّ مِنْهَا الْاَذَلَّؕ-وَ لِلّٰهِ الْعِزَّةُ وَ لِرَسُوْلِهٖ وَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ وَ لٰكِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ۠ ۔ترجمۂ کنزالایمان:کہتے ہیں:ہم مدینہ پھر کر گئے تو ضرور جو بڑی عزّت والا ہے وہ اس میں سے نکال دے گا اسے جو نہایت ذلّت والا ہے اور عزّت تو اللہ اور اس کے رسول اور مسلمانوں ہی کے لئے ہے مگر منافقوں کو خبر نہیں۔

حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:تم میں سے جو مدینے میں مرنے کی استطاعت رکھتا ہو، مدینے ہی میں مرے کہ جو مدینے میں مرے گا، میں اس کی شفاعت کروں گا اور اس کے حق میں گواہی دوں گا۔(شعب الایمان، جلد 3، صفحہ 497، حدیث1482،عاشقان رسول کی حکایات،ص249)

اور جو اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھیں تو وہ مدینے حاضر ہو کر محبوب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے حضور اللہ کریم سے بخشش طلب کریں اور محبوب ان کے لئے بخشش طلب کریں تو اللہ کریم ان کی توبہ قبول فرمائے گا۔

مدینہ پاک ہے اور پاک کرنے والا ہے، عشاق کے دلوں کی دھڑکن ہے، ان کی امیدوں کا مرکز ہے، ارے کیسے نہ ہو کہ یہ وہ مبارک جگہ ہے کہ جس کو آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے قیامت تک اپنی رفاقت عطا فرما دی، ارے کیسے نہ ہو کہ جس کے ذرّے ذرّے نےمحبوب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے قدموں کو چوما،ارے کیسے نہ ہو کہ جس کی فضائیں اللہ پاک کے محبوب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے گرد پروانہ وار گھومتی رہیں، غرض اس کا ذرہ ذرہ جانِ کائنات صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی عطاؤں اور نسبتوں والا ہے۔شیخِ کریم،پروانہ مصطفی،عاشقِ مدینہ ،اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

حرم کی زمیں اور قدم رکھ کے چلنا ارے سر کا موقع ہے او جانے والے

فداک یا رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم