سید شہریار (درجۂ سادسہ جامعۃ المدینہ فیضانِ حسن و جمال
مصطفیٰ لانڈھی کراچی، پاکستان)
اللہ
عزوجل نے اپنے پیارے کلام قرآن مجید فرقان حمید میں مؤمنہ عورتوں کی بے شمار صفات
متعدد مقامات پر بیان فرمائی ہیں ان میں سے چند ایک درج ذیل ہے:
(1)مؤمنہ عورت
رفیقہ ہوتی ہے:
وَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتُ
بَعْضُهُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍۘ-یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ
وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَ یُطِیْعُوْنَ اللّٰهَ وَ
رَسُوْلَهٗؕ-اُولٰٓىٕكَ سَیَرْحَمُهُمُ اللّٰهُؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ(۷۱)
ترجمۂ
کنز الایمان: اور مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق ہیں بھلائی کا
حکم دیں اور برائی سے منع کریں اور نماز قائم رکھیں اور زکوٰۃ دیں اور اللہ و رسول
کا حکم مانیں یہ ہیں جن پر عنقریب اللہ رحم کرے گا بیشک اللہ غالب حکمت والا
ہے۔(سورہ توبہ)
اس
سے پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے منافقین کے خبیث اَعمال اور فاسد اَحوال بیان
فرمائے، پھراس عذاب کا بیان فرمایا جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے دنیاو آخرت میں
تیار کیا اور اِس آیت سے مومنوں کے اوصاف، ان کے اچھے اعمال اور ان کے اس اجر و
ثواب کو بیان فرمایا جو اللہ تعالیٰ نے دنیا و آخرت میں ان کے لئے تیار فرمایا
ہے، (تفسیر صراط الجنان)
(2)مؤمنہ عورت
بدگمان نہیں ہوتی:
لَوْ لَاۤ اِذْ سَمِعْتُمُوْهُ ظَنَّ
الْمُؤْمِنُوْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتُ بِاَنْفُسِهِمْ خَیْرًاۙ-وَّ قَالُوْا هٰذَاۤ
اِفْكٌ مُّبِیْنٌ(۱۲)
ترجمۂ
کنز الایمان: کیوں نہ ہوا جب تم نے اسے سُنا تھا کہ مسلمان مَردوں اور مسلمان
عورتوں نے اپنوں پر نیک گمان کیا ہوتا اور کہتے یہ کھلا بہتان ہے۔(سورہ نور)
اس
آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ادب سکھاتے ہوئے ارشاد فرمایا ایسا کیوں نہ
ہوا کہ جب تم نے یہ بہتان سنا تو مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں اپنے لوگوں پر نیک
گمان کرتے کیونکہ مسلمان کو یہی حکم ہے کہ وہ مسلمان کے ساتھ نیک گمان کرے کہ
بدگمانی ممنوع ہے۔ نیز لوگ سن کرکہتے کہ یہ کھلا بہتان ہے، بالکل جھوٹ ہے اوربے
حقیقت ہے (تفسیر صراط الجنان،خازن، النور، تحت الآیۃ: 12، 3/343، تفسیرکبیر،
النور، تحت الآیۃ: 12، 8/341، ملتقطاً)
(3)مؤمنہ عورت فرمانبردار ہوتی ہے:
اِنَّ الْمُسْلِمِیْنَ وَ
الْمُسْلِمٰتِ وَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ وَ الْقٰنِتِیْنَ وَ
الْقٰنِتٰتِ وَ الصّٰدِقِیْنَ وَ الصّٰدِقٰتِ وَ الصّٰبِرِیْنَ وَ الصّٰبِرٰتِ وَ
الْخٰشِعِیْنَ وَ الْخٰشِعٰتِ وَ الْمُتَصَدِّقِیْنَ وَ الْمُتَصَدِّقٰتِ وَ
الصَّآىٕمِیْنَ وَ الصّٰٓىٕمٰتِ وَ الْحٰفِظِیْنَ فُرُوْجَهُمْ وَ الْحٰفِظٰتِ وَ
