مکۃ المکرمہ کے فضائل:

الحمدللہ مکہ مکرمہ نہایت بابر کت و صاحبِ عظمت شہر ہے، ہر مسلمان اس کی حاضری کی تمنا و حسرت رکھتا ہے اور اگر ثواب کی نیت ہو تو یقیناً دیدارِ مکہ مکرمہ کی آرزو بھی عبادت ہے۔ مکہ مکرمہ کی زیارتوں کے باقاعدہ بیان سے قبل اللہ کریم کے اس پیارے شہر کے فضائل ملاحظہ فرما لیجئے،تاکہ دن میں اس کی مزید عقیدت جاگزیں ہو۔

وہاں پیارا کعبہ یہاں سبز گنبد وہ مکّہ بھی میٹھا تو پیارا مدینہ

قرآنِ کریم میں متعدد مقامات پر مکہ مکرمہ کا بیان کیا گیا ہے،چنانچہ پارہ اوّل، سورۂ بقرہ، آیت نمبر 126 میں ہے:وَ اِذْ قَالَ اِبْرٰهٖمُ رَبِّ اجْعَلْ هٰذَا بَلَدًا اٰمِنًا ۔ترجمۂ کنزالایمان:اور جب عرض کی ابراہیم نے کہ اے ربّ میرے اس شہر کو امان والا کردے۔

پارہ30، سورۂ بلدکی پہلی آیت میں ہے: لَاۤ اُقْسِمُ بِهٰذَا الْبَلَدِۙ ۔ترجمۂ کنزالایمان:مجھے اس شہر کی قسم(یعنی مکہ مکرمہ کی۔)(خزائن العرفان، صفحہ 1104)

مدینہ منورہ کے فضائل:

الحمدللہ ذکرِ مدینہ عاشقانِ رسول کے لئے باعثِ راحت ِقلب وسینہ ہے، عشاقِ مدینہ اس کی فرقت میں تڑپتے اور زیارت کے بے حد مشتاق رہتے ہیں، دنیا کی جتنی زبانوں میں جس قدر قصیدے مدینہ منورہ کے ہجر و فراق اور اس کے دیدار کی تمنا میں پڑھے گئے یا پڑھے جاتے ہیں، اتنے دنیا کے کسی اور شہر یا خطے کے لئے نہیں پڑھے گئے اور نہ ہی پڑھے جاتے،جسے ایک بار بھی مدینے کا دیدار ہو جاتا ہے، وہ اپنے آپ کو بخت بیدار سمجھتا، مدینے میں گزرے ہوئے حسین لمحات کو ہمیشہ کے لئے یادگار قرار دیتا ہے۔کسی عاشقِ رسول نے کیا خوب کہا ہے:

وہی ساعتیں تھیں سرور کی، وہی دن تھے حاصلِ زندگی بحضور شافعِ امتاں، میری جن د نوں طلبی ر ہی

قرآنِ کریم میں متعدد مقامات پر ذکرِ مدینہ کیا گیا ہے، مثلاً پارہ 28، سورۃ المنافقون، آیت نمبر 8 میں ہے: یَقُوْلُوْنَ لَئِنْ رَّجَعْنَآاِلَی الْمَدِیْنَۃِ لَیُخْرِجَنَّ اْلاَعَزُّ مِنْھَا اْلاَذَلَّ وَلِلہِ الْعِزَّۃُ وَلِرَسُوْلِهٖ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَلٰکِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ۔ترجمۂ کنزالایمان: وہ کہتے ہیں ہم مدینہ پھر کر گئے تو ضرور جو بڑی عزت والا ہے، وہ اِس میں سے نکال دے گا،اسے جو نہایت ذلت والا ہے،اور عزت تو اللہ اور اس کے رسول اور مسلمانوں ہی کے لئے ہے، مگر منافقوں کو معلوم نہیں۔

کعبے کے بارے میں دلچسپ معلومات:

