(1) توحید کی دعوت:وَ وَصّٰى بِهَاۤ اِبْرٰهٖمُ بَنِیْهِ وَ یَعْقُوْبُؕ-یٰبَنِیَّ اِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰى لَكُمُ الدِّیْنَ فَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَؕ(۱۳۲)ترجمۂ کنزالایمان:اور اسی دین کی وصیت کی ابراہیم نے اپنے بیٹوں کو اور یعقوب نے کہ اے میرے بیٹو بیشک اللہ نے یہ دین تمہارے لئے چن لیا تو نہ مرنا مگر مسلمان۔(پ 1،بقرہ:132)

نوٹ: اس سے معلوم ہوا کہ والدین کو صرف مال کے متعلق ہی وصیت نہیں کرنی چاہیے بلکہ اولاد کو عقائد ِ صحیحہ، دین پر استقامت، نیکیوں پر مداومت اور گناہوں سے دور رہنے کی وصیت بھی کرنی چاہیے۔ اولاد کو دین سکھانا اور ان کی صحیح تربیت کرتے رہنا والدین کی ذمہ داری ہے۔(تفسیر صراط الجنان ، 1 / 215)

(2) غلبہ دین کے لئے:هُوَ الَّذِیْۤ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّیْنِ كُلِّهٖؕ-وَ كَفٰى بِاللّٰهِ شَهِیْدًاؕ(۲۸)ترجَمۂ کنزُالایمان: وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا کہ اُسے سب دینوں پر غالب کرے اور اللہ کافی ہے گواہ ۔( پ 26، فتح: 28) اللہ پاک نے اپنے رسولوں کو ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے سب دینوں پر غالب کردے خواہ وہ مشرکین کے دین ہو یا اہلِ کتاب کے۔(تفسیر صراط الجنان ،9 / 383)

(3) ڈر سنانے کے لیے:اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ بِالْحَقِّ بَشِیْرًا وَّ نَذِیْرًاۙ-وَّ لَا تُسْــٴَـلُ عَنْ اَصْحٰبِ الْجَحِیْمِ(۱۱۹)ترجمۂ کنز الایمان: بےشک ہم نے تمہیں حق کے ساتھ بھیجا خوشخبری دیتا اور ڈر سناتا اور تم سے دوزخ والوں کا سوال نہ ہوگا۔(پ 1،بقرہ:119) تفسیر : آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تبلیغ کے باوجود اگر کوئی جہنم کی راہ جاتا ہے تو اس کے متعلق آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے سوال نہ ہوگا کہ وہ کیوں ایمان نہ لایا ، اس لیے کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنا فرضِ تبلیغ پورے طور پر ادا فرمادیا۔( تفسیر صراۃ الجنان ،1 /203)

(4) خوشخبری سنانے کے لیے:وَ بَشِّرِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُؕ-كُلَّمَا رُزِقُوْا مِنْهَا مِنْ ثَمَرَةٍ رِّزْقًاۙ-قَالُوْا هٰذَا الَّذِیْ رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُۙ-وَ اُتُوْا بِهٖ مُتَشَابِهًاؕ-وَ لَهُمْ فِیْهَاۤ اَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌۗۙ-وَّ هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ(۲۵) ترجمۂ کنزالایمان: اور خوشخبری دے انہیں جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے کہ ان کے لیے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں رواں جب انہیں ان باغوں سے کوئی پھل کھانے کو دیا جائے گا صورت دیکھ کر کہیں گے یہ تو وہی رزق ہے جو ہمیں پہلے ملا تھا اور وہ صورت میں ملتا جلتا انہیں دیا گیا اور ان کے لیے ان باغوں میں ستھری بیبیاں ہیں اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے ۔(پ 1،بقرہ:25)

(5)فیصلہ کرنے کے لیے:﴿ كَانَ النَّاسُ اُمَّةً وَّاحِدَةً- فَبَعَثَ اللّٰهُ النَّبِیّٖنَ مُبَشِّرِیْنَ وَ مُنْذِرِیْنَ۪-وَ اَنْزَلَ مَعَهُمُ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ لِیَحْكُمَ بَیْنَ النَّاسِ فِیْمَا اخْتَلَفُوْا فِیْهِؕ ﴾ترجَمۂ کنزُالایمان: لوگ ایک دین پر تھے پھر اللہ نے انبیاء بھیجے خوشخبری دیتے اور ڈر سناتے اور ان کے ساتھ سچی کتاب اتاری کہ وہ لوگوں میں ان کے اختلافوں کا فیصلہ کردے۔(پ 2،بقرہ:213)تفسیر: حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت نوح علیہ السلام کے درمیان دس صدیاں تھیں سب کے سب سچے دین پر تھے ۔ پھر انہوں نے آپس میں اختلاف کیا تو اللہ نے دوسرے نبیوں کو بھیجا تاکہ ان میں فیصلہ کریں۔(تفسیر در منثور ،جلد 1)

(6)اللہ کا پیغام پہچانے کے لئے :اُبَلِّغُكُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّیْ وَ اَنْصَحُ لَكُمْ وَ اَعْلَمُ مِنَ اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ(۶۲)ترجَمۂ کنزُالایمان: تمہیں اپنے رب کی رسالتیں پہنچاتا اور تمہارا بھلا چاہتا اور میں اللہ کی طرف سے وہ علم رکھتا ہوں جو تم نہیں رکھتے۔(پ 8،اعراف:62)

(7) عبادت کی دعوت کے لیے:اِنَّ اللّٰهَ رَبِّیْ وَ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْهُؕ-هٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ (۵۱)ترجَمۂ کنزالعرفان: بیشک اللہ میرااور تمہارا سب کا رب ہے تو اسی کی عبادت کرو۔ یہی سیدھا راستہ ہے۔(پ 3،آل عمران:51) تفسیر :گویا حضرت ِ عیسی ٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ میں اتنی قدرتوں اور علم کے باوجودبھی خدا نہیں بلکہ خدا کا بندہ ہوں۔ اس سے معلوم ہوا کہ انبیا و اولیا کے معجزات یا کرامات ماننا شرک نہیں اور اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ہم نے انہیں رب مان لیا۔ اس سے مسلمانوں کو مشرک کہنے والوں کو عبرت پکڑنی چاہیے۔( تفسیر صراط الجنان ، 1/ 482)

(8)اللہ کی مغفرت اور رحمت کے اظہار کے لئے:نَبِّئْ عِبَادِیْۤ اَنِّیْۤ اَنَا الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُۙ(۴۹) وَ اَنَّ عَذَابِیْ هُوَ الْعَذَابُ الْاَلِیْمُ(۵۰)ترجمۂ کنزالایمان: خبردو میرے بندوں کو کہ بیشک میں ہی ہوں بخشنے والا مہربان۔اور میرا ہی عذاب دردناک عذاب ہے۔(پ 14،حجر:50،49) ان دونوں آیتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ پاک نے ارشاد فرمایا : تفسیر:اے حبیب! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ، آپ میرے بندوں کو بتا دیں کہ جب وہ اپنے گناہوں سے توبہ کر لیں تو میں ہی ان کے گناہوں پر پردہ ڈال کر ان گناہوں کے سبب ہونے والی رسوائی اور عذاب سے انہیں بچاتا ہوں۔ (تفسیر طبری، الحجر، آیت 49،50 ،7 /521)

(9) اللہ پاک کے احکامات کے بیان کے لئے:سُوْرَةٌ اَنْزَلْنٰهَا وَ فَرَضْنٰهَا وَ اَنْزَلْنَا فِیْهَاۤ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰتٍ لَّعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ(۱)ترجمۂ کنزالایمان: یہ ایک سورت ہے کہ ہم نے اتاری اور ہم نے اُس کے احکام فرض کیے اور ہم نے اس میں روشن آیتیں نازل فرمائیں کہ تم دھیان کرو۔(پ 18،نور:1)

(10) خیر خواہی کے لئے:فَتَوَلّٰى عَنْهُمْ وَ قَالَ یٰقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتُكُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّیْ وَ نَصَحْتُ لَكُمْۚ-فَكَیْفَ اٰسٰى عَلٰى قَوْمٍ كٰفِرِیْنَ۠(۹۳)ترجَمۂ کنزُالایمان: تو شعیب نے ان سے منہ پھیرا (ف۱۷۴) اور کہا اے میری قوم میں تمہیں اپنے رب کی رسالت پہنچاچکا اور تمہارے بھلے کو نصیحت کی تو کیوں کر غم کروں کافروں کا۔(پ 9،اعراف:93)تفسیر: مردے سنتے ہیں :جب حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم پر عذاب آیا تو آپ نے ان سے منہ پھیر لیا اور قوم کی ہلاکت کے بعد جب آپ ان کی بے جان نعشوں پر گزرے تو ان سے فرمایا ۔اس سے معلوم ہوا مر دے بھی سنتے ہیں۔

مُردوں کے سننے کی قوت سے متعلق بخاری شریف میں ہے:جب ابوجہل وغیرہ کفار کو بدر کے کنویں میں پھینک دیا گیا تو اس وقت رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ان سے خطاب فرمایا "فَہَلْ وَجَدْتُمْ مَا وَعَد َرَبَّکُم ْحَقَّا"توکیا تم نے اس وعدے کو سچا پایا جو تم سے تمہارے رب نے کیا تھا؟ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے عرض کی: یا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! ا ٓپ ایسے جسموں سے کلام فرما رہے ہیں کہ جن کے اندر روحیں نہیں۔ ارشاد فرمایا :اس ذات کی قسم ! جس کے قبضے میں محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی جان ہے جو کچھ میں کہہ رہا ہوں اسے تم ان سے زیادہ نہیں سنتے۔ (بخاری شریف ،حدیث:3979)