الذّٰكِرِیْنَ اللّٰهَ كَثِیْرًا وَّ الذّٰكِرٰتِۙ-اَعَدَّ اللّٰهُ لَهُمْ مَّغْفِرَةً
وَّ اَجْرًا عَظِیْمًا(۳۵)
ترجمۂ
کنز الایمان: بیشک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں اور ایمان والے اور ایمان والیاں
اور فرماں بردار اور فرماں برداریں اور سچے اور سچیاں اور صبر والے اور صبر والیاں
اور عاجزی کرنے والے اور عاجزی کرنے والیاں اور خیرات کرنے والے اور خیرات کرنے
والیاں اور روزے والے اورروزے والیاں اور اپنی پارسائی نگاہ رکھنے والے اور نگاہ
رکھنے والیاں اور اللہ کو بہت یاد کرنے والے اور یاد کرنے والیاں ان سب کے لیے
اللہ نے بخشش اور بڑا ثواب تیار کر رکھا ہے۔ (سورہ الاحزاب)
شانِ
نزول:حضرت اسماء بنت ِعمیس رضی اللہُ عنہا جب اپنے شوہرحضرت جعفر بن ابی طالب رضی
اللہُ عنہ کے ساتھ حبشہ سے واپس آئیں تو ازواجِ مُطَہَّرات رضی اللہُ عنہن سے مل
کر انہوں نے دریافت کیا کہ کیا عورتوں کے بارے میں بھی کوئی آیت نازل ہوئی ہے۔
اُنہوں نے فرمایا:نہیں، تو حضرت اسماء رضی اللہُ عنہا نے حضور پُر نور صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے عرض کی: یا رسولَ اللہ! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم،
عورتیں توبڑے نقصان میں ہیں۔ارشادفرمایا:کیوں؟عرض کی: ان کا ذکر (قرآن میں)خیر کے
ساتھ ہوتا ہی نہیں جیسا کہ مردوں کا ہوتا ہے۔ اس پر یہ آیت ِکریمہ نازل ہوئی اور
ان کے دس مراتب مردوں کے ساتھ ذکر کئے گئے اور ان کے ساتھ ان کی مدح فرمائی
گئی۔(تفسیر صراط الجنان)
(4)مؤمنہ عورت
کی نورانیت:
یَوْمَ تَرَى الْمُؤْمِنِیْنَ وَ
الْمُؤْمِنٰتِ یَسْعٰى نُوْرُهُمْ بَیْنَ اَیْدِیْهِمْ وَ بِاَیْمَانِهِمْ
بُشْرٰىكُمُ الْیَوْمَ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ
فِیْهَاؕ-ذٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُۚ(۱۲)
ترجمۂ
کنز الایمان: جس دن تم ایمان والے مردوں اور ایمان والی عورتوں کو دیکھو گے کہ اُن
کا نور ان کے آگے اور ان کے دہنے دوڑتا ہے ان سے فرمایا جارہا ہے کہ آج تمہاری سب
سے زیادہ خوشی کی بات وہ جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں بہیں تم اُن میں ہمیشہ رہو
یہی بڑی کامیابی ہے۔(سورہ الحدید)
اس
آیت میں اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کے بارے میں خبر دی کہ قیامت کے دن تم مومن
مَردوں اورایمان والی عورتوں کو پل صراط پر اس حال میں دیکھو گے کہ ان کے ایمان
اور بندگی کا نور ان کے آگے اور ان کی دائیں جانب دوڑرہا ہے اور وہ نور جنت کی طرف
اُن کی رہنمائی کررہا ہے اور(پل صراط سے گزر جانے کے بعد)ان سے فرمایا جائے گا کہ
آج تمہاری سب سے زیادہ خوشی کی بات وہ جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، تم ان
میں ہمیشہ رہوگے اور یہی بڑی کامیابی ہے۔(تفسیر صراط الجنان، مدارک، الحدید، تحت
الآیۃ: 12، ص1208، 1209، خازن، الحدید، تحت الآیۃ: 12، 4/228، 229، ملتقطاً)