ایمان سے مراد تمام ضروریات دین کا سچے دل سے اقرار کرنا ہے اور ایمان کا دارومدار اس بات پر ہے کہ حضور جانِ جاناں صلی اللہ علیہ وسلم  کو اپنا سردار اور حاکم مانا جائے اور خود کو ان کا ادنیٰ غلام تصور کیا جائے۔

ایمان کے دنیا وآخرت میں فوائد ہی فوائد ہیں اور یہ ایمان ہی ہے، جو انسان کو دائمی عذاب سے بچا لیتا ہے، اب جو انسان صدقِ دل سے اللہ رب العزت اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے اور ضروریاتِ دین کا اقرار کرے، تمام زندگی اللہ عزوجل کے فرمان اور مزاجِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق گزارے اور شریعت کی حدود سے تجاوز کرنے والا نہ ہو، اس کے لئے قرآن عظیم میں بے شمار بشارتیں بھی ہیں۔

1۔اللہ ان سے راضی، وہ اللہ سے راضی:فرمایا:تم ایسے لوگوں کو نہیں پاؤ گے، جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہوں کہ وہ ان لوگوں سے دوستی کریں، جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کی، اگرچہ وہ ان کے باپ یا ان کے بیٹے یا ان کے بھائی اور خاندان والے ہوں۔ المجادلہ:22)

ایسے لوگوں کے بارے میں فرمایا:" رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ١ؕ "یعنی اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔"(المجادلہ:22)

2۔جنت عدن کی بشارت: فرمایا:اور جو اس کے حضور ایمان والا ہو کر آئے گا کہ اس نے نیک اعمال کئے ہوں گے تو ان کے لئے بلند درجات ہیں، ہمیشہ رہنے کے باغات(جنت عدن) ہیں۔"(طہٰ75، 76)

جَنّٰتٌ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ اللہ پاک نے ایمان والوں کے بارے میں خبر دی، فرمایا جس دن تم مؤمن مردوں اور ایمان والی عورتوں کو دیکھو گے کہ ان کا نور ان کے آگے اور ان کی دائیں جانب دوڑ رہا ہے،(فرمایا جائے گا) آج تمہاری سب سے زیادہ خوشی کی بات وہ جنتیں ہیں، جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں تم ان میں ہمیشہ رہو، یہی بڑی کامیابی ہے۔"(الحدید:12)

4۔ایمان والوں کی قدر:فرمایا:جو نیک اعمال کرے اور وہ ایمان والا ہو تو اس کی کوشش کی بے قدری نہیں ہو گی اور ہم اسے لکھنے والے ہیں۔"(الانبیاء:94)

اس آیت میں اللہ تعالیٰ بندوں کو اپنی اطاعت پر مضبوطی سے عمل پیرا ہونے کا حکم ارشاد فرما رہا ہے، مزید یہ کہ اس آیت سے معلوم ہوا کہ اعمال کی قبولیت کا دارومدار ایمان پر ہے، اگر ایمان نہیں تو کچھ نہیں۔

5۔زیادتی و کمی کے خوف سے بری: جو کوئی ایمان کی حالت میں اعمال صالحہ کرے تو اسے اس بات کا خوف نہ ہو گا کہ وعدے کے مطابق وہ جس ثواب کا مستحق تھا، وہ اسے نہ ملے گی، فرمایا:جو کوئی اسلام کی حالت میں کچھ نیک اعمال کرے تو اسے نہ زیادتی کا خوف ہوگا اور نہ کمی کا۔(طہٰ:112)

6۔فردوس کی میراث:فرمایا:اور جو اپنی امانتوں اور اپنے وعدے کی رعایت کرنے والے ہیں اور وہ جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں، یہی لوگ وارث ہیں، یہ فردوس کی میراث پائیں گے، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔(المؤمنون:8،11)

7۔ربّ کی رحمت: اپنے معاملات میں اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی اطاعت کرنے والے ہی ربّ تعالیٰ کی رحمت کے حقدار ہیں، فرمایا:اور اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانتے ہیں، وہ ہیں جن پر عنقریب اللہ رحم فرمائے گا، بیشک اللہ غالب حکمت والا ہے۔(التوبہ:71)

8،9:مغفرت اور عزت والا رزق: کامل ایمان والے اللہ پاک پر بھروسہ رکھتے، اس کی یاد کے لئے نماز ادا کرتے اور اس کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، ایسے لوگوں کے لئے فرمایا:اور جب ان پر اس کی آیات کی تلاوت کی جاتی ہے تو ان کے ایمان میں اضافہ ہو جاتا ہے اور وہ اپنے ربّ پر ہی بھروسہ رکھتے ہیں، وہ جو نماز قائم رکھتے ہیں اور ہمارے دیئے ہوئے رزق میں سے ہماری راہ میں خرچ کرتے ہیں، یہی سچے مسلمان ہیں، ان کے لئے ان کے ربّ کے پاس درجات اور مغفرت اور عزت والا رزق ہے۔(الانفال، آیت 2۔4)

10۔فلاح و کامرانی: فرمایا:تو وہ جو اس نبی پر ایمان لائیں اور اس کی تعظیم کریں اور اس کی مدد کریں اور اس نور کی پیروی کریں، جو اس کے ساتھ نازل کیا گیا تو وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔(الاعراف:157) اس آیت میں رسول سے مراد تاجدارِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔

قرآن کریم"ایمان والوں"کے لئے ہدایت ہے، فرمایا: ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَيْبَ١ۛۖۚ فِيْهِ١ۛۚ هُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ۠ۙ۲ (البقرہ، آیت 2)"یعنی وہ بلند مرتبہ کتاب جس میں کوئی شک نہیں، پرہیز گاروں کے لئے ہدایت ہے"اور اسی عظیم کتاب میں بے شمار بشارتیں ہیں، جو ایمان والوں کے ساتھ ہیں۔

اللہ پاک دنیا و آخرت میں ان بشارتوں میں سے حصّہ عطا فرمائے اور ایمان پر زندگی اور ایمان پر موت عطا فرمائے۔آمین