مکہ مکرمہ کی سب سے عظیم زیارت گاہ کعبہ مشرفہ ہے، ہر مسلمان اس کے دیدار وطواف کے لئے بے قرار رہتا ہے، کعبۃ اللہ کے بارے میں دلچسپ معلومات پیش کی جاتی ہیں،قرآن شریف میں کئی مقامات پر کعبہ شریف کا ذکر خیر کیا گیا ہے، چنانچہ پارہ 1،سورۃ البقرہ، آیت 125 میں ربّ کریم ارشاد فرماتا ہے:وَ اِذْ جَعَلْنَا الْبَیْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَ اَمْنًاؕ۔ترجمۂ کنزالایمان:اور یاد کرو جب ہم نے اس گھر کو لوگوں کے لئے مرجع اور اَمان بنایا۔

تفسیر:

اس آیتِ کریمہ کے تحت صدر الافاضل حضرت علامہ مولانا سیّد مفتی محمد نعیم الدین مرادآبادی علیہ الرحمۃ خزائن العرفان میں لکھتے ہیں:(اس آیتِ مبارکہ کے لفظ)بیت سے کعبہ شریف مراد ہے اور اس میں تمام حرم شریف داخل اور امن بنانے سے یہ مراد ہے کہ حرمِ کعبہ میں قتل و غارت حرام ہے یا یہ کہ وہاں شکار تک کو امن ہے، یہاں تک کہ حرم شریف میں شیر بھیڑیے بھی شکار کا پیچھا نہیں کرتے، چھوڑ کر لوٹ جاتے ہیں۔

ایک قول یہ ہے کہ مومن اس میں داخل ہوکر عذاب سے مامون ہو جاتا ہے،حرم کو اس لئے حرم کہا جاتا ہے کہ اس میں قتل، شکار حرام و ممنوع ہے۔(تفسیرات احمدیہ، صفحہ34)اگر کوئی مجرم بھی داخل ہو جائے تو وہاں اس سے تعرض (یعنی روک ٹوک) نہ کیا جائے گا۔(تفسیرنسفی، صفحہ 77)

کعبہ سارے جہاں کے لئے رہنما ہے:

اللہ رحمٰن کا پارہ 4، سورۂ ال عمران، آیت نمبر 96 میں فرمانِ عالیشان ہے:اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَكَّةَ مُبٰرَكًا وَّ هُدًى لِّلْعٰلَمِیْنَ ۚ ۔ترجمۂ کنزالایمان:بے شک سب میں پہلا گھر جو لوگوں کی عبادت کو مقرر ہوا، وہ ہے جو مکے میں ہے، برکت والا اور سارے جہان کا رہنما۔

تفسیر:

حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ اس آیتِ کریمہ کے تحت تحریر فرماتے ہیں:اے مسلمانو! یا اے سارے انسانو! یقین سے جان لو کہ ساری روئے زمین پر سب سے پہلے اور سب سے افضل گھر جو لوگوں کے دینی اور دنیوی فائدے کے لئے پیدا کیا گیا اور بنایا گیا ہے،وہی ہے جو کہ مکہ شریف میں واقع ہے، نہ بیت المقدس جو درجے میں بھی کعبے کے بعد ہے اور فضیلت میں بھی۔(تفسیر نعیمی، جلد 4، صفحہ 29، مختصرا)

مدینہ منورہ کے بارے میں احادیثِ کریمہ:

1۔مصطفے کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے دعا فرمائی:اللہم اجعل بالمدینۃ ضعفی ما جعلت بمکۃ من البرکۃ۔اے اللہ پاک!جتنی تو نے مکہ میں برکت عطا فرمائی ہے،مدینہ میں اس سے دوگنی برکت عطا فرما۔

(بخاری، جلد 1، صفحہ 620، حدیث 1885)

مذکورہ حدیثِ پاک میں اللہ پاک کے آخری نبی محمد مصطفے صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے برکت کی دعا فرمائی ہے۔ بہت ساری خیر کا نام برکت ہے۔

