حضرت آدم علیہ السلام سے لیکر ہمارے آخری نبی صلی اللہ علیہ
وسلم تک جتنے انبیا آئے ان سب کےکوئی نہ
کوئی مقاصد تھے، لوگوں کو اللہ پاک کی توحید کی دعوت دینا، لوگوں کو اللہ کےقریب
کرناوغیرہ۔
انبیاء کی بعثت کے
چند مقاصد قرآن مجید کی روشنی میں:
(1)اللہ پاک کی عبادت کی طرف دعوت:اِنَّ اللّٰهَ رَبِّیْ وَ رَبُّكُمْ
فَاعْبُدُوْهُؕ-هٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ(۵۱)ترجَمۂ کنزالعرفان: بیشک اللہ میرااور تمہارا سب کا رب ہے تو اسی کی
عبادت کرو۔ یہی سیدھا راستہ ہے۔(پ 3،آل عمران:51) تفسیر:حضرت عیسیٰ
علیہ والصلوۃ والسلام کایہ فرمانا اپنا بندہ ہونے کا اقرار اور رب ہونے کا انکار
ہے اور لوگوں کو اللہ پاک کی عبادت کرنے کافرمایا۔
(2) خوشخبری
دینا اورڈرسنانا:وَ
مَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِیْنَ اِلَّا مُبَشِّرِیْنَ وَ مُنْذِرِیْنَۚ ترجمۂ
کنزالعرفان :اور ہم رسولوں کوخوشخبری دینے والے اور ڈر کی خبریں سنانے والے بنا کر
ہی بھیجتے ہیں ۔(پ 15،کہف:56)تفسیر صراطِ الجنان میں ارشاد فرمایا کہ ہم رسولوں کو ان کی امتوں کی طرف بھیجتے ہیں تاکہ وہ ایمان والوں اور اطاعت گزاروں کو ثواب اور جنت کے دَرجات کی خوشخبری دیں جبکہ کافروں اور گناہگاروں کو عذاب اور جہنم
کےدرکات سے ڈرانےوالی خبریں سنائی۔
(3) لوگوں کے درمیان انصاف سے فیصلہ کرنا
تاکہ لوگوں پر ظلم نہ ہو:وَ لِكُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلٌۚ-فَاِذَا جَآءَ رَسُوْلُهُمْ
قُضِیَ بَیْنَهُمْ بِالْقِسْطِ وَ هُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ(۴۷)ترجمہ
کنزالعرفان: اور ہر امت کے لئے ایک رسول ہوا ہے توجب ان کا رسول ان کے
پاس تشریف لاتا تو ان کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کردیا جاتا اور ان پر کوئی
ظلم نہیں کیا جاتاہے۔(پ 11،یونس:47) تفسیر
صراطِ الجنان: ان کے درمیان انصاف کےساتھ فیصلہ کرنا اس میں دو قول ہے، ایک
قول یہ ہے کہ اس میں دنیا کا بیان ہے اور معنی یہ ہے کہ ہر اُمت کے لئے دنیا میں
ایک رسول ہوا ہے جو انہیں دینِ حق کی دعوت دیتا اور طاعت و ایمان کا حکم کرتا، جب
ان کا رسول ان کے پاس تشریف لاتا اور احکامِ الٰہی کی تبلیغ کرتا تو کچھ لوگ ایمان
لاتے اور کچھ تکذیب کرتے اور مُنکر ہو جاتے ، تب ان کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ
کر دیا جاتا کہ رسول کو اور ان پر ایمان لانے والوں کو نجات دی جاتی اور تکذیب
کرنے والوں کو عذاب سے ہلاک کر دیا جاتا۔
(4)کتاب و حکمت کا علم سکھانا:رَبَّنَا
وَ ابْعَثْ فِیْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِكَ وَ
یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ یُزَكِّیْهِمْؕ-اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ
الْحَكِیْمُ۠(۱۲۹) ترجمۂ کنز العرفان : اے ہمارے رب! اور ان کے
درمیان انہیں میں سے ایک رسول بھیج جواِن پر تیری آیتوں کی تلاوت فرمائے اور انہیں
تیری کتاب اور پختہ علم سکھائے اور انہیں خوب پاکیزہ فرمادے۔ بیشک تو ہی غالب حکمت
والاہے۔(پ 1،بقرہ:129) تفسیر صراطِ الجنان: حضرت ابراہیم
اور حضرت اسمٰعیل علیہما الصلوٰۃ والسلام کی یہ دُعا سیدِ انبیاء صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم َکے لئے تھی۔کتاب
و حکمت سے مراد قرآن پاک اور اس کے احکام سکھانا ہے۔
(6،5) خوشخبری دینا:اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ بِالْحَقِّ بَشِیْرًا وَّ
نَذِیْرًاۙ- ترجمۂ کنز العرفان :اےحبیب!بےشک ہم نے تمہیں حق کے ساتھ
خوشخبری دینے والا اور ڈر کی خبریں دینے والابناکرربھیجا۔(پ 1،بقرہ:119) اس آیت
