ہر وہ عورت جس نے کلمہ پڑھا، وہ مسلمان ہے۔ مگر یہ ضروری نہیں کہ ہر مسلمان عورت مؤمنہ بھی ہو۔ مومنہ اپنی عادات سے پہچانی جاتیں ہیں۔ قرآن میں رب کریم نے مومنہ عورتوں کی صفات کا تذکرہ جابجا کیا ہے۔ قرآن کریم سے مومنہ عورتوں کی چند صفات کا ذکر کرتے ہیں۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: اِنَّ الْمُسْلِمِیْنَ وَ الْمُسْلِمٰتِ وَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ وَ الْقٰنِتِیْنَ وَ الْقٰنِتٰتِ وَ الصّٰدِقِیْنَ وَ الصّٰدِقٰتِ وَ الصّٰبِرِیْنَ وَ الصّٰبِرٰتِ وَ الْخٰشِعِیْنَ وَ الْخٰشِعٰتِ وَ الْمُتَصَدِّقِیْنَ وَ الْمُتَصَدِّقٰتِ وَ الصَّآىٕمِیْنَ وَ الصّٰٓىٕمٰتِ وَ الْحٰفِظِیْنَ فُرُوْجَهُمْ وَ الْحٰفِظٰتِ وَ الذّٰكِرِیْنَ اللّٰهَ كَثِیْرًا وَّ الذّٰكِرٰتِۙ-اَعَدَّ اللّٰهُ لَهُمْ مَّغْفِرَةً وَّ اَجْرًا عَظِیْمًا(۳۵) (پ 22، الاحزاب: 35) ترجمہ کنز العرفان: بےشک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں اور ایمان والے مرد اور ایمان والی عورتیں اور فرمانبردار مرد اور فرمانبردار عورتیں اور سچے مرد اور سچی عورتیں صبر کرنے والے اور صبر کرنے والیاں اور عاجزی کرنے والے اور عاجزی کرنے والیاں اور خیرات کرنے والے اور خیرات کرنے والیاں اور روزے رکھنے والے اور روزے رکھنے والیاں اور اپنی پارسائی کی حفاظت کرنے والے اور حفاظت کرنے والیاں اور اللہ کو بہت یاد کرنے والے اور بہت یاد کرنے والیاں ان سب کے لیے اللہ نے بخشش اور بڑاثواب تیار کررکھا ہے۔

شانِ نزول: حضرت اسماء بنت ِعمیس رضی اللہ عنہا جب اپنے شوہرحضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے ساتھ حبشہ سے واپس آئیں تو ازواجِ مطہرات سے مل کر انہوں نے دریافت کیا کہ کیا عورتوں کے بارے میں بھی کوئی آیت نازل ہوئی ہے۔ اُنہوں نے فرمایا: نہیں، تو حضرت اسماء نے حضور پُر نور ﷺ سے عرض کی: یا رسولَ اللہ! عورتیں توبڑے نقصان میں ہیں۔ ارشادفرمایا: کیوں؟ عرض کی: ان کا ذکر خیر کے ساتھ ہوتا ہی نہیں جیسا کہ مردوں کا ہوتا ہے۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔

خلاصہ یہ ہے کہ جو عورتیں اسلام، ایمان اورطاعت میں، قول اور فعل کے سچا ہونے میں، صبر، عاجزی و انکساری اور صدقہ و خیرات کرنے میں، روزہ رکھنے اور اپنی عفت و پارسائی کی حفاظت کرنے میں اور کثرت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے میں مردوں کے ساتھ ہیں، تو ایسے مردوں اور عورتوں کے لئے اللہ رب العزت نے ان کے اعمال کی جزا کے طور پر بخشش اور بڑا ثواب تیار کر رکھا ہے۔ ( ابو سعود، الاحزاب، تحت الآيۃ: 35: 7/321)

امر بالمعروف ونہی عن المنکر: رب تعالیٰ بابرکت کلام میں ارشاد فرماتا ہے: وَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُهُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍۘ-یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَ یُطِیْعُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗؕ- اُولٰٓىٕكَ سَیَرْحَمُهُمُ اللّٰهُؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ(۷۱) (پ10، التوبہ:71) ترجمہ کنز الایمان: اور مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق ہیں بھلائی کا حکم دیں اور برائی سے منع کریں اور نماز قائم رکھیں اور زکوٰۃ دیں اور اللہ و رسول کا حکم مانیں یہ ہیں جن پر عنقریب اللہ رحم کرے گا بےشک اللہ غالب حکمت والا ہے۔

مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق، آپس میں دینی محبت والفت رکھتے اور ایک دوسرے کے معین و مددگار ہیں۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان لانے اور شریعت کی اتباع کرنے کا حکم دیتے ہیں اور شرک و معصیت سے منع کرتے ہیں۔ فرض نمازیں ان کے حدود و اَرکان پورے کرتے ہوئے ادا کرتے ہیں۔ اپنے اوپر واجب ہونے والی زکوٰۃ دیتے ہیں اور ہر معاملے میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کا حکم مانتے ہیں۔ ان صفات سے مُتَّصِف مومن مرد اور عورتیں وہ ہیں جن پر عنقریب اللہ تعالیٰ رحم فرمائے گا اور انہیں دردناک عذاب سے نجات دے گا۔ بیشک اللہ تعالیٰ غالب اور حکمت والا ہے۔ (صراط الجنان، 4/173)