2۔چونکہ مدینہ منورہ کو پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے شرفِ قیام بخشا،سرزمینِ مدینہ کو اپنے قدموں کے بوسے لینے کی سعادت عطا فرمائی، ان سعادتوں سے فیض یاب ہو کر شہرِ مدینہ نے عظمت و رفعت پائی، آپ کی دعا سے اس مبارک شہر کو اتنی برکت میسر آئی کہ مدینہ میں مرنا شفاعتِ مصطفے کی ضمانت اور مدینہ میں رہنا عافیت کی علامت قرار پایا، یوں یہ شہر بہت فضیلت اور دگنی خیروبرکت کا ایسا مرکز بنا کہ جسے دیکھنے کے لئے ہر عاشقِ رسول تڑپتا ہے۔بخاری شریف کی اس حدیث میں برکاتِ مدینہ سے متعلق دعائے مصطفے کا ذکر ہے، اس دعا کا ظہور وہاں کی آب و ہوا اور اشیا میں واضح طور پر نظر آتا ہے۔(عمدۃ القاری، 7/594)

برکاتِ مدینہ میں سے سات ملاحظہ کیجئے:

1۔جب کوئی مسلمان زیارت کی نیت سے مدینہ منورہ آتا ہے تو فرشتے رحمت کے تحفوں سے اس کا استقبال کرتے ہیں۔(جذب القلوب، صفحہ 211)ایک موقع پر نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے یوں دعا فرمائی :اے اللہ پاک! ہمارے لئے ہمارے مدینہ میں برکت دے۔(ترمذی،5/282، حدیث3465)

2۔مسجد نبوی میں ایک نماز پڑھنا پچاس ہزار نمازوں کے برابر ہے۔(ابن ماجہ،2/176، حدیث1413)

3۔ایمان کی پناہ گاہ مدینہ منورہ ہے۔(بخاری،1/618، حدیث1876)

4۔مدینے کی حفاظت پر فرشتے مامور ہیں،چنانچہ آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:اس ذات کی قسم! جس کے دستِ قدرت میں میری جان ہے،مدینےمیں نہ کوئی گھاٹی ہے نہ کوئی راستہ ہے، مگر اس پر دو فرشتے ہیں، جو اس کی حفاظت کر رہے ہیں۔(مسلم،ص548، حدیث1374)

امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:اس کے بعد میں مدینہ منورہ کی فضیلت کا بیان ہے اور رسول ِاکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے زمانے میں اس کی حفاظت کرتے اور انہوں نے تمام گھاٹیوں کو سرکار ِمدینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی عزت افزائی کے لئے گھیرا ہوا ہے۔(شرح مسلم للنوی،5/148)

5۔خاکِ مدینہ کو شفا قرار دیا ہے، چنانچہ جب غزوہ ٔتبوک سے واپس تشریف لارہے تھے تو تبوک میں شامل ہونے سے رہ جانے والے کچھ صحابہ کرام علیہم الرضوان ملے، انہوں نے گرد اُڑائی، ایک شخص نے اپنی ناک ڈھانپ لی، آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اس کی ناک سے کپڑا ہٹایا اور فرمایا:اس ذات کی قسم! جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، مدینے کی خاک میں ہر بیماری سے شفا ہے۔(جامع الاصول،9/297، حدیث6962)

6۔مدینہ کے پھل بھی بابرکت ہیں، کیونکہ آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے دعا فرمائی ہے۔(ترمذی،5/282، حدیث3465)

7۔مدینے میں جینا حصولِ برکت اور مرنا شفاعت پانے کا ذریعہ ہے، چنانچہ رحمتِ عالم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا ارشاد ہے:جو مدینے میں مر سکے وہ وہیں مرے،کیونکہ میں مدینے میں مرنے والوں کی شفاعت کروں گا۔(ترمذی،5/483، حدیث3943)

یہی وجہ ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ یوں دعا مانگا کرتے تھے:اے اللہ پاک!مجھے اپنی راہ میں شہادت دے اور مجھے اپنے رسول کے شہر میں موت عطا فرما۔(بخاری،1/622، حدیث1890)اللہ پاک ہمیں برکاتِ مدینہ سے مالامال فرمائے۔آمین