اللہ پاک نے اپنی مخلوق کی ہدایت کے لیے دنیا میں کم و بیش
ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیائے کرام علیہم السّلام کو بھیجا ۔جب وہ(اللہ پاک) کسی کو
اپنا محبوب بناتا یا اس کو ولایت یا نبوت عطا فرماتا ہے تو اس پر بے شمار نعمتیں
فرماتا اور بَہُت سی صفات عطا فرماتا ہے ۔جن لوگوں کو اللہ پاک نے نبوت سے سرفراز
فرمایا ان میں سے ایک حضرت ابراہیم علیہ السّلام بھی ہیں۔ ویسے تو تمام انبیائے
کرام علیہم السّلام صبر و ہمت والے تھے لیکن آپ علیہ السّلام کے صبر و ہمت کی وجہ
سے اللہ پاک نے آپ علیہ السّلام کو ان نبیوں میں شامل فرمایا جن کو (اُلوا العزم)
کہتے ہیں اور یہ صرف پانچ انبیائے کرام علیہم السّلام ہیں۔(آپ علیہ السّلام ان
پانچوں میں حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد پہلا درجہ رکھتے ہیں)۔ آپ
علیہ السّلام کا مشہور نام"ابراہیم" ہے ۔ آپ علیہ السّلام کواللہ پاک نے
حضرت نوح علیہ السّلام کے بعد بھیجا ۔آپ علیہ السّلام کی قوم ستاروں اور بتوں کی
پجاری تھی (سیرت انبیاء، ص 256) آپ کی ولادت نمرود بن کنعان کے دورِ حکومت میں
عراق کے شہر بابل کے نواحی قصبہ میں ہوئی۔(سیرت الانبیاء، ص 257) آپ (علیہ السّلام)کی
شان یہ ہے کہ آپ(علیہ السّلام) کے بعد جتنے بھی انبیائے کرام بھیجے گئے وہ سب
آپ(علیہ السّلام) ہی کی اولاد میں سے تھے۔ آپ (علیہ السّلام) کے حسن و جمال کے
بارے میں حضورِ اکرم (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) نے فرمایا: حضرت ابراہیم (علیہ
السّلام) (کا حلیہ جاننے کے لیے) اپنے صاحب (محمد مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم) کی طرف دیکھ لو۔(بخاری، حدیث: 3355) (کیونکہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے مشابہ تھے۔)
آپ کا نام نامی قراٰن مجید میں 69 بار آیا ہے۔ (اسلام کی بنیادی
باتیں، حصہ 3،ص:38) اللہ پاک نے آپ (علیہ السّلام) کو بے شمار صفات عطا کی ہیں جن
کا ذکر قراٰن مجید میں مختلف مقامات پر کیا ہے جن میں سے چند یہ ہیں:
( 1) کاملُ الایمان : یہ ایک ایسی صفت ہے جو اللہ پاک کسی کسی کو یا اپنے چنے ہوئے بندوں کو عطا
فرماتا ہے۔ یقیناً حضرت ابراہیم (علیہ السّلام) اللہ پاک کے چنے ہوئے بندے ہیں۔ چنانچہ
رب ارشاد فرماتا ہے: ﴿اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۱۱)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک وہ ہمارے اعلیٰ درجہ کے کامل ایمان
والے بندوں میں سے ہیں ۔ (پ23، الصّٰفّٰت: 111)
( 2) یہودی، نصرانی اور مشرک ہونے سے پاک ہونا: اللہ پاک اپنے نیک بندوں کو تمام طرح کے گناہوں اور کفر شرک
و گمراہیت سے پاک رکھتا ہے ۔انبیائے کرام علیہم السّلام تو (بدرجہ اولیٰ) بت پرستی
اور تمام گناہوں سے معصوم ہیں (خازن) چنانچہ رب کریم حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے
بارے میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿مَا كَانَ اِبْرٰهِیْمُ
یَهُوْدِیًّا وَّ لَا نَصْرَانِیًّا وَّ لٰكِنْ كَانَ حَنِیْفًا مُّسْلِمًاؕ-وَ
مَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِیْنَ(۶۷)﴾ ترجمۂ کنزالعرفان: ابراہیم نہ یہودی تھے اور نہ عیسائی بلکہ وہ ہر باطل سے
جدا رہنے والے مسلمان تھے اور مشرکوں میں سے نہ تھے۔( پ 3 ، اٰل عمرٰن : 67)
(3)حکم کو(فوری طور) پر مکمل ادا کرنے والے : اللہ پاک جو بھی اپنے نیک بندے کو حکم دیتا ہے تو وہ نیک
بندے حکم کو (فوری طور پر)مکمل ادا کرتے ہیں۔ حضرت ابراہیم نے بھی اسی طرح ادا
فرمایا۔ خواہ وہ اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کا حکم ہو یا بیوی اور بچے کو ایسی جگہ
چھوڑنے کا ہو جہاں کھانے اور پینے کے لیے کچھ بھی نہیں۔ اس صفت کو اللہ پاک نے قراٰن
مجید میں اس طرح ارشاد فرمایا ہے : ﴿وَ اِبْرٰهِیْمَ الَّذِیْ
وَفّٰۤىۙ(۳۷)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور ابراہیم کے جس نے (احکام کو)
پوری طرح ادا کیا۔ (پ27،النجم: 37)
(4)بہت برداشت کرنے والے: انسان کو چاہیے کہ جب اس کو کوئی مصیبت پہنچے تو اس پر وہ صبر کرے اور برداشت
کرے حضرت ابراہیم علیہ السّلام بھی بَہُت برداشت کرا کرتے تھے۔ جب آپ علیہ السّلام
کو آگ کے اندر ڈالا گیا تو آپ نے اُف تک نہیں کرا۔ بلکہ برداشت کیا اور اللہ پاک
پر بھروسہ کرا جس کی برکت سے ان رسیوں کے علاوہ جس سے آپ علیہ السّلام کو باندھا گیا
تھا کچھ بھی نہیں جلا ۔برداشت کرنے والی صفات کو اللہ پاک یوں بیان فرماتا ہے: ﴿اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ لَاَوَّاهٌ حَلِیْمٌ(۱۱۴)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک ابراہیم بہت آہ و زاری کرنے والا، بہت برداشت کرنے
والا تھا۔ (پ11، التوبۃ:114)
(5)گہرے دوست: بندہ چاہتا ہے کہ جب وہ کسی سے دوستی کرے تو اس کو کوئی ایسا بندہ ملے جس میں
عیب نہ ہو اگر کوئی ایسا بندہ ملتا ہے جس میں عیب ہو تو اس سے دوستی نہیں کرتا۔ زیادہ
حمد کے لائق اللہ پاک ایسے بندے کو کیوں دوست بنائے گا جس میں کوئی عیب ہو۔ یقیناً
حضرت ابراہیم علیہ السّلام عیب و نقص سے پاک ہیں اور اللہ پاک کے گہرے دوست بھی ہیں۔
گہرے دوست ہونے کی صفت کو اللہ پاک نے ان الفاظ میں ارشاد فرمایا : ﴿وَ اتَّخَذَ اللّٰهُ اِبْرٰهِیْمَ خَلِیْلًا(۱۲۵) ﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اللہ نے ابراہیم کو اپنا گہرا
دوست بنا لیا۔( پ 5 ، النساء : 125 )
اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں کاملُ الایمان صبر و برداشت
کرنے والا بنائے اور دینِ اسلام پر استقامت عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم