(1)پہلی صفت وہ
صالحہ نیک بخت اور ادب والیاں: فَالصّٰلِحٰتُ
قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَیْبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰهُؕ- ترجمہ: نیک
بخت عورتیں ادب والیاں ہیں خاوند کے پیچھے حفاظت رکھتی ہیں جس طرح اللہ نے حفاظت
کا حکم دیا۔(پارہ 5، سورة النسآء، الآیۃ: 34)
حضرت
ابو امامہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، حضورِا قدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نے ارشاد فرمایا تقویٰ کے بعد مومن کے لئے نیک بیوی سے بہتر کوئی چیز نہیں کہ
اگروہ اُسے حکم دے تو وہ اطاعت کرے اوراگر اسے دیکھے تو خوش کر دے اور اس پر قسم
کھا بیٹھے تو قسم سچی کر دے اور کہیں چلا جائے تو اپنے نفس اور شوہر کے مال میں
بھلائی کرے۔(ابن ماجہ، کتاب النکاح، باب افضل النساء، 2/414،
الحدیث: 1857)
(2)دوسری صفت اپنی عصمت و آبرو اور پارسائی کا
پورا تحفظ کرے: اپنی
عصمت و آبرو کا پورا تحفظ کرے اور کسی بھی وقت اور کسی کے ساتھ بھی ایسا رویہ
اختیار نہ کرے جس سے خاوند کو کوئی شکایت پیدا ہو یا اس کی مردانہ غیرت و حمیت کے
خلاف ہو۔ وَ یَحْفَظْنَ فُرُوْجَهُنَّ ترجمہ: اور
اپنی پارسائی کی حفاظت کریں۔(سورۃ النور، آیت:31)
(3)تیسری صفت وہ زینت نہ دیکھائیں:وَ لَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَهُنَّ ترجمہ: اور
اپنی زینت نہ دکھائیں۔(سورۃ النور، آیت:31)زینت سے مراد وہ چیزیں ہیں جن کے ذریعے
عورت سجتی سنورتی ہے جیسے زیور وغیرہ اور چونکہ محض زینت کے سامان کو دکھانا مباح
ہے اس لئے آیت کا معنی یہ ہے کہ مسلمان عورتیں اپنے بدن کے ان اعضاء کو ظاہر نہ
کریں جہاں زینت کرتی ہیں جیسے سر، کان، گردن، سینہ، بازو، کہنیاں اور پنڈلیاں،
البتہ بد ن کے وہ اعضاء جوعام طور پر ظاہر ہوتے ہیں جیسے چہرہ،دونوں ہاتھ اور
دونوں پاؤں،انہیں چھپانے میں چو نکہ مشقت واضح ہے اس لئے ان اعضاء کو ظاہر کرنے
میں حرج نہیں۔(لیکن فی زمانہ چہرہ بھی چھپایا جائے گا)۔(مدارک، النور، تحت الآیۃ:
31، ص777)
(4)چوتھی صفت کہ وہ اپنے پاؤں زمین پر زور سے
نہ ماریں:وَ لَا یَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِهِنَّ ترجمہ: اور
زمین پر اپنے پاؤں زور سے نہ ماریں۔ (سورۃ النور، آیت:31)عورتیں چلنے پھرنے میں
پاؤں اس قدر آہستہ رکھیں کہ اُن کے زیور کی جھنکار نہ سُنی جائے۔ اسی لئے چاہیے کہ
عورتیں بجنے والے جھانجھن نہ پہنیں۔ حدیث شریف میں ہے کہ اللہ تعالیٰ اس قوم کی
دعا نہیں قبول فرماتا جن کی عورتیں جھانجھن پہنتی ہوں۔ اس سے سمجھ لیناچاہیے کہ جب
زیور کی آواز دعا قبول نہ ہونے کا سبب ہے تو خاص عورت کی آواز اور اس کی بے پردگی
کیسی اللہ تعالیٰ کے غضب کو لازم کرنے والی ہوگی۔ پردے کی طرف سے بے پروائی تباہی
کا سبب ہے (اللہ کی پناہ)۔ (تفسیر احمدی، النور، تحت الآیۃ: 31، ص565،
خزائن العرفان، النور، تحت الآیۃ: 31، ص656 ملتقطاً)
(5)پانچویں صفت وہ پردہ کرنے والیاں ہیں:وَ لْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلٰى جُیُوْبِهِنَّ ترجمہ:
اور وہ اپنے دوپٹے اپنے گریبانوں پر ڈالے رکھیں۔ (سورۃ النور، آیت:31) مسلمان
عورتیں اپنے دوپٹوں کے ذریعے اپنے بالوں، گردن،پہنے ہوئے زیور اور سینے وغیرہ کو
ڈھانپ کر رکھیں۔ (تفسیرات احمدیہ، النور، تحت الآیۃ: 31،
ص562)
حضرت
اُمِّ خلاد رضی اللہُ عنہا کا بیٹا جنگ میں شہید ہو گیا، آپ رضی اللہُ عنہا ان کے
بارے میں معلومات حاصل کرنے کیلئے چہرے پرنقاب ڈالے باپردہ بارگاہِ رسالت صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں حاضر ہو ئیں، اس پر کسی نے حیرت سے کہا:اس وقت بھی آپ
