انبیائے کرام علیہم السّلام کائنات کی عظیم ترین شخصیات اور انسانوں میں ہیروں موتیوں کی طرح جگمگاتی شخصیات ہیں جنہیں خدا نے وحی کے نور سے روشنی بخشی ، حکمتوں کے سر چشمے ان کے دلوں میں جاری فرمائے اور سیرت و کردار کی وہ بلندیاں عطا فرمائیں جن کی تابانی سے مخلوق کی آنکھیں خیرہ ہو جاتی ہیں ۔ انبیا ومرسلین علیہم السّلام انتہائی اعلیٰ اور عمدہ اوصاف کے مالک تھے۔ ان پاک نفوسِ قدسیاں میں سے ایک ہستی حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی ہے جن کے اوصاف اللہ پاک نے قراٰنِ پاک میں بیان فرمائے۔ جن میں سے چند درج ذیل ہیں :۔

(1) حضرت ابراہیم علیہ السّلام رب کریم کے انتہائی کاملُ الایمان بندے تھے۔ ارشاد باری ہے: ﴿اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۱۱) ترجَمۂ کنزُالایمان: بے شک وہ ہمارے اعلیٰ درجہ کے کامل الایمان بندوں میں ہیں۔ (پ23، الصّٰفّٰت: 111)

(2) آپ علیہ السّلام ہمیشہ سچ بولتے تھے اور نبوت کے مرتبے پر بھی فائز تھے۔ جیسا کہ قراٰنِ پاک میں اللہ پاک فرماتا ہے: ﴿وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِبْرٰهِیْمَ۬ؕ-اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّا(۴۱) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور کتاب میں ابراہیم کو یاد کرو بیشک وہ صدیق تھا غیب کی خبریں بتاتا۔( پ 16 ، مریم : 41 ) بعض مفسرین نے کہا کہ صدیق کے معنی ہیں کثیرُ التَّصدیق یعنی جو اللہ پاک اور اس کی وحدانیت کی، اس کے اَنبیا اور اس کے رسولوں علیہمُ السّلام کی اور مرنے کے بعد اُٹھنے کی تصدیق کرے اور اَحکامِ الٰہیہ بجالائے وہ صدّیق ہے۔( خازن، مریم، تحت الآیۃ: 41 ، 3/ 236)

(3 تا 11) سورۃُ النحل کی آیت 120 تا 122 میں اللہ پاک نے حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے 9 اوصاف بیان فرمائے ہیں ۔ (1) حضرت ابراہیم علیہ السّلام تمام اچھی خصلتوں اور پسندیدہ اَخلاق کے مالک تھے۔ (2) اللہ پاک کے فرمانبردار تھے۔ (3) دین ِاسلام پر قائم تھے۔ (4) مشرک نہ تھے۔ کفارِ قریش اپنے آپ کو دینِ ابراہیمی پر خیال کرتے تھے ،اس میں ان کفار کے اس نظریے کا رد ہے ۔ (5) اللہ پاک کے احسانات پر شکر کرنے والے تھے۔ (6) اللہ پاک نے انہیں اپنی نبوت و خُلَّت کے لئے منتخب فرما لیا تھا۔ (7) انہیں سیدھے راستے یعنی دین ِاسلام کی طرف ہدایت دی تھی۔ (8) دنیا میں بھی انہیں بھلائی دی گئی۔ اس سے مراد رسالت، اَموال، اولاد ،اچھی تعریف اور قبولیتِ عامہ ہے کہ تمام اَدیان والے مسلمان، یہودی ، عیسائی اور عرب کے مشرکین سب اُن کی عظمت بیان کرتے اور اُن سے محبت رکھتے ہیں ۔ (9) آخرت میں قرب والے بندوں میں سے ہوں گے۔ قراٰنِ کریم میں اللہ پاک فرماتا ہے: ﴿اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ كَانَ اُمَّةً قَانِتًا لِّلّٰهِ حَنِیْفًاؕ-وَ لَمْ یَكُ مِنَ الْمُشْرِكِیْنَۙ(۱۲۰) شَاكِرًا لِّاَنْعُمِهٖؕ-اِجْتَبٰىهُ وَ هَدٰىهُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ(۱۲۱) وَ اٰتَیْنٰهُ فِی الدُّنْیَا حَسَنَةًؕ-وَ اِنَّهٗ فِی الْاٰخِرَةِ لَمِنَ الصّٰلِحِیْنَؕ(۱۲۲)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: بیشک ابراہیم ایک امام تھا اللہ کا فرمانبردار اور سب سے جدا اور مشرک نہ تھا۔ اس کے احسانوں پر شکر کرنے والا اللہ نے اسے چن لیا اور اسے سیدھی راہ دکھائی۔ اور ہم نے اسے دنیا میں بھلائی دی اور بیشک وہ آخرت میں شایان قرب ہے۔ (پ14، النحل:120تا 122)

(12) حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے اللہ پاک کی طرف سے ملنے والے ہر حکم کو نہایت ہی احسن طریقے سے پوری طرح ادا کیا۔ اللہ پاک فرماتا ہے: ﴿وَ اِبْرٰهِیْمَ الَّذِیْ وَفّٰۤىۙ(۳۷) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور ابراہیم کے جس نے (احکام کو) پوری طرح ادا کیا۔ (پ27،النجم: 37) اس آیت میں حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی شان کا بیان ہے کہ انہیں جو کچھ حکم دیا گیا تھا وہ انہوں نے پورے طور پر ادا کیا، اس میں بیٹے کو ذبح کرنا بھی داخل ہے اور اپنا آگ میں ڈالا جانا بھی شامل ہے اور اس کے علاوہ اور اَحکامات بھی داخل ہیں۔( ابو سعود، النجم، تحت الآیۃ: 37 ، 5 / 650، ملخصاً)

(13) حضرت ابراہیم علیہ السّلام بڑے تحمل والے، اللہ پاک سے بہت ڈرنے والے ،اس کی بارگاہ میں بہت آہ و زاری کرنے اور اسی کی طرف رجوع کرنے والے تھے۔ اللہ پاک قراٰنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ لَحَلِیْمٌ اَوَّاهٌ مُّنِیْبٌ(۷۵) ترجَمۂ کنزُالایمان: بےشک ابراہیم تحمُّل والا بہت آہیں کرنے والا رجوع لانے والا ہے۔(پ 12 ، ھود : 75 )

اللہ پاک ہمیں بھی یہ صفات اپنانے کی توفیق عطا فرمائے اٰمین۔