میں ایک مقصد خوشخبری دینااوردوسراڈر کی
خبریں دینا بیان کیاگیاہے۔
(7)لوگ انبیا کی
اطاعت کرے:وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا
مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰهِؕ ﴾ ترجمۂ کنزالعرفان :اور ہم نے کوئی رسول نہ بھیجا مگر اس لئے کہ
اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے۔(پ 5،نساء:64)تفسیر صراطِ الجنان: یہاں
رسولوں کی تشریف آوری کا مقصد بیان کیا گیا ہے کہ اللہ پاک رسولوں کو بھیجتا ہی اس لئے ہے کہ اللہ پاک
کے حکم سے ان کی اطاعت کی جائے۔ اسی لئے اللہ پاک اَنبیاء و رُسُل علیہم الصلوٰۃ
والسلام کو معصوم بناتا ہے کیونکہ اگر انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام خود گناہوں کے
مُرتَکِب ہوں گے تو دوسرے ان کی اطاعت و اِتّباع کیا کریں گے۔ رسول کی اطاعت اس
لئے ضروری ہے کہ اللہ پاک کی اطاعت کا
طریقہ ہی رسول کی اطاعت کرنا ہے۔ اس سے ہٹ کر اطاعت ِ الہٰی کا کوئی دوسرا طریقہ
نہیں لہٰذا جو رسول کی اطاعت کا انکار کرے گا وہ کافر ہوگا اگرچہ ساری زندگی سر پر
قرآن اٹھا کر پھرتا رہے۔
(8)قوم کواندھیروں سے
اجالے کی طرف لانا:وَ
لَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰى بِاٰیٰتِنَاۤ اَنْ اَخْرِ جْ قَوْمَكَ مِنَ
الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ ترجَمۂ
کنزُالعرفان: اور بیشک ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیاں دے کر بھیجا کہ اپنی
قوم کو اندھیروں سے اجالے میں لاؤ ۔(پ 13،ابراہیم:5)تفسیرصراط الجنان:اس سے یہ
بتانا مقصود ہے کہ تمام انبیاءِ کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کا مقصد ایک ہی ہے کہ وہ اللہ پاک کی
مخلوق کو کفر کے اندھیروں سے ہدایت اور
ایمان کی روشنی کی طرف لانے کی کوشش کریں ۔ (تفسیرکبیر، ابراہیم، تحت الآیۃ: 5، 7 / 64)
(9) لوگوں کو اللہ پاک کے ایام یاد کروانا:وَ ذَكِّرْهُمْ
بِاَیّٰىمِ اللّٰهِؕ ترجمہ کنزالعرفان۔:اور انہیں اللہ کے دن یا د
دلاؤ۔ (پ 13،ابراھیم:5) اس میں نعمتوں کو یاد دلانے کا مقصدبیان ہے۔تفسیرصراط الجنان: قاموس
میں ہے کہ اللہ پاک کے دنوں سے اللہ پاک کی نعمتیں مراد ہیں ۔ حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت اُبی بن
کعب ،امام مجاہد اور حضرت قتادہ رضی اللہُ
عنہم نے بھی اَیَّامُ اللّٰہ کی تفسیر ’’اللہ کی نعمتیں ‘‘ فرمائی ہے۔
(10)قوم کو آنے والے
عذاب سے ڈرانا تاکہ ان کا عذر باقی نہ رہے:اِنَّاۤ اَرْسَلْنَا
نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖۤ اَنْ اَنْذِرْ قَوْمَكَ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَهُمْ
عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱)ترجمۂ کنزالعرفان: بیشک ہم نے نوح کو اس کی
قوم کی طرف بھیجا کہ اس وقت سے پہلے اپنی قوم کو ڈرا کہ ان پر دردناک عذاب آئے۔(پ
29،نوح:1)
تفسیرصراط
الجنان:حضرت نوح علیہ الصلوٰۃُ والسلام کی قوم بتوں کی پُجاری تھی ، اللہ پاک نے حضرت نوح علیہ
الصلوٰۃُ والسلام کو ان کی قوم کی طرف رسول بنا کر بھیجااور انہیں یہ حکم دیاکہ وہ اپنی قوم کو پہلے سے ہی ڈرا دیں کہ اگر وہ ایمان نہ لائے تو ان پر دنیا و اخرت
کا دردناک عذاب آئے گا تاکہ ان کے لئے اصلاً کوئی عذر باقی نہ رہے۔ یاد رہے کہ
حضرت نوح علیہ الصلوٰۃُ والسلام وہ سب سے پہلے رسول ہیں جنہوں نے کفار کو تبلیغ کی اور سب سے پہلے آپ علیہ الصلوٰۃُ والسلام کی قوم پر
ہی دُنْیَوی عذاب آیا۔( سمرقندی، نوح، تحت الآیۃ: 1، 3 / 406، جلالین، نوح، تحت الآیۃ: 1، ص473، روح البیان، نوح، تحت الآیۃ: 1، 10 / 171، ملتقطاً)