نے منہ پر نقاب ڈال رکھا ہے!آپ رضی اللہُ عنہا نے جواب دیا: میں نے بیٹاضرور
کھویا ہے لیکن حیا ہر گز نہیں کھوئی۔(ابو داؤد، کتاب الجہاد، باب فضل قتال الروم
علی غیرہم من الامم، 3/9، الحدیث: 2488)
(6)چھٹی
صفت جو پاک اور صاف ستھریاں ہیں ان کے لیے ستھرے مرد اور بخشش اور عزت کی روزی ہے،
جیسا کہ اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: اَلْخَبِیْثٰتُ
لِلْخَبِیْثِیْنَ وَ الْخَبِیْثُوْنَ لِلْخَبِیْثٰتِۚ-وَ الطَّیِّبٰتُ
لِلطَّیِّبِیْنَ وَ الطَّیِّبُوْنَ لِلطَّیِّبٰتِۚ-اُولٰٓىٕكَ مُبَرَّءُوْنَ
مِمَّا یَقُوْلُوْنَؕ-لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ رِزْقٌ كَرِیْمٌ۠(۲۶)
ترجَمۂ
کنزُالایمان: گندیاں گندوں کے لیے اور گندے گندیوں کے لیے اور ستھریاں ستھروں کے
لیے اور ستھرے ستھریوں کے لیے وہ پاک ہیں اُن باتوں سے جو یہ کہہ رہے ہیں اُن کے
لیے بخشش اور عزت کی روزی ہے۔ (سورۃ النور، آیت:26)
(7)ساتویں
صفت جو پارسا اور ایمان والیوں پر الزام لگاتے ہیں ان کے لیے دنیا اور آخرت میں
بڑا عذاب ہے اِنَّ الَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ الْغٰفِلٰتِ
الْمُؤْمِنٰتِ لُعِنُوْا فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ۪-وَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌۙ(۲۳)
ترجَمۂ
کنزُالایمان:بیشک وہ جو عیب لگاتے ہیں انجان پارسا ایمان والیوں کو ان پر لعنت ہے
دنیا اور آخرت میں اور ان کے لیے بڑا عذاب ہے۔(سورۃ النور، آیت:23)
آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ عورتیں جوبدکاری اور
فِسق و فُجور کو جانتی بھی نہیں اور بُرا خیال اُن کے دل میں بھی نہیں گزرتا اور
وہ پاکدامن اورایمان والی ہیں، ایسی پاکیزہ عورتوں پر بدکاری کا بہتان لگانے والوں
پر دنیا اور آخرت میں لعنت ہے اور ان کے لیے بڑا عذاب ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس
رضی اللہُ عنہما نے فرمایا کہ آیت میں عورتوں کے بیان کردہ اوصاف سید المرسلین
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ازواجِ مطہرات کے اوصاف ہیں، اور ایک قول یہ ہے
کہ اس سے تمام ایماندار اور پارسا عورتیں مراد ہیں، انہیں عیب لگانے والوں پر اللہ
تعالیٰ لعنت فرماتا ہے۔(مدارک، النور، تحت الآیۃ: 23،
ص775)
(8)آٹھویں صفت خاوند کو تسلی دینے والی: نیک
عورت کی ایک صفت یہ ہے کہ خاوند کو زندگی میں کوئی ایسا مرحلہ پیش آجائے جس سے وہ
گھبرا جائے اور اندیشہ ہائے دور درازمیں مبتلا ہو جائے تو عورت اس کو تسلی دے، اس
کی ڈھارس بندھائے اور اس کی خوبیوں کا ذکر کر کے اس کو اللہ سے اچھی امیدیں وابستہ
کرنے کی تلقین کرے۔
اُم
المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہُ عنہا سے روایت ہے، سرکارِ عالی وقار صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا جو عورت اس حال میں مری کہ اس کا شوہر اس سے
راضی تھا وہ جنت میں داخل ہو گی۔(ترمذی، کتاب الرضاع، باب ما جاء فی حقّ الزوج علی
المرأۃ، 2/386، الحدیث: 1164)
(9)نویں صفت خاوند کی خدمت و اطاعت کی اہمیت و
تاکید: خاوند
کی خدمت و اطاعت کی اسلام میں کتنی اہمیت اور تاکید ہے، اس کااندازہ حدیث سے لگایا
جا سکتا ہے۔ حدیث میں رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اگر میں
کسی کو کسی کے لیے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو یقینا عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے
خاوند کو سجدہ کیا کرے۔(جامع الترمذی، حدیث